خیابان بے خزاں

مبصر: طلحہ نعمت ندوی

 اس کتاب کے مرتب ومصنف مرتضی شیر رضوی ہیں ،جن کا آبائی وطن محسن پور (تحصیل ہرنوت ضلع نالندہ)تھا ،عظیم آباد میں ۱۳۵۹ھ؍۱۹۳۰ میںو فات پائی ،تقریباً ۱۹۲۸ میں اپنے آبائی وطن محسن پور میں ان کی ولادت ہوئی تھی ۔ان کے پوتے عظیم آباد کے مشہور فاضل جناب سید اطہر شیر نے ماہنامہ زبان وادب پٹنہ کے شمارہ ۱۹۸۱ میں ’’مرتضی شیر کی فارسی صوفیانہ شاعری ‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھ کر ان کے فارسی اشعار پر روشنی ڈالی تھی،اوران کا اجمالی تعارف بھی کرایا تھا ۔خیابان بے خزاں ان کے منظوم کلام اور نثری تحریروں کا مجموعہ ہے ،نصف حصہ نثر پر مشتمل ہے ،اور نصف آخر نظم پر ۔کتاب بڑے سائز کے ۱۲۰ صفحات میں ہے ،جو اکبری پریس لودی کٹرہ پٹنہ سیٹی سے ۱۳۳۳ھ (۱۹۱۵)میں مصنف کے برادزادہ مجتبی شیر کے اہتمام سے شائع ہوئی تھی ،لیکن اطہر شیر نے ان کا جو منظوم کلام پیش کیا ہے وہ اس میں شامل نہیں ہے،ممکن ہے کسی بیاض کے ذریعہ یہ قصائد پیش کئے گئے ہوں۔اس میں بیشتر اردو منظومات ہیں،کچھ فارسی قطعات اور عر بی کی رباعیاں بھی ہیں۔

خیابان بے خزاں - طلحہ نعمت ندوی
خیابان بے خزاں

 اطہر شیر نے اپنے مضمون کے اخیر میں لکھا ہے ،’’اردو اور عربی میں آپ نے اچھے اشعار پیش کئے ہیں،جو ان کے مطالعہ ،گہرائی فکر اور اچھے شعری ذوق کے مظہر ہیں،اگر موقع ملا تو ان شاء اللہ کبھی اس کے مختلف گوشوں کو واضح کرنے کی کوشش کروں گا‘‘۔

 مذکورہ بالا کتاب کا نصف اول نثر میں ہے ،جس میں چار فصلیں ہیں ،فصل اول میں مصنف نے اپنے حالات لکھے ہیں ۔’’فصل ثانی باحوال خاندانی‘‘ کا عنوان بتاتا ہے کہ دوسری فصل کا عنوان کیا ہے ،وہ خاندان کے تعارف کے لئے مختص ہے ،تیسری فصل میں اپنے اسفار کا اجمالی ذکر کیا ہے اور چوتھی فصل اشعار کے لئے مختص ہے۔

 مصنف کی نثر میں وہ روانی نہیں ہے جو ان کے معاصر ادباء واہل قلم کے یہاں نظر آتی ہے،معلوم نہیں اس کی کیا وجہ ہے ،شاید فارسی سے زیادہ تعلق کی وجہ سے اردو نثر کی کتابوں کے مطالعہ کا موقع کم ملا ہو۔

 لیکن ان کے حالا ت کے ضمن میں بہت سے تاریخی مباحث بھی آگئے ہیں۔انہوں نے اپنے استاد مولوی محمد عباس سمستی پوری جتوارپوری کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ مولانا محمد علی مونگیری ناظم ندوہ کے ارشد تلامذہ میں تھے ،اور حضرت مولانا فضل رحمن گنج مرادآبادی سے بیعت تھے ۔لودی کٹرہ پٹنہ میں پہلے قاضی عبدالوحید صاحب کے استاد رہے پھر ان کو تعلیم دی ۔

 انہوںنے قاری احمد شاہجہاں پوری کے بارے میں لکھا ہے

 ’’اسی زمانہ میں ایک بزرگ صاحب نسبت روہیل کھنڈ کے رہنے والے،برادر کلاں جناب حضرت حافظ احمد میاں صاحب سجادہ نشیں شاہجہاں پور یعنی جناب مولانا جناب مولانا حضرت شاہ محمد حسین صاحب شاہ جہاں پوری چشتی فخری پٹنہ تشریف لائے ہوئے تھے ،جناب والد ماجد صاحب اکثر ان سے ملنے جاتے اور مجھے بھی لے جایا کرتے ‘‘۔

 قاری احمد شاہ جہاں پوری وہ بزرگ ہیں جن سے بہارشریف کے بہت سے لوگ بیعت تھے جن میں حضرت مولانا سید وحید الحق استھانوی اور ان کے داماد حضرت حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد بھی شامل ہیں ۔

 پھر انہوں نے ان بزرگ سے اپنے تعلق ومحبت کا ذکر دلچسپ الفاظ میں کیا ہے ۔

 اس کے بعد پندرہ برس کی عمر میں ان کی شادی ہوگئی تھی ،وہ لکھتے ہیں

 ’’جب پندرہ برسوں کا ہوا تو عقد میرا ہوا ،اور سولہ برسوں کا ہوا تو شادی ہوئی ،چوں کہ منسوب ہماری اقران خاص اور کفو میں ہوئی یعنی جناب میر محمد شیر صاحب مرحوم مغفور کی منجھلی صاحبزادی سے ،یہ حضرت میرے خسراو ر حقیقی پھوپھی زاد بھائی بھی تھے ،قبل شادی کے خسرین کا انتقال ہوچکا تھا ،اس لئے اپنی سسرال بادہ دری من محلات بہار میں ضرورت قیام کی واقع ہوئی ،اس زمانہ اطمینان میں میں علاوہ مشغلہ درسیات شغل کتب بینی ونقاشی وشاعری وموسیقی میں بھی اوقات صرف کیا کرتا ،مگر بمضمون

 عروج مہر بھی دیکھا تو دوپہر دیکھا

 جمعیت کی جگہ تفرقہ نے لی ،کیوں کہ جب سترہ برسوں کا ہوا تو حضرت والدماجد صاحب کا سایہ سرسے اٹھ گیا ،فکر معیشت لاحق ہوئی ۔بہر صورت کتب بینی کے لئے ایک وقت نکالا ‘‘۔ص ۷

 بعد انہوں نے اپنے شیخ کے انتقال کے بعد بہارشریف کے معروف بزرگ شاہ نور محمد امبیری سے دینی تربیت حاصل کی اور بیعت ہوئے ،لکھتے ہیں

 جب میں اٹھارہ برسوں کاہوا اور ہمارے پیر طریقت کا وصال ہوچکا تو ضرورت ارشاد کی لاحق ہوئی ۔اسی تلاش وخیال میں تھا کہ حضرت مولانا شاہ محمد نور صاحب سہروردی سجادہ نشیں حضرت سید شاہ سلطان احمد چر مپوش قدس سرہ العزیز امبیری بہاری سے ملازمت ہوئی ،بارہا خدمت منبع برکت میں حاضر ہوکر مستفید ہوتا رہا ۔ایک روز اثنائے مکالمہ میں تذکرہ پاس انفاس کا ہوا ،میں نے عرض کیا کہ حضرت میں تو پاس انفاس اللہ ھو کیا کرتا ہوں ،مسکراکر فرمانے لگے ،میاں اللہ ھو جلالی ہے ،تم ابھی اس کے متحمل نہیں ہوسکتے ،صرف اللہ اللہ کیا کرو۔۔۔۔یہ ہمارے مرشد طریقت علیہ الرحمۃ اولاد وگدی نشیں حضرت سلطان سید شاہ احمد چرم پوش تیغ برہنہ رحمۃ اللہ علیہ کے تھے ،اور صاحب باطن وروشن ضمیر حسن صوری ومعنوی سے مالا مال ،سادگی وانکساری میںبے مثال ہر شخص سے بلاقید مذہب وملت باخلاق پیش آتے ،اپنے معتقدین ومریدین سے شفقت بزرگانہ فرفاتے ،انکشاف سرقہ وتعبیر خواب میں یدطولیٰ رکھتے۔حضرت کے تین صاحبزادے ہوئے ،چھوٹے جناب شاہ قطب صاحب ،جن کا عالم شباب میں انتقال ہوا ،اور بڑے صاحبزادے جناب سید شاہ مولوی عنایت کریم صاحب جن کا مکہ معظمہ میں وصال ہوا ،باخدا بزرگ تھے ،اور منجھلے صاحبزادے جناب سید شاہ محمد ظفر صاحب کہ نہایت آزاد ووارستہ مزاج ،ایک کیفیت حزبیہ کے ساتھ وابستہ ہیں،مرد متقی وصالح بے نفس ،بے تکلف ،حی القائم ہیں ،اور موجود ہ سجادہ نشیں جناب مولانا سید شاہ محمد اسماعیل صاحب جنہوںنے علوم ظاہری بمقام کانپور مولانا محمد احسن صاحب شاگرد رشید جناب مولانا حاجی امداد اللہ صاحب سے حاصل کیا ،اور اب سلسلہ ٔ خلافت رشد وارشاد وہدایت انہیں سے جاری ہے،جوان صالح ذی وجاہت ،محقق ونکتہ رس ہیں‘‘۔(ص۱۰)

 ندوۃ العلماء کا اجلاس پٹنہ بھی ان سامنے کی بات ہے انہوں نے اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب وہ عظیم آباد آئے تو ’’اس وقت پٹنہ میں ندوۃ العلماء کا زور شور تھا ،اچھے اچھے علمائے عظام اطراف وکناف ہندوستان سے آئے تھے ‘‘۔(ص۱۲)

 انہوں نے اپنے وطن میں ایک بازار بھی قائم کیا تھا اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں

 ’’جب میں اٹھائیس برسوں کا ہوا تو دو ایک مکانات موضع محسن پور میں بنوائے ،ایک بازار جس کو بہ زبان ہندی ہاٹ وپٹھیہ کہتے ہیں قائم کیا ،اس سے نہایت عافیت خاص وعام کو ہوتی ہے ،چیزیں مایحتاج ملتی ہیں ،قرب وجوار سے عموماً اور اطراف دیار سے خصوصاً دکانیں آتی ہیں ،اس کا قیام بخیال رفاہ عام ہوا ،واقعی یہ نہایت ضروری وکار آمد شے ہے۔۔۔۔۔۔یہ بازار اشیائے متفرقات ہے ،اور ایک بازار بیلوں کا جسے بیل ہٹہ کہتے ہیں اس میں بڑے منافع ہوتے ہیں اس کو بھی میں نے قائم کیا تھا مگر بوجہ عدم قیامحسن پور ومفقود ہونے سڑک کے یہ بازار نہ چل سکا ‘‘۔(ص۱۷)

 انہوں نے لکھا ہے کہ اس کے بعد ہی انہیں نعت گوئی اور مدح گوئی کا زیادہ ذوق وشوق ہوا ،چنانچہ محسن پور میںایک مجلس میلاد کی ،پھرمستقل گھر والوں کے ساتھ اپنے نئے گھر میں پٹنہ منتقل ہوگئے تو یہاں بھی مفل میلاد کی ترویج کی ۔ص ۱۸

 اس کے بعد انہوں نے اپنے خاندانی حالات ذکر کرتے ہوئے راجگیر میں اپنے بزرگوں کی آمد کا ذکر کیا ہے ،اس کا ذکر تاریخی کتابوں میں نہیں ملتا ،انہوں نے یہ زبانی روایت ذکر کی ہے ،لیکن ایک روایت اس کے برعکس بھی جو انہوں نے اپنے چچا محبوب شیر کے دیوان کے مقدمہ سے ذکر کی ہے ،اس کے بعد لکھا ہے’’اگر چہ میری حکایت اور اس روایت سے فی الجملہ مغایرت ہے ،مگر درایت کوئی بھی نہیں ،البتہ خطاب صلہ شیر افگنی میں مطابقت ضرور ہے ،البتہ اس تحریر سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ اور یہ حال نہیں کھلتا کہ کس سرکاردہلی اور وقت شاہی میں یہ خطاب باصواب ملا ،بہر حال نتیجہ ثابت ہے کہ لفظ شیر ہمارے خاندان کا مخصوص نشان الآن کما کان ہے ،مشاہیر خاندانی سے ہمارے جناب میر قاسم شیر صاحب مرحوم اور جناب میر محبوب شیر صاحب مغفور کہ آپس میں برادران حقیقی تھے ۔مقدم الذکر بڑے بہادر ،جری ،شیر ،دلیر ،اسم بامسمیٰ ہوئے ،ان کے کارنامے مشہور ہیں۔۔۔فارسیت ان کی بہت عمدہ تھی ،خوش خط تھے ،گل تراشی ومصوری کا شوق ،پھکیتی اور بکیتی کا ذوق تھا ،بدن گول سڈول ،آنکھیں غیور ،ثقل سماعت مگر بقلت ،جامہ زیب بلا ریب تھے ،کیک شادیاں کیں جن سے اولاد ذکور واناث ہنوز باقی ہیں‘‘۔ص ۲۷

 بہر حال کتاب کے خاندانی حالات عام طور پر بعد کی کتابوں میں نقل ہوگئے ہیں ،خاص طور پر بہار کے انساب پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں اس کے حوالے موجود ہیں۔

 تیسری فصل میں انہوں نے اپنے اسفار کا ذکر کیا ہے ،جن میں ہندوستان میں بزرگوں کے مزارات پر حاضری کے لئے جن شہروں میں ان کا جانا ہوا ان کا ذکر کیا ہے ،ان میں دہلی ،اجمیر اور دیوہ وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔کلکتہ اور جے پور کے اسفار کا بھی انہوں نے ذکر کیا ہے اور وہاں کے مشاہدات ذکر کئے ہیں جو اس دور کا تاریخی سرمایہ ہیں ۔اس کے بعد انہوں نے لکھا ہے ،’’ازیں قبیل چند اسفار کیک بار اجمیر شریف ،لکھنؤ ،دہلی وغیرہ کے ہوئے ‘‘۔

 اس کے بعد انہوں نے بہت تفصیل سے سفر حج کا ذکر کیا ہے ،اور وہاں جن جن لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں اور جو صورت پیش آئی ان سب کا ذکر کیا ہے ۔اخیر میں اپنے سفر حیدر آباد کا ذکر کیا ہے ۔

 دلی کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں ’’دلی سے جے پور گیا ،یہ ریاست مہاراجی نہایت خوش اسلوب مرغوب اور اس میں صفائی بھی خوب ہے، مزید برآں عمارتوں میں جواب بالمقابل کا لحاظ ملحوظ ومطلوب ہے ،دو چیزیں شہر میں قابل دید ہیں ،ایک مہاراجی عجائب خانہ کہ رام باغ کے نام سے مشہور ہے ،اس میں جانوران عجیب وغریب پلے ہوئے ہیں ،کوئی محصول نہیں لیا جاتا ہے ،شہر کے باہر سرا ہے ،عموماً واردو صادر اسی میںا ترتے اور ٹھہرتے ہیں ،شب کو بارہ بجے دروازہ شہر کا بند کردیا جاتا ہے ،دن کو وہاں پہنچنے میں باعتبار رات کے عافیت ہے ،دوسرا مہاراجی مکان بہت خوش نما بنا ہوا ہے ،دو روز قیام رہا ،بعدہ اجمیر شریف کہ چند اسٹیشنوں کے فصل پر ہے پہنچا ،زائرین ومسافرین کے لئے خدام درگاہ آتے اور اپنے ہمراہ مکان لے جاتے اور ٹھہرتے ہیں ،ایک ہفتہ بہ زمانہ عرس قیام کیا ‘‘۔

 اس کے بعد اجمیر درگاہ کی بعض کمزوریوں کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ وہاں طوائف بہت کثرت سے رہتی ہیں ان کو دور کرنے کی ضرورت ہے اور مردوعورت کی زیارت کا وقت الگ الگ کرنے کی ضرورت ہے ۔ص ۳۳

 کلکتہ کے بارے میں لکھتے ہیں ’’وہاں کے عجائبات میں دو چیزیں ہیں ،زندہ عجائب خانہ اور مردہ جادوگھر عجیب وغریب ،قابل معائنہ ،اور قلعہ زمین دور کہ صناعی وکاری گری سے بنا ہے لائق ملاحظہ ہے۔یہ شہر نہایت گنجان ،آباد ،تجارت پر اس کی بنیاد ہے ‘‘۔

 انہوں نے حالات کے ضمن میں حاجی وارث علی دیوی کے مزار پر حاضری کا بھی ذکر کیا ہے ،اور لکھا ہے کہ ’’بماہ یکم صفر کہ تاریخ وصال مبارک حضرت حاجی وارث علی شاہ صاحب علیہ الرحمہ ہے دیبہ [کذا،دیوہ]شریف گیا اور عرس میں شریک ہوا ،چوں کہ حضرت ممدوح سے ایک تعلق روحی اور واسطہ قلبی ہے ‘‘۔

 اس کے بعد انہوں نے وارثی فقراء سے ملاقا ت کا ذکر کیا ہے ،ان میں اپنے علاقہ کے شاہ فضیحت شاہ وارثی بازید پوری کا خاص طور پر ذکر کیا ہے ،اور ان کی بہت تعریف کی ہے ،لکھتے ہیں

 ’’ان حضرات میں علی الخصوص ہمارے ہم وطن سراپا گل وگلشن ،ہمہ خلوص بادہ وحدت سے مخمور ،جناب شاہ محمد ظہور صاحب بازید پوری الملقب بہ فضیحت شاہ صاحب کی ذات ستودہ صفات بسا غنیمت ہے ،ان کی گل افشانیوں سے توحید کی بو آتی ہے ،بڑے باغ وبہار ،گل وگلزار ہیں ،مگر ضرورت حق بینی اور گل چینی کی بھی ہے ،ورنہ بلبل اگر ہزار ہے زمزمہ سنج نہیں تو بیکار چمن پر بار بلکہ خار خوار ہے ،ان کی صحبت اور باتوں میں خاص اثر وکیفیت ہے ،مجھے ان سے ایک محبت ہے اور ان کی بھی نظر عنایت وشفقت ہے ،یہ بزرگ مرید جناب حضرت شاہ مسافر صاحب علیہ الرحمہ اور صحبت یافتہ مدھوداس زرگر بلکہ فقیر گر اہل خدمت کہ قطب وقت بہار تھے ،چند سالوں تک ان سے مستفیض ہوتے رہے ،اور خوب رامائن کتھا سنتے اور بھاشا میں بھاکھا کہتے رہے ۔آخر میں حضرت حاجی وارث علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے فقیر اور تہبند فقرائی ولباس احرامی و،لقب فضیحت شاہی سے مشہور صغیر وکبیر ہوئے ‘‘۔ص۱۶

 انہوں نے اپنے سفر حج کی جو تفصیلات ذکر کی ہیں وہ بہت ہی دلچسپ ہیں اس لئے ان کو مکمل یہاں نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے ۔

 اصل واہم سفر ۱۳۲۳؁ ہجری میں حرمین شریفین زادہما اللہ شرفا وتعظیما کا ہوا ،مختصراً کیفیت یہ ہے کہ میرے دل عقیدت منزل میں ایک زمانہ سے شوق وذوق حج وزیارت تھا ،بحکم کل امر موھون باوقاتھا اس کا یوں اظہار ہوا کہ جناب مجھلی[کذا]ہمشیرہ صاحب قصبہ باڑھ سے بنظر ادائے فریضہ حج تشریف لے جارہی تھیں ،میں رخصت کے لئے وہاں گیا ،وہ مجوز ہوئیں کہ تو بھی چل ،کچھ ان کا اصرار کچھ اپنے دل بے قرار کا تقاضا ہوا کہ چل کھڑے ہوجئے ،مگر مجرداً چلئے ،اس لئے کہ چندہی روز گذرے تھے عزیزی اصغر شیر سلمہ ربہ مجھلا لڑکا گھر میں پیداہوا تھا ،بہر حال اسی خیال میں محسن پور چلا آیا ،اور اپنے ارادے کو ظاہر کیا ،مستورات بھی مستعد اور جانے کو آمادہ ہوگئیں ،چنانچہ مع اہل وعیال توکلت علی اللہ سامان سفر وتہیہ کوچ کیا ،بہ تائید ایزدی اور کشش سرمدی تھی کہ ایسی حالت ووقت میں کہ عین زمانہ برسات تھا ،ندوی نالے بھرے ہوئے ،دیہات کا موقع نہ سڑک نہ ریل ،راہ دشوار گذار ،پانچ چھ فرسخوں کا اسٹیشن ،ریلوے تک مرحلہ ،اسی میں سفر بری وبحری کا تجربہ ،نشیب وفراز کا یہ حال کہ

 گہے بر طارم اعلیٰ نشینم گہے بر پشت پائے خود نہ بینم

 ان سب امروں سے صعب تر یہ کہ باڑھ کے مسافرین ٹھیک دو بجے شب کے پسنجر ٹرین سے روانہ ہونے والے تھے ،ہم لوگوں کو بنظر جمعیت ویگانگت ہمراہ ہونا تھا ،مسبب الاسباب خدا کی بندہ نوازی دیکھئے

 کارساز ما بفکر کار ما فکر ما درکار ما آزار ما

 بہر کارے کہ ہمت بستہ گردد اگر خارے بود گل دستہ گردد

 اور واقعہ یہ ہے

 مشکلے نیست کہ آسان نشود مردباید کہ ہراساں نشود

 میں نو بجے دن کے وقت محسن پور آی اور اسی روز مع سامان فراواں بختیار پور اسٹیشن پہنچا ،آٹھ آدمیوں سے چند گھنٹوں میں قاصد قبلتین اور مسافر حرمین ہوگیا ،بختیار پور سے روانہ ہوکر تیسرے روز بمبئی پہنچا ،خریداری ٹکٹ جہاز میں مصرو ف ہوا ،یہاں کی عجیب حالت دیکھی ،بغیر دلالوں کے کام نہیں چلتا۔چنانچہ ایک ذات شریف ایجنٹ صاحب کے پھندے میں پھنسا پھرتو نہ پوچھئے الم غلم اغیرہ وغیرہ کتنے حساب بتادئے ،اور ٹکے سیدھے کئے ،عدم واقفیت اور شہر کی اجنبیت آمنا صدقنا کے سو ا کیا چارہ تھا ،قہر درویش بہ جان درویش ،جو کہا وہ کرنا ہوا ،محکمہ محافظت حجاج قائم ہوا ہے ،فی الجملہ سہولت ہوتی اور خدام کعبہ سے کچھ امید بندھتی ہے کہ یہ کام سدھرے اور یہ بیل مڈھے چڑھے ۔آخرش بہزار خرابی ان مرحلوں سے فراغت پائی ،اور مغل کمپنی کے جہاز کی ٹکٹ خریدلی ،تاریخ مقررہ پر بھپارے گھر میں حاضری دی ۔واضح رہے کہ جہاز پر لکڑی اور پانی جہاز ہی کی طرف سے مسافرین کو ملتا ہے ،اور سامان خوردونوش مثل غلہ وغیرہ شامل رکھنا ہوتا ہے ،ترش چیزوں کی لیموں ونمکی وغیرہ کے اقسام سے ضرورت بخیال چکر متلی وقے ہوتی ہے ،بقدر مایحتاج رکھ لینا چاہئے ۔

 کھانا کچھ مقرر کردینے سے خلاصیان جہاز بھی پکادیتے ہیں ،ورنہ خود سے پکوانا ہوتا ہے ،اس سفر میں بھپارہ مقدمۃ البلاد ہے ،اب اور سنئے ،کہ بمبئی ہی میں ایک قرنطینہ کا بچہ پیر پاؤں نامی پیدا ہوا تھا ۔ایک مزار بھی کسی بزرگ کا ہے ،جو پیر پاؤں کے نام سے مشہور ہے ،پانچ روزوں تک ہم لوگ وہاں مقیم رہے ،روزمرہ ڈاکٹری معاینہ وملاحظہ ہو تارہا ،شریف عورتوں کے توجان پر بنتی تھی ،برقع پوشی کی حالت دھوپ کی شد کھڑے رہنا کس قدر باگراں تھا ،کوئی انہیں کے دل سے پوچھے ،بارے خداخدا کرکے یہ ایام ہم ّ وغم ختم ہوئے ۔

 بسواری کشتی باز گشتی ہوئی ،مغل کمپنی کا جہاز بھی خاصہ بحری زنداں تھا ،مختصر گنجان جس میں بکثرت مسافران زیادہ سندھی وبنگالی جوان لوگوں کی گندگی اور بسایندھی سے جہاز مغل مغلظ ہر آن تھا ،خیریت تھی کہ جہاز روزینہ دھلتا رہا ،بخیال حفظ ماتقدم میں نے مقدم سفر ی پلنگ خریدا جس سے آرام تمام ہوا ،ایک ہفتہ میں بوجہ بطی الحرکتی جہاز شہر مکلا میں پہنچا ،اور لنگر اندازہ ہوا ،یہ مقام لب سمندر پہاڑ پر واقع ہے ،خاصی آبادی ہے ،اور اس میں سلطان مکلا رہتا ہے ،اور سیادت ترکی کی ہے ،اور ماتحتی گورنمنٹ برطانیہ کی ،اسے وہاں چاولوں کے بورے دینے اور لوبان کے بورنے لینے تھے،تین چار روز ں کا وقفہ ہوگیا ،بالآخر لنگر اٹھا ،اور جہاز وہاں سے رینگتاچلا ،دو روزں میں کامران پہنچا ،الامان الامان ،یہ وہی قرنطینہ قمران ہے جس پر ہمارے سلطان حکمران وکامران ہیں ،اور بے چارے حجاج مصیبت کے مارے بے کامران ،یہ قرنطینہ نہیں بلکہ کفارہ گناہ کا زینہ مصائب وآلام کا خزینہ اور وہاں کا عجیب قرینہ ہے ،جس سے مجروح حجاج کا قلب وسینہ ہے ،اور یہ بات بلا بغض کینہ ہے کہ بحر مصائب مصاعب کا یہ سفینہ ہے ۔

 تشریح اس اجمال سراپا اختلال کی یوں ہے کہ جب جزیرہ کامران کے قریب جہاز ٹھہرا تو کشتیاں مسافرین کو لینے آئیں وہ بھی ساحل سے تھوڑی دور پر ،ٹھہریں ،وہاں سے سب لوگ

    پا بدست دگرے دست بدست دگرے

 کوئی کسی کے دوش پر بار کوئی کسی کے سر پر سوار،عورتوں پر مصیبت کی مار،چار پائیوں پہ بیٹھی ہوئی چار ناچار دو چار کے کاندھے پر سوار اچھا خاصا بیماروں کا طومار ،اس اطوار ذلت وملامت کردار سے کنارے پہنچائے اور ٹھکانے لگائے گئے ،اب بھپارہ گناہ کا کفارہ شروع ہوا ،سب کپڑے مرودں کے بجز ایک لنگ اتروالئے اور کپڑوں کو خلط ملط ،گڈ مڈ کرکے بڑے پہئے دار صندق میں رکھ لئے ،ایک عرصہ میں اس کو دواؤں کا ابخرا دے کر لائے اور ایک حوض خشک میں پھینک دئے ،بعد ہ فرمان قضا جریان حکامان دارالامتحان وخدامان زندان پر خذلان کا صادر ہوا کہ حجاج سراپا اختلاج کپڑے اپنے اپنے لے لیں ،معاذ اللہ اس وقت کی کیفیت نہ پوچھئے ،جس طرح بھوکے جانوران دانوں پر گرتے ہیں جتنے دانا ونادان تھے سب پل پڑے ،اور کپڑوں کو بلا امتیاز سمیٹنا شروع کیا ،کسی کا کرتہ ہے تو ٹوپی غائب ،ٹوپی ہے توکرتہ ندارد ،ایک کا کپڑا دوسرے کے پاس ،علی ہذا القیاس ہر کوئی تلاش وجستجو میں بدحواس ،قل اعوذ برب الناس ،ملک الناس ،الہ الناس ،من شر الوسواس الخناس ،الذی یوسوس فی صدور الناس من الجنۃ والناس۔داد نہ فریاد ،االلہ تیری یاد دوتین گھنٹوں میں اس بلائے بے درمان سے امان ملی ،ہم لوگوں کا زندان دور تھا ،وہاں جانا ضرور تھا ،اب مزدور کہاں ،بیچارے غریب حاجیوں کو دے لے کر راضی شاکر کیا ،سامانوں کو لاد پھاندکر منزل مفقود غیر مقصود کو جا پہنچا ،یہاں کی کیفیت معاینہ اور اذیت ملاحظہ فرمائیے ،ایک چٹیل میدان ،سنسان سراپا ریگستان جس میںچٹائیوں کے چند مکان مثل دربۂ مرغان ،پنجرۂ جانوران جابجا تھے ،بلامبالغہ مثل مویشیان کے ایک ایک خانے میں کہ مانند دالان بلاکوٹھری وسائبان تھا ،پچاس پچاس زنان ومردان بلاتفریق این وآن بفرمان ادخلوا الجحیم فی ھذالآن داخل کردئے گئے ،کھانے کا سامان تو ساتھ تھا مگر پینے کا بیان سنئے ،چاروں طرف سمندر رواں دواں ،جس میں آب بے پایاں ،اس میں یہ جزیرہ خشکستان ،حضرت نصیر الدین چراغ دہلوی علیہ الرحمہ نے شاید اسی بیابان کے لئے زبان فیض ترجمان سے فرمایا تھا

 دریا رود از چشمم لب تر نشود ہرگز این طرفہ تماشا بین تشنہ است بہ آب اندر

 سمندر کا پانی جیسا تلخ وشور ہوتا ہے ظاہر ظہور مشہور ہے ،پینے کے ہرگز لائق نہیں ،البتہ صاف کیا جاتا اور بذریعہ مشین نمک نکلوایا جاتا ہے ،تو استعمال کے قابل ہوجاتا ہے ،چنانچہ اس جزیرہ میں اس طور پر بقدر کفاف شفاف بنوایا جاتا اورحاجیوں کو فی کس درچار سیر پانی دیاجاتا ہے ،کربلا سے کرب وبلا میں تھوڑا سافرق معلوم ہوتا ہے ،وہاں انسانی موانع تھے اور یہاں پر ذاتی مواقع،فسٹ کلاس والوں کی اتنی اشک سوئی کی گئی اور اس قدر دلجوئی روا رکھی گئی کہ ایک پختہ مکان دالان بلا امتیاز مردان وزنان پردہ نشینان حوالے کیا گیا ،ایک رو ز بارش سخت ہوئی ،پھر تو نہ پوچھئے ،کیا دقت ہوئی ،ہر شخص قیام وقعود وسربسجود اپنے معبود سے پناہ مانگ رہا تھا ،سب سے زیادہ جو چیز تکلیف دہ ہر کہہ ومہہ تھی وہ روزمرہ کا ڈاکٹری کا معائنہ تھا ،ایک صف مردوں ،عورتوں کی کھڑی کی جاتی ،وحشی المزاج نا آشنائے زبان ایک ترکی ڈاکٹر بصورت انسان مجسم شیطان وبسیرت حیوان آتا اور سراسر نباضی کرتا ،عورتوں کے ملاحظہ میں خواہ مخواہ کی چھیڑ خوانی لایعنی دکھلاتا ،اس بلائے ناگہانی ،غول بیابانی سے اکثر حجاج الجھ پڑتے ،اور وہ بھی بگڑ جاتا ،مگر بیچارے مجبور تھے ،کیا کرتے ،حج کو جارہے تھے ،کیوں کر لڑتے ،سوئے اتفاق کہ ہمارے استاذی جناب مولوی محمد عباس صاحب مدظلہ العالی علیل ہوگئے ،ڈاکٹر مردود ومطرود نے ہسپتال لے جانا چاہا مگر ہم لوگوں نے جانے نہ دیا ،مجبورہوا تو دوا کی بوریہ[کذا]مع کاغذ کھلانے لگا ،دوا میں صرف کونین بمقدار کثیر دیتا ،اور روبرو وہ بد خو خود کھلاتا ،انکار پر جھگڑا کرتا ،خدا خدا کرکے طبیعت روباصلاح ہوئی ،اور صحت سربراہ وحسب خواہ ،تو اس بلا سے بلا اشتباہ بعد کفارہ گناہ پیچھا چھوٹا ،قرنطینہ میں کچھ گھی کچھ آٹا ،کھجوریں ،مرغیوں کے انڈے مل جاتے ہیں ،وہ بھی ایک آدھ دوکان رہتی ہے ،اس سے اتنے حجاج کیا کام چلاسکتے ہیں ،حیف صد حیف کہ من جانب سلطان کہ میرے دینی اخوان سے ہیں ،مطلق انتظام وسامان نہیں ،باوجودے کہ فیس قرنطینہ حجاج سے کم وبیش دس بارہ اکثر وبیشتر وصول کئے جاتے ،اور محصول قیام لئے جاتے ہیں ،تاہم یہ حال پر ملا ل ہے حاجیوں کے اعمال کی شامت کہئے یا سلطان کی غفلت اور ان کے عمال کی شقاوت ،بہر صورت یہ قرنطینہ نہایت بے قرینہ ہے ،اور باعث کینہ،حالاں کہ ادعائے اخوت اسلامیہ ہے مگر ہمدردی کی یہ کیفیت سبحان تری قدرت ۔میں نے اس بارے میں اکثر سر بر آوردہ اشخاص مکہ معظمہ سے باسرار[کذا] کہا اور اس قرنطینہ میں سہولت وعافیت حجاج ورفع شدائد حجاج وزوار کا اظہار کیا ،مگر سبھوں نے متفق اللفظ کانوں پر ہاتھ رکھا ،اور انکار کیا ،اور خلاف خلافت وحکومت کا اقرار کیا ۔ماشاء اللہ مجھے حسب حال یہ شعر خیال آیا

 گر ہمین مکتب است واین ملا کار طفلان تمام خواہد شد

 کہاں تک لکھیں ،المختصر اس شعر پر ختم کریں

 دل کو روئیں یا جگر کا غم کریں ایک ہم کس کس کا اب ماتم کریں

 الغرض دسویں روز بمطابق سابق وبحالت ناموافق رجعت القہقریٰ ہوئی ،وہاں سے افتاں وخیزاں جہا ز پر آئے ،اور دوروز وں کے بعد شہر عدن پہنچے ،مقام عدن پہاڑ پر بسا ہوا ہے ،گورنمنٹ برطانیہ کا بحری ناکہ ہے ،آبادی اچھی خاصی، جابجا انگریزتجار کی کوٹھی ،سڑکیں اور گلیاں صاف ستھری ،خلاصہ یہ کہ پہاڑ ڈھایا ہے ،پتھر کو موم بنادیا ہے ،چوبیس گھنٹے جہاز مقیم رہا ،بعدہ لنگر اٹھایا ،عدن سے جدہ شریفہ چھ روز وں میں آنا اور یہ مسافت ہمہ آفت بیس روزوں میں طے کرنا ہوا ،ایک دفعہ ایسا ہوا کہ یہ جہاز طوفان میں آگیا ،شتر بے مہار کی طرح ادھر ادھر بہکنے لگا ،مسافروں کو ایسی مایوسی ہوئی کہ سربسجود ہوکر ہمہ تن خلاصی جہاز کے لئے مستغرق بحر نیاز بارگاہ بے نیازہوگئے ،بفضل کارساز عرصہ دراز میں اس تہلکے سے نجات ملی ،گویا دوبارہ ہم لوگوں کو حیات ملی ،درمیان طوفان بادوباراں دو مچھلیاں بقدر یک یک ذراع جن کے دونوں بازؤوں پر دو دو بمقدار ایک ایک بالشت مثل چمگادڑ وں کے تھے سمندر سے پرواز کرکے چھتری پر آگئیں ،اور شکار کی گئیں ،کھانے میں لذیذ تھیں ،آبی جاندار مختلف اللون مختلف الہیئت بکثر ت دیکھنے میں آئے ،مچھلیاں عموماً گھوڑوں کے قد کی سطح آب پر چلتی پھرتی نظر آئیں ،دریائی سفر بھی عجیب پرلطف وخوش منظر ہوتا ہے ۔

 جبل یلملم کہ میقات حجاج ہندیاں ہے وہاں سے سب لوگوں نے احرام باہتمام واحترام باندھا ،جب جہاز جدہ پہنچا تو کچھ فصل پر ساحل سے ٹھہرا ۔یہاں ہوڑیوں کا ہوڑا بدویت کا آغاز ہوا ،پہلے ٹرکی ڈاکٹر آیا ،اور جہاز کو دیکھ بھال کر روانہ ہوا ،ملاحان وکشتی بانان عرب سرپا غضب سے سامنا ہوا ،زبان سے نا آشنا نہ کوئی ملاقاتی نہ شناسا ،کشتی کی گشتی ،جہاز کی بلندی ،اس کی پستی ،انسان ضعیف البنیان کی کیا ہستی ، نہ اپنا گھر نہ اپنی بستی ،عورتوں کا ساتھ اگرچہ ایک دوسرے کا آپس میں ہاتھ میں ہاتھ چسپاں ،اس پر بھی ہاتھ بے ہاتھ لرزاں ترساں ،بیچاریاں بہزار خرابیاں کشتیوں پر سوار ہوئیں ،ہم لوگوں سے اثنائے راہ ہی میں کشتی والوں نے بخشش بخشش کا ہلہ مچایا ،اور کرایہ بزور شور طلب کیا ،تھوڑی دوری اور اس کی زیادہ مزدوری بمجبوری دینا ہوا ،کنارے پہنچے تو پاسپورٹ کا مطالبہ ہوا ،دھائی روپیہ فی کس فیس داخلہ دی گئی ،حضرت مطوف صاحب ہم لوگوں کے تاک میں تھے ،آنکھیں چار ہوئیں ،اور صدائیں مرحبا مرحبا اھلا وسہلا مرحبا کی گونجنے لگیں ،اپنے اپنے حلقے کے حجاج کو باحتجاج مطوفین مزورین کھوجنے ڈھونڈنے میں مصروف ہوئے ،علاقہ پٹنہ کے میاں سید عقیل صاحب مطوف ہم لوگوں کے مکانوں میں جاٹھہرے ،آج حجاج کی قسمت آپ ہی حضرات کے ہاتھ ہے ،تاادائے حج برابر ساتھ رہے ،المھمان کالاشترکا مضمون ہے ،جدی شریفہ بندرگاہ حجاز آباد ہے ،پانی یہاں کا اچھا نہیں ،شور ہوتا ہے ،زمانہ سے اس کے صفائی کا روز شور ہے ،مگر ہنوز روز اول کا طور ہے ،آب باراں کے اس جگہ بڑے قدرداں ہیں ،جب بارش ہوتی ہے ،تو بدؤوں کی پوری خواہش ہوتی اور حجاج پر یہ نوازش ہوتی کہ اسی پانی کو بقیمت گراں لاکر بیچتے ،اور خوشیاں مناتے ہیں ،مابین قیام مزار حضرت جدہ حوا علیھا السلام کی زیارت کی ۔آپ دنیا بھر کے انسان کی اصل جدہ ہیں ،اسی مناسبت سے اس جگہ کا نام جدہ شریفہ نزد خاص وعام ہوا ،مزار مبارک ان کا طول میں کم وبیش ۰۷ گز موجود ہے ،کچھ حصہ مزار مقدس کا سمندر میں مفقود ہے ۔واللہ اعلم بالصواب۔

 دوسرے روز جدہ شریفہ سے مکہ معظمہ روانہ ہوا ،اونٹ پر سفر غیر مفر جس کو بری جہاز کہنا بجا ہے ،شروع ہوا ،اور انظر الی الابل کیف ؒخلقت کا منظر مدنظر ۔تین قسموں کی سواریاں ہوتی ہیں ،ایک تخت رواں جسے فسٹ کلاس سمجھنا چاہئے ،پالکی نما ہوتا ہے ،آگے پیچھے دو اونٹوں پر مثل جھولے کے رہتا ہے ،کرایہ بھی زیادہ ہے ،دوسرا شغدف ،جس کی ہیئت کذائی مانند میانے کے ہوتی ہے ،دونوں جانب اونٹ پر باندھ دیا جاتا ہے ،اور جس طرح کشتی تموج آب سے ہچکولے کھاتی ہے ،جھولے جھولتا ہے ،اس میں دو آدمی بالمقابل سوار ہوتا ہے ،ردیف ہم وزن نہ ہو تو الٹ جاتا ہے ،اس لئے شتر بانوں سے میزان نہیں پٹتی ،ساربانان میزان میزان کی رٹ لگاتے ہیں ،اور بے چارے حاجی بسبب نا آشنائے زبان پریشان ہوتے ہیں ،اس کی اجرت اوسط ہے ۔تیسری شبری کھجوروں کے پتوں کی بنی ہوئی ،تکیے دار چار پائی ،اسباب والے اونٹوں پر رکھی جاتی ہے ،اگر چہ گرایہ کم مگر تکلیف زیادہ ،ارزاںبعلت گراںبحکمت ہے، غریب نادار صرف بار بردار اونٹوں پر کچھ دے دلاکر بیٹھ جایا کرتے ہیں ۔الغرض ہم لوگوں کا قافلہ جدہ مکرمہ سے مکہ معظمہ روانہ ہوا ،اثنائے راہ میں بدؤوں نے تنگ کرنا شروع کیا ،ہات بخشش ہات بخش کی دھوم مچایا ،طرہ یہ کہ بندوقوں سے ڈرایا دھمکایا ،سادہ لوح حجاج ڈر جاتے اور کچھ نہ کچھ دے دیا کرتے ، اسی طرح الو پھنساتے اور ٹکے سیدھے کرتے ،بعض سواران ویاران شاطر جوان پیادہ بدویوں کے رخ اور چالوں کو سمجھتے ،وہ آڑے ترچھے ہوکر اپنے فرزانگی سے پیل جاتے ،اور ایسا زچ میں لاکر خرد برد کرتے کہ بچا مات جاتے ،آخر بساط ہی کیا تھی ،نقشہ بگڑ جاتا ،شاہ ترکی نے بھی کوئی نظم قائم نہیں کیا ،وزیر صاحب کو کیا فکر کوئی لڑے مرے ،پٹے ،کٹے ،خانہ بے خانہ ہو، ان کو اپنے ہاتھی گھوڑے کی نگرانی سے کب فرصت ،ایسی حالت ہو تو کمزور حجاج کو کون حریف سے بچائے ،اور ان لوگوں سے بازی جیت لے جائے ۔خلاصہ یہ کہ میدان شطرنج ہے ،چار ناچار ہار ماننا ہوتا ہے ،بہر حال قافلہ چلا اور شام کو ایک مقام حدہ کہ درمیان مکہ وجدہ چھوٹی سی بستی اعراب کی ہے پہنچا ،شب بھر قیام رہا ،علی الصباح کوچ کیا ،عصر کے وقت مکہ میں داخل کل قافلہ ہوا ،جبل نور کے دیکھتے ہی لبیک کا شور وغل برپا ہوا ،پہلے مطوف صاحب کے مکان میں رخت سفر کرخت وا کیا ،اور بعد مغرب طواف قدوم کیا ،بعدہ سعی ،یعنی صفا مروہ بجالائے ،اور ڈیرہ پر آکر احرام کھولا ،الحمد للہ کہ اخیر عشرہ رمضان کا مکہ معظمہ میں بخیر وخوبی واطمینان گذرا ،ایک مکان دس گینیوں میں نہایت نفیس ٹھہرا ،مگر خرابی یہ ہوئی کہ بلا اطلاع مطوف صاحب مالک مکان سے بات ہوئی ،بس یہ غضب ہوا ،مالک مکان اور مطوف صاحب میں خوب دشنام بازی ہوئی ،وہ تو خیریت گذری کہ ہم لوگ آڑے آئے ،ورنہ جوتی پیزار کا سامنا تھا ،چوں کہ مطوف صاحب کو اس کرائے میں کچھ نہ ملتا اور دلائی غائب ہوجاتی ،اس لئے یہ طومار وپیکار ہوا ،اب شرط یہ ٹھہری کہ مکان ہم تجویزیں [کذا]اور مطوف صاحب سے اجازت لیں ،آخر ش ایک مکان کہ رباط جوناگڑھ تھا محلہ قومۃ الحمار میں سات گنیوں میں ٹھہرا ،کرایہ مجازا ایک سال کا ہوتا ہے مگر حقیقتا تین چار مہینوں کا ،یعنی ذوالحجہ تک سال ختم ہوجاتا ہے،حجاج بے چارے جب آتے ہیں تو رمضان یا شوال میں ،اور ذوالحجہ تک رہتے اکثر وبیشتر رہتے ہیں ،محرم سے نیا حساب کتاب شروع ہوجاتا ہے ،خلاصہ یہ کہ

 ہرچہ داری صرف کن در راہ او لن تنالو البر حتی تنفقوا

 معنی خلوص یہ ہیں کہ سب فلوس دے جاؤ، وہ لوگ بھی درد دشمناں مکوب وخانہ دوستاں بروب پر معمل[کذا]ہیں۔الغرض روز مرہ عموماً خصوصاً افطار کے وقت بیت اللہ میں جایا کرتے ،بالمواجہہ خانہ کعبہ دریاں بچھتیں ،صراحیاں زمزم کی روبر و رکھی جاتیں ،ہر اضلاع [کذا]کا الگ الگ حلقہ ہوتا ،ان کے مطوف اور زمزمی علاحدہ علاحدہ انتظام میں ہوتے ،بڑے مزے آتے ،رمضان شریف مکہ معظمہ کا پر لطف ہوتا ہے ،تفکہات ،میوجات ،پھلوں اور ترکاریوں کی کثرت موافق دعائے ابراہیمی علی نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام ،وارزق اھلہ من الثمرات ،یہ حجاج کی دعوت خدا کی قدرت حالاں کہ زراعت نہیں مگر آمد کی یہ صورت اور مقام طائف کو اس بارے میں خاص شہرت ہے ،وہ گویا ایک خطہ جنت ہے ،جہاں یہ کیفیت کہ پیداوار اجناس بکثرت اور اسی سے یہ حالت ہے کہ سارے حاجیوں اور شہریوں کو عافیت وراحت ہے ۔یہاں ایک مدرسہ صولتیہ ہے ،جو حاجی رحمۃ اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا مہاجر مکہ کا قائم کیا ہوا ہے ،فی الحال اس کے منتظم خوس خصال اور مہتمم روشن خیال ،جناب مولوی محمد سعید صاحب پوتے حضرت حاجی صاحب موصوف مغفور کہ ایک بزرگ معروف اور حجاج سے مالوف ہیں ،ان سے اکثر ملنے جایا کرتا اور درس وتعلیم کو بھی معائنہ کرتا،اخبارات وہاں آتے ،اس کو دیکھتا ،متصل حرم شریف دوسرا مدرسہ قاری عبدالحق صاحب مہاجر مکہ کا قائم کردہ ہے ،اس میں قراء وتجوید کی تدریس وتعلیم ہوتی ہے ،سلطان کے طرف سے بطور چند کچھ مقرر ہ ہے ،قاری صاحب ادیب ،شاعر ،خطاط ،ذی لیاقت ،صاحب مروت ومحبت ہیں ،میری دعوت کی اوریہ عنایت فرمائی کہ ایک قطعہ مدحیہ تاریخیہ بطور یادگار روزگار بہ شفقت مرحمت فرمایا کہ درج ذیل ہے ۔

 قطعہ از جناب قاری صاحب تخلص شریفی

 چو آن سید مرتضیٰ شیر نامی کہ در اہل بیت است قدرش گرامی

 لقد فاز بالحج فوزاً عظیماً واداہ بالعز والاحترام

 وقد ام نحو النبی المرجی رجاء بہ فی بلوغ المرام

 فوافی الشریفی یھنیہ شکرا وحمداً لانعام رب الانام

 ومدابتھالا ایادی افتقارا الی اللہ یدعو لہ بالدوام

 فلبت مجیباً ؓبشارات نیل لنیل المنی بالھنا کل عام

 وقالت فبشرقبولاً وارخ بحجج وزیارت شود شادکامی

 جناب مولانا عبدالحق صاحب شیخ الدلائل مہاجر مکہ بھی بڑے پائے کے بزرگ صاحب رشد وارشاد ذی استعداد فیض بنیاد ہیں ،میں نے اجازت دلائل کی ان سے لی اور تصحیح بھی کی ،اکثر میری حاضری رہا کی ،ایک رو ز حرم شریف میں ایک اعرابی یعنی دیہاتی بدوی سے ملاقات ہوئی ،میں نے دریافت کیا کہ مکہ معظمہ کے اہل خدمت اور قطب وقت کون ہیں ،اور کہاں ہیں ،انہوں نے فرمایا کہ عالم رویا میں جب حضور پر نبی کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم سے مشرف ہوا تو یہی سوال کیا ،حضور والا سر کار وآقانے ایک مکی صاحب کی طرف اشارہ فرمایا ،کہ ھذا خیر الخلق ۔میں نے پوچھا ،ان کو پہنچانتے ہو اور جانتے ہو؟کہنے لگے ،پہنچانتا ضرور ہوں ،حلیہ اور نشان مکان بتاسکتا ہوں مگر خود ہیبت اور جلالت سے جانہیں سکتا ،چنانچہ میں قاری عبدالحق صاحب کے برادر کو ہمراہ لے کر ان کے در تک پہنچا ،ایک مکان عالی شان جس میں بوستان بھی تھا ،اس میں ایک بزرگ صاحب تمکنت،شریف صورت ،معمر ذی وجاہت کو بشان وشوکت مسند عزت پر جلوہ افروز ومتمکن دیکھا ،اور ملاقی ہوا ،بہت خلق سے ملے ،اور فوراً قہوہ طلب کیا ،میں نے اس واقعہ کو جو بدوی صاحب سے سنا تھا عرض کیا ،فرمانے لگے ،میں تو کسی قابل نہیں ،حضرت کا کرم ہے،پھر تجاہل عارفانہ سے اور اور باتیں ادھر ادھر کی فرماتے رہے ،اور ہم لوگوں کو ایسا سہو محو ہوا کہ کچھ عرض مدعا نہ کرسکے ،اس وقت رخصت ہوئے ،بعد اس کے بارہا چاہا کہ ملاقات کریں مگر موانعات ایسے ہوتے رہے کہ دوبارہ نہ مل سکے ،حسن اتفاق کہ جناب حضرت شاہ علی حسین صاحب مدظلہ سجادہ نشیں کچھوچھہ شریف بماہ شوال المکرم مکہ معظمہ تشریف لائے ،ایک تاریخ مبارک ومستحسن میں عزیزی سید احسن شیر سلمہ ربہ کی مکتب بمقام حطیم بمصلیٰ حضرت سیدنا ابراہیم علی نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام جناب شاہ صاحب موصوف نے فرمائی ،اور حسب معمول قدیم وہاں کے شیرنی وچھوہارہ تقسیم ہوا ،عیدالفطر کے نماز کا جو موقع آیا تو حرم محترم کو ایک چمن پر از گلہائے گوناں گوں اور اشکالہائے بوقلموں ولباسہائے سبزو سرخ وزرد گوں مثل گلدستہ میمون خزاں سے مصؤون ، بہار سے مقرون پایا ،ہرحاجی شگفتہ ونہال تھا ،اپنی اپنی روش میں خوش حال تھا ،اصل یہ حسب اتفاق عید سعید اور بے کلی وفراق عرصہ بعید آئی تھی ،یوم الوصال تھا ،قدرت بے چون دیکھئے ،کہ بے چون وچرا مجمع لاکھوں کا شانے سے شانہ چھیلتا ،سینے سے سینہ ملتا قیام مشکل تھا ،نہ کہ قعود وسجود ،مگر صف بندی میں کرشمہ خداوند ی موجود پایا کہ بفضل معبود دریا کوزے میں سمایا،جہاں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی وہاں صف بصف سجدے باقاعدے[کذا] ہورہے ہیں ۔اللہ اکبر جل جلالہ وجل شانہ ۔میں یہاں کی طرز معاشرت سے محظوظ ہوا ،تجارت وصنعت وحرفت کا گرم بازار ہے ،اور ہر ایک کا گذار ہے ،بہتیرے کا حجاج پر دارومدار ہے ،خصوصاً مطوفین کا توخاص شکار ہے ،عجیب شان پر وردگار ہے ،یہاں شام وپگاہ فوج سلطانی کی قواعد باقاعدہ تفرج گاہ ہے ۔ایک حالت قابل ذکر وولائق فکر ہے ،عموماً داخلی حاجیوں کی خانہ کعبہ میں باجرت وبطلب شدت وکثرت ہوا کرتی ہے ،حالاں کہ اس امر کی شرعا ممانعت ہے ،مجھ سے اور شیبی صاحب کنجی بردار سے تکرار ہوگئی ،ہزار سمجھایا پر نہ سمجھے ،مجبوراً بلائے گئے ،بندہ خدا کے گھر میں داخل ہوا ،چلے وقت کچھ ان کے نذر کردیا ،حیف صدحیف کہ اس ضروری مسئلہ کی طرف کسی کو بھی توجہ نہیں،اگر بجائے اس کے حجاج سے بطور حق المحنت کچھ مقرر کردیاجائے اور حق المطوفی کے ساتھ تحصیل لیا جائے تو طرفین کے لئے بہتر اور جانبین کو خوشتر ہو،داخل معصیت بھی نہ ہوں[کذا]،اور روپے بھی مل جائیں ۔شریف صاحب کو ان ذات شریفوں کی پرواہ نہیں ،کوئی نگراں بجز اللہ نہیں ،کہنے سننے کی کہیں راہ نہیں ،ان باتوں کی وہاں چاہ نباہ نہیں ۔المختصر یہ کہ کوئی پناہ نہیں ۔

 یہ ہنگام وایام حج عوام میں مشہور ہے کہ نولاکھ ننانوے ہزار حجاج کا اجتماع ہوتا ہے ،شماران جنود اللہ کی تو شاید ہی کسی کو ہوئی ہو ،البتہ قیاسا وتخمینا ہے ۔قریب الایام حج مصری اور شامی قافلہ آتا ہے ،جس کے ساتھ محمل ہوتی ہے ،باہتمام تمام وشوکت واحتشام وافواج مصر وشام وبینڈ نوازی وسامان ما لا کلام،وبجلوس واحترام ،بمقام دارالسلام واماکن اسلام ہوتا ہے ،ہر سال بلا اختلال غلاف کعبہ بدلا جاتا ہے ،اور جوغلاف کہ اتارا جاتا ہے ، حق شریف ومطوفین ہوتا ہے ،یہ حضرات اسے ٹکڑے ٹکڑے کرکے بیچتے اور خاصا منافع اٹھاتے ہیں ۔زیارات مقامات متبرکہ مکہ مبارکہ کے حالات بسبب طوالت کتاب واجتنابا ً عن الاطناب تحریر نہیں کرتا اور کیفیات اس کے بہتیروں نے قلمبند کئے ہیں اس لئے لکھنا مناسب نہیں سمجھتا ۔آٹھویں ذوالحجہ الحرام کو بمقام خیر وبرکات عرفات حجاج روانہ ہوئے ،نویں تاریخ کو بعصر عصر ارکان وقوف عرفات کہ اصل ونشان ایمان اور حج کی جان ہے ،ادا کئے گئے ، اللہ اکبر خشوع وخضوع ،الحاح وزاری حضور باری ،عظمت وجبروت خداوندی کا وقت ذلت وعبدیت کا ظہور اعلیٰ ادنی ،شاہ وگدا کے مساوات کا زنانہ اس قادر مطلق کے روبرو سب مختار مجبور ،عرفات عرفان رحمن کا نمونہ ،جس میں بیگانہ یگانہ ،انم المومنون اخوۃ کا وفور ،شیطان کوسوں دور،بادہ توحید سے ہر ایک مخمور ،مستی الست سے چور،نشہ نشاتین سے معمور ،طالب حق وباطل وناحق سے نفور ،اس وقت بھی اگر کسی دل میں خطور وفطور ہو تو یہ اس کا قصور ،واللہ علیم بذات الصدور۔

 بعد مغرب حاجیوں کا قافلہ مزدلفہ ایک مقام نیک نام میں ٹھہرا ،یہاں کنکریاں چنی جاتی ہیں ،اورشیطان علیہ اللعن کو ماری جاتی ہیں ۔دسویں کو منا [کذا]میں آکر رمی الحجار اور قربانیاں وغیرہ ارکان مابقی ادا کئے جاتے ہیں ،بوجہ قصہ دراز قلم انداز کئے گئے ۔گیارہ کو مکہ معظمہ لوٹ آئے ،اور یہاں سے براہ بری سلطانی مدینہ منورہ زادہ اللہ شرفاوتعظیماً روانہ ہوگئے ۔اکثر بحری راستے سے گئے ،بارہ روزوں میں منزل بہ منزل طیبہ شریفہ پہنچے ،اس راہ کی سختی کا منشا اور مصائب مصاعب کا تقاضا یہ ہے کہ حج مبرور وزیارت مقبول ہو ،بحکم ان مع العسر یسرا بعد زحمت کے رحمت ہے ،اور حقیقتا فراق ما لا یطاق ہی کے بعد وصال حبیب لبیب کا مزا ملتا ہے ۔دوسری محرم تھی کہ حضور پر نور خلق اتم ،سرکار عالم باعث تخلیق آدم وبنی آدم نبی اکرم ﷺ کے دربار دربار خیر وبرکات آثار میں حاضری ہوئی ۔

 یہ کہاں تھی میری قسمت کہ وصال یار ہوتا [کذا] اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا

 لراقمہ

 ہم اور ان کی حضوری خدا کی قدرت ہے میں ان کو دیکھوں ،وہ مجھ کو ،یہ اوج قسمت ہے

 عصر کے وقت مدینہ منورہ پہنچا ،بعد غسل وتزیین لباس واستعمال عطریات بآئین خدمت گذاردربار والا تبار میں حاضر ہونے کو تیار ہوا ،بعد مغرب ہمراہ مزورین ومعلمین رسائی وباریابی ہوئی ،قلب بے قرار کی حالت زار کا کیااظہار اور دل ناہنجار کے اضطرار کی کیفیت کیا گوش گذار کروں

    دل من داند ومن دانم وداند دل من

 ایک رقت طاری ہوئی اور اشک آنکھوں سے جاری ایسا معلوم ہوا کہ زمانے کا بچھڑا اور جدا شدہ آغوش مادر وپدر میں آگیا ،ضیائے آفتاب عالمتاب رسالت پر تو فگن ہوئی کہ سارا قلب روشن ہوا ،خیال دشمن مستور اور یا دوطن دور،الغرض جماعت کے ساتھ سلام اشتیاق انضمام بہزار ذوق وشوق مرام عرض کیا ،اور پیام مودت التیام یاران خاص وعام حضور میں پہنچایا ،کیف قلبی حیز تقریر وتحریر سے باہر ہے ،ذاق من ذاق اور فھم من فھم ۔اسی وقت ایک عرضی عرض کی اور لکھ کر حضور میں پیش کی

 بسم اللہ الرحمن الرحیم ،اللھم صل علی محمد وعلیٰ آلہ وصحبہ وسلم

 یا رسول اللہ ادرک حالنا یا رسول اللہ اسمع قالنا

 اننی فی بحر ذنب مغرق خذ یدی سھل لنا اشکالنا

 مفلسانیم آمدہ در کوئے تو شیئا للہ از جمال روئے تو

 دست بکشا شیر مسکین را نگر آفرین بر ہمت وبازوئے تو

  [اس کے بعد کچھ فارسی مناجات اور غزلیں ہیں جو چھوڑ دی گئیں ]

 ایک واقعہ قابل تسطیر اور دل پذیر ہے ،بنا بران تحریر کیا جاتا ہے ۔عزیزی اصغر شیر سلمہ ربہ فرزند اوسط بندہ سات آٹھ مہینوں کا تھا ،اور مدینہ شریف میں قاعدہ ہے کہ ایک سال تک کے بچوں کی داخلی حضور نبی کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم کے ستارہ مبارکہ یعنی مرقد مقدس ومحجر منور میں ہوتی ہے ،اسی بنا پر عزیز موصوف کی بھی داخلی وحضوری کرائی گئی ،بچوں کو سفید لباس میں ملبوس کرتے ہیں اور اشیائے متفرق بخیال تبرک ساتھ رکھ دیتے ہیں ۔بعد حضوری اور داخلی کے اس قدر ہجوم بالعموم دست بوسی اور قدم بوسی کے لئے اس عزیز باتمیز کے ہوتا ہے کہ خطرہ جان کا احتمال اور یہ کشمکش وبال ہوجاتا ہے ۔ایک امر قابل لحاظ ہے کہ بچہ بہر صورت ساکت رہتا ہے ،مطلق نہ روتا ہے ،نہ مچلتا ہے ،بلکہ مسکراتا ہے ،خدا کی قدرت کا جلوہ نظر آتا ہے ،اور حبیب کبر یا کے جمال وجلال کا نقشہ آنکھوں میں پھر جاتا ہے ۔

 سبحان اللہ مدینہ منورہ کی شان محبوبی کا کیا کہنا ،موالید ثلاثہ ،جمادات ،نباتات ،حیوانات ،سبھوں میں جلوۂ جمال لم یزل ولایزال ہے ،ہر شخص حب نبی سے خوش حال اور مالامال ہے ،زبان شیرین خوش مقال ،صورت وسیرت سے نہالل بافضال ایزد متعال ہے ،پوتو رسالت مدارات میں بے مثال ہے ،سکہ اخوت ومحبت کا طیبہ طیبہ ٹکسال ہے خشونت وبغض وعداوت وہاں پائمال ہے ،لینت ومروت وانسانیت وحمیت کی اس جگہ چال ہے ،المختصر یہ کہ مکہ معظمہ منظر جلال اور مدینہ منورہ مظہر جمال ہے ،حرم شریف ہمہ تن نور ولطیف ،اس میں مسجد نبوی اک جان منیف ،اور حجرہ اطہر ومرقد مطہر قلب نحیف ،مرجع وضیع وشریف ہے ،کن کن باتوں کی اور حالتوں کی وہاں کے تعریف اور توصیف کی جاوے ۔

 دامان نگہ تنگ وگل حسن تو بسیار گلچین بہار تو زداماں گلہ دارد

   نہ حنش غایتے دارد نہ سعدی را سخن پایان

دفتر تمام گشت وبہ پایان رسید عمر ماہمچناں باول وصف تو ماندہ ایم

 یہاں مجال سخن اور دم زدن نہیں ،یہ جگہ وہ ہے کہ جہاں ملک فلک سے بصد طرب مگر بہ ادب آتے ہیں، اور روئے زمین سے اولیا مخصوصین مقربین ومومنین صالحین اس مقام میں بہزار مرام اذواق واسواق انضمام قدم احترام رکھتے سرکے بل کے آتے ،آنکھیں بچھاتے اور پلکوں سے جاروب کشی کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 بعد از زیارت عتبات عالیات ومزارات متبرکات ومآثر مقدسات واماکن ہمہ حسنات وفیوضات وادائے نماز بانیاز چہل اوقات بمسجد نبوی علیہ الصلاۃ والتحیات مرحلہ پیمائے وطن وگام فرسا بمنزل رنج ومحن اعنی ہندوستان نکتبت نشان داارالفتور والفتن ہوا ۔

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔غم واندوہ ،یاس وانبوہ حسرت وگروہ کلفت کے ساتھ اشک ریزاں،دل تپاں ،قلب بریاں ،جگر سوزاں ،نیم جاں وہاں سے رواں دواں رخصت یہ ناتواں ہوا اور براہ بندر ینبوع بطبع نامطبوع بمبئی پہنچا ،بحمد اللہ بعد زحمت کے رحمت ہوئی ،اور واپسی میں نہایت عافیت وسہولت جہاز نفیس سریع السیر صاف ستھرا ملا ،دس روزوں میں یہ بحری راستہ طے کیا ،حاجیوں کا بیڑا پار ہوا ،اس دفعہ بمبئی میں اسماعیل سیٹھ کی سرا میں فرود ہوا ،مہتمم اور منتظم سر کی نقد وحرمت خدمت وتواضع کیا تو آرام اٹھایا ،دوچار روزوں تک وہاں قیام کیا ،اور مکان بعافیت تمام لوٹ آیا ۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare