خاندان ۔ ایک سماجی ضرورت

مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی

انسان ایک سماجی جاندار ہے، وہ سب سے الگ رہ کر زندگی نہیں گذار سکتا، اسے ہرپل خدائی مدد کے ساتھ تدبیر کے درجے میں اپنوں کی ضرورت پڑتی ہے، یہ اپنے عام حالات میں خاندان کے افراد ہوتے ہیں، اس وجہ سے کہ وہ آپ کے گرد وپیش اور قریب رہتے ہیں اور کسی بھی حادثے، واقعات اور پریشانیوں کی اطلاع پہلے انہیں کو ہوتی ہے، اس لیے وہ انسانوں کے لیے بڑے اہم ہوتے ہیں، ادھر چند دہائیوں سے نئی نسل کی توجہ خاندان کی طرف سے ہٹ گئی ہے اور انفرادی زندگی گذارنے کا مزاج نئی نسل میں تیزی سے بڑھاہے، اس مزاج اور سوچ کو بنانے میں خاندان کی عورتوں کا بڑا دخل ہوتا ہے، بھائی بھائی کے ہرجھگڑے کے پیچھے عموماً ان کی بیویوں کا ہاتھ ہوتا ہے، بیویاں صرف اپنا سوچتی ہیں، انہیں خاندان سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا، دوسرے بھائی کی بیوی کے خلاف ان کے کان بھرنے کی وجہ سے ادب واحترام بھی ختم ہوتا ہے اور خانگی زندگی اس قدر متاثر ہوتی ہے کہ بھائی بھائی آپس میں بنٹ جاتے ہیں، پھر دھیرے دھیرے وہ خاندان سے کٹ جاتے ہیں اور ان کا حال کٹی پتنگ سا ہوتا ہے جسے ہوا کا ہلکا سا جھونکا کسی پیڑ کی جھاڑ تک پہونچا کر اس کے وجود کو ہی مٹا دیتا ہے، اس لیے خاندان سے جڑے رہیے، کیوں کہ وہ آپ کے دل کی دھڑکنیں سنتے ہیں، آپ کے جذبات واحساسات کو محسوس کرتے ہیں، غلطی کی اصلاح کے لیے حوصلہ بڑھاتے ہیں، عالمی سروے سے پتہ چلتا ہے کہ خاندان فرد کی پہچان اور جذباتی استحکام کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، جن خاندانوں میں رشتے استوار ہوتے ہیں، مضبوط ہوتے ہیں، اس کے افراد ذہنی تناؤ کے شکار نہیں ہوتے اور مقاصد کے حصول کے تئیں قدم آگے بڑھانے میں پر اعتماد ہوتے ہیں، خاندان صرف پیار ہی نہیں دیتا مختلف موقعوں سے وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ ہماری کوشش اور محنت کا صحیح رخ کیا ہوسکتا ہے، جب زندگی کی راہیں دھندھلی ہو جاتی ہیں اور مقاصد کا حصول غیریقینی معلوم ہوتا ہے، تو خاندان آگے بڑھ کر ہمیں مایوسی کے دلدل سے نکالتا ہے، جن خاندانوں میں آپسی رشتے بہت مضبوط ہوتے ہیں، وہ مشورے سے ایسی راہ نکال لے جاتے ہیں جو منزل مقصود تک پہونچانے والی ہوتی ہے، وہ مشکلات کا مقابلہ خود اعتمادی کے ساتھ کرنے پر قادر ہوتے ہیں، خاندان کا اتحاد دشمنوں کی ریشہ دوانیوں سے بچاتا ہے اور ان کی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ متحد خاندان کے خلاف اقدام کرسکیں۔

خاندان ۔ ایک سماجی ضرورت
خاندان ۔ ایک سماجی ضرورت

خاندان کے جو بڑے بوڑھے ہوتے ہیں، وہ اپنے تجربات سے نئی نسلوں کی آبیاری کرتے ہیں، ان کی حیثیت خاندان میں راہ بر کی ہوتی ہے، جب تک وہ ساتھ رہتے ہیں بچوں کو اکیلاپن نہیں محسوس ہوتا، حالاں کہ ٹی وی اور سوشل میڈیا کے دور میں ان رشتوں میں بھی کمزوری آئی ہے، اب نہ دادی ماں کے پاس انبیاء کے قصے سنانے کا وقت ہے اور نہ ہی پوتوں کے پاس ان کے ہوپلے منہ اور توتلی زبان سے ان نصیحتوں کو سننے کا حوصلہ، پھر بھی جن خاندانوں میں دادا دادی ہوتے ہیں، ان کی حیثیت شجر سایہ دار کی ہوتی ہے، جس کے سایے میں ان کے پوتے پوتیوں کو آرام، حوصلہ، جینے کی راہ، مشکلات سے نمٹنے کا سلیقہ معلوم ہوتا ہے۔

والدین خاندان کی سب سے اہم کڑی ہوتے ہیں، وہ اپنے بچوں کو پال پوس کر بڑا کرتے ہیں، خود بھوکے رہ کر بھی بچوں کو کھلاتے ہیں، اپنے کپڑے جیسے بھی ہوں، بچوں کے لیے اچھے کپڑوں کا انتظام کرتے ہیں، اپنی آرام وراحت کا انہیں خیال نہیں ہوتا، لیکن وہ بچوں کو اپنی صلاحیت کے مطابق راحت وآرام پہونچانے کا کام کرتے ہیں، اپنے بچوں کے ذریعہ کیے گیے گیلے بستر پر جاڑ ے کی یخ بستہ راتوں میں سوجاتے ہیں اور انہیں خشک بستر فراہم کرتے ہیں، یہی بچے بڑے ہوکر عموماً اپنی بیوی کی باتوں میں آکر والدین سے کٹ جاتے ہیں، انہیں اپنے آرام کا تو خیال ہوتا ہے، بوڑھے ماں باپ اور ان کی ضرورتوں کا خیال نہیں رہتا، ان کو وقت پر ناشتہ نہیں مل رہا ہے، وہ بن کھائے ڈیوٹی جارہے ہیں، کھانے میں کچی روٹیاں مل رہی ہیں، اس کی انہیں قطعاً پرواہ نہیں ہوتی، اس لیے کہ وہ اپنی بیویوں کے زن مرید بن چکے ہوتے ہیں، وہ دن کو رات کہدیں تو وہ آسمان کی طرف اشارہ کرکے کہنے سے نہیں چوکتے کہ دیکھو وہ چاند تارے نکل آئے ہیں، ایسی ناخلف اولادیں ان کے بنائے ہوئے گھر سے انہیں کو نکال دیتی ہیں، بوڑھے ماں باپ یہ حوصلہ نہیں دکھا پاتے کہ سب کچھ ہمارا ہے، تم کون ہوتے ہو نکالنے والے کہہ کر بچوں کو خانہ بدر کردیں، بیت الضعفاء (اولڈ ایج ہوم) میں بوڑھوں کو منتقل کرنا اسی سوچ کا نتیجہ ہوا کرتا ہے، ایسے ناخلفوں کا حشر اچھا نہیں ہوتا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں، جن لوگوں کے پاس مضبوط خاندانی بندھن ہوتے ہیں، اس کا احساس ہی انہیں نفسیاتی طورپر مضبوط رکھتا ہے، خاندان کے لوگ ان کی ترجیحات پر توجہ دیتے ہیں اور یہی جذبہ انسان کو جہد مسلسل، سعی پیہم اور ذہنی اعتبار سے توازن بخشتا ہے۔

جب آدمی ایک دوسرے سے رشتوں کی دوڑ میں جڑا رہتا ہے اور مسلسل باہمی تعاون کے ساتھ کام کرتا ہے تو وہ مستقبل میں بھی دوسرے معاملات ومسائل میں باہمی تعاون پر قادر ہے، وہ اپنے والدین اور خاندان کو دیکھتا ہے کہ وہ اعلیٰ اقدار کے حامل ہیں، فرائض میں کوتاہی نہیں کرتے تو بچے بھی ان کی اہمیت اور قدر وقیمت کو سمجھنے لگتے ہیں، ضابطوں کی پابندی، ڈسی پلین اور روز مرہ کے کاموں میں سلیقہ مندی ان کی زندگی کا حصہ بن جاتا ہے، جو آگے کی زندگی میں انہیں بہت کام آتا ہے۔

اب یہاں پر یہ سوال بڑا اہم ہوجاتا ہے کہ خاندانی رشتوں کو برقرار رکھنے اور ان کو استحکام بخشنے کے لیے کیا کرنا چاہیے، سب سے پہلے ڈیجیٹل ایج میں ضروری ہے کہ خاندان کے افراد روزانہ یاکم از کم ہفتہ میں ایک ساتھ ضرور بیٹھیں، ساتھ میں کھائیں پئیں، دن ورات میں سونے کے پہلے کا ایک حصہ ”نواسکرین آور“ یافیملی میٹ نائٹ کے نام مقرر کرلیں، یہ آپ کی صحت کے لیے بھی اچھا ہوگا اور خاندانی روابط بھی اس سے مضبوط ہوں گے، جس طرح ہم لوگوں سے یہ پوچھتے ہیں کہ کیا کھانا ہے؟ کیا چاہیے؟ اس کے ساتھ یہ بھی دریافت کرتے رہنا چاہیے کہ تم کیسا محسوس کر رہے ہو، اس سوال کے ذریعہ آپ گھر کو خاندان کے رہنے کی جگہ سے اوپر لے جائیں گے اور وہ ایک دوسرے کی سننے اور سمجھنے کی جگہ بن جائے گا، جن خاندانوں میں آپس میں کہنے، سننے اور سمجھنے کا مزاج ہوتا ہے، وہ زیادہ مطمئن اور خوش رہتے ہیں، خوشی کے معنی بھی مختلف خاندانوں میں الگ الگ ہوتے ہیں، اس لیے دوسرے کی خوشی کا موازنہ اپنی خوشی سے نہ کریں، بلکہ اپنی خوشی کا معیار طے کرتے وقت اپنے سے نیچے والوں کو دیکھیں کہ وہ کن محرومیوں اور بے بسی کے ساتھ زندگی گذار رہے ہیں، ایسا کرنے سے آپ کے اندر شکر کے جذبات بھی پیدا ہوں گے اور خوشی کا احساس بھی ہوگا، مثلاً آپ کے پاس جوتے نہیں ہیں اور والدین کے پاس ایسی سکت نہیں ہے کہ جوتے خرید کر دے سکیں، ایسے میں اگر آپ کی نگاہ کسی ایسے شخص پر پڑتی ہے، جس کے پاس پاؤں ہی نہیں ہیں، یاپاؤں تو ہے وہ چل نہیں پارہا ہے تو آپ جوتے نہ ملنے کی بات بھول جائیں گے اور آپ کا دل بارگاہ الٰہی میں سجدہ شکر بجالائے گا کہ آپ کے پاس پاؤں ہے اور آپ چل بھی سکتے ہیں۔

خاندان کو جوڑے رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک دوسرے کے جذبات واحساسات کو سمجھنے میں غلطی نہ کریں، کیوں کہ خوف، غصہ، جوش کے اسباب داخلی ہوا کرتے ہیں، اس کو ”اور ری ایکشن“ غیر ضروری انفعالی کیفیت کہہ کر ٹالنا نہیں چاہیے، سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے، اس سے خاندان کے افراد کو یہ بھروسہ ہوگا کہ ہماری بات سنی اور سمجھی جائے گی،ا س احساس کی وجہ سے وہ گھر کو محفوظ تصور کریں گے، امریکن سائکلوجیکل ایسوسی ایشن کے مطالعہ کی رپورٹ کے مطابق جب آپ اپنی پریشانیوں کو خاندان کو منتقل کرتے ہیں تو تناؤ ہارمون کارٹی سول کی سطح 27% فی صد آجاتی ہے، ہارورڈ میڈیکل اسپورٹ کی رپورٹ بتاتی ہے کہ جب لوگ محسوس کرتے ہیں کہ انہیں سنا جارہا ہے تو عزت نفس کا جذبہ فروغ پاتا ہے، اس سے خاندان میں اتحاد کی فضا پروان چڑھتی ہے، ہارورڈ ہیلتھ کی رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ جب ہم خاندان کے ساتھ وقت گذارتے ہیں، ان کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہمارے اندر سے خوف کی نفسیات کم ہوتی ہے۔

رشتے ڈیوٹی نہیں ہیں کہ انہیں نظام الاوقات کے بندھے ٹکے اوقات سے جوڑ کر رکھا جائے، ضروری نہیں کہ کوئی ضرورت ہو تبھی خاندان کے افراد سے ملا جلا جائے، وقت بے وقت، ضرورت بلاضرورت بھی ایک دوسرے سے مربوط رہنا، حال چال پوچھتے رہنا رشتوں کو مضبوط کرتے ہیں اور آدمی کو یہ خیال رہتا ہے کہ خاندان کے لوگوں کو ہماری فکر رہتی ہے۔ان تمام کے باوجود رشتوں میں ناراضگی پیدا ہوتی رہتی ہے، یہ ایک فطری عمل ہے، ایسا کچھ ہوجائے تو اس کو کل کے لیے نہیں چھوڑنا چاہیے، فوراً نمٹانے کی کوشش کرنی چاہیے، غصہ، مایوسی، تھکان انسانی خصلت ہے، اگر یہ دل ودماغ میں بس جاتے ہیں تو خاندان کو بچانا آسان نہیں ہوتا، اس لیے پہلی فرصت میں اسے آپس میں بیٹھ کر حل کرلینا چاہیے، تاکہ یہ خاندانی نزاع کا سبب نہ بن جائیں اور ٹکراؤ کا ماحول نہ پیدا ہو، خاندان کو مربوط رکھنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ بڑے فیصلے اکیلے نہیں، اجتماعی مشورے سے کریں، شریعت نے بھی مشورہ کا حکم دیا ہے، آپ جب کوئی فیصلہ خود سے کرلیتے ہیں اور خاندان کے لوگ اس میں شریک نہیں ہوتے تو انہیں محسوس ہوتا ہے کہ فیصلہ ہم پر تھوپ دیا گیا ہے، فیصلہ میں شریک ہوکر عمل کرنا اور تھوپے ہوئے کام کی تکمیل دونوں میں بڑا فرق ہوتا ہے، ایک میں کام کے ساتھ دل اور دماغ بھی لگتا ہے اور دوسرے میں عمل صرف مشینی انداز کا ہوتا ہے۔

ہر کامیابی کو صرف اپنے سے نہ جوڑیں بلکہ خاندان کے دیگر افراد نے جس حد تک ساتھ دیا، تعاون کیا، اس کا بھی ذکر کیا جائے، یقینا بعض لوگ دور دور ہی رہتے ہیں اور ان کا تعاون کسی درجہ میں مل نہیں پاتا، اس کے باوجود ان کو اپنے سے دور نہ ہونے دیں اور کامیابیوں کا سہرا خاندان کے سر ڈال دیں، اس سے رشتے متوازن اور استوار رہیں گے۔

جب بھی بچے کسی مہم میں ناکام ہوجائیں تو ان کا حوصلہ بڑھانے کے لیے اپنی زندگی کی ناکامیوں کا تذکرہ کیجیے اور بتایئے کہ اس ناکامی نے میرے لیے کامیابی کے دوسرے بہت سے دروازے کھولے اور آج میں اس مقام تک پہونچا، انہیں یہ بھی بتایئے کہ اللہ کی رحمت سے ناامید نہیں ہونا چاہیے اور یہ کہ ناامید تو وہ ہوتے ہیں جو اللہ کو نہیں مانتے۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare