دلی کی چند عجیب ہستیاں

مجموعہ حسن عسکری پڑھ رہا تھا ، "مسلمان ادیب اور مسلمان قوم” کے عنوان کے تحت ادب اور ادیب کا ذکر کرتے ہوئے اشرف صبوحی (پیدائش: 1905ء- وفات: 1990ء) کی کتاب "دلی کی چند عجیب ہستیاں”کا ذکر پڑھا،اسے ڈھونڈ کر پلٹنا شروع کیا ، اور پڑھتا ہی چلا گیا ، کیا زمانہ تھا کہ گزر گیا ,کیا لوگ تھے کہ چل بسے، کتاب کا ہر صفحہ بڑا مزے دار اور زبان کی چاشنی لیے ہوئے ہے ، مگر چند تراشے میرا انتخاب ہے ۔

اس سے پہلے محمد حسن عسکری صاحب کی بات بھی سنتے چلیے ، ان کی پیدائش میرٹھ،(اتر پردیش)میں 1919ءمیں ہوئی ، اور تقسیم ہند کے وقت پاکستان ہجرت کر گئے ، اور 1978 میں اللّٰہ کو پیارے ہو گئے، ان کی کتاب "جدیدیت”مشہور زمانہ ہے ۔

علمیت کا بھرم اس وقت ٹوٹ گیا، کہ حسن عسکری کو آج تک میں بہار کا سمجھتا رہا ، مجموعہ حسن عسکری بھی اسی سوچ میں پڑھ رہا تھا ، پھر پتہ چلا کہ سید حسن عسکری (ولادت 1901۔وفات 1990 سیوان۔ بہار) الگ تاریخی،ادبی شخصیت ہیں ، اور میرٹھ میں پیدا ہوئے اور پاکستان میں وفات پانے والے عظیم نقاد و ادیب الگ شخصیت ہیں ،وجہ فرق یوں کرسکتے ہیں کہ بہار والے "سید حسن عسکری” ہیں ،اور پاکستان والے "محمد حسن عسکری” ہیں ۔

خیر سے: بات چل رہی تھی میاں حسنات کی، جو شاہی رکاب داروں میں غدر سے پہلے کی یادگار تھے،۔ کہنے لگے:
"خدا آپ کو نیکی دے، یہی حال ہمارے کمال ہیں ،گھاس پھوس میں جس چیز کا کہئے مزہ آنے لگے،حکم ہو تو کنکر پتھر کا ایسا قورمہ کھلاؤں کہ گوشت کو بھول جائیے، بادشاہ اور شاہ زادے ہمارے نخرے مفت نہیں اٹھاتے تھے،شکار پر گئے ہوئے ہیں ،گوشت سے جی بھر گیا ہے ،حکم ہوا خاصے پر سبز ترکاریوں کے سوا کچھ نہ ہو، فرمان شاہی ۔ دم مارنے کی کس میں طاقت ۔ بس گوشت ہی کو ایسا بنایا کہ قابوں سے دسترخوان بھردیا،کسی میں چقندر کا مزہ ہے ، تو کسی میں شلغم کا ، پالک کے ساگ کی الگ خوشبو آرہی ہے ،اور آلو کے قتلے جدا نظر آرہے ہیں ،پھر کبھی آدھی رات ہے ،جسولنی بھاگی چلی آتی ہے کہ زینت محل صاحبہ ہرن کے کباب کھانے کی ضد کررہی ہیں ،ہرن کا گوشت کہاں ، مگر حکم حاکم ،مرگ مفاجات ۔ جواب دینا کمبختی بلانا تھا ،بس یہی ہمارے ہنر تھے کہ چٹکی بجاتے ،جو کہا ،وہ تیار ہے” ۔

اشرف صبوحی کو خاکوں میں کمال حاصل تھا ، وہ پرانی روایت کے امین اور عاشق تھے، ان کی زبان سے جو سنئے ، سر دھنیے، اس کتاب میں انہوں نے پندرہ خاکے بیان کیے ہیں ، یوں تو سب عام سے لوگ ہیں ، لیکن ان سے پرانے وقتوں کی یاد تازہ ہوجاتی ہے ۔ مشہور داستان گو میر باقر کی محفل کا نقشہ کچھ یوں کھینچا ؛ "جاڑے کا موسم تھا،میں میر صاحب کے ہاں پہنچا،تو کیا دیکھتا ہوں کہ چھوٹے سے دالان میں دس بارہ آدمی بیٹھے ہیں ،چایے کا دور چل رہا ہے ، طول میں پکھوائی کے قریب ایک چوکی بچھی ہوئی ہے ،افیون کی ڈبیا،لوٹا پانی کا،دو تین پیالیاں آس پاس رکھی ہیں ،چوکی کے آگے دیوار کی طرف ایک منحنی سا آدمی لپٹا لپٹایا بیٹھا ہے ،آگے ڈوری میں ٹنگی ہوئی لال ٹین ٹمٹمارہی ہے ،مدھم روشنی ،میری آنکھوں پر عینک چڑھی ہوئی ،کیا پہچانتا،سلام علیک کرکے چاروں طرف دیکھنے لگا”۔

جب ایک لکھنوی نواب لٹ پٹ کر دلی کے اجڑے نواب سے ملے، تو ذرا ان کی زبان کی مٹھاس لیجئے ! ” میر صاحب کیا پوچھتے ہو ۔ دلی کو دیکھوگے تو پہچاننا مشکل ہو جائے گا ،آپ کے وہاں سے نوابی رخصت ہوئی ،بہار گئی،چمن تو سلامت ہے ،یہاں تو ایسے اولے پڑے کہ پھر پنپنے کی امید نہیں ، جتنے آبرو دار تھے،ایک ایک کو چن چن کر پھانسی پر چڑھا دیا ،میں تو کئی برس کے بعد آج گھر سے نکلا تھا ۔ سر پیٹ پیٹ لیا،اگلی سی کوئی بات نظر نہیں آئی،پھر حاکم ہیں تو عجیب ،نہ دربار ،نہ بات چیت میں سلیقہ ۔انعام نہ اکرام ، دیکھو تو پہاڑی کے پتھر لڑھک رہے ہیں ، لباس ہے تو تلنگوں سے بدتر، نہ جامہ نہ دستار۔ ننگے سر ، ول ول کے علاوہ دوسرا کلمہ نہیں ، بھیا افسوس تو یہ ہے کہ ہم پر کوئی گولہ کیوں نہ پڑگیا ، قلعے میں سنا گورے رہتے ہیں ،۔ کیسی کیسی حویلیاں تھیں ،کیسے کیسے نامی نام دار امیر تھے ،نجیبوں شریفوں سے گلی کوچہ بھرا پڑا تھا ، آج یہ بھی سنسان ہے ، جن کو آنکھیں ڈھونڈتی ہیں ،قبرستان میں بھی ان کا پتا نہیں ، زمین کھاگئی یا آسمان ،کس سے پوچھیں ،اب تم آئے ہو ،دیکھ لینا،لکھنؤ کا ماتم تو وہاں کرآئے ، دلی کا مرثیہ یہاں کے در و دیوار سے سننا۔

یوں تو کتاب میں کوئی بھی پیراگراف اٹھائیے، پڑھ کر دل خوش ہو جائے گا ، دلی کی ٹکسالی زبان دل موہ لے گی ، کہ
” زندگی نام ہے زندہ دلی کا،زندہ دلی نہیں تو زندگی کے کیا معنیٰ ؟ہماری نئی تانتی کا دعوا ہے کہ وہ جمود کا زمانہ تھا ،یہ حرکت کی دنیا ہے ،وہ تنزل کی آخری منزل تھی ،اب ترقی کا دور ہے ، جو چاہے سو کہیں ،لیکن ہم تو یہی کہیں گے ، اور برابر کہے جائیں گے ،کہ ہمیں ہنسوں کی چال راس نہیں ، گرم ملک میں ٹھنڈی ہواؤں سے لقوہ مار جاتا ہے "۔

اس کتاب پر سب سے عمدہ تبصرہ محمد حسن عسکری کا ہے کہ ” پچھلے دس سالوں میں نہ کسی ادیب نے ایسی انشا پیش کی ہے، نہ ایسی کردار نگاری ،لیکن اس کتاب کو قرار واقعی مقبولیت حاصل نہ ہوسکی، اگر پچھلے دس سال کے اردو ادب میں کوئی کتاب واقعی عوامی اور جمہوری روح اور کلچر کی ترجمانی کرتی ہے تو یہ کتاب ہے” ۔ (1948ء)

✍️ : غالب شمس

یہ بھی پڑھیں

دلی کی چند عجیب ہستیاں” پر 3 تبصرے

Leave a Reply