درسِ میبذی — ایک تعارف

شارح: مولانا نوشاد احمد معروفی

صفحات: 360

قیمت: 500 روپے

ناشر: مکتبہ ضیاء الکتب، خیرآباد، ضلع مئو (یو۔پی)

ملنے کا پتہ: مکتبہ نعیمیہ، دیوبند

تعارف نگار: اشتیاق احمد قاسمی، مدرس دارالعلوم دیوبند

فلسفے کی معروف و دقیق تصنیف "میبذی” دارالعلوم دیوبند اور اسی طرز کے تمام مدارسِ اسلامیہ کے نصاب میں شامل ایک اہم کتاب ہے۔ یہ دراصل "ہدایت الحکمت” کی شرح ہے، جسے اپنی گہرائی، دقتِ فہم اور فکری وسعت کے اعتبار سے خاص مقام حاصل ہے۔ دارالعلوم دیوبند میں اس سے قبل "مبادی الفلسفہ” پڑھائی جاتی ہے تاکہ طلبہ فلسفیانہ اصطلاحات سے مانوس ہو جائیں اور "میبذی” کی پیچیدہ مباحث کو بہتر طور پر سمجھ سکیں۔

درسِ میبذی — ایک تعارف
درسِ میبذی — ایک تعارف

افسوس کہ آج کے دور میں طلبہ کو فنِ فلسفہ سے زیادہ دلچسپی نہیں رہی، حالانکہ نصاب میں اس کا باقی رہنا محض روایت نہیں بلکہ ایک بڑی ضرورت ہے۔ اگرچہ اس کتاب سے فلسفے کا حصولِ فن مقصود نہیں، لیکن اس کے مطالعے سے ردِّ فلسفہ کی صلاحیت، گہرے غور و فکر کا ذوق، اور تحلیلی طرزِ استدلال کی قوت ضرور پیدا ہوتی ہے۔ جو طالبِ علم پوری توجہ سے "میبذی” کا درس لیتا ہے، وہ بال کی کھال نکالنے کی ذہنی صلاحیت اور دقیق نکات کے ادراک کی استعداد حاصل کر لیتا ہے۔

یہ تصور کرنا غلط ہے کہ مدارس میں فلسفہ کو سائنس کی تعلیم کے طور پر پڑھایا جاتا ہے۔ جدید سائنس کے لیے تو الگ وسائل اور کتب موجود ہیں۔ یہاں "میبذی” کی تدریس کا مقصد محض یہ ہے کہ طالبِ علم باطل فلسفیانہ نظریات کے رد پر قادر ہو جائے اور عقائد و معقولات کے مباحث میں منطقی تردید کا اسلوب سیکھ لے۔

میبذی کے مطالعے کا ایک امتیازی پہلو یہ بھی ہے کہ مصنف نے اکثر مقامات پر اشکال و جوابات کی شکل میں گفتگو کی ہے۔ بعض جگہوں پر سوالات اٹھا کر انہیں تشنہ چھوڑ دیا ہے، تاکہ قاری خود غور و فکر سے جواب تلاش کرے۔ اس طرزِ بیان کا مقصد جواب سکھانا نہیں، بلکہ سوچنے کا سلیقہ سکھانا ہے — اور یہی اس کتاب کی روح ہے۔

دارالعلوم کے نصاب میں "میبذی” کی شمولیت ایک حکیمانہ فیصلہ ہے، جس میں کوئی کمی نہیں، بلکہ یہ فنِ منطق و فلسفہ کی ابتدائی تربیت کا اہم ذریعہ ہے۔

مولانا نوشاد احمد معروفی کی پیشِ نظر تصنیف "درسِ میبذی” نہایت مفید اور قابلِ قدر شرح ہے۔ اس کے متعلق چھ بزرگ و معاصر علماء کی تائیدات شامل ہیں، جو اس کے علمی استحکام کی شہادت ہیں۔ راقم نے بھی کتاب کے مختلف حصے دیکھے تو اندازہ ہوا کہ شارح کو تعبیر و تشریح پر خوب قدرت حاصل ہے اور انہوں نے نہایت محنت و فہم کے ساتھ متن کو حل کیا ہے۔

درسِ میبذی — ایک تعارف
درسِ میبذی

کتاب کی ترتیب نہایت منظم ہے۔ متن اور شرح کو مختلف خطوط میں لکھ کر ایک دوسرے سے ممتاز کر دیا گیا ہے۔ چونکہ آج کے طلبہ کی استعداد عمومی طور پر کمزور ہے، اس لیے شارح نے متن پر اعراب کا اہتمام کیا ہے اور ہر ترجمے کے بعد زیلی عنوانات قائم کر کے بحث کو واضح کیا ہے۔ اس طرح کتاب میں اختصار اور جامعیت دونوں پہلو یکجا ہو گئے ہیں۔

مولانا معروفی نے اس کتاب کے حل میں جن ماخذ و مصادر سے استفادہ کیا ہے، ان میں بالخصوص:

حاشیہ میبذی از عین القضات،

الحل المرضی از مولانا محمد انور گنگوہی،

معین الفلسفہ از حضرت مفتی سعید احمد پالنپوریؒ،

اصطلاحاتِ فلسفہ از مولانا نعمت اللہ عازمی مدظلہ،

تسہیل المیبذی از مولانا اعجاز احمد اعظمی،

اور شرح ہدایت الحکمت للمیبذی از ڈاکٹر فاروق الخولی
قابلِ ذکر ہیں۔

"درسِ میبذی” میں دارالعلوم کے نصاب کے مطابق میبذی کی ضروری مقدار ہی کو تشریح کے لیے اختیار کیا گیا ہے، جو تدریسی اعتبار سے نہایت موزوں ہے۔

آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مولانا نوشاد احمد معروفی صاحب کی اس محنت و کاوش کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے، اس کتاب کو اہلِ علم و طلبہ کے لیے نافع بنائے، اور شارحِ محترم کو مزید علمی و دینی خدمات کی توفیق مرحمت فرمائے۔
آمین یا رب العالمین۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare