شہر مونگیر کا ایک یادگار سفر

(فروری ۲۰۲۱)

      طلحہ نعمت ندوی

[شہر مونگیر کا یہ یادگار سفر حضرت مولانا سید ولی رحمانی رحمہ اللہ کی وفات سے ایک د و ماہ قبل ہوا تھا اور بہت یادگار سفرتھا ،افسوس کہ ان سے یہ ملاقات آخری ثابت ہوئی ،اس وقت اس کا خیال بھی نہیںتھا ،یہ سفرنامہ اسی وقت قلمبند کرلیا گیا تھا ،لیکن اب تک کاغذات ہی میںمحفوظ تھا ،کچھ جزوی ترمیم کے ساتھ اب اشاعت کے لئے پیش کیا جارہا ہے]

شہر مونگیر کا ایک یادگار سفر
شہر مونگیر کا ایک یادگار سفر

حضرت بانی ندوۃ العلماء کی قبرپر حاضری کی سعادت ظاہر ہے کہ اسی وقت سے آرزو کا حصہ تھی جب ندوۃ العلماء کے ابتدائی درجات میں زیر تعلیم تھا ،لیکن نہ اس سے قبل قربت وطن کے باوجودکبھی مونگیر کے سفر کا اتفاق ہوا تھا ،نہ طالب علمی کے طویل عرصہ میں اس آرزو کی تکمیل ہوسکی ،فراغت وتکمیل کے بعد تدریس کے مرحلہ میں آکر میں نے اس شہر آرزو کی کی زیارت کا پروگرام بنایا ،تعطیل سرمامیں وطن آیا ہوا تھا ،ایام فرصت کو غنیمت جان کر حضرت والا کی زیارت کے لئے روانہ ہوا ساتھ ہی وہاں کے کتب خانہ سے استفادہ اور حضرت مونگیری کے علوم سے واقفیت بھی پیش نظر تھی ،جاڑے کے دن تھے ،اس لئے سفر میں تاخیر ہوگئی تھی،اورمیں مغرب کے وقت خانقاہ پہنچ سکا تھا ،اور مزار پر حاضر ہوکر

     بجنازہ گر نہ آئی بہ مزار خواہی آمد

 کی تعمیل کی تھی ،اس کے بعد تو گویا ایک سالانہ معمول سابن گیا ،وہاں کے احباب سے مراسم بھی بڑھ گئے تھے ،کچھ ہمارے جاننے والے نئے ندوی وفقاء بھی وہاں کے ارکان تدریس میں شامل ہوگئے ، اس طرح شناساؤں کی وہاں بڑی تعداد ہوگئی ،اس سال بھی بہت دن سے وہاں کے کتب خانہ سے استفادہ کے لئے جانے کا ارادہ تھا ،سردی کے دن ختم ہونے کا انتظار تھا ،اب پروگرام بن ہی رہا تھا کہ مولانا سید یحییٰ ندوی حفظہ اللہ کا فون آیا کہ میں مونگیر میں چند دن رہوں گا ،کیا تم آؤگے ،میں نے عرض کیا میں حاضر ہورہا ہوں ،دو دن کے بعد کا ٹکٹ ملا اور میں خانقاہ رحمانی حاضر ہوگیا ،اور تین دن وہاں رہا ،اس سفر میں آنکھوں نے جو کچھ دیکھا اور کانوں نے جو کچھ سنا وہ سابقہ اسفار سے مختلف تھا ،گذشتہ سال حضرت مونگیری سیمینار میں شرکت کا موقع ملا تھا ،اس کے بعد اب جانے کا اتفاق ہوا ۔

اتوار کی رات کو ۹ بجے داناپور بھاگلپور انٹرسیٹی سے جمال پور اسٹیشن پر اترکر خانقاہ رحمانی پہنچا تو یہاں کے ذرہ ذرہ میں کشش معلوم ہوئی ،مولانا سے ملاقات ہوئی ،پرتکلف کھانے کا نظم تھا ،عشائیہ کے بعد دیر تک مختلف موضوعات پر باتیں ہوتی رہیں ،اگلے دن ناشتہ کے بعد کتب خانہ حاضر ہوا ،مختلف احباب سے ملاقات ہوئی ،جو ضروری استفادہ کرنا تھا کتب خانہ کے وقت میں کرتا رہا ،مولانا سے مختلف مواقع پر باتیں بھی ہوتی رہیں ،ان کی تاریخی وعلمی اور قیمتی معلومات سے مستفید ہوتا رہا ،دوسرے دن شیخ جامعہ حضرت امیر شریعت مولانا سید ولی رحمانی دامت برکاتہم سے گیارہ بجے شرف ملاقات حاصل ہوا ،مولانا کو میری آمد کی پہلے ہی سے اطلاع تھی ،حضرت مونگیری علیہ الرحمہ کے علوم وافادات پر مختلف باتیں ہوتی رہیں ،حضرت والا نے فرمایا کہ یہاں کا بڑا سرمایہ ضائع ہوگیا ،میرے ہاتھ جو کچھ آیا وہ حضرت مونگیری کی چار ڈائریاں ہیں اور ایک رقعہ جو مولانا شاہ لطف اللہ کے نام مولانا شفیع بجنوری نے عملیات کے سلسلہ میں لکھا تھا ،اس زمین میں دیمک بہت ہے ،اس لئے بہت کم چیزیں محفوظ رہتی ہیں ،باربار اس کا خیال رکھنا پڑتا ہے ،ایک بار ایک صاحب خانقاہ کے کسی کمرہ میں دیوار سے لگ کر سوگئے تھے ،دیمک نے ان کی داڑھی کا اوپر کا حصہ صاف کردیا ،پھر ۳۴ میں سخت زلزلہ آیا اس میں بہت بربادی ہوئی ،کئی بار سیلاب آیا ،تقسیم ہند کے موقع پر علاقہ میں فساد ہوا ،تو خانقاہ کا احاطہ ہی پناہ گاہ تھا ،ایک کمرے میں تین چار الماریاں رکھی تھیں ،ان میں قدیم تحریریں تھیں ،والد صاحب اس زمانہ میں شب وروز مسائل کے حل اور فسادات کی روک تھام کے لئے علاقہ کے دورہ پر رہتے تھے ،اس طرح ان اہم کتابوں کی حفاظت نہیں ہوسکی ،پھر ۵۴ میں والد صاحب نے اوپر باضابطہ کتب خانہ بنوایا ، اور چیزوں کی حفاظت کی ،اس وقت کے لحاظ سے کتب خانہ بہت بڑا اور اپ ڈیٹ تھا ،لیکن اب چھوٹا معلوم ہوتا ہے ۔

مولانا آج کل اپنی خودنوشت املا کروارہے ہیں،اس کے ذریعہ بہت اہم تاریخی یادیں محفوظ ہوجائیں گی۔مولانا نے پرائیویٹ سکریٹر ی مولانا وقار الدین لطیفی ندوی وہاں بیٹھے ہوئے تھے ،وہ لکھ رہے تھے ،اور حضرت والا املا کروارہے تھے ،انہوںنے فرمایا کہ انہیں کے اصرار پر یہ کام شروع ہوا ہے ،بہر حال اس مختصر ملاقات کے بعد ہم لوگ واپس آئے ۔حضرت مونگیری اور حضرت مولانا منت اللہ رحمانی کے مزارات پر حاضری ہوتی رہی ،خانقاہ اور مسجد سے متصل ایک چہاردیواری میں حضرت والا ،ان کی اہلیہ اور آخری قبر حضرت مولانا منت اللہ رحمانی کی ہے ،مسجد کے بالکل دوسری طرف اخیر میں اسی طرح کی ایک چھوٹی چہاردیواری میں حضرت مولانا لطف اللہ رحمانی کی قبر ہے ،جو حضرت مونگیری کے بڑے صاحبزادے اور پہلے جانشین تھے ،ان کے ساتھ ان کی اہلیہ اور ان کے صاحبزادے مولانا شاہد روح اللہ رحمانی کی قبریں ہیں ،مولانا سید یحییٰ ندوی سے میں نے معلوم کیا تھا کہ اس شہر میں سیاحتی اور تاریخی جگہیں کون سی ہیں ،مولانا نے فرمایا تھا سیتا کنڈ(حوض ) یہاں بہت مشہور ہے ،سیاحتی جگہ ہے۔

مولانا نے یہ واقعہ بھی سنایا کہ مولانا اسعد مدنی تشریف لائے تو ہم لوگ ان کے ساتھ اس کو دیکھنے گئے ،وہاں کے پنڈت نے پیسے مانگے تو ہم لوگوں نے ان کی طرف اشارہ کردیا کہ یہی بابا ہیں، انہوں نے اپنی جیب سے اچھے خاصے پیسے نکال کر دے دئے ،مولانا شاہد روح اللہ رحمانی کے فرزند رشید سے اس سے قبل اپنی نانہال میں ملاقات کرچکا تھا ،ان کی وہاں عزیزداری ہے ،اس مناسبت سے ان سے تعلق تھا ،نیز مولانا سید یحییٰ ندوی ان کے قریبی عزیزوں میں ہیں ،اس لئے وہ ان سے ملاقات کے لئے آئے تو ان سے گذارش کی گئی ،انہوں نے قبول کیا ،اور شام میں چار بجے اپنی کار سے وہاں لے گئے ،اس حوض اور علاقہ سے ہندؤوں کی دیومالائی روایات وعقیدت وابستہ ہے ،اس لئے ایک بڑا حوض بنادیا گیا ہے،ورنہ اس پورے علاقہ میں گرم پانی نکلتاہے جوہاضم اور صحت کے لئے فائدہ مند ہے ۔

مجھے اس حوض میں کوئی خصوصیت نہیں نظر آئی نہ کوئی دلچپسی محسوس ہوئی ،شہر سے باہر بھی ہے ،اس لئے جانے میں تاخیر ہوئی ،واپسی میں موصوف نے قریب ہی واقع وہاں کی مشہور پیر پہاڑی کی بھی سیر کرادی ،اس پہاڑی کے سب سے اونچے ٹیلہ پر ایک بزرگ کا مزار ہے جو پیر نافع کے نام سے مشہور ہیں ،یہاں کے ایک دوسرے بزرگ پیر لوہانی ہیں جن کا مزار میر قاسم کے تعمیر کردہ قلعہ کی چاردیواری کے احاطہ میں ہے ،لیکن ان دونوں کی شہرت بس عوام ہی تک ہے ، کوئی مضبوط تاریخی روایت نہیں ملتی ،واقعہ یہ ہے جس طرح بہار کے دیگر شہروں ،پٹنہ ،گیا ،بہارشریف ،بھاگلپور وغیرہ میں قدیم تاریخی خانقاہیں ہیں ،اس طرح کی مشہور خانقاہیں یہاں نہیں ہیں ،صر ف ایک ابوالعلائی خانقاہ تھی ،حضرت مونگیری کے قیام کے بعد ہی اس شہر کو خانقاہ رحمانی کی نسبت سے شہرت ملی ،اور ابوالعلائی خانقاہ کا ایک حصہ بھی اسی کے احاطہ میں شامل ہوگیا ۔ اس کے ساتھ یہاں متعدد قد آور قائدین بھی پیدا ہوئے ،انجمن حمایت اسلام جیسی تنظیم بھی قائم تھی اور یہاں سے بالکل ابتدائی دور میں اخبار بھی نکلے ،لیکن اس کے باوجود باضابطہ علماء کی کثرت جتنی حضرت مونگیری کے دور میں نظر آتی ہے اس سے قبل نہیں ،یا جس طرح اس کے پڑوسی شہر بھاگلپور میں نظر آتی ہے،یہ الگ بات ہے کہ ان سے قبل ان کے خواجہ تاش حضرت مولانا سید تجمل حسین دسنوی نے اس شہر کو اپنی اصلاحی سرگرمیوں کا مرکزبنایا تھا اور حضرت مونگیری کویہاں لانے اور قیام پر آمادہ کرنے میں ان کا بہت بڑا ہاتھ ہے ۔

گرچہ کئی پہلؤوں سے اس شہر کی قدامت واہمیت مسلم ہے ،اور اپنے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے اس کی سیاسی اہمیت ہر دور میں مسلم رہی ہے ،چنانچہ مسلم عہد حکومت سے قبل پال حکمرانوں کا دارالحکومت بھی اسی شہر یا اس کے قریب بتایا جاتا ہے ،مسلم عہد حکومت میں شیر شاہ نے اس شہر کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا ،نیز اس کے معاصر بنگالی مسلم سلاطین نے اس پر خصوصی توجہ دی ،کیوں کہ یہ بہار وبنگال کی سرحد تھا،پھر شیرشاہ نے بہار کا دائرہ اس سے آگے بڑھا کرا س کو بہار میں شامل کرلیا ،پھر انگریزوں کے ابتدائی دور میں میر جعفر کے داماد میر قاسم نے اس کو اپنا دارالحکومت بنایا اور یہاں ایک مستحکم قلعہ تعمیر کیا ،اور یہیں بندوق اور اسلحہ کا کارخانہ قائم ہواجو اب تک مشہور ہے ،البیرونی نے اپنی کتاب الھندمیں بنارس سے اگلی منزل مگدھ بتائی ہے اور پھر وہاں سے موگیری (مونگیر)اور وہاں سے چمپا یعنی بھاگلپور کو بتایا ہے ۔اکبر نے جب بہار کو صوبہ بتاکر سات سرکاروں میں تقسیم کیا تو اس میں ایک مونگیر بھی تھا ،جو بعد میں ضلع کی اصطلاح میں تبدیل ہوگیا اور اس میں کچھ جغرافیائی تبدیلی بھی ہوئی کہ گنگا کے دوسرے ساحل کاعلاقہ بھی اس میں شامل کردیا گیا ،جو پہلے سرکار ترہٹ میں شامل تھا ،پھر جب دودہائیوں قبل متعدد نئے اضلاع وجود میں آئے تو ضلع مونگیر کے علاوہ اس سے چھ اضلاع بنے جن میں تین نہر گنگا کے دوسرے حصہ میں ،بیگوسرائے ،کھگڑیا ،اور سہرسہ اور تین ضلعے مونگیر سے متصل اس طرف ہیں ،لکھی سرائے،جموئی ،شیخ پورہ ۔اب مونگیر کی حیثیت کمشنری کی ہے ،لیکن افسوس کہ اتنا قدیم شہر اب تک تمدنی سے اعتبار سے زیادہ ترقی یافتہ نہیں بن سکا ہے ،بلکہ اپنے ما تحت چھوٹے شہروں سے بھی کم ترقی یافتہ نظر آتا ہے ۔

وہاں سے بعد مغرب پیر پہاڑی پر پہنچے ،اس کے بالائی حصہ پر اتر کر دیکھا تو پورا شہر نظر کے سامنے تھا ،اور روشنی سے جگمگارہا تھا ،افق پر شفق کا منظر اس پر مستزاد تھا ،پھر ماہ فروری کی شام ،اس پر کیف منظر نے قلب ونظر کو جو کیف وسرور اور انبساط بخشا اس کی ٹھنڈک اب تک باقی ہے ،پہاڑی کے داہنے طرف شہر بائیں طرف مضافاتی علاقے ،سامنے نہر گنگا ،جس کے بالمقابل شہر کے سامنے کھگڑیا شہر کا ساحل اور دوسری طرف جانب بیگوسرائے شہر کا ساحل بیک نگاہ سامنے تھا ،کچھ دیر اس موسم ونظارہ کا لطف اٹھانے کے بعد ہم لوگ نیچے آگئے ،اور واپس ہوئے ،واپسی کے بعد کمرے پہنچا تو تھوڑی دیر میں امیرشریعت مدظلہ مولانا سید یحییٰ صاحب سے ملاقات کے لئے تشریف لائے ،دونوں بزرگ ایک دوسرے کے عزیز ہیں ،اس لئے ان دونوں بزرگوں کی علمی وخاندانی موضوعات پر گفتگو بہت اہم تھی تقریبا پون گھنٹہ تک مختلف موضوعات پر باتیں ہوتی رہیں ،اور ہم حاضرین اس سے مستفید ہوتے رہے ،حضرت مونگیری کی سوانح زندگی سے متعلق بہت سی اہم باتوں کا علم ہوا ،اذان ہوئی تو جناب والا تشریف لے گئے ۔

اگلاد ن بھی کتب خانہ ہی میں گذرا ،حضرت مونگیری کے آثار علمیہ سے خصوصی استفادہ کرتا رہا ،شام میں رحمانی فاؤنڈیشن پہنچا ،سال گذشتہ حضرت مونگیری پر شاندار سیمینار اسی یادگار عمارت میں ہوا تھا ،محترمی مولانا عبدالرؤوف صاحب سے ملاقات ہوئی ،تو وہاں آنے کی دعوت دی ،لیکن تیسرے دن ہی وہاں جانے کا موقع مل سکا ۔اس شہر کے وسط میں اس فاؤنڈیشن کی پرشکوہ عمارت دعوت نظارہ دیتی ہے ،اور اس شہر کی آبروہے ،یہاں مختلف ٹیکنیکل کالج اور شعبے قائم ہیں ،اس کی چھوٹی سی لائبریری بھی حسن انتظام کا بہترین مظہر ہے ،اور پوری عمارت نفاست وسلیقہ مندی کا اعلیٰ نمونہ بھی ہے ،اور اس کے موجودہ ڈائریکٹر جناب مولانا ظفرعبدالرؤوف رحمانی کے حسن ذوق وخوش مذاقی کی غماز بھی ،اس ادارہ کے تحت مختلف رفاہی وفلاحی کام بھی ہوتے رہتے ،اوربلا تفریق مذہب ہر شخص ان سے مستفید ہوتا ہے ،غرض ہر پہلو سے یہ ادارہ زندہ اور سرگرم عمل ہے ۔مختلف قومی وبین الاقوامی سیمیناروں کا انعقاد اور متعدد وقیع علمی کاموں کی اشاعت بھی اس کے کارناموں میں شامل ہے ،جن میں اس کے موقر بانی ونگراں حضرت امیر شریعت کی عنایت وتوجہ اور مولانا عبدالرؤوف رحمانی کی علمی جد وجہد کا بنیادی حصہ ہے ،اس دن بھی آنکھوں کے علاج اور جانچ کے لئے میڈیکل کیمپ لگا ہو اتھا ،اور عوام کی بھیڑ تھی ،بعد نماز عصر پہنچا تو ڈائریکٹر صاحب کہیں گئے ہوئے تھے ،لیکن انہوں نے اپنے ایک اسٹاف کو فون کرکے میری آمد کی اطلاع دے دی تھی ،جنہوں نے خاطر کی اور میں فاؤنڈیشن کے ذمہ دار واسٹاف کے حسن اخلاق سے متاثر ہوکر مغرب سے قبل جامعہ واپس آیا ۔

قبل نماز عصر مولانا سید یحییٰ صاحب حضرت مونگیری کے مزاز پر فاتحہ خوانی کے بعد تشریف فرما تھے ،انہوںنے یہاں کے اوراق ماضی الٹتے ہوئے بہت سی باتیں بتائیں ،اور اس دور کا ذکر کیا جب ادارہ وخانقاہ خام اور چھپر پوش تھی ،اور فرش صرف مٹی کی تھی ،جو بارش کے وقت بہت زیادہ گیلی ہوجاتی اور پورے احاطہ میں پانی بھرجاتا تھا ،موصوف نے کتب خانہ سے متصل سبزہ زار کے درمیان ایک پرانی قبر کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ اس طرف کا حصہ انہوں نے ہی ہدیہ کیا تھا ،بقیہ زمین خریدی گئی ہے ،پھر بتایا کہ نواب صاحب بہت مالدار تھے ،شاید انہیں کے بارے میں یا ان کے صاحبزادے کے بارے میں یہ بھی بتایا کہ ان کو کمانے کی ضرورت نہیں تھی ،لیکن اس لئے طبابت کرتے تھے کہ غریبوں کو بہت ہی معمولی قیمت پر دوائیں دے کر راحت پہنچا سکیں ۔

بعد نماز مغرب جناب مولانا عبدالرؤوف صاحب سے جامعہ ہی میں ملاقات ہوئی،اور مختلف موضوعات پر گفتگو رہی ،حضرت مونگیری کے علوم وفنون زیر بحث آئے ،سیمینار کے مجموعہ مقالات کا بھی ذکر آیا ،جو چھپ رہا ہے ،آخری مرحلہ میں ہے ،انہوں نے اشاعت سے قبل ایک نظر ڈالنے کی ذمہ داری مجھے بھی دی ہے ۔دوسرے دن صبح میری واپسی تھی ،مولانا یحییٰ صاحب کو بھی اسی دن جانا تھا لیکن پھر ان کا پروگرام موخر ہوگیا تھا ۔

یہ تین دن جو مولانا سید یحییٰ ندوی کی صحبت میں گذرے بڑے یادگار تھے ،یوں تو کئی بار ان سے ملاقات اورتفصیلی باتوں کا موقع مل چکا تھا ،لیکن اس طرح یکجائی کا یہ نادر موقع تھا ،اس دوران بہت سی علمی وتاریخی باتیں اور یادیں مولانا سے سننے کا موقع ملا ،اور ان میں کچھ کو نوٹ بھی کیا گیا ،عصر کے بعد اساتذہ جامعہ مولانا سے استفادہ کے لئے آئے ،ایک دن دو مصری فاضل جو جامعہ میں استاد ہیں اور شاذلی سلسلہ سے تعلق رکھتے ہیں ،ملنے آئے ،مصر کے محققین وعلماء اور طہ حسین اور علامہ عبدالعزیز میمنی کے تذکرے ہوئے ،استاد عبدالحمید بڑے بااخلاق فاضل ہیں ،شاذلی ہیں ،اس لئے مولانا نے کہا کہ آپ ہمیں حضرت شاذلی کی حزب البحر کی اجازت دیجیے ،لیکن ان کو اس کی اجازت نہیں تھی ۔

ایک بار فرمایا کہ میں نے ندوہ میں کبھی اپنے آپ کو مالدار ظاہر نہیں کیا ،حالاں کہ گھر سے بہت پیسے جاتے تھے ،ہمیشہ گھی لے کر جاتا اور اسی کو گرم کرکے کھانے کے ساتھ کھا لیتا ،البتہ جب علی گڑھ گیا تو اپنی رہائش کا نظم تھا ،اور اجرت پر پکانے والے کو رکھا تھا ،بڑے اہتمام سے کھانا بنتا تھا،میرے سوال پر انہوں نے فرمایا کہ انہوں نے داخلہ نہیں لیا تھا ،بلکہ الگ سے مسجد میں مولانا عبداللطیف صاحب بخاری کا درس دیتے تھے ،اس میں خصوصی شرکت کرتے تھے ،نیز بدرالدین علوی صاحب اور علامہ عبدالعزیز میمنی کے درس میں شریک ہوتے تھے ،مولانا کے حافظہ میں بہت سی یادیں محفوظ ہیں ،اور اس درازی عمر کے باوجود حافظہ قوی ہے ،مولانا نے ندوۃ العلماء کا ابتدائی دور دیکھا ہے ،اس دور کی پوری تاریخ ان کی نگاہوں کے سامنے ہیں ،بہار کی علمی اور قدیم تاریخ سے بھی وہ بخوبی واقف ہیں اور اب خود ان کا وجود کسی تاریخ سے کم نہیں۔

