علم و خدمت کا عہد ساز رہنما: مولانا سراج احمد قمرؒ

تحریر: ابوشحمہ انصاری

اتر پردیش کے ضلع بارہ بنکی کے قصبہ فتح پور کی فضاؤں میں جب بھی علم، خدمت اور اخلاق کا ذکر ہوگا تو ایک نام لازمی طور پر دلوں کو منور کرے گا۔مولانا سراج احمد قمرؒ، وہ ایک ایسے رہنما تھے جنہوں نے اپنی پوری حیات کو علم کی ترویج، انسانیت کی خدمت اور اخلاقی قدروں کے فروغ کے لیے وقف کر دیا۔ ان کی شخصیت میں عالم کی سنجیدگی، خطیب کی تاثیر، شاعر کی لطافت اور سماجی رہنما کی جرأت سب جمع تھیں۔ وہ جہاں گئے روشنی پھیلتی گئی اور جہاں بیٹھے لوگوں کے دلوں میں امید اور حوصلے کی کرن جاگ اٹھی۔

علم و خدمت کا عہد ساز رہنما: مولانا سراج احمد قمرؒ
علم و خدمت کا عہد ساز رہنما: مولانا سراج احمد قمرؒ

مولانا سراج احمد قمرؒ کے بارے میں سوچتے ہی ذہن میں اخلاص، محبت، اصول پسندی اور انسانیت کی اعلٰی قدریں ابھرتی ہیں، اور ہر وہ شخص جسے ان کی قربت نصیب ہوئی، وہ ان کے گہرے اثرات سے کبھی خالی نہیں رہا۔ ان کی یاد صرف کتابوں یا واقعات تک محدود نہیں بلکہ ان کے چاہنے والوں کے دلوں میں آج بھی ایک زندہ حقیقت کی صورت باقی ہے۔

مولانا سراج احمد قمرؒ کی ولادت 26 مارچ 1937 کو قصبہ فتح پور کے محلہ فیاض پورہ میں ہوئی۔ ان کا آبائی تعلق قصبہ دیویٰ کے شیخ محلہ سے تھا، لیکن والد محترم نے سکونت کے لیے فتح پور کو مستقل مسکن بنایا۔ ابتدائی تعلیم مدرسہ ضیاء الاسلام، فتح پور میں حاصل کی اور عصری علوم کے لیے آزاد انڈسٹریل انٹر کالج میں تعلیم مکمل کی۔ دینی رجحان والد کی رہنمائی کا نتیجہ تھا، اسی لیے انہیں مدرسہ امداد العلوم، زیدپور بھیجا گیا اور بعد ازاں جامعہ مدینۃ العلوم، رسولی میں اعلٰی تعلیم کے لیے داخل کرا دیا گیا۔ یہاں مولانا عبدالغنی رسولوی کی سرپرستی میں درس نظامی کی سند حاصل کی اور علمی بنیادیں مضبوط ہوئیں۔

تعلیمی سفر کے اختتام کے بعد مولانا سراج احمد قمرؒ نے تدریسی اور انتظامی میدان میں قدم رکھا۔ 1962 میں وہ کرناٹک کے ضلع بیلگام میں جامعہ عالیہ فرقانیہ کے صدر المدرسین مقرر ہوئے، جہاں ان کی علمی بصیرت اور خطبائی صلاحیتیں نمایاں ہوئیں۔ والدہ کی علالت کے باعث وہ چند سال بعد وطن واپس آئے اور والدہ کے انتقال کے بعد مولانا سراج احمد قمرؒ نے عملی زندگی میں مزید سرگرمیاں اختیار کیں۔

سماجی و تعلیمی ترقی کے میدان میں مولانا سراج احمد قمرؒ نے ہمیشہ پہل کی۔ دینی تعلیمی کونسل میں صوبائی منتظم کی حیثیت سے انہوں نے مختلف اضلاع میں دورے کیے اور مسلمانوں میں قرآن، حدیث اور شرعی تعلیم کی ترغیب دی۔ اس کوشش سے سیکڑوں مدارس اور اسکول قائم ہوئے، جو آج بھی ان کی محنت کی یاد دلاتے ہیں۔ پیام انسانیت فورم کے اجلاسوں میں بھی وہ مستقل شریک رہے اور ہر موقع پر انسانیت کے پیغام کو عام کرنے کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا۔

جامع مسجد فتح پور میں امام جمعہ کی حیثیت سے مولانا سراج احمد قمرؒ روحانی رہنمائی کرتے رہے، جبکہ سماجی اداروں کی قیادت بھی سنبھالتے رہے۔ 1975 میں انہیں امام جمعہ منتخب کیا گیا اور وہ اس ذمہ داری پر جب تک حیات رہے قائم رہے۔ 1978 میں آزاد جونیئر انڈسٹریل اسکول کے مینیجر بنے اور اپنی محنت سے اسے ہائی اسکول اور بعد میں انٹر کالج کے درجے تک پہنچایا۔ اسی دوران مسلم آنہ فنڈ فتح پور کے صدر کی حیثیت سے کمیونٹی کی تعلیمی ترقی کے لیے بھی کام کرتے رہے۔

مولانا سراج احمد قمرؒ کے تعلقات علمی و سیاسی حلقوں سے گہرے تھے۔ وہ مولانا ابوالحسن علی ندوی، مرحوم ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی، مولانا علی میاں ندوی اور حکیم شاہ عبدالغنی کے ساتھ قریبی روابط رکھتے تھے۔ ان کا رابطہ قومی سطح کے سیاستدانوں، جیسے ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی سے بھی قائم رہا، جس سے ان کی شخصیت کا دائرہ وسیع ہوا اور عوامی خدمت میں مزید مؤثر ثابت ہوئے۔

سیاسی میدان میں مولانا سراج احمد قمرؒ نے ہمیشہ عوامی مسائل اور پسماندہ طبقات کے حقوق کے لیے آواز بلند کی۔ بیلگام میں اپنی تقریری اور خطبائی مہارت سے انہوں نے عوام میں مقبولیت حاصل کی اور مسلم مجلس کے پلیٹ فارم پر دلت، مسلم اور پچھڑے طبقات کے حقوق کے لیے سرگرم رہے۔ اگرچہ وہ انتخابی میدان میں ہمیشہ کامیاب نہ ہوئے، لیکن ان کے لیے پڑنے والے ووٹ ان کی مقبولیت اور عوامی اعتماد کا منہ بولتا ثبوت تھے۔ بہوجن سماج پارٹی اور سماجوادی جنتا پارٹی کے ٹکٹ پر بھی انہوں نے قیصر گنج پارلیمانی حلقہ سے انتخابات میں حصہ لیا۔

مولانا سراج احمد قمرؒ نہ صرف ایک عالم اور رہنما تھے بلکہ ایک صاحبِ طرز شاعر بھی تھے۔ ان کے نعتیہ مجموعے سراجاً منیراً، جلوے، میکدۂ مجاز، اور جامِ کوثر اہلِ ذوق میں خاص طور پر مقبول ہوئے۔ ان کی شاعری میں روحانیت، اخلاق اور انسانیت کی جھلک صاف نظر آتی تھی، اور وہ اپنے کلام کے ذریعے محبت، اخلاص اور انسانیت کا پیغام عام کرتے رہے۔ غیر مطبوعہ کلام کا وسیع ذخیرہ بھی موجود ہے، جو ان کے تخلیقی وسعت اور فکری گہرائی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مولانا سراج احمد قمرؒ کی شاعری آج بھی لوگوں کے دلوں میں جذبات اور فکری اثر چھوڑتی ہے، اور ان کے مشن کی یاد دلاتی ہے۔

16 ستمبر 1992 کو ایک اندوہناک حادثے نے مولانا سراج احمد قمرؒ کو اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے جدا کر دیا۔ 17 ستمبر کو فتح پور کی متبرک مٹی نے اپنے اس عظیم فرزند کو اپنی آغوش میں لے لیا، جہاں ہزاروں سوگواروں نے اشکبار آنکھوں اور بوجھل دلوں کے ساتھ انہیں آخری الوداع کہا۔

مولانا سراج احمد قمرؒ کی شخصیت علم، اخلاق، خدمت اور قربانی کی روشن مثال ہے۔ ان کی زندگی یہ پیغام دیتی ہے کہ اصولوں پر قائم رہنا، عدل و انصاف کے لیے آواز بلند کرنا اور معاشرتی بھلائی کے لیے مسلسل محنت کرنا حقیقی کامیابی ہے۔ ان کی زندگی کے ہر پہلو میں علم و معرفت، محبت اور انسانی خدمت کی جھلک نظر آتی ہے۔ مولانا سراج احمد قمرؒ نے دکھ، مشکلات اور سیاسی و سماجی چیلنجز کے باوجود ہمیشہ اپنے اصولوں پر قائم رہ کر لوگوں کے دلوں میں اپنی پہچان قائم رکھی۔

ان کی شخصیت آج بھی ایک مشعلِ راہ ہے۔ وہ ثابت کرتے ہیں کہ زندگی کی اصل کامیابی دولت یا عہدوں میں نہیں بلکہ علم، خدمت اور انسانی بھلائی میں چھپی ہوتی ہے۔ مولانا سراج احمد قمرؒ کے افکار، خطابات اور کلام آج بھی نوجوانوں، طلبہ اور عوام کے لیے رہنمائی اور تحریک کا ذریعہ ہیں۔ ان کے کردار، قربانی اور اخلاقی معیار ہر اس فرد کے لیے سبق ہیں جو معاشرتی بھلائی اور انسانی خدمت کو اپنی زندگی کا مقصد بنانا چاہتا ہے۔

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare