عظمت صحابہ – قرآن واحادیث کی روشنی میں
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
وہ نفوس قدسیہ جنہوں نے حالت ایمان اور بیداری کی حالت میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی ہو اور ایمان پر ہی موت آئی ہو، وہ سب صحابی ہیں، سب کی عظمت پر ایمان رکھنا اسلامی تقاضہ ہے، یہ وہ لوگ ہیں، جنہوں نے اسلام کی ترویج واشاعت کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردیا، اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں باربار ان سے راضی ہونے کا اعلان کیا، انہیں کامیاب اور ہدایت یافتہ قرار دیا، صحابہ کے درجات بھی بیان کیے اور بتایا کہ جو مہاجرین وانصار ایمان لانے میں سبقت لے گیے اور جنہوں نے اخلاص کے ساتھ ان کی پیروی کی اللہ ان سب سے راضی اور خوش ہوا اور وہ لوگ بھی راضی رہے (سورۃ التوبۃ:۰۰۱) یہ بھی فرمایا کہ تم میں سے جن لوگوں نے فتح مکہ سے قبل خرچ کیا اور جہاد میں شریک ہوئے وہ درجہ کے اعتبار سے آگے ہیں ان لوگوں سے جنہوں نے فتح مکہ کے بعد خرچ کیا اور جہاد کیا، حالاں کہ اللہ نے جنت کا وعدہ تو سبھی کے لیے کر رکھا ہے(الحدید:۰۱) سورہ فتح میں ارشاد فرمایا کہ جو لوگ آپ کے صحبت یافتہ ہیں وہ کافروں کے مقابلے میں سخت اور آپس میں مہربان ہیں، رکوع، سجدے میں مشغول ہیں، اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضامندی کی طلب انہیں ہے(سورۃ الفتح:۹۲) قرآن کریم کی ان تصریحات کی روشنی میں یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ صفت صحابہ میں شریک ہونے کے باوجود تمام صحابہ کا مقام یکساں نہیں ہے، پہلا درجہ خلفاء راشدین کا ہے، پھر عشرہ مبشرہ کا، اس کے بعد سابقون اولون کا، جن میں غزوہئ بدر اور احد میں شریک ہونے والے صحابہئ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی شامل ہیں، اس کے بعد تمام صحابہ کرام کا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کے طریقے کو لازم پکڑنا، اس پر اعتماد رکھنا اور دانتوں سے مضبوطی سے پکڑے رکھنا، اسی طرح ارشاد فرمایا کہ میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں جن کی پیروی کروگے ہدایت یافتہ ہوجاؤگے۔

یہ وہ لوگ تھے جن کے قلوب کو اللہ نے تقویٰ کے لیے جانچ رکھا تھا(الحجرات:۰۳) یہی لوگ سچے مؤمن ہیں (سورہئ انفال:۴۷) اللہ رب العزت نے ان کے دلوں میں ایمان کو محبوب، باعث زیب وزینت بنایا اور ان کے دلوں میں کفر، فسق اور گناہوں کی ناپسندیدگی ڈال دی“(الحجرات:۷) ان آیات واحادیث کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ صحابہ کی عظمت اور ان کا مقام بہت بلند ہے، علماء نے لکھا ہے کہ صحابہ کرم کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے جو گرد اڑی، اس مقام کو عام مسلمان تو کجا، اولیاء، قطب اور ابدال بھی نہیں پہونچ سکتے، چنانچہ ان کو بُرا بھلا کہنے سے بھی منع کیا گیا، حضرت ابوسعید خدریؓ کی روایت ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میرے اصحاب کو بُرا بھلا مت کہو(بخاری ومسلم) حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا ارشاد ہے: صحابہ کرام کو گالیاں نہ دو، ان کو وہ مقام حاصل ہے کہ ایک گھڑی ان کی عبادت تمہارے پوری عمر کے نیک اعمال سے بہتر ہے، حاکم نے مستدرک (۲/۲۳۲) میں یہ روایت عویمر بن ساعدہؓ سے نقل کی ہے کہ اللہ رب العزت نے مجھے منتخب کیا، پھر میرے لیے رفقاء اور ساتھی کو منتخب کیا، ان میں سے کچھ کو میرا وزیر، کچھ کو مددگار اور بعض کو میرا رشتہ دار بنایا، تو جو ان کو بُرا کہے گا اس پر اللہ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہوگی، اللہ رب العزت اس کی توبہ اور نفل وفرض عبادت بھی قبول نہیں کریں گے، حضرت عبداللہ بن عمرؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بھی روایت کرتے ہیں کہ جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کو بُرا کہتے ہیں، تو تم کہو کہ تمہاری اس حرکت پر اللہ کی لعنت ہو، ابو زرع رازیؒ کا یہ قول بھی کتابوں میں ملتا ہے کہ جب تم کسی آدمی کو صحابہ کرام کی تنقیص کرتے ہوئے دیکھو تو سمجھ جاؤ کہ وہ زندیق ہے، ابن ہمام نے صحابہ کے عادل ہونے پر اجماع نقل کیا ہے اور یہ حدیث متواتر سے ثابت ہے۔
ہمارے درمیان بہت سے ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو افراط وتفریط کے شکار ہیں، بعض انہیں معیار نہیں مانتے اور بعضے وہ ہیں جو برملا یہ کہتے ہیں کہ ”تنقید سے کوئی بالاتر نہیں“ ہے، بعض حضرات نے اس عنوان سے وھاٹس ایپ پر گروپ بھی بنا رکھا ہے، حالاں کہ ہم سب اس بات کو جانتے ہیں کہ اللہ، رسول، قرآن کریم اور صحابہ کرام کی ذات اقدس تنقید سے بالاتر ہے، کیوں کہ جو کچھ ہمیں ملا ہے وہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کے ذریعہ ہی ہم تک پہونچا ہے، اگر ہم ان پر اعتماد نہیں کریں گے تو سارا اسلامی ذخیرہ مشکوک ہوجائے گا، یہ صحیح ہے کہ بعض تاریخی واقعات سے کمزور ایمان وعقیدہ والے کو خلجان ہوتا ہے، جنگ جمل، جنگ صفین اور اس جیسے واقعات کا سہارا لے کر کوئی حضرت علیؓ کو بُرا بھلا کہتا ہے اور کوئی حضرت معاویہؓ کو، حضرت علیؓ تو خلفاء راشدین میں ہیں، ان کا مقام ومرتبہ تو اعلیٰ وافضل ہے وہ سابقون اولون میں ہیں، داماد رسول ہیں اور مشرکین کے خلاف تمام جنگوں میں شریک رہے ہیں، وہ فاتح خیبر ہیں، ان کے نام کے ساتھ اہل سنت کرم اللہ وجہہ لگاتے ہیں، اسی طرح حضرت معاویہؓ بن ابوسفیان بن حرب (603-680) بھی گو ایک روایت کے مطابق فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے، لیکن وہ صفت صحابہ میں برابر کے شریک ہیں، کاتب وحی ہیں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے برادر نسبتی ہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے ہادی مھدی ہونے کی دعا فرمائی، حضرت ابو بکر صدیقؓ کے عہد میں شام کے محاذ پر جو لشکر گیا تھا، اس میں حضرت معاویہؓ بھی شریک تھے، حضرت عمر فاروقؓ نے آپ کو دمشق کا حاکم مقرر کیا، رومیوں کے خلاف قیساریہ کی جنگ ان کی قیادت میں لڑی گئی، جس میں اسّی ہزار رومی موت کے گھاٹ اتارے گیے، حضرت عثمان غنیؓ کے عہد خلافت میں آپ کو دمشق، اردن اور فلسطین کا والی مقرر کیا گیا، یہ پورا علاقہ شام کے نام سے ان دنوں متعارف ہوا، اسلامی بحری بیڑے کی تشکیل اور قبرص کی فتح کا شمار آپ کے بڑے کارناموں میں ہوتا ہے، ان کا دور حکومت چوبیس سال ہے، انہوں نے اپنے عہد میں رقہ، سوڈان، افریقہ، طرابلیس، الجزائر اور سندھ کے بعض حصوں کو فتح کرکے سلطنت اسلامی کا حصہ بنایا، ان کے دور میں اسلامی حکومت میں وسعت ہوئی اور کوئی علاقہ سلطنت اسلامیہ سے باہر نہیں ہوا، وہ سیاست کے ماہر، معاملہ فہمی اور تدبر میں ممتاز تھے، انہوں نے خوارج کا قلع قمع کیا، الغرض اسلامی تاریخ میں ان کے کارہائے نمایاں کے باوجود جنگ صفین کے حوالے سے انہیں بُرا بھلا کہا جاتا ہے، یہ ایک اجتہادی معاملہ تھا، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خواہش تھی کہ جب اسلامی حکومت کو استحکام ہوجائے اور سب لوگ بیعت کرلیں تب قاتلین عثمانؓ سے قصاص لیا جائے، کیوں کہ اس قتل میں ایک جماعت شامل تھی، حضرت معاویہؓ پہلے خون عثمانؓ کا بدلہ چاہتے تھے، اس اجتہادی اختلاف کے نتیجے میں جنگ صفین ہوئی اور دونوں طرف سے بہت سارے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین شہید ہوئے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے دریافت کیا گیا کہ جنت میں آپ کی جانب کے شہداء جائیں گے یاحضرت معاویہؓ کی طرف کے، فرمایا دونوں طرف کے مقتولین جنت میں جائیں گے، اس قدر شدید اختلاف کے باوجود نہ تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضرت معاویہؓ کے خلاف زبان دراز کیا اور نہ حضرت معاویہؓ نے حضرت علیؓ کے خلاف، ایک دوسرے کے تئیں اکرام واحترام کا جذبہ آخری عمر تک باقی رہا، آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے آخری دور میں حضرت معاویہؓ مہمانوں کے انتظام اور وفود کے استقبال پر مامور تھے، ادھر بعض لوگوں کے سر میں کیا سودا سمایا ہے کہ وہ حضرت معاویہؓ کو بُرا بھلا کہنے پر اتر آئے ہیں، ان کے دلوں میں حضرت معاویہؓ کے لیے بغض ہے، حضرت علیؓ کو برحق ثابت کرنے کے لیے دوسرے کو بُرا بھلا کہنا، کہاں تک صحیح ہوگا، خصوصاً اس شکل میں جب صحابہ کرام کی عظمت، ان کے مؤمنین صادق ہونے کی تصدیق کلام الٰہی اور احادیث نبوی سے ہوتی ہے، تمام محدثین کا صحابہ کے عادل اور ثقہ ہونے پر اتفاق ہے، سارے راوی محدثین کے یہاں جرح وتعدیل سے گذرتے ہیں، سوائے صحابہ کرام کے، وہ سب عادل اور صادق ہیں، حضرت معاویہؓ بھی صحابی رسول ہیں، تین خلفاء راشدین نے ان پر اعتماد کیا، ان کے بارے میں اگر کچھ کتابوں میں مذکور ہے تو اس کی حیثیت خبر آحاد کی ہے اور خبرآحاد کی وجہ سے متواتر کے حکم کو بدلا نہیں جاسکتا، حضرت معاویہؓ کے خلاف ہرزہ گوئی کرنے والے شیعہ اور ان کے متبعین ہیں، ان کی باتوں کا اعتبار اس لیے نہیں کیا جاسکتا کہ وہ تو حضرات شیخین ”حضرت ابوبکرؓ وعمرؓ“ اور حضرت عائشہ کی شان میں گستاخی کرتے ہیں، کچھ دوسرے لوگ بھی ہیں جو تاریخ کی کتابوں کا سہارا لے کر حضرت معاویہؓ پر لعن طعن کرتے ہیں، خوب اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ تاریخ کی کتابوں میں مختلف اغراض ومقاصد کے حصول کے لیے رطب ویابس کا بھی اندراج ہوا ہے، اسے قرآن واحادیث کے مقابلے، حجت اور دلیل نہیں بنایا جاسکتا، اللہ ان لوگوں کو ہدایت دے جو حضرت معاویہؓ کو بُرا بھلا ہی نہیں فرعون تک کہنے سے گریز نہیں کر رہے ہیں، ایسے لوگوں پر مسلمانوں کے غصہ کا اظہار فطری ہے، البتہ صحابہ کو بُرا بھلا کہنے پر جو حکم مفتیان کرام نے لگایا ہے، غصہ کے اظہار کے وقت ان فتاووں کو بھی سامنے رکھنا چاہیے۔