جامعہ میں جن احباب واساتذہ سے ملاقاتیں رہیں ان میں نوجوان رفقاء میں بھائی نورالدین ندوی اور صالحین ندوی سے باتیں ہوتی رہیں ،بھائی نورالدین مولانا سے ملاقات کے لئے تشریف لاتے رہے ،دوسرے نوجوان استاد مولانا جنید قاسمی سے مختلف سیمیناروں کے حوالہ سے قدیم مراسم ہیں ،ان کی مولانا مناظر احسن گیلانی پر عربی میں نئی کتاب شائع ہوکر آئی ہے ،جسے دارالعلوم دیوبند نے شائع کیا ہے ،اس سے استفادہ کا موقع ملا ،مولانا نعیم رحمانی صاحب ندی کی عنایتوں کا ممنون ہوں کہ جب بھی حاضری ہوتی ہے ان کی عنایتوں کی وجہ سے کتب خانہ سے استفادہ میں کوئی دشواری نہیں پیش آتی ،موصوف اس بار کچھ خانگی انتظامات میں مشغول تھے ،لیکن حسب معمول کسی قسم کے تعاون سے گریز نہیں کیا ، بلکہ الجامہ کی ایک فائل کی ضرورت تھی جو فی الحال موجود نہیں تھی ،اسے مولانا نے اپنی کرم فرمائی سے منگواکر استفادہ کا موقع عنایت فرمایا ۔دیگر نواجوان ذمہ داران کتب خانہ کا بھی پوری طرح تعاون حاصل رہا ،برادرم امتیاز رحمانی صاحب کا تعاون بھی ہر موقع پر حاصل رہا ،اور ان کی عنایتوں سے مستفید ہوتا رہا ،مصری اساتذہ بالخصوص عبدالحمید شاذلی صاحب سے بھی پر لطف صحبتیں رہیں ،موصوف سے گذشتہ سفر میں صرف ایک بار ملاقات ہوئی تھی لیکن وہ اس بار دیکھتے ہی پہچا ن گئے ،اور ان حضرات کی صحبتوں میں یہ پر بہار لمحات گذارکر اگلے دن مونگیر اسٹیشن پہنچا اورٹرین پر بیٹھ گیا ،جب ٹرین چل کر گنگا کے پل سے گذری تو اس حسین منظر کے ساتھ اس شہر کا ماضی بھی تخیل کے پردہ پر ابھرنے لگا ،یہ میرقاسم کا قلعہ تعمیر ہورہا ہے ،انگریزوں سے اس کی فوجیں معرکہ آرا ہیں ،ادھرمیرقاسم سرنگ میں روپوش ہورہا ہے ،وہ حضرت سید احمد شہید اپنے قافلہ کے ساتھ سفر حج میں کشتی سے ساحل پر اتر کر اس شہر میں آئے ہیں ،واپسی میں ہتھیار خرید رہے ہیں ،ایک مسجد میں ایک برزگ سے ملاقات ہورہی ہے ،ادھر خانقاہ رحمانی کا قیام ہورہا ہے ،قادیانیوں سے مناظرے ہورہے ہیں ،پریس قائم ہورہے ہیں ،ان کے خلاف کتابیں چھپ رہی ہیں ،حضرت مونگیری کے قیام سے اس شہر کی رونق دوبالا ہوگئی ہے ،خانقاہ انہی فقیرانہ آداب کے ساتھ قائم ہے ،چھپر کا سائبان ہے ،لیکن علماء وصلحاء اور اہل علم سے آباد ،آج یہ آرہے ہیں ،کل وہ ،غرض پوری تصویر نگاہوں کے سامنے پھر گئی ،اتنے میں ٹرین سواد شہر سے آگے نکل گئی ۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare