ضیائے حنا

 مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

ضیائے حنا ڈاکٹر عبدالودود صاحب کے صاحب زادہ حافظ محمد ثاقب ضیا اور ان کی بھتیجی حنا فاطمہ کے 10/جون 2025ء کو رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے موقع سے مرتب کردہ سہروں کا مجموعہ ہے، جس کے جمع و ترتیب کا کام خود ڈاکٹر عبد الودود قاسمی نے کیا ہے، یہ چار سو سرسٹھ صفحات پر مشتمل مختیم مجموعہ ہے، جس میں سہرا، تہنیت رخصتی اور منشور دعائیہ کلمات کے ساتھ اردو میں سہرا نگاری کی روایت اور سہرا نگار شعراء کی طویل فہرست دی گئی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ امیر خسرو سے لے کر تا ایں دم شعراء نے اس کی صنفی حیثیت کے کمزور ہونے کے باوجود اس صنف میں خوب خوب طبع آزمائی کی ہے۔

ضیائے حنا
ضیائے حنا

سہرا اصلاً نوشہ و عروس کے رخ روشن اور روئے زیبا پر پھول کی لڑیاں اور ایسی باریک اوڑھنی ڈالنے جو ان کے چہرے کو ڈھک دے کو بولا جاتا ہے، یعنی اچھا خاصہ مرد شادی کے دن چہرہ کا پردہ کر کے مثل اناث ہو جاتا ہے، سالک لکھنوی نے ”میری شادی“ کے عنوان سے اپنی روداد شادی میں لکھا ہے کہ جب مجھے پھول اور اوڑھنی سے ڈھک دیا گیا تو اس کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی، لیکن جب دروازے لگی برات تو اس کی معقولیت تسلیم کرنی پڑی، کیوں کہ ہوتا یہ ہے کہ جب نوشہ دروازہ پر پہونچتا ہے تو دلہن کی سہیلیاں تاک جھانک کر کے دلہن کو بتاتی ہیں کہ لڑکا ایسا ہے، اب اگر مان لیجئے لڑکا اینچا، کانا اور کالا ہو تو وہ دلہن کو لگا آئیں گی اور قاضی جب ایجاب کے لیے آئے گا تو وہ ”ہاں“ کے بجائے ” اَنْ ہہ “ کہہ دے گی اور معاملہ آگے نہیں بڑھ پائے گا، اس لیے احتیاطاً نوشہ کو سہرے سے ڈھک دیا جاتا ہے تا کہ سہیلیاں کانا پھوسی کر کے ولہن کو دلہا کے خلاف بھڑ کا نہ سکیں۔

بعد میں سہرے کی یہ لڑیاں جب خوشی ومسرت کے الفاظ کے ساتھ شعری سانچے میں ڈھلنے لگیں تو وہ نوشہ کے لیے سہرا اور دلہن کے لیے نصیحتوں کے آمیزہ کے ساتھ رخصتی نامہ کہلایا، ہم جب شعراء کی سہرا نگاری کی بات کرتے ہیں تو یہی مقصود ہوتا ہے، میں یہاں اس پر بات نہیں کرنا چاہتا کہ پہلا سہرا کس نے لکھا، ضیائے حنا سہروں کا مجموعہ ہے، اس لیے یہ بات بہت اہم ہے کہ پہلا سہرے کا مجموعہ باضابطہ کب چھپا اور کس شاعر کا چھپا، بہت سارے لوگوں نے ارشد مینا نگری مالی گاؤں ناسک کے مجموعہ ” سہروں کے چہرے ” کو صنف سہرا پر اردو کی پہلی شعری تصنیف قرار دیا ہے، جو صیح نہیں ہے، یہ مجموعہ 2011ء میں چھپا، یہ کس طرح پہلی تصنیف اس صنف میں ہو سکتی ہے، میرے علم میں محمد حسین خان مستخلص محمد کا ”گل باغیچہ ارم” مطبوعہ 1898ء سہرے کا پہلا مجموعہ ہے، اس میں معراج کے دلہا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سامنے رکھ کر سہرا کہا گیا ہے، یہ دلچسپ ایجاد ہے، اس کے بعد دوسرے کئی مجموعے” تہنیت نامہ نشاط” منشی محمد طفیل علی صاحب وفا کی شادی کی تقریب 1903ء میں ریب ۱۹۰۳ء میں چھپی ” عظمت شاہانہ” عظمت نورخان فرزند بن ظریف الملک حضرت چندا پیارے خان بے تک پھیر طوعان خان رام پور 27/ جون 1976 ء "جشن شادی "از شعراء ٹونک بموقع شادی نائب ریاست ٹونک (1257ھ ) منیر اعظمی کے سہرے مرتبہ ڈاکٹر رضوانہ معین، بیکل اتساہی بلرام پوری کی ” رخصتی ” ( یکم دسمبر 1972ء) سہرے ہی سہرے از پروفیسر طلحہ رضوی برق، مرتبہ ڈاکٹر قدسیہ ضیا فاطمہ (مارچ 2008ء) سہرے کی ادبی معنویت ڈاکٹر امام اعظم (2019ء) نوائے آرز و مرتبہ شاہد اقبال بموقع شادی ڈاکٹر نوا امام بن ڈاکٹر امام اعظم اور ڈاکٹر بینش فاطمہ (2021ء) گلدسته شادمانی ( محمد ثناء الہدی قاسمی) متعارف اور مقبول ہیں، ان کے علاوہ سینکڑوں کی تعداد میں مجموعوں کی نشان دہی کی جاسکتی ہے، لیکن مقصود فہرست سازی نہیں، ذہن کے کینوس پر جو ابھر آئے ، اس کا ذکر کر دیا گیا، بارہ مجموعے تو خود ڈاکٹر عبد الودود کے مرتب کردہ ہیں۔

ضیائے حنا
ضیائے حنا

ضیائے حنا اسی سلسلۃ الذہب کی ایک کڑی ہے، اسے آخری نہیں سمجھنا چاہئے، جب تک دنیا قائم ہے، شادیاں ہوتی رہیں گی اور سہرے چھپوانے کی مالی سہولت ہو تو چیزیں چھپتی رہیں گی۔

 ڈاکٹر عبدالودود ( ولادت 16/ اکتوبر 1973ء ) بن الحاج ماسٹر محمد یوسف صاحب ساکن ڈلوکھر، ڈاکخانہ مرزا پور، تھانہ لدنیا، ضلع مدھوبنی ، حال مقیم گلشن فاطمہ محلہ راج ٹولی ، نز د شمع مسجد ، لال باغ ، در بھنگہ ، صدر شعبہ اردو کنور سنگھ کالج لہیر یا سرائے، دربھنگہ، ضیائے حنا کے جامع و مرتب ہیں، ان کا قلمی نام واؤ قاسمی ہے، جو اللہ کے نام کے ورود کا پہلا حرف ہے اور دارالعلوم دیو بند سے فراغت کی وجہ سے قاسمی ، شعری ونثری دونوں تخلیق میں استعمال ہوتا ہے، فاضل حدیث ، اردو فارسی، بی اے بی ایڈ ہیں، مطلب خاصے پڑھے لکھے ہیں، درجنوں اداروں کے ذمہ دار رہ چکے ہیں اور کئی کے اب بھی ہیں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے، عکس سخن، درسگاہ اسلامی فکر و نظر کی بستی، صدائے اعظم ، مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد حیات اور کارنامے، کتاب زندگی معروف ،مشہور اور ان کی مقبول تصنیفات ہیں، مجھ سے بھی بعض کتابوں پر مقدمہ اور پیش لفظ لکھواتے رہتے ہیں۔

ضیائے حنا نوشہ کے نام کے آخری حصہ اور عروس کے نام کے پہلے حصہ کا مرکب ہے، اگر دونوں کے نام کا پہلا جز لیا جاتا تو زوجین میں اتصال کا جو تصور پایا جاتا ہے وہ کہیں دب کر رہ جاتا ، یوں بھی حنا کی روشنی سے ہی زندگی میں رونق آتی ہے، علامہ اقبال نے یوں ہی نہیں کہا ہے کہ ” وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ“ ضیاء اور حنا کے ناموں کے امتزاج میں شاعر نے روشنی اور رنگ کی دو علامتوں کو یک جا کر کے ایک معنوی کا ئنات پیدا کی ہے، یہ دو نام محض دلہا اور دلہن کی شناخت نہیں بلکہ زندگی کی تکمیل اور حسن محبت کے استعارے ہیں۔

مجموعہ میں شامل سہرا، دعائیہ اشعار تہنیت نامے اور رخصتی نامے سبھی اپنے اندر تہذیبی لطافت، اخلاقی پاکیزگی اور خاندانی محبت کی مٹھاس رکھتے ہیں، ان میں دکھاؤ، یا مبالغہ نہیں ، بلکہ اخلاص کی حرارت ہے، جیسے الفاظ خود بخود جذبات کا جامہ پہن کر بہ نکلے ہوں، یہ کتاب محض شادی کے موقع محض یادگار نہیں ، بلکہ یہ ایک ادبی دستاویز ہے جو ہماری سماجی و خاندانی اقدار کی عکاس ہے، یہ مجموعہ ایک باپ کے جذبہ محبت اور دعا کی گہرائیوں کا بیان ہے، ایک محبت نامہ جو نسلوں تک زندہ رہے گا، میں اس اہم کتاب کی جمع و ترتیب پر ڈاکٹر عبدالودود اور ان کے بیٹا بہو کو مبارک باد دیتا ہوں ، ڈاکٹر عبدالودود کو فون کر لیں تو مفت میں یہ کتاب ہاتھ آسکتی ہے گو مفت حاصل کرنے کی عادت اچھی نہیں ۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare