روزے کے فوائد

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

رمضان المبارک کا مہینہ ہے، مؤمنین صادقین کی ایک بڑی جماعت اس مہینہ کا شدت سے انتظار کرتی ہے، تاکہ وہ اللہ کی رحمت اور مغفرت سے اپنے دامن بھر کر جہنم سے گلو خلاصی پالیں، خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اس مہینہ کو پا کر اپنی بخشش کا سامان کر لیتے ہیں اور اللہ کی رضا انہیں حاصل ہوجاتی ہے، مؤمن کا مطلوب ومقصود یہی تو ہے۔

روزے کے فوائد
روزے کے فوائد

لیکن بعض بدبخت وہ بھی ہوتے ہیں جن کے قلوب اس مہینے میں بھی شیطان کے نرغے میں ہوتے ہیں، شیطان پابند سلاسل ہوتا ہے، لیکن اس کے اثرات کسی نہ کسی درجہ میں انسانوں پر باقی رہتے ہیں، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان کا نفس امارہ ہی شیطان بن جاتا ہے، اور اس ماہ میں چل رہی باد بہاری سے وہ متأثر نہیں ہوتا، بالکل اسی طرح جس طرح رحمت کی برسات بھی اُسّراور بنجر زمینوں میں ہر یالی پیدا کرنے میں ناکام رہتی ہے، ایسے لوگوں کے قلوب پتھروں سے بھی سخت ہوتے ہیں، وہ حسب سابق مسجد کا رخ نہیں کرتے، روزہ نہیں رکھتے اور بہت بے شرمی سے ہوٹلوں میں کھاتے رہتے ہیں، پہلے شرم ایسوں کو آتی تھی، ان کے شرم کی حفاظت کے لیے ہوٹلوں پر پردے پڑے ہوتے تھے اور ایسے لوگ چھپ کر کھا یا کرتے تھے، اب یہ شرم ختم ہو گئی ہے، گھر اور باہر سب جگہ ایسے روزہ خوروں کی بڑی تعداد دیکھنے کو ملتی ہے، گو اب بھی بعض ہوٹلوں پر پردے پڑے ہوتے ہیں، لیکن دن بدن اس میں کمی آتی جا رہی ہے، جو اچھی علامت نہیں ہے۔

ان روزہ خوروں سے پوچھیے کہ سال کے گیارہ مہینے تو کھاتے ہی ہو، ایک مہینہ دن میں اللہ کی خوشنودی کے حصول اور فرض کی ادائیگی کے جذبے سے نہ کھاؤ تو کیا فرق پڑتا ہے تو بڑی لجاجت سے کہیں گے کہ حضرت! طبیعت خراب رہتی ہے، ڈاکٹروں کی ہدایت ہے کہ روزہ نہ رکھوں؛ اس لیے مجبوری ہے یقیناً مریضوں کو چھوٹ دی گئی ہے کہ وہ صحت یابی کے بعد قضاء رکھیں، لیکن عموماً یہ بیماری فرضی ہوتی ہے اوررمضان میں روزہ خوری کے بعد کبھی روزے کی قضا کا خیال بھی نہیں آتا، حالاں کہ روزہ عبادت بھی ہے اور مختلف امراض کا علاج بھی۔

جدید تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ روزہ رکھنے سے جسم کی قوت مدافعت بڑھتی ہے، چوں کہ اعضاء رئیسہ کو روزے کی حالت میں آرام ملتا ہے اور اس آرام کے نتیجے میں ان کی کارکردگی بڑھ جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ رمضان میں معدہ کے مریض کو بھی اسہال کی شکایت نہیں ہوتی، پیٹ خراب نہیں ہوتا، ہارٹ کے مریضوں میں دل کی بے چینی اور سانس پھولنے کی تکلیف کم ہوجاتی ہے، دفاع کی صلاحیت بڑھ جانے کی وجہ سے جسمانی کھچاؤ اور ڈپریشن سے بھی نجات مل جاتی ہے، روزہ خوروں کی ایک بڑی تعداد شوگر کے مریضوں کی ہے، اور انہیں ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق ہر دو گھنٹے پر کچھ نہ کچھ کھانا ہوتا ہے، یہ عذر صحیح ہے، لیکن اگر آپ کی قوت ارادی مضبوط ہے اور اللہ کے فضل پر بھروسہ ہے اور آپ روزہ رکھنا چاہتے ہیں تو اللہ کی نصرت آپ کے ساتھ ہوگی اور شوگر کنٹرول ہو جائے گا۔

یہ صرف خیالات نہیں ہیں، میں برسوں سے شوگر کا انتہائی درجہ کا مریض ہوں، عام حالات میں یہ ساڑھے تین سو سے اوپر رہتا ہے، دوا اور پرہیز سے اس میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے، رمضان میں عموماً یوکے (برطانیہ) میں گذارتا ہوں، جہاں کم وبیش گرمی کے دنوں میں بیس گھنٹے کا روزہ ہوتا ہے، کہاں دو دو گھنٹوں پر کھانا اور کہاں بیس گھنٹے مسلسل روزہ، ڈاکٹروں کی سمجھ میں نہیں آتا، لیکن اللہ کے فضل سے روزے کبھی نہیں چھوٹتے، ایک گلاس جو س افطار کے وقت ایک گلاس جوس سحر کے وقت شوگر کے لیبل کو بڑھا دیتا ہے اور بیس گھنٹے میں افطار کے وقت تک یہ گرکر اپنے لیبل پر آجاتا ہے، ڈاکٹر کو میری یہ منطق سمجھ میں نہیں آتی ہے، لیکن میرا اللہ مجھ پر فضل کرتا ہے اور پورا رمضان اسی طرح گذر جاتا ہے، ضرورت قوت ارادی کی ہے، آپ روزہ نہیں رکھنا چاہتے تو آپ کا نفس جواز کے لیے دسیوں اسباب ومحرکات پیش کردے گا، اور اگر آپ رکھنا چاہتے ہیں تو صرف اللہ کی خوشنودی کے حصول کا جذبہ پورے مہینے آپ کو روزہ رکھنے پر خوش دلی سے تیار کردے گا۔

حال ہی میں شائع ایک تحقیق کے مطابق روزہ کینسر جیسے موذی مرض کی روک تھام میں بھی مؤثر کردار ادا کرتا ہے، اس تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ روزہ کی حالت میں گلوکوز کی کمی ہوجاتی ہے جسم کو جب گلوکوز نہیں ملتا ہے تو قدرتی طور پر چربی کا استعمال شروع کر دیتا ہے، اس عمل کے نتیجے میں پروٹین چھوٹے ذرات کی شکل میں بکھرنے سے محفوظ ہوجاتے ہیں کینسر کے خلیات اور ٹشوز اپنی نشو نما کے لیے ان ذرات کا سہارا لیتے ہیں، روزے کی حالت میں یہ ذرات نہیں ملتے تو کینسر کی نشو نما نہیں ہو پاتی، روزہ موٹا پے کے مریضوں کے لیے بھی نعمت ہے، اس سے وزن کم ہوتا ہے اور روزہ رکھنے والے کو ڈائٹنگ یعنی غذا میں کمی کی ضرورت نہیں پڑتی، جاپان کے ایک ڈاکٹر ٹیسدایوشی ہیسی کے مطابق روزہ رکھنے سے بانجھ پن دور ہوجاتا ہے، اس کا تجربہ ا س نے چھ خواتین پر کیا، جن میں سے چار خواتین، تین مہینے کے ا ندر حاملہ ہو گئیں اور انہوں نے صحت مند بچوں کو جنم دیا، اسی طرح نفسیاتی مریضوں کے لیے بھی روزہ رکھنا مفید ہے، کیوں کہ اس کی وجہ سے ذہنی تناؤ میں کمی آتی ہے اور بندہ کی توجہ ہمہ وقت مولیٰ کی طرف ہوتی ہے جس سے اسے ذہنی سکون ملتا ہے۔

مختصر یہ کہ روزہ خوری عام حالات میں معصیت ہے، سوائے ان لوگوں کے جو واقعتاً مریض ہیں، جو عورتیں حاملہ ہیں، جو دودھ پلا رہی ہیں اور جو لوگ مسافر ہیں ان کو شریعت نے روزہ مؤخر کرنے کی اجازت دی ہے، لیکن مؤخر کرنا اور چیز ہے اور سرے سے روزہ نہ رکھنا بالکل دوسری چیز، اس فرق کو ہمیں ضرور ملحوظ رکھنا چاہیے، سِرے سے روزہ نہ رکھنا ایسا جرم ہے جس کی تلافی کے لیے کوئی کفارہ نہیں ہے۔

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare