علی گڑھ تحریک ، مسلم یونیورسٹی اور مولانا آزاد

تکلف برطرف : سعید حمید

 تاریخ ایک ایسا موضوع ہے جسے حقائق کی روشنی میں پیش کیا جانا چاہئے ،

عقیدت یا جذبات کے زیر اثر نہیں ، اور ہمارا المیہ ہے کہ جہاں ہم اندھ بھکتی کا الزام دوسروں پر عائد کرتے ہیں ،

ہماری قوم نے بھی کئی شخصیات کے متعلق ایسا اندھی عقیدت والا رویہ اختیار کیا ہے کہ اس عقیدہ کے برخلاف ہم کسی بھی سچائی کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ۔

اگر آج اکیسویں صدی کا بھارتی مسلمان اس بات سے متفق ہے کہ بیسیویں صدی کے مسلمانوں کا سب سے عظیم و تا ریخی کارنامہ آج سے سو سال قبل علی گڑھ میں ’’ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی‘‘ کا قیام تھا ۔ اگر آج کا مسلمان اس بات کو بھی تسلیم کرتا ہے کہ گذشتہ سو سالوں میں علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی نے ’’ملتِ اسلامیۂ ہند ‘‘ کی عظیم الشان اور بے مثال خدمت کی ہے ۔

علی گڑھ تحریک ، مسلم یونیورسٹی اور مولانا آزاد
علی گڑھ تحریک ، مسلم یونیورسٹی اور مولانا آزاد

اگر آج کا مسلمان یہ سوچ کر ہی چکرا جاتا ہے کہ خدا نخواستہ ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی قائم نہیں ہو تی ، تو آج بھارت کے مسلمانوں کا ( اعلی تعلیم کے لحاظ سے ) کیا حال ہوتا ؟

تو پھر آج کا مسلمان اس بات سے بھی اتفاق کرے گا کہ جو لوگ ایک زمانہ میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی تحریک کے دشمن تھے ۔ وہ مسلمانوں کے بھی دشمن تھے ۔ جن لوگوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام کی مخالفت کی ، یا اس کے منصوبہ کو سبوتاژ کرنے کی سازشوں میں حصہ لیا ، وہ بھی مسلمانوں کے دشمن ہی کہلائے جا سکتے ہیں ۔

تو کیا آپ یہ اعتراف کریں گے کہ مولانا ابولکلام آزاد بھی مسلمانوں کے دشمنوں کی صفوں میں ہی تھے ؟

 تار یخ گواہ ہے کہ مولانا ابو لکلام آزاد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی تحریک کے کٹر ّدشمن تھے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیا م کے سخت مخالفین میں شامل تھے ۔اس سلسلہ میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ہی ایک پروفیسر جناب عارف الاسلام کی کتاب ؛ ’’ مسیحا کون ؟ سر سید یا آزاد ‘‘ چشم کشا قرار دی جاسکتی ہے۔

 یہ کتاب تاریخ کے ان گوشوں کو روشن کرتی ہے جنہیں اندھی بھکتی اور شخصیت پرستی کی عینک لگانے والوں نے غفلت کی تاریکی میں پوشیدہ کر رکھا ہے ۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ تاریخ اور تاریخی شخصیات کی تاریخ کا مطالعہ اندھ بھکتی ، اندھی عقیدت اور اسیٹیریو ٹائپ سوچ سے ہٹ کر حقائق کی روشنی میں کیا جائے ۔

آج ہم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور اس کے اقلیتی کردار ( مسلم کردار ) کے مخالفین کی گنتی علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے دشمنوں کی فہرست میں کرتے ہیں ، اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو جب آزادی کے بعد شب خون مار کر ختم کرنے کی کوشش کی گئی ، تب بھارت کے مسلمانوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی کیلئے زبردست مہم چلائی ۔

اسلئے آزادی کے بعد بھارت کے مسلمانوں کا یہ متفقہ فیصلہ ہوچکا کہ جو کوئی شخص یا ادارہ ، یا اخبار ، یا تنظیم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا دشمن ہے ، وہ بھارت کے مسلمانوں کا دشمن ہے ۔

اور جو کوئی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا مخالف ہے ، وہ بھارت کے مسلمانوں کا مخالف ہے ۔

تو کیا یہ فارمولہ آزادی سے قبل کی تاریخ پر نافذ نہیں ہو سکتا ؟

اور اس آئینہ میں اگر مولانا ابولکلام آزاد کا کردار پرکھا جائے ، تو کیا حقیقت سامنے آتی ہے ؟

تو کیا ہم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ہی ایک مصنف ، دانشور ، پروفیسر عارف الاسلام کی کتاب کو اندھ بھکتی یا اندھی تقلید کے جذبات کی رو میں نظر انداز کردیں ؟

اس پر غور و فکر نہیں کریں ؟

 ایک طرح سے اس کتاب میں پروفیسر عارف الاسلام نے مولانا ابولکلام آزاد اور ان کے جرائد کی علی گڑھ تحریک سے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے دشمنی کا پوسٹ مارٹم کر ڈالا ہے ۔اور جو حقائق پیش کئے انہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ اسلئے یہ کتاب بھی ہمارے مطالعہ اور اٹھائے گئے سوالات کے جوابات حاصل کرنے میں کافی مددگار ثابت ہو سکتی ہے ۔

انگریزوں کے ساتھ جو جدید تعلیم بھارت میں داخل ہو چکی تھی ، اس کے متعلق اس زمانہ کے دور اندیش لوگوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ انگریز ایک دن چلے جائیں گے لیکن انہوں نےجو تعلیمی نظام قائم کردیا ، وہ آزاد بھارت میں بھی قائم رہے گا اور بھارت کی تمام اقوام کیلئے ترقی کی کنجی بھی اسی نظام کے ماتحت تعلیم میںہی ہوگی ۔

یہ بات سر سید ّاحمد خان نے بھی سمجھ لی تھی ، یہ بات بدرالدّین طیب جی اور ان کے رفقا ء بھی سمجھ چکے تھے ۔ یہی بات بہوجن عوام کے رہنما مہاتما جوتی با پھلے ، چھترپتی شاہو مہاراج ، ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر بھی سمجھ رہے تھے ۔

لیکن اسی عصری تعلیم کے متعلق مولانا ابولکلام آزاد کا نظریہ کیا تھا ؟

 ( جو آزادی کے بعد اس ملک کے پہلے وزیر تعلیم بھی بن گئے ؟ )

پروفیسر عارف الاسلام اپنی کتاب ’’ مسیحا کون ؟ سر سید یاآزاد ‘‘ میں لکھتے ہیں ؛

’’ مسلمانوں کی گمراہی ، تعلیم ، مسلم یونیورسٹی اور مسلم لیگ ‘‘

الہلال ستمبر ۱۹۱۲ ء کی اشاعت میں ، مولانا نے ’بنیادی گمراہی ‘ کے عنوان سے ایک مضمون شایع کیا ۔

 یہ مضمون مولانا آزاد کی فکر کا آئینہ دار ہے کہ اس زمانہ میں وہ کس انداز میں سوچتے تھے اور کن کن کاموں کو مسلمانوں کیلئے مضر سمجھتے تھے ۔تعلیم اور مسلم یونیورسٹی کو بھی مولانا مضرت رساں سیاست پر قربان کردینے کے حق میں تھے ۔ جس انداز سے اور جن الفاظ میں وہ اپنے خیالات کا اظہار کیا کرتے تھے ، وہ ایک قابل توجہ بات ہے ۔

مولانا ہندوؤں کو ملک میں کام کرنے والی اصلی جماعت سمجھتے تھے ۔

سر سیدّ کی تعلیمی تحریک اور بعد میں مسلم یونیورسٹی تحریک ؛ دونوں مولانا کی نظر میں اس لئے شروع کی گئی تھی کہ مسلمان ہندوؤں سے علیحدہ رہیں ، یعنی مسلمان کانگریس میں شامل نہ ہوں ۔

( گویا اگر ایک زمانہ میں اور آج بھی ایک فرقہ پرست طبقہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو مسلم لیگ اور پاکستان سے جوڑتا ہے ، اسلئے اینٹی نیشنل سمجھتا ہے ، تو کیا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی مخالفت میں مولانا آزاد کے خیالات کچھ کم ایذا رساں رہے ہونگے ؟ بہر کیف ۔۔۔)

 مولانا آزاد مزید فرماتے ہیں :

’سب سے پہلے یہ ہوا کہ ملک میں کام کرنے والی اصلی جماعت یعنی ہندوؤں سے مسلمان الگ ہوگئے ۔اس طرح عرصہ تک کیلئے ملکی مطالبات کی فتحیابی سے گورنمنٹ مطمئن ہوگئی اور ساتھ ہی یہ بھی ضروری تھا کہ ان کو بیکار نہیں بیٹھنا چاہئے ورنہ بیکاری سے اکتا کرراستہ کی تلاش میں ضرور نکلیں گے ۔کوئی مشغلہ ایسا ہونا چاہئے جو عرصہ تک ان کو اپنے آپ میں الجھائے رکھے اور اصلی کاموں کی طرف توجہ دینے کی فرصت نہیں دے ۔تعلیم کو مسلمان پہلے ہی سے لئے بیٹھے تھے ، اسی لئے اعلی تعلیم کے بال و پر پھیلا کر ایسا الف لیلہ کا عجیب الخلقت پرندہ بنایا جو اپنا پر کھول دے تو سورج کو زمین پر جھانکنے کیلئے کوئی سوراخ تک نہ ملے ۔‘

( الہلال ، ستمبر ۱۹۱۲ ء صفحہ : ۸ )

’’یعنی سر سید ّنے اعلی تعلیم کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے ، مسلمانوں کو اس طرف راغب کرنے کی جو کوشش کی اس کے پس پردہ یہ سازش تھی کہ مسلمان ہندوؤں سے علیحدہ ہوجائیں ، جو مولانا کی نظر میں کانگریس کے جھنڈے تلےحریت کی تحریک چلا رہے تھے ۔

مولانا نے خیال ظاہر کیا کہ جس وقت ملک کی جائز آزادی کے مطالبات میں ہندو اپنا وقت اور روپیہ خرچ کر رہے تھے ،مسلمان تعلیم کی ٹھنڈی لاش لئے پھر رہے تھے ۔ایسا لگتا ہے مولانا تعلیم کے معنی سے ہی نا واقف تھے ۔ورنہ تعلیم کو ٹھنڈی لاش سے تشبیہ دینا کسی نا سمجھ آدمی کا ہی کام ہو سکتا ہے ۔‘‘ ( صفحہ : ( 260 / 261

یہ اقتباس ان قارئین کیلئے انتہائی نا قابل یقین ہوسکتا ہے ، جو مولانا ابولکلام آزاد کو بھارت کے پہلے وزیر تعلیم کے طور پر ہی جانتے ہیں کہ جنہوں نے آزاد بھارت میں برٹش سرکار کے ہی قیام کردہ اسکولوں ، کالجوں ، یونیورسٹیوں کے نظام کو ہی آگے بڑھایا، آئی آئی ٹی ، یونیورسٹی گرانٹس کمیشن وغیرہ کا قیام کیا ۔

 بھارت کے پہلے وزیر تعلیم کی حیثیت سے انہیں یہ تعلیمی نظام ’ٹھنڈی لاش ‘ کیوں نہیں لگا ؟

 اور انہوں نے مدرسوں ، آشرم شالاؤں کا نظام کیوں رائج نہیں کیا ؟

 اس ٹھنڈی لاش کوٹھکانے لگانے کی بجائے اسی کو زندہ لاش کیوں بنا دیا ؟

 پروفیسر عارف الاسلام کی کتاب میں اس انکشاف کی روشنی میںیہ سوال اٹھائے جا سکتے ہیں ۔

اس سے مولانا ابولکلام آزاد کی متضاد شخصیت کا بھی سراغ لگتا ہے ۔

( ماخوذ ؛ کتاب ، تحریک خلافت یا تاریخی حماقت: مصنف ؛ سعید حمید )

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare