دہلی کی تہاڑ جیل میں گذرے رمضان کی یادیں
افتخار گیلانی
جنہوں نے کبھی جیل نہیں دیکھی ہو یا آزاد ممالک کی آزاد فضاؤں میں ہی سانسیں لی ہوں، ان کو قید و بند کی زندگی کا احساس کروانا اور ایک قیدی کی نفسیات کا ادراک کروانا خاصا مشکل ہوتا ہے۔ اس کا مجھے بارہا تجربہ ہوچکا ہے۔ جن معمولات کی طرف کبھی ہمارا دھیان ہی نہیں جاتا ہے، قیدی کے لیے وہ ایک بڑی نعمت ہوتے ہیں۔

مثال کے طور پر جب آپ کا دل چاہے آپ کھڑے ہوسکتے ہیں، بیٹھ سکتے ہیں۔ قیدی اپنی مرضی سے یہ کام نہیں کرسکتا ہے۔ رمضان میں مساجد میں اذانیں، نماز، افطار، چہل پہل، بچوں کا شور، افطاری کی تیاریاں، انواع واقسام کے کھانے اور خریداری کی وجہ سے ایک رونق سی لگی ہوتی ہے۔
اس دوران مجھے رہ رہ کر 2002 میں دہلی کے تہاڑ جیل میں گزارے روزوں کی یاد آرہی ہے۔ ان دنوں رمضان نومبر کے ماہ میں تھا۔ پچھلے سات مہینوں سے ہائی سکیورٹی وارڈ کی قید تنہائی اور پھر دیگر وارڈوں میں زندگی گزارنے کے بعد رمضان سے چند روز قبل مجھے تہاڑ کی جیل نمبر تین کے وارڈ نمبر 11 میں منتقل کیا گیا تھا۔ اس وارڈ میں اکثر ان ہی قیدیوں کو رکھا جاتا ہے، جو اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی سے فاصلاتی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

اس وارڈ میں کئی کلاس رومز اور ایک لائبریری موجود ہے۔ دیگر وارڈوں کے مقابلے یہاں تعلیم یافتہ قیدیوں کی اکثریت تھی۔ گوکہ بندشوں میں کوئی کمی نہیں تھی، مگر چونکہ اکثر قیدی اشرافیہ طبقہ سے تھے، اس لیے یہاں نسبتاً ہاسٹل جیسا ماحول تھا۔ وہائٹ کرائم میں ملوث افراد کو بھی اسی وارڈ میں رکھا جاتا تھا۔ کیونکہ دیگر وارڈوں میں سینئر قیدی یا گینگ ان سے خاصا برا سلوک کر کے ان کو اذیتیں دےکر پیسے وصول کرتے تھے۔
یہ پیسے یا تو جیل ہی میں وصول کئے جاتے یا اگر بڑی رقم ہو تو باہر ان کے رشتہ داروں سے وصول کی جاتی تھی۔ اس وارڈ میں میرے پڑوسیوں میں کوئی اربوں کے اسکیم میں ملوث صنعت کار تو کوئی اعلیٰ سرکاری ملازم تو کوئی بینک ڈائریکٹر تھا۔ یعنی ایک طرح سے بڑی ہی متاثر کن کمپنی تھی۔

خیر رمضان کی آمد سے قبل جیل حکام نے اعلان کیا کہ جن قیدیوں کو روزے رکھنے ہیں وہ اپنے آپ کو رجسٹر کروالیں۔ کیونکہ سحری کے لیے لنگر سے خصوصی انتطام کرنا تھا اور لنچ سے ان کے نام کاٹنے تھے۔ افطارکے لیے انتظام کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی، کیونکہ اسی وقت پوری جیل میں ڈنر تقسیم ہوتا تھا۔ گو کہ جیل میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر ریکارڈ نہیں رکھا جاتا ہے۔ مگر اس رجسٹریشن کے ذریعے پتہ چلتا ہے کہ جیل میں اس وقت کتنے مسلمان قید و بند کی زندگی گزار رہے ہیں۔
2002 میں مجھے یاد ہے کہ جیل کی کل آبادی کا 30 فیصد مسلمان تھے، جبکہ دہلی میں مسلمانوں کی آبادی 12 فیصد سے زائد نہیں ہے۔ پولیس کی طرف سے مسلم نوجوانوں کو فرضی کیسوں میں بند کرنے کے علاوہ مجھے ادراک ہوا کہ معمولی جرائم نیز اسمگلنگ، جعلی دستاویزات، چوری اور جیب تراشی کے پیشوں میں بھی مسلمانوں کا تناسب خاصا زیادہ ہے۔ قیدیوں کی ایک بڑی تعداد، تقریباً 78 فیصد نچلے طبقے سے تعلق رکھتی تھی۔ یعنی غریبی اور جرائم کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ دوسرا ہندوستان کے عدالتی نظام کا کمال ہے۔ اگر ایک ہی کیس میں ہندو اور مسلمان ملوث ہیں، تو ہندو کو جلد ہی ضمانت ملتی ہے اور مسلمان ماہ و سال جیل کی زینت بنایا جاتا ہے۔
خیر رمضان کا اعلان ہوگیا۔ جیل نمبر 3 کے سپرنٹنڈنٹ اے کے کوشل قیدیوں کا حال چال پوچھنے آئے۔ میں نے ان سے گزارش کی کہ کیا تراویح کی نماز کا انتظام ہوسکتا ہے؟ انہوں نے جیل مینول کا حوالہ دے کر کہا کہ جیل میں اجتماعی عبادت کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہندو تہوار اس پابندی سے مبرا تھے۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ موجودہ جیل کے نظام میں قیدی کی اصلاح کو سزا پر فوقیت حاصل ہے اور یہ بھی بتائیں کہ آپ کے پاس اصلاح کے کیا اوزار ہیں؟ ایک اڑیل قیدی بھی جیل میں آکر پشیمانی میں اپنے گناہوں کی معافی کے لیے سربسجود ہوجاتا ہے۔
تہاڑ جیل کی سابق سربراہ اوربعد میں پانڈیچری کی موجودہ لیفٹنٹ گورنر کرن بیدی نے اس کا خاطر خواہ استعمال کرکے قیدیوں کو مصروف رکھ کر جیل کے اندر ان کے ذریعے قانون شکنی کی کسی گنجائش کو ختم کر دیا تھا۔ انہوں نے وارڈوں میں مسجد کے لئے جگہیں مخصوص کروائیں تھیں، تاکہ قیدی عبادت میں مصروف ہوجائیں۔

کوشل صاحب راضی ہوگئے۔ وارڈ کی ایک بیرک جو کلاس روم کے لیے استعمال ہوتی تھی میں تراویح ادا کرنے کی اجازت دی گئی۔ جیل میں پانچ بجے ڈنر تقسیم ہوتا ہے اور اس کے بعد اسکول کی طرز پر وی شانتا رام کی ایک مشہور فلم کا نغمہ اے مالک تیرے بندے ہم۔ بطور اجتماعی دعا پڑھ کر شام کی گنتی ہوجاتی تھی اور قیدیوں کو بیرکوں میں بند کردیاجاتا تھا۔
اس رات بیرکوں سے نکال کر جیل حکام اور سپاہیوں کے سخت پہرہ میں ہم نے تراویح ادا کی۔ اتر پردیش کے اعظم گڑھ سے تعلق رکھنے والے ایک مولوی صاحب نے امامت کی، جو گینگسٹر ابو سلیم کی معاونت کے الزام میں بند تھے۔ نماز کے بعد رقت آمیز دعا بھی کرائی۔ مگر اگلے روز بتایا گیا کہ تراویح کی اجازت واپس لی گئی ہے، مگر الگ الگ بیرکوں میں گنتی اور مقفل ہونے کے بعد نماز ادا کرنے کی اجازت ہے۔ معلوم ہوا کہ اعلیٰ حکام نے سپرنٹنڈنٹ کی سرزنش کی تھی اور دیگر وارڈوں کے قیدیوں نے بھی باجماعت تراویح ادا کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ ہماری بیرک میں بند کل 50 قیدیوں میں سات یا آٹھ کے قریب مسلمان تھے۔
بیرک کے دروازے پر چرس رکھنے کے الزام میں بند ایک بڑے میاں نے ڈیرہ ڈالا ہوا تھا۔ ان کی ایک ٹانگ پولیس والوں نے انٹروگیشن کے دوران ناکارہ کردی تھی۔ انہوں نے جوتے وغیرہ سلیقے سے غسل خانہ میں رکھوا کر نماز کے لیے جگہ خالی کروائی۔ اس دن مجھے معلوم ہوا کہ بیرک میں ہمارا ایک ساتھی حافظ قرآن ہے۔ اس کی کسی بھی حرکت سے حافظ قرآن ہونا تو دور مسلمان ہونے میں بھی شک ہوتا تھا۔ اس کا شمار بیرک کے دبنگ اور سینئر قیدیوں میں ہوتا تھا۔ نئے قیدیوں کی ریگنگ کرنا اور نئی گالیاں تخلیق کرنے میں ان کو ملکہ حاصل تھا۔ بیرک کی اگلی قطاریں جو سینئر قیدیوں کے لیے مخصوص ہوتی تھیں، وہاں پر وہ رات بھر جوا کھیلتے اور نشہ کرتے رہتے تھے۔
بڑے میاں نے تراویح کی امامت کرنے کے لیے ان کو راضی کروایا۔ معلوم ہوا کہ وہ کسی مدرسے کے فارغ تھے، مگر بعد میں بری صحبت کا شکار ہوکر منشیات کا کاروبار کرنے لگے۔ خیر پورے رمضان کے مہینے انہوں نے امامت سنبھالی۔ واقعی نہ صرف وہ حافظ قرآن تھے، بلکہ خوش الحان قاری بھی تھے۔ ان کی قرأت دلوں کو دستک دےکر مخمور کردیتی تھی۔ ان کی اقتدا میں لگتا تھا کہ جیسے واقعی نماز عشق ادا ہو رہی ہے۔ مگر 29 رمضان کی شام جونہی خبر ملی کہ چاند دیکھا گیا ہے اور اگلے دن عید ہے، تو بیرک مقفل ہوتے ہی، امام صاحب چادر اور ٹوپی اتار کر واپس اپنی جگہ لوٹ گئے اور اگلی قطاریں جو ان کی عدم موجودگی کی وجہ سے سونی ہوچکی تھیں، پھر آباد ہوگئیں۔ وہاں ایک بار پھر جوئے اور نشے کی بساط بچھ گئی۔
واہ رے انسان تیرے رنگ۔
رمضان کے مہینے میں اپنی روش کے برعکس جیل حکام نے روزہ داروں کا خاص خیال رکھا۔ اس پورے ماہ ان کو وارڈ، بیرک، غسل خانے صاف کرنے، لنگر ڈیوٹی اور دیگر کاموں سے مستثنیٰ رکھا گیا۔ تہاڑ جیل میں نان ویجی ٹیرین کھانے پر پابندی عائد ہے۔ سبزی اور دال پر گزارہ کرنا ہوتا تھا۔ پانی میں دال اور سبزی ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالنی پڑتی تھی۔ مگر رمضان کے دوران سحری کے وقت جو کھانا تقسیم ہوتا تھا، اس میں تڑکا لگا ہوتا تھا اور نسبتاً اچھی طرح سے پکایا ہوتا تھا۔ اکثر سویابین کی سبزی بھی ملتی تھی، جس سے گوشت کی طلب کسی حد تک کم ہوجاتی تھی۔لگتا تھا کہ لنگر میں پکانے والے مسلمان اور روزہ دار رہے ہونگے، اور وہ بھی روزے داروں کو انسانوں والا کھانا کھلا کر ثواب کمانے کے فراق میں ہیں۔
جس طرح اسکول میں بچوں کا ایک گروپ سا بنتا ہے، اسی طرح بیرک میں بھی قیدیوں کا ایک گروپ بنتا ہے۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ کام تقسیم ہوتے ہیں۔ اگر کسی کی کورٹ میں تاریخ ہے، تو اس کے حصہ کا کھانا لنگر سے وصول کرنا اور بیرک و وارڈ کی صفائی کے لیے بھی باری باری نام دینا وغیرہ۔ میرے گروپ میں ایک کشمیری پنڈت کمپیوٹر انجینیر اروند مکو، دہلی یونیورسٹی کا ایک طالب علم انل کمار اور میرٹھ کے کسی دیہات کا مکین احتشام الدین تھے۔ پنڈت جی کھانے پینے کے بڑے شوقین تھے۔
جب اگلے روز سحری کے کھانے کی میں نے تعریف کی، تو اروند مکو کے منہ میں پانی بھر آیا۔ آؤ دیکھا نہ تاؤ، اس نے بھی جیل آفس جاکر اپنا نام روزہ داروں میں لکھوا دیا۔ سحری میں تڑکے والا کھانا کھا کر تو وہ سو گیا۔ مگر صبح سویرے چائے نہ ملنے سے وہ خاصا مضطرب تھا۔ دوپہر ہوتے ہوتے اس کی حالت خاصی خراب ہوچکی تھی۔ اس کو یقین نہیں آریا تھا کہ ہم واقعی شام تک بھوکے پیاسے رہیں گے۔
وہ اب اس وقت کو کوس رہا تھا، جب وہ اپنا نام روزہ داروں کی فہرست میں لکھوا کر آیا تھا۔ اس دوران اس کو جیل آفس سے بلاوا آگیا۔ مسلم قیدیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے کے لیے ایک ہندو قیدی کا روزہ رکھنا، جیل کے لیے پبلسٹی اور حکومت کے لیے ہندو مسلم رواداری کی علامت تھی۔ میڈیا میں اس کی رواداری اور مسلم ساتھیوں کے ساتھ روزہ رکھنے کی بھر پور پبلسٹی کی گئی۔
واپسی پر پنڈت جی کی حالت نہایت خستہ تھی۔ ابھی افطار میں کئی گھنٹے باقی تھی۔ بس ہم نے اس کو پانی اور کچھ بسکٹ کھلاکر کہا کہ بچپن میں ہم بھی ایسے ہی روزے رکھتے تھے۔ سحری کرنے کے بعد دادی ہمیں دوپہر کا کھانا کھلا کر اس کو بچوں کا افطار کہتی تھیں۔ مکو صاحب یہ یقین ہی نہیں کر پا رہے تھے کہ ہم پورا دن کھائے پیے بغیر گزارتے ہیں۔ مگر اب اس کے ساتھ ایشو تھا کہ چونکہ اس کا نام روزہ داروں کی فہرست میں درج کیا گیا تھا، اس کو ناشتہ اور لنچ نہیں دیا جاسکتا تھا۔
روزہ داروں کی فہرست سے نام نکلوانے میں اس کو اگلے دو تین دن دانتوں پسینہ آگیا۔ معلوم ہوا کہ لین دین کے بعد ہی مذکورہ اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ نے کسی طرح اس کو دوبارہ عام قیدیوں کی فہرست میں شامل کردیا۔ مگر رمضان ختم ہونے تک میں اور احتشام سحری کے تڑکے والے کھانے میں سے کچھ بچا کر اس کے لئے رکھتے تھے۔
رمضان کے دوران جیل حکام نے جس طرح تعاون کیا، وہ عید کے دن مفقود تھا۔ عید سے چند روز قبل ہم نے جیل حکام کو مشورہ دیا کہ عیدکے روز لنگر سے سوئیوں کا انتظام کیا جائے۔ طے ہوا کہ قیدی چندہ کرکے خود سوئیاں منگوائیں۔ چونکہ جیل ڈائٹ کے مطابق ہفتے میں دو بار قیدیوں کو کھیر ملتی تھی، جیل حکام کے ساتھ طے ہوا کہ اس کے لیے جو دودھ آتا ہے، اس سے اس ہفتے سوئیاں بنائی جائیں گی۔ یعنی اس ہفتے اب کھیر نہیں ملے گی۔
قیدیوں نے تقریباً 12 ہزار روپے کی رقم کوپن کی صورت میں جمع کرکے جیل حکام کے حوالے کی۔ جیل کے اندر کوپن چلتےہیں، جو تہاڑ جیل کی اپنی کرنسی ہے۔ ملاقات کے وقت رشتہ دار جیل کے بینک میں باہر پیسہ جمع کرتے ہیں اس کے حساب سے جیل کے اندر قیدی کو کوپن ملتے ہیں۔ اس رقم سے سوئیاں اور خشک میوے خریدنے تھے۔ احتشام نے دیگر وارڈوں میں سوئیوں کا لالچ دےکر رقم جمع کی تھی۔ مگر عید کے روز جب سوئیاں تقسیم ہونے کے لیے آئی، تو دیکھا کہ وہ پانی میں ابال کر تیار کی گئیں تھیں۔ خشک میووں، چینی و دودھ کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ اس ہفتے کھیر بھی نہیں ملی۔
جیل حکام نے دودھ اور قیدیوں سے وصول چندہ کی پیشتر رقم اپنے جیبوں میں ڈال لی تھی۔ پانی میں ابلی ہوئی بغیر شکر کے بے ذائقہ سوئیاں زبردستی کھلائی گئیں۔
جو لوگ آزاد ہیں اور آزاد فضاؤں میں اپنے احباب و أقارب کے ساتھ رمضان کا لطف اٹھا رہے ہیں، ان کو رب کا شکر ادا کرنا چاہئے۔