دارالعلوم دیوبند کی ایک صدی کا علمی سفرنامہ
نام کتاب : دارالعلوم دیوبند کی ایک صدی کا علمی سفرنامہ
مولف : مولانا مفتی اسلام قاسمی
صفحات : 120
قیمت 140
ناشر: مکتبہ النور دیوبند
مبصر : عبدالعلیم الاعظمی
دارالعلوم دیوبند کے صد سالہ اجلاس کے موقع پر دارالعلوم دیوبند کی تاریخ، نظام اور وہاں کے فضلاء کی خدمات پر کثیر تعداد میں لٹریچر تیار ہوئے تھے۔ مولانا اسلام قاسمی کی زیر نظر کتاب اجلاس صد سالہ کے معا بعد لکھی گئی ہے، اس میں اختصار کے ساتھ دارالعلوم دیوبند کے تنظیمی ڈھانچے کے ساتھ ساتھ اجلاس صد سالہ پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ کتاب ناپید تھی عرض ناشر سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے نسخے مصنف کی ذاتی لائبریری اور دارالعلوم دیوبند کی لائبریری میں بھی موجود نہیں تھے۔ مولانا اسلام قاسمی کے فرزند اور ان کے علوم و معارف کے امین مولانا بدر الاسلام قاسمی نے اس نایاب کتاب کو تلاش کرکے اس کا کمپیوٹرائز خوبصورت جدید ایڈیشن شائع کیا ہے۔ بلاشبہ جس اختصار اور جامعیت سے اس کتاب میں روشنی ڈالی گئی ہے،اس کو دیکھ کر اس کتاب کا ایک زمانے سے شائع نہ ہونا عجیب معلوم ہورہا ہے۔

زیر نظر کتاب 120/ صفحات پر مشتمل ہے، مصنف نے دارالعلوم دیوبند کی تاریخ انار کے درخت سے شروع کرتے ہوئے دارالعلوم دیوبند کی تاسیس،اصول ہشتگانہ اور نصاب تعلیم پر روشنی ڈالی۔ دارالعلوم کی مختلف انتظامی کمیٹی جیسے مجلس شوریٰ، مجلس عاملہ، مجلس تعلیمی اسی طرح مختلف عہدے جیسے سرپرست، مہتتم، صدر المصنفین اور مفتی وغیرہ کے طریقہ کار اور دائرہ کار کی وضاحت کی، اس ضمن میں شروع سے لیکر اب تک ان عہدوں پر فائز ہونے والوں کا نام بھی درج کیا ہے۔ مصنف نے مختلف علوم و فنون میں فضلاء دارالعلوم دیوبند کی تصانیف کی ایک فہرست بھی درج کی یے، جس سے علوم و فنون کے میدان میں فضلاء دیوبند کی گراں قدر خدمات کا علم ہوتا ہے۔
دارالعلوم دیوبند کی تاریخ، خدمات اور اس انتظامی ڈھانچے پر روشنی ڈالنے کے بعد آگے صد سالہ اجلاس کی مکمل تفصیل ہے۔ اس ضمن میں مصنف نے صد سالہ اجلاس کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔اخیر میں مصنف نے صد سالہ اجلاس کے موقع پر منظور کی جانی والی تجاویز کو بھی نقل کیا ہے۔ ان میں سے بعض تجاویز کی عصر حاضر میں بھی بہت اہمیت و افادیت ہے۔ ان تجاویز کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے بعض پر عمل ہی نہیں کیا گیا ہے۔ ان تجاویز کی بعض قرارداد اب بھی غور و فکر اور عمل کے لائق ہیں مثلا پہلی تجویز جو کہ قدیم مذاہب، افکار جدیدہ اور تحریکات حاضرہ کے تعلق سے ہے۔ دوسری تجویز جو کہ اسلام کی دعوت کے سلسلے میں ہے۔ تیسری تجویز جو کہ تحقیقی و تصنیفی ادارہ کے سلسلے میں ہے، مساجد کے سلسلے میں تجویز، نصاب تعلیم کے سلسلے میں تجویز، طلبہ دارالعلوم دیوبند کے دیگر اداروں اور یونیورسٹیوں میں جانے سلسلے میں تجویز، مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں تجویز، اسی طرح افغانستان میں روسی استعمار کے خلاف جہاد کرنے والوں کے سلسلے میں تجویز۔
بلاشبہ یہ ایک مختصر اور عمدہ کتاب ہے۔ مولانا سید ازہر شاہ قیصر ایڈیٹر ماہنامہ دارالعلوم دیوبند کتاب کے بارے میں مقدمہ لکھتے ہیں :
"خوشی ہے کہ دارالعلوم دیوبند کے ایک فاضل اور نوجوان کارکن مولانا محمد اسلام صاحب قاسمی نے جو اپنے براق ذہن، وقار طبیعت، ذوق سلیم اور تصنیفی اور صحافتی شوق و رغبت سے اپنے دامن میں ایک شاندار مستقبل لیے ہوئے ہیں۔ عزیزی نسیم پرویز صدیقی کی مدد سے اس قسم کی کی ایک مختصر کتاب مرتب کی جس میں موجودہ و آئندہ کی ضروریات کو سامنے رکھ کر سنجیدہ مواد اور معلومات تازہ اور قابل اعتماد، کتاب اپنی بنیاد سے لیکر آخری کنگرہ تک نظر افروز اور حیات بخش، اس کا ہر ہر گوشہ حسین اور ہر در و دیوار مستحکم ہے۔”