شام: تشدد کی نئی لہر کے پیچھے کس کا ہاتھ

افتخار گیلانی

بشار الاسد کی آمرانہ حکومت کے خاتمہ کے بعد جب ایسا لگتا تھا کہ پچھلی ایک دہائی سے زائد عرصہ سے خانہ جنگی کے شکار ملک شام میں اب عوام راحت کی سانس لیں گے کہ ساحلی علاقوں میں تشدد کے واقعات میں ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ کئی نادیدہ قوتوں کو شام کا امن و امان اور استحکام راس نہیں آرہا ہے۔

شام تشدد کی نئی لہر کے پیچھے کس کا ہاتھ
شام تشدد کی نئی لہر کے پیچھے کس کا ہاتھ

برطانیہ میں قائم وار مانیٹرنگ گروپ کے مطابق نئی شامی حکومت کی افواج کے تقریباً 125 اہلکار بھی ہلاک ہوگئے ہیں۔ عبوری صدر احمد الشراع نے قومی وحدت اور داخلی امن کو محفوظ رکھنے کی اپیل کی ہے۔

لطاکیا کے علاوہ تشدد اللاذقیہ اور طرطوس کے صوبوں میں پھوٹ پڑا ، جو شام کے بحیرہ روم کے ساحل پر واقع ہیں اور ملک کی علوی اقلیت کا مرکز سمجھے جاتے ہیں۔

مقامی صحافیوں کے مطابق پچھلے ہفتے جب اسد نواز ملیشیا نے ساحلی شہر جبیلہ اور اس کے گرد و نواح میں سکیورٹی گشت پر حملہ کیا تو اس کے جواب میں شام کے نئے حکمرانوں سے وابستہ فورسز کو تعینات کیا گیا، جس کے بعد علوی برادری کے خلاف انتقامی قتل عام کی خبریں سامنے آئیں۔جھڑپوں کا مرکز اللاذقیہ اور تارتوس تھے، جو شام کی علوی برادری کا گڑھ سمجھے جاتے ہیں، اور جو اسد کے بڑے حامی رہے ہیں۔

اس سے ملحق صوبہ دروز فرقہ کا مسکن ہے، جن کی پشت پناہی اسرائیل کرتا ہے۔ علوی فرقہ پورے شام کی آبادی کا دس سے پندرہ فیصد ہے، مگر اسد حکومت کے دوران چونکہ ان کو مراعات حاصل تھیں اس لیے وہ خاصے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اونچے عہدوں پر برا جمان تھے۔ گو کہ احمد الشراع نے عام معافی کا اعلان تو کر دیا تھا، مگر اکثیرتی سنی آبادی کے ایک بڑے طبقہ میں علوی فرقہ کے خلاف لاوا پک رہا تھا۔ اسد دور کے فوج کے عہدیدار، جو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے مرتکب ہوئے ہیں، نے لطاکیامیں پناہ لی ہوئی تھی۔ شامی عوام کا ایک بڑا طبقہ ان کو احتساب کے دائرے میں لانے پر دباو ڈال رہا تھا۔

علوی اکثریتی علاقے میں حالیہ مہینوں میں وقفے وقفے سے تشدد کی خبریں آرہی تھیں تاحال ایسا کوئی مرکزی گروہ سامنے نہیں آیا جو ان حملوں کی قیادت کا دعویٰ کرتا ہو۔۔ لیکن پچھلے ہفتے جو حملے سیکورٹی فورسز پر کیے گیے، تو ایک گروہ جس نے اپنا نام ’ملٹری کونسل فار دی لبریشن آف سیریا‘ بتایا، نے اس کی ذمہ داری قبول کی۔ اس بیان پر ایک سابق جنرل غیث دالہ کے دستخط تھے۔ وہ اسد حکومت میں فوج کی ایلیٹ چوتھی ڈویژن کے ایک کمانڈر تھے۔

مڈل ایسٹ کو کور کرنے والے صحافیوں کے پاس حالیہ عرصے میں کئی گروہوں کے ویڈیوز آرہے تھے، جن میں مسلح افراد شام کی نئی قیادت کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے تھے اور حملوں کی ذمہ داری قبول کر رہے تھے۔ تاہم آزادانہ طور پر ان کی تصدیق نہیں ہو رہی تھی۔ شام کی انٹلی جنس سروسز کے نئے سربراہ، انس خطیب کے مطابق حالیہ تشدد کے پیچھے سابق اسد حکومت کے فوجی رہنما ہیں، جو مفرور ہیں اور احتساب سے بچنا چاہتے ہیں۔

شام کی وزارت دفاع کے ترجمان کرنل حسن عبدالغنی نے بتایا کہ ہزاروں عسکریت پسندوں نے اپنے ہتھیار ڈال دیے ہیں اور اللاذقیہ کے علاقے المختاریہ، المزیرعہ، الزوبار اور دیگر مقامات کے علاوہ، تارتوس میں الدالیہ، طانطہ اور قداموس کے قصبوں میں کارروائیاں مکمل کر لی گئی ہیں۔

ان جھڑپوں کے بعد شام کے دیگر علاقوں جوابی احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے ہیں، جو حکومت کے سابق عہدیداروں کو سزا دینے اور عام معافی کو واپس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

سینئر ترک صحافی اور تجزیہ کار مہمت اوز ترک کا کہنا ہے کہ لطاکیا میں علوی فرقہ کی بغاوت یا مزاحمت متوقع تھی، مگر شامی حکومت کا اس سے نپٹنے کا طریقہ درست نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ شامی حکومت نے پولیس کو بحال ومضبوط کرنے کے بجائے شہری سیکورٹی جنگجوؤں کے حوالے کی ہے، جو کسی بھی نقطہ نظر سے صحیح نہیں ہے۔

اوز ترک جو ابھی شام کا ایک ماہ کا دورہ کرکے واپس انقرہ لوٹے ہیں کا کہنا ہے کہ سیکورٹی کی ذمہ داری ان افراد کے سپرد کی گئی، جو سابق حکومت کے خلاف انتقام کی آگ میں جلس رہے ہیں۔

بیشترعرب ممالک اور ترکیہ شام میں ایک مضبوط مرکز کے خواہاں ہیں۔ جبکہ اسرائیل اور پورپی ممالک بشمول امریکہ ایک وفاقی نظام کی وکالت کرتے ہیں، جس کے تحت شمال مشرقی شام میں کردوں کو داخلی خود مختاری دی جائے۔ کردوں کے پاس شام کا تیس فیصد علاقہ ہے، جبکہ وہ شام کی آبادی کا صرف دس فیصد ہیں۔ اسی طرح مغربی ممالک ساحلی علاقہ لطاکیہ وغیرہ علوی فرقہ کو اور اسرائیلی سرحد سے ملحق علاقے دروز فرقے کے سپرد کرنا چاہتے ہیں۔ ان دونوں علاقوں کو اندرونی خود مختاری دینے پر دباو ڈال رہے ہیں۔ یہ طاقتیں ایک مضبوط دمشق کو اسرائیل کےلئے خطرہ قرار دیتی ہیں۔

ساحلی خطے میں جس بڑئ پیمانے پر بغاوت ہوئی، اس سے لگتا ہے کہ سابق حکومت کے عہدیداروں کے پاس اسلحہ کی کمی نہیں ہے۔ گو کہ شہری علاقوں میں اس بغاوت کو سختی کے ساتھ کچل دیا گیا ہے، مگر پہاڑی علاقوں میں وہ سرگرمیاں جاری رکھ سکتے ہیں۔ اوز ترک کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ ہے کہ ان علاقوں میں ایرانی حمایت یافتہ شیعہ ملیشیا بھی موجود ہیں، جن میں افغانستان اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے جنگجو بھی شامل ہیں۔ ایران انہیں مدد فراہم کر رہا ہے،تا کہ شام میں اس کا کردار اور اثر و رسوخ برقرار رہے۔

اب جب کہ بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ہو چکا ہے، تجزیہ کاروں جنوبی شام کے درعا کے احمد العودہ کو ایک ممکنہ خطرہ کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔

العودہ، ایک وقت میں اسد کے خلاف بغاوت کا حصہ تھے۔ بعد میں روس کے ساتھ معاہدے کے ذریعے اسد حکومت کے ساتھ’مفاہمت’ کر کے ان کی فورسز کو شامی فوج کے روسی حمایت یافتہ پانچویں کور میں ضم کر دیا گیا تھا۔

جب حیات التحریر الشام کی قیادت میں اپوزیشن گروپوں نے دمشق کی طرف پیش قدمی کی، تو العودہ اور ان کے جنگجوؤں نے جنوب سے دمشق کی طرف پیش قدمی کی تھی۔ مگر الشراع کے پہنچنے سے قبل ہی انہوں نے دمشق کو خالی کردیا تھا۔ روس کے زیر اثر اسد حکومت نے جنوبی شام میں ان کو خود مختاری دی ہوئی تھی۔ وہ بھی اس خود مختاری کو سرنڈر کرنے کےلیے تیار نہیں ہیں۔

مزید یہ کہ اگر شام کے نئے حکمران ملک کو مؤثر طریقے سے چلانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو یہ خطے میں اسلام پسند گروہوں کے لیے ایک بڑا حوصلہ افزا پیغام ہوگا۔

نیویارک میں قائم سوفران گروپ کے پالیسی اور تحقیق کے ڈائریکٹر کولن کلارک کا کہنا ہے کہ یہ اخوان المسلمون جیسے گروہوں کے لیے ایک عملی نمونہ بن سکتا ہے۔

اسی لیے عوادہ جیسے شخص کی اہمیت بڑھ جاتی ہے—جو نہ صرف ایک معروف عسکری شخصیت ہیں بلکہ ان کے متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعلقات بھی ہیں۔

بعض ماہرین کا خیال ہے کہ وہ شام کے خلیفہ حفتر بن سکتے ہیں—یعنی وہ مضبوط فوجی لیڈر جسے متحدہ عرب امارات اور مصر کی حمایت حاصل ہے اور جس نے لیبیا میں اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ حکومت کو چیلنج کیا ہوا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطا بق اگر شام میں کوئی بغاوت شروع ہوتی ہے، تو ایران سمیت متحدہ عرب امارات اورمصری صدر عبدالفتاح السیسی اس کی مدد کریں گے، لیکن یہ اس پر منحصر ہے کہ نئی شامی انتظامیہ کتنی جلدی اور مؤثر طریقے سے استحکام قائم کرتی ہے۔

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare