شہید محمد محسن کا قتل،انصاف کے دامن پر ایک داغ
اسلم رحمانی
بہار میں محض پانچ روپے کی چنگی نے انسانیت کو شرمسار کر دیا۔ جہان آباد کے کاکو بازار میں 17 ستمبر 2025 (بدھ) کی شام چُنگی وصولنے والے وکّی پٹیل نے ستر سالہ بزرگ سبزی فروش محمد محسن کو نہایت بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا۔عینی شاہدین کے مطابق، محسن ہمیشہ کی طرح بدھ کی شام اپنی کھیتی کی سبزی لے کر کاکو بازار پہنچے تھے۔ اسی دوران وکی پٹیل نے ان سے پندرہ روپے چنگی کا مطالبہ کیا۔ محسن نے فوراً دس روپے دے دیے اور باقی پانچ روپے بعد میں دینے کی بات کہی۔ بس اتنی سی بات پر پٹیل آپے سے باہر ہوگیا اور اس نے پہلے لاتوں اور گھونسوں سے بے رحمی کے ساتھ محسن کو پیٹا، پھر بٹکھرے سے ان کے سینے پر ایسا وار کیا کہ وہ وہیں ڈھیر ہوگئے۔ زخم اس قدر گہرا تھا کہ محسن نے موقع پر ہی دم توڑ دیا۔مرحوم محمد محسن کا تعلق جہان آباد ضلع کاکو تھانہ علاقے کے پکھن پورہ گاؤں سے تھا۔ وہ نہایت خوش اخلاق اور ملنسار طبیعت کے مالک تھے۔ محسن ہر روز اپنے کھیت کی سبزیاں بیچنے بازار آیا کرتے تھے۔ ان کی المناک موت کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ مشتعل ہجوم نے این ایچ–33 کو جام کر دیا۔

تین گھنٹے تک ٹریفک مکمل طور پر ٹھپ رہا، جیل کی قیدی گاڑی سمیت سیکڑوں سواریوں کو جام میں سسکنا پڑا۔ ہر طرف ماتم کی فضا تھی، نعروں اور آہوں نے ماحول کو رنج و الم سے بھر دیا۔ سب کی نظریں اس معصوم پوتے شمشاد پر ٹکی تھیں جو دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا:”دادا تو بس سبزی بیچنے آئے تھے، انہیں کیوں مار دیا گیا؟” یہ منظر ہر دل کو رلا گیا۔خبر ملتے ہی نو تعینات تھانہ انچارج راہل کمار پولیس دستے کے ساتھ موقع پر پہنچے اور افسران کو حالات کی سنگینی سے آگاہ کیا۔ صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے ایس ڈی ایم راجیو رنجن سنہا، ایس ڈی پی او (صدر) سنجیو کمار سنہا، ایس ڈی پی او (گھوسی)، کاکو بی ڈی او آشی مشرا، سی ای او محمد نوشاد سمیت کئی تھانوں کی پولیس موقع پر پہنچی۔ سیکورٹی کے حصار میں عوام کو سمجھانے اور قابو پانے کی کوشش کی گئی۔ انتظامیہ نےاعلان کیا کہ ملزم وکی پٹیل کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ایس ڈی ایم نے مرحوم کے لواحقین کو سرکاری اسکیم (شکتی یوجنا) کے تحت دو لاکھ روپے مالی امداد اور بیس ہزار روپے فوری راحت دینے کا اعلان کیا۔اس واقعے کے بعد پولیس اور انتظامیہ حرکت میں آئی۔ تھانہ انچارج، ایس ڈی ایم، ایس ڈی پی او، بی ڈی او اور دیگر افسران موقع پر پہنچے۔ حسبِ روایت امن و امان قائم رکھنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن کیا عوام کے زخموں پر صرف تسلی کے الفاظ مرہم رکھ سکتے ہیں؟ سرکاری اعلان کیا گیا کہ مرحوم کے لواحقین کو دو لاکھ روپے مالی امداد اور بیس ہزار روپے فوری راحت دی جائے گی۔ یہ اعلانات عوام کو وقتی طور پر خاموش کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں لیکن ان کا انجام ہمیشہ وہی ہوتا ہے کہ مظلوم کی لاش دفن ہو جاتی ہے، اہلِ خانہ کی آنکھوں کے آنسو سوکھ جاتے ہیں، لیکن قاتل اپنی سیاسی طاقت کے سائے میں دندناتا پھرتا ہے۔مقامی ذرائع کے مطابق، وکی پٹیل اکثر بی جے پی اور حکمراں جماعت کی سرپرستی کا ڈھونگ رچا کر زبردستی وصولی اور غنڈہ گردی کرتا تھا۔ بہار کے نائب وزیر اعلٰی وجے سنہا سمیت بی جے پی کے کئی بڑے لیڈروں کے ساتھ اس کی کئی تصویریں سوشل میڈیا پر وائرل ہیں جو اس کے اثر و رسوخ کی داستان سناتی ہوئی اس کی رعونت کی گواہی دے رہی ہیں۔وکی پٹیل کے بارے میں مقامی لوگ پہلے سے جانتے تھے کہ وہ صرف ایک چنگی وصولنے والا نہیں بلکہ ایک غنڈہ ہے جو اپنی پشت پر سیاسی ہاتھوں کے سبب کسی کو خاطر میں نہیں لاتا۔ اس کی بڑے سیاست دانوں کے ساتھ تصویریں وائرل ہونا محض اتفاق نہیں بلکہ اس حقیقت کی گواہی ہے کہ وہ حکمراں جماعت کے لوگوں کا منظورِ نظر تھا۔ ایسے غنڈوں کو ہمیشہ تحفظ دیا جاتا ہے تاکہ وہ عوام پر دبدبہ قائم رکھ سکیں اور انتخابات میں یا دوسرے مواقع پر پارٹی کے کام آ سکیں۔نتیش کمار سیکولر ازم کے پرجوش نعرے بلند کرتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کے انتظامی اور عملی فیصلے اکثر بی جے پی اور آر ایس ایس کے مفادات کے ساتھ ہم آہنگ نظر آتے ہیں۔ جہاں لفظوں میں مساوات، انسانی حقوق اور عوامی تحفظ کی بات کی جاتی ہے، وہاں عملی طور پر طاقتور عناصر، سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے غنڈے اور فرقہ پرست قوتیں بلاخوف و خطر انسانی زندگیوں پر قابو پاتی ہیں۔ جہان آباد میں پانچ روپے کی چنگی کے لیے محمد محسن کی جان جانا صرف ایک حادثہ نہیں، بلکہ ریاستی طاقت کے غلط استعمال اور سیاسی تحفظ کی کھلی تصویر ہے۔سیکولر ازم کا دعویٰ اور عملی رویے کا تضاد اس واقعے میں پوری شدت کے ساتھ نمایاں ہوا۔ محسن جیسا سادہ، خوش اخلاق اور محنتی انسان، جس کی زندگی قانون کے دائرے میں محفوظ ہونی چاہیے تھی، پانچ روپے کی معمولی تاخیر کے لیے ایک قاتل کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ اور یہ قاتل، وکی پٹیل، اپنے سیاسی تعلقات کی آڑ میں بے خوف و خطر انسانیت کے بنیادی اصولوں کو پامال کرتا رہا۔ کیا یہ سیکولر قیادت ہے، جس کا نعرہ بلند کیا جاتا ہے، یا ریاستی طاقت کا ایسا نظام جو طاقتور اور سیاسی طور پر محفوظ افراد کو تحفظ فراہم کر کے عام شہری کو غیر محفوظ اور بے بس کر دیتا ہے؟یہ واقعہ بتاتا ہے کہ لفظوں میں سیکولر ازم کے دعوے صرف عوام کو بہلانے کا ذریعہ ہیں، جب کہ عملی طور پر ریاستی مشینری بی جے پی اور آر ایس ایس کے اثر و رسوخ میں کام کر رہی ہے۔ انسانی جان، انصاف اور قانونی عمل کی قدر اس نظام میں کمزور پڑ جاتی ہے، اور ہر چھوٹے تنازع میں انسانی زندگی خطرے میں آ جاتی ہے۔ یہ تضاد نہ صرف اخلاقی اور سیاسی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے بلکہ سماجی انتشار، خوف اور نفرت کے ماحول کو بھی فروغ دیتا ہے۔نتیش کمار کی قیادت میں سیکولر ازم کا یہ نقاب پھٹ چکا ہے: لفظوں میں انسانیت، مساوات اور انصاف کا نعرہ لگایا جاتا ہے، مگر عملی میدان میں عام شہری کے حقوق، حفاظت اور زندگی کی قدر کو بالائے طاق رکھا جاتا ہے۔ یہ صرف ایک فرد کی موت کا واقعہ نہیں بلکہ پورے سماجی اور سیاسی نظام کی ناکامی، ریاستی طاقت کی بدعنوانی اور عوام کے ساتھ ہونے والی بے رحمی کا عملی مظاہرہ ہے۔ پانچ روپے کی چنگی نے صرف محمد محسن کی جان نہیں چھینی، بلکہ یہ واقعہ ریاستی قیادت کے سیکولر نعرے کے پیچھے چھپی حقیقت، بی جے پی اور آر ایس ایس کے اثر و رسوخ، اور انصاف کی عدم فراہمی کا دردناک آئینہ بھی پیش کرتا ہے۔
یہی وہ سیاسی ڈھانچہ ہے جس نے بہار سمیت پورے ہندوستان میں غنڈہ گردی کو فروغ دیا ہے۔ اس سانحے نے ایک بار پھر یہ بات ثابت کر دی ہے کہ حکومت اور انتظامیہ کے بلند بانگ دعوے صرف کاغذوں پر رہ جاتے ہیں، عملی طور پر قاتل کو ہی تحفظ دیا جاتا ہے اور مظلوم کو انصاف کے لیے ترسا دیا جاتا ہے۔آر ایس ایس اور بی جے پی کی سیاست نے ملک کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں نفرت اور طاقت ہی سب کچھ بن گئی ہے۔ غریب، کسان، مزدور اور اقلیتیں بالخصوص مسلمان اس نظام کے سب سے زیادہ نشانے پر ہیں۔ جب کوئی مظلوم انصاف مانگتا ہے تو اسے یا تو مالی امداد کے چمکدار وعدوں سے بہلا دیا جاتا ہے یا پھر عدالتی اور پولیس نظام کی پیچیدگیوں میں الجھا کر خاموش کر دیا جاتا ہے۔ وکی پٹیل جیسے لوگ صرف بہار میں نہیں، پورے ملک میں حکمران جماعتوں کے سایے تلے پلتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے حوصلے بلند ہیں اور وہ قانون کو اپنی جوتی پر رکھتے ہیں۔فرقہ پرست میڈیا کا کردار اس سے بھی زیادہ شرمناک ہے۔ یہی میڈیا جو معمولی جھگڑوں کو مذہبی رنگ دے کر دن رات نفرت کی آگ بھڑکاتا ہے، اسی میڈیا کو محمد محسن کے قتل پر بولنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ وہ مجرمانہ خاموشی اختیار کر گیا تاکہ حکومت کے اصل چہرے کو چھپایا جا سکے اور قاتل کے سیاسی آقاؤں کی رسوائی نہ ہو۔ میڈیا کا یہ رویہ دراصل اس نظام کی ایک اور علامت ہے جس میں سچ کو دبا دیا جاتا ہے اور جھوٹ کو ہوا دے کر عوام کو گمراہ کیا جاتا ہے۔ آج میڈیا انصاف کا ساتھی نہیں رہا بلکہ حکومت کا پروپیگنڈہ مشین بن گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی مسائل، کسانوں کے دکھ، مزدوروں کی محرومیاں اور محسن جیسے بے گناہوں کے خون کی کہانیاں ٹی وی اسکرینوں اور اخباروں سے غائب ہو جاتی ہیں۔یہ سوال اٹھنا لازمی ہے کہ جب قاتلوں کو حکومت تحفظ فراہم کرے گی، میڈیا خاموشی اختیار کرے گا، پولیس اور انتظامیہ محض خانہ پری کرے گی تو انصاف کہاں سے آئے گا؟ اس ملک میں عدلیہ ہی وہ واحد ادارہ ہے جس سے عوام کو امید باقی ہے، لیکن اگر عدلیہ بھی سیاسی دباؤ کے آگے جھکنے لگے تو پھر مظلوم کے لیے کوئی سہارا باقی نہیں رہے گا۔ یہ وقت ہے کہ عدلیہ اپنے وجود کو ثابت کرے اور ایسے مجرموں کو سزا دے جو سیاسی رسوخ کے سہارے قانون کو روندتے ہیں۔محمد محسن کے قتل کا سانحہ محض ایک فرد کی جان جانے کی کہانی نہیں بلکہ ایک پورے سماج کا نوحہ ہے۔ جب ایک کسان اپنی کھیتی کی سبزی لے کر بازار آتا ہے تو اس کا مقصد صرف اپنے گھر کا پیٹ پالنا ہوتا ہے۔ لیکن اگر وہ بھی قاتلوں کے نشانے پر ہو، اگر وہ بھی پانچ روپے کی چنگی کے جھگڑے میں جان سے مار دیا جائے تو پھر اس سماج میں کسی کی زندگی محفوظ نہیں۔ یہ پورا منظر نامہ اس بات کی علامت ہے کہ ہندوستان کا جمہوری ڈھانچہ کمزور ہو رہا ہے اور ظلم و ناانصافی بڑھتی جا رہی ہے۔تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب بھی حکومتیں ظالموں کو تحفظ دیتی ہیں تو سماج کا شیرازہ بکھرنے لگتا ہے۔ ملک کے کئی واقعات اس کی گواہی دیتے ہیں جہاں سیاسی سرپرستی میں پلے غنڈے بے قصور لوگوں کی جان لیتے رہے ہیں۔ چاہے وہ مظفر نگر کے فسادات ہوں یا دادری کا اخلاق کا قتل، چاہے وہ جھارکھنڈ میں تبریز انصاری کی لنچنگ ہو یا پہلو خان کا قتل، سب میں ایک بات مشترک ہے کہ قاتل کو یا تو بچایا گیا یا اس کے خلاف کارروائی میں دانستہ تاخیر کی گئی۔ محسن کا قتل بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔آج پورے ملک کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ہم ظلم کے اس نظام کو یوں ہی قبول کر لیں گے؟ کیا ہم اپنی آنکھوں کے سامنے محنت کش کسانوں اور مزدوروں کو قتل ہوتا دیکھ کر خاموش رہیں گے؟ یا پھر ہم اپنی اجتماعی طاقت سے ان مکروہ چہروں کو بے نقاب کریں گے جو قاتلوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں؟ یہ سوال صرف بہار کے عوام کا نہیں بلکہ پورے ہندوستان کے ہر شہری کا ہے۔محمد محسن کی شہادت ہمیں ایک سبق دیتی ہے۔ یہ سبق یہ ہے کہ ظلم جب اپنی انتہا کو پہنچتا ہے تو عوام کی بیداری ہی اس کا علاج بنتی ہے۔ اگر ہم خاموش رہے تو قاتل اور ان کے سیاسی سرپرست اور زیادہ طاقتور ہوں گے، لیکن اگر ہم نے ظلم کے خلاف آواز بلند کی تو ایک دن انصاف ضرور قائم ہوگا۔ یہ سانحہ حکومت، میڈیا، عدلیہ اور سول سوسائٹی سب کے لیے امتحان ہے۔ اگر یہ ادارے اپنے فرائض میں ناکام رہے تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ معاشرے میں قتل اور تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات صرف ایک فرد یا گروہ کی مجرمانہ سرگرمی نہیں بلکہ ایک پیچیدہ سیاسی، سماجی اور ادارتی تناظر کا نتیجہ ہیں۔ حالیہ برسوں میں بھارت کے مختلف حصوں میں ایسے واقعات کی تعداد میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے جہاں مقتولین اکثر مخصوص مذہبی یا سماجی پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں اور قاتلوں کو کسی نہ کسی سیاسی یا سماجی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے۔ یہ پشت پناہی مقامی انتظامیہ، پولیس اور بعض اوقات عدالتوں کی غیر مؤثر کارروائی کی وجہ سے مزید تقویت پاتی ہے، جس سے متاثرہ خاندانوں کو انصاف تک رسائی میں شدید مشکلات پیش آتی ہیں اور معاشرتی عدم تحفظ کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔ سیاسی اثر و رسوخ کی وجہ سے اکثر تحقیقات متاثر ہوتی ہیں، مقدموں میں تاخیر ہوتی ہے اور قاتل بچ نلکتے ہیں، جس سے یہ پیغام عام ہوتا ہے کہ طاقتور افراد کسی بھی سطح پر مجرمانہ کارروائی کر سکتے ہیں اور انہیں کوئی قانونی قیمت نہیں چکانی پڑے گی۔موجودہ سیاسی ماحول میں فرقہ وارانہ سیاست اور ہندو قوم پرستی کی بڑھتی ہوئی لہر نے معاشرتی ڈھانچے پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کے حامیوں یا وابستہ عناصر کے بعض اقدامات اور تقریبات سے معاشرے میں تقسیم اور خوف کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔ یہ عناصر بعض اوقات مقامی انتظامیہ کے تعاون یا خاموشی سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور وہ سرگرمیاں انجام دیتے ہیں جو فرقہ وارانہ حساسیت کو بڑھاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں دیگر طبقات میں عدم تحفظ، خوف اور نفرت پیدا ہوتی ہے، اور معاشرتی ہم آہنگی شدید متاثر ہوتی ہے۔ ایسے حالات میں فرقہ پرست میڈیا بھی اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے بجائے حساس اور مبالغہ آمیز رپورٹس کے ذریعے ماحول کو مزید زہر آلود بناتا ہے۔ سوشل میڈیا، نیوز چینلز اور دیگر ذرائع ابلاغ پر نشر ہونے والی خبر کے انداز اور زبان نفسیاتی دباؤ پیدا کرتی ہے اور سماجی انتشار میں اضافہ کرتی ہے۔عدلیہ اور انصاف کی عدم فراہمی اس صورت حال کو مزید سنگین بنا دیتی ہے۔ عدالتی کارروائی میں تاخیر، مقدموں کی غیر سنجیدہ تحقیقات اور مجرموں کے لیے نرم رویہ معاشرتی نظام کو نقصان پہنچاتا ہے۔ متاثرہ خاندانوں میں مایوسی، بے چینی اور عدم اعتماد پیدا ہوتا ہے اور سماجی پیغام یہ جاتا ہے کہ طاقتور عناصر کے لیے کوئی قانونی رکاوٹ نہیں۔ اس طرح معاشرتی اعتماد کا فریم ورک متاثر ہوتا ہے اور لوگوں کے ذہنوں میں غیر یقینی اور خوف کی کیفیت پروان چڑھتی ہے۔قتل اور تشدد کی وارداتیں صرف انفرادی سطح تک محدود نہیں رہتیں بلکہ پورے معاشرتی دھارے پر اثر ڈالتی ہیں۔ فرقہ وارانہ تشدد معاشرتی ہم آہنگی کو نقصان پہنچاتا ہے، اقتصادی اور سماجی ترقی کے عمل میں خلل ڈال دیتا ہے، اور متاثرہ طبقوں میں نفرت، انتقام اور عدم تحفظ کے جذبات پیدا کرتا ہے جو آئندہ نسلوں تک منتقل ہو سکتے ہیں۔ یہ حالات اس بات کا ثبوت ہیں کہ سماجی انتشار، فرقہ وارانہ تشدد اور انصاف کی عدم فراہمی ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں اور کسی ایک پہلو میں بھی بہتری کے بغیر مکمل اصلاح ممکن نہیں۔
موجودہ حالات میں ضروری ہے کہ پولیس اور عدلیہ مکمل طور پر غیر جانبدار اور شفاف تحقیقات کو یقینی بنائیں، سیاسی رہنماؤں کے لیے فرقہ وارانہ تشدد میں ملوث افراد کے خلاف سخت قانونی کارروائی لازمی قرار دی جائے، اور میڈیا کو ذمہ دارانہ رپورٹنگ کے اصولوں پر پابند بنایا جائے تاکہ معاشرتی نفرت اور انتشار کی لہر کو روکا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشرتی سطح پر رواداری، اتحاد اور بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے لیے تعلیمی بیداری مہم اور عوامی آگاہی کے اقدامات بھی ضروری ہیں۔ اگر یہ اقدامات نہ کیے گئے تو فرقہ وارانہ تشدد اور سماجی انتشار کی بڑھتی ہوئی لہر معاشرے کے ہر طبقے کو غیر محفوظ اور خوفزدہ بنا سکتی ہے اور ملک کے استحکام کو سنگین خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
٭٭٭









