رمضان کے آخری عشرہ کے خصوصی اعمال

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

اللہ رب العزت نے ہمیں رمضان المبارک کے تین عشرے دیے تھے،دوسرے عشرہ سے ہم گذر رہے ہیں،اللہ کی توفیق سے جتنی عبادت ممکن ہوسکی، کرنے کااہتمام کیا گیا،رحمتوں کے حصول کے ساتھ مغفرت کی امید بھی جگی،اب تیسرا اورآخری عشرہ شروع ہونے والاہے،رمضان پورا مہینہ گورحمتوں اور برکتوں والا ہے،اس کے باوجود پہلے عشرہ کے مقابلہ میں آخری عشرہ کی اہمیت وفضیلت بڑھی ہوئی ہے، اس لیے کہ آخری عشرہ کی طاق راتوں میں ہمیں شب قدر کی تلاش کاحکم دیاگیاہے اورایک شب قدر کی عبادت کاثواب ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے،ذرا سوچیے ! اللہ کی نوازش اور عطا کااگر ہم نے رمضان کی پانچ راتوں میں اللہ کو راضی کرنے کے لیے محنت کرلیا تو سابقہ امتوں کی بڑی عمر اوران کی عباد ت سے ہم کس قدر آگے بڑھ جائیں گے،یہ رات ہمیں یقینی مل جائے اس کی لیے ہمیں اللہ کے دربار میں پڑ جانا چاہیے،اسی در پر پڑجانے کا شرعی نام اعتکاف ہے،جب بندہ بوریا،بستر لے کر اکیس کی رات سے مسجد میں اور عورتیں گھر کے کسی کونے میں جگہ مختص کرکے بیٹھ جاتی ہیں اورشب وروز علائق دنیا اور کاروبار زندگی سے الگ ہٹ کر صرف ذکراللہ،تلاوت قرآن،نماز،تراویح،تہجد میں وقت صرف ہوتا ہے تو اللہ کی خصوصی رحمت اس بندے کی طرف متوجہ ہوتی ہے،اسے شب قدر بھی یقینی طور پر مل جاتی ہے،جو جہنم سے گلو خلاصی کے لیے بڑی اہمیت کی حامل ہے، اس لیے ہر گاؤں،محلہ کی مسجدوں میں اعتکاف کی نیت سے بیٹھنے کا اہتمام کرنا چاہیے،وقت ہواور سہولت میسر ہوتو ان اوقات کا کسی اہل اللہ کی معیت میں گذارنا زیادہ کارآمد اور مفید معلوم ہوتاہے،تزکیہ نفس اور اصلاح حال کے لیے اہل اللہ کی صحبت کیمیا کا درجہ رکھتی ہے،اس لیے اہل اللہ کے یہاں آخری عشرہ کے اعتکاف میں مریدین،متوسلین اور معتقدین کابڑا مجمع ہوتا ہے اور وہ ان کی تربیت کے فرائض انجام دیتے ہیں۔

رمضان کے آخری عشرہ کے خصوصی اعمال
رمضان کے آخری عشرہ کے خصوصی اعمال

جولوگ اعتکاف میں نہیں بیٹھتے ہیں،ان کے یہاں اس سلسلہ میں کافی کوتاہی پائی جاتی ہے،اس رات کی عبادت کی طرف توجہ نہیں ہواکرتی اوراگر ہوتی بھی ہے تو بڑی تعداد ان لوگوں کی ہوتی ہے جورت جگّہ میں اسے گذار دیتے ہیں،مسجد میں بیٹھ کر دنیا جہاں کے گپ میں لگے ہوتے ہیں،ایک تو رمضان کی رات دوسری شب قدر اور تیسرے اللہ کا گھر،ظاہر ہے یہ رت جگے اللہ رسول کے حکم وہدایت کے مطابق نہیں ہیں،اس لیے مسجد میں گپ بازی سے ثواب کے بجائے الٹے وبال کا امکان ہے، اس طرح کی حرکتوں سے گریز کرنا چاہیے،جس قدر شرح صد رکے ساتھ عبادت ہوسکے، کرے،لوگوں کو دکھانے کے لیے رات بھر جاگنا اور لہو لعب میں مبتلا رہنے کاکوئی فائدہ نہیں ہے، اس لیے اس سے اجتناب ضروری ہے۔

بعض حضرات اکیس(21)،تئیس (23)،پچیس(25) اور انتیس (29) تاریخ میں شب قدر کی تلاش کااہتمام نہیں کرتے ہیں،وہ صرف ستائیس (27)کی رات کوہی شب قدر مانتے ہیں اوراس رات میں زیادہ اہتمام کرتے ہیں،یہ طریقہ اس لیے صحیح نہیں ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں شب قدر کی تلاش کاحکم دیاہے،نہ کہ صرف ستائیس کو،ان میں سے بعضے منطقی گفتگو کرتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے سورۃ القدر میں تین بار لیلۃ القدر کاذکر کیا ہے اورایک لیلۃ القدر میں نوحروف ہیں،اس طرح تینوں لیلۃ القدر کے حروف کے اعداد ستائیس ہوتے ہیں، اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ شب قدر ستائیس کی رات کو ہے،لیکن چوں کہ یہ منطق احادیث کے خلاف ہے اس لیے اس کی حیثیت ذہنی ورزش سے زیادہ کچھ نہیں،بعض احادیث میں بھی ستائیس کا ذکر آیاہے؛لیکن محدثین نے طاق راتوں میں تلاش کرنے کی روایت کو درست قرار دیاہے،بعض بزرگوں نے بھی ذکر کیا ہے کہ انہوں نے ستائیس کی شب کو شب قدر پایا،یہ ان کا مکاشفہ ہوسکتا ہے؛لیکن ہم تو پابنداسی کے ہیں جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔

بعض لوگ اعتکاف میں بیٹھ کر بھی اللہ کی عبادت سے زیادہ دنیا کی فکر میں لگے رہتے ہیں،دوسرے معتکفین کے ساتھ غیر ضروری گفتگو میں زیادہ وقت گذار دیتے ہیں،یہ طرز عمل بھی غیر مناسب ہے، اس سے احتیاط برتنا چاہیے۔

تراویح کی نماز اس عشرے میں بھی پہلے دوعشرے کی طرح ہوتی ہے؛لیکن ہمارے یہاں ہندوستان میں تین روز،دس روز،پندرہ روز میں عموماً تراویح میں قرآن کریم سن لیا جاتاہے اورحفاظ سنا لیا کرتے ہیں اور یہ کہاجاتاہے کہ ہماری تراویح ختم ہوگئی،یہ ایک غلط تعبیر ہے جو ہمارے یہاں رائج ہے،تراویح کی نماز چاند دیکھ کر شروع کرنا اور چاند دیکھ کر بند کرنا ہے،تراویح میں پورا قرآن سن لینا ایک کام ہے اور پورے مہینے میں تراویح کی نماز پڑھنا دوسرا کام، اس کی وجہ سے جولوگ تراویح میں ایک قرآن سن لیتے ہیں چاہے وہ جتنے دن میں ہو تراویح پڑھنے میں سستی کرنے لگتے ہیں اور سورہ تراویح پڑھنے کو زائد عمل سمجھتے ہیں،یہ سوچ غیر شرعی ہے، تراویح کی نماز کا اہتمام پورے مہینہ کرنا چاہیے اوراس میں کسی قسم کی کوتاہی کوراہ نہیں دینی چاہیے!موقع نہ ہوتوتنہا ہی پڑھ لے؛لیکن پڑھے،تراویح کی نماز سے محرومی بدبختی کی بات ہے۔

کئی لوگ کسی خفگی،امام سے رنجش،مقتدیوں سے چپقلش کی وجہ سے مسجد حاضر نہیں ہوتے اوراپنے دروازہ پر ہی تنہا نماز پڑھ لیتے ہیں،یہ عام دنوں میں بھی غلط ہے،خصوصاً رمضان المبارک جیسے مہینے میں مسجد میں حاضری سے محرومی بہت افسوس کی بات ہے،ایسے لوگوں کواپنے اعمال کاجائزہ لینا چاہیے کہ جب سارے لوگ مسجد کارخ کرتے ہیں،اللہ نے کس بدعملی یا بے عملی کی وجہ سے رمضان المبارک میں اپنے گھر سے اسے دور کررکھاہے۔

رمضان کے اخیر عشرہ میں ہی عموماً عیدگاہ جانے سے پہلے صدقہ فطر مسلمان نکالتے ہیں،یہ بھی رمضان المبارک کی خاص عبادت ہے،اس سے غریبوں کے لیے نان نفقہ کاانتظام ہوجاتاہے،اس رقم کا استعمال اپنے غریب رشتہ داروں،پاس پڑوس کے محتاجان اور ضرورت مندوں کے لیے کرنا چاہیے،کیوں کہ یہ لوگ اس رقم کے زیادہ مستحق ہیں،آپ کے تعاون سے ان کی عید بھی اچھی گذر جائے گی اور اللہ کی میزبانی کایہ لوگ بھی فائدہ اٹھا سکیں گے،فقہاء کی ایک تعبیر انفع الفقراء کی بھی ہے،یعنی وہ چیز جس سے فقراء کو زیادہ فائدہ پہونچے،صدقۃ الفطر عام طور پر نصف صاع گیہوں یااس کی قیمت جو مقامی ہوتی ہے کے حساب سے نکالا جاتاہے،یہ رقم کم ازکم ساٹھ روپے بنتی ہے؛لیکن اگر کھجور،کشمش وغیرہ سے فطرہ نکالیں گے تو ان اجناس کے گراں ہونے کی وجہ سے قیمت بڑھ جائے گی اوران کی مقدار بھی ایک صاع ہے،اس لیے ہر اعتبار سے یہ فقراء کے لیے زیادہ نفع بخش ہے،اس لیے جو لوگ استطاعت رکھتے ہوں وہ دوسری اجناس سے بھی فطرہ نکالیں تو بہتر ہوگا،یہ ایک مشورہ ہے،ہم کسی پر لازم نہیں کرسکتے کہ وہ فلاں چیز سے ہی فطرہ نکالے،جب شریعت نے اختیار دیاہے تو ہمیں کیا حق پہنچتا ہے کہ کسی ایک چیز کو خاص کرلیں۔

اس عشرہ کا اختتام عیدالفطر کے چاند دیکھنے پر ہوتاہے،عید کا چاند دیکھنے کے بعد رمضان کے رخصت ہونے کی حسرت عید کی خوشی پر غالب آجاتی ہے،اورایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ جس طرح شیطان قیدوبند سے آزاد ہوا،اسی طرح ہم بھی آزاد ہوگئے،پٹاخے پھوڑے جاتے ہیں اوراس رات کو قسم قسم کے خرافات سے آلودہ کیاجاتاہے،نوجوانوں کے لیے یہ رات بھی رت جگّے کی ہوجاتی ہے،حالانکہ حدیث میں اس رات کانام لیلۃ لجائزہ ،انعام والی رات ہے،مہینے بھر جوعبادت کی گئی اس کا انعام اب ملنے والا ہے،ابھی انعام ملا نہیں کہ تماشے شروع ہوگئے،اچھے اچھے لوگوں کودیکھا کہ وہ عید کی صبح فجر کی نماز سے غائب تھے،حالانکہ فجر کی نماز تو فرض ہے،پہلے ہی دن رمضان کااثر ختم ہوگیا،حالانکہ رمضان تربیت کامہینہ تھا اوراس ایک ماہ کی تربیت کااثر گیارہ ماہ تک باقی رہنا تھا،زندگی اور اعمال میں تبدیلی آنی تھی،لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا،اس کا مطلب ہے کہ ہمارے روزے اور عبادتیں اس پائے کی نہیں ہوپائیں جو شریعت کو مطلوب ہے اورجس کے نتیجے میں تقویٰ کی کیفیت پیداہوتی ہے،ذرا سوچیے!اوراپنا محاسبہ کیجئے!شاید اس محاسبہ کے بعد ہم اپنے اندر تبدیلی پیداکرسکیں۔

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare