غزہ: زندگی کی آوازیں لوٹ آئی ہیں — مگر کب تک؟
افتخار گیلانی
پورے دو سالوں کے بعد غزہ کے فلسطینی مکین سمندر کی لہروں، پرندوں اور اپنے بچوں کی آوازیں سن پا رہے ہیں۔
اسرائیلی بمباری، دھماکوں، چیخوں اور زخمیوں کے کراہوں کے درمیان لوگ زندگی کی علامتی آوازیں بھول گئے تھے۔ غزہ میں موجود صحافی احمد درمَلی مجھے بتا رہے تھے کہ بارود کی گھن گرج میں وہ بحیرہ روم کی لہروں کی گرج کو بھول چکے تھے۔

اسی طرح چوبیس سالہ فلسطینی ماں وِیام المصرِی بتار رہی تھی کہ جنگ بندی کے بعد اب وہ پہلی بار اپنے دو ماہ کے بیٹے سمیح کے رونے کی آواز سن پارہی ہے۔ جب اسرائیل اور حماس نے مصر کے شہر شرم الشیخ میں امن دستاویز پر دستخط کیے، جو غزہ سے صرف 300 کلومیٹر دور ہے، تو میزائلوں کی سائیں سائیں اور ڈرون کے شور نے پہلی بار خاموشی اختیار کی، جو فلسطینیوں کی روزمرہ کی زندگی کا حصہ بن گئی تھیں۔
درملی بتارہے تھے کہ اکتوبر 2023 سے قبل وہ اکثر ساحل پر چہل قدمی کرنے آتے تھے۔ مگردوسال سے ہر لمحہ بھاگ دوڑ سے اور بس اس قدر سوچنے تک محدود رہا کہ کیسے جسم و روح کا رشتہ برقرار رہے۔
وِیام کا کہنا تھا کہ یہ سکون اُن لوگوں کے لیے نعمت ہے جنہوں نے دو برس تک موت کی گرج سنی ہو۔ سب سے بھیانک ڈرونز کی آوازیں ہوتی تھیں؛
وہ بار بار ہمارے خیمے کے بالکل اوپر آ کر رک جاتے تھے۔ نیچے پہلے تو سبھی کی سانسیں رک جاتی تھیں، پھر نفسا نفسی کے عالم میں کچھ سنائی نہیں دیتا تھا اور اسی دوران ڈرون کسی کے اوپر بم گرا کر یا گولیوں کی بوچھاڑ کرکے اگلی منزل کی طرف روانہ ہو جاتا تھا۔اب میں کھجور کے درختوں کی شاخوں پر موجود چڑیوں کی آوازیں سن سکتی ہوں۔ میں اپنے بچے کی آواز سن سکتی ہوں۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی،جسے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے پیش کردہ 20 نکاتی منصوبے کا پہلا مرحلہ کہا جا رہا ہے،نے فی الحال فضائی اور زمینی حملے روک دیے ہیں۔ اسرائیلی افواج طے شدہ حدود کے اندر پیچھے ہٹ گئی ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں یہ امن نہیں، بلکہ ایک وقفہ ہے۔ مگر غزہ کے لیے، وقفہ بھی زندگی ہے۔دوپہر تک ساحلی الرشید سڑک لوگوں سے بھری تھی۔ مرد، عورتیں، بچے پیدل، ٹرکوں، سائیکلوں اور موٹر بائکوں پر سوار رواں تھے۔
پچھلے دو سال سے اسرائیلی قبضہ کے بعد اس سڑک پر چلنے کی ممانعت تھی۔ ان دوسالوں میں غزہ کے محلے مٹ چکے ہیں۔ زمینیں بنجر ہو چکی ہیں۔’زرقہ، النَّزہ، الغُباری، جبالیا البلد — سب محلّے کھنڈرات بن چکے ہیں۔
ہر گفتگو موت کے حساب سے شروع ہوتی ہے: دو برسوں میں 67,000 سے زیادہ ہلاک اور 169,000 زخمی، مقامی صحت حکام کے مطابق۔ ہزاروں لاپتہ اب بھی ملبے کے نیچے دفن ہیں۔ جنگ بندی کے بعد بھی سول ڈیفنس اہلکاروں نے اب لاشیں نکالنے کا کام شروع کر دیا ہے۔
امدادی ایجنسیاں کہتی ہیں کہ اگر تمام کراسنگز کھل گئیں تو روزانہ 600 ٹرک تک خوراک اور سامان داخل ہو سکتا ہے۔اسرائیلی محاصرے کے دوران بھوک اور غذائی قلت سے 463 افراد — جن میں 157 بچے تھے — جاں بحق ہوئے۔کھیتوں تک رسائی ممکن نہیں، اسکولوں کی عمارتیں ملیامیٹ ہیں، ہر یونیورسٹی کو نقصان تباہ کردیا گیا ہے۔ غزہ کی 95 فیصد آبادی بے گھر ہے۔بیشتر افراد کو ایک سے زائد باربمباری سے بچنے کیلئے نقل مکانی کرنی پڑی ہے۔
ساحل کے پاس 73 سالہ ماہی گیر احمد الحِصّی اپنے جال کی مرمت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اُسے’امن کی آوازیں ‘دوبارہ سیکھنے میں وقت لگے گا۔
اُس کا بیٹا خالد نومبر 2023 میں بندرگاہ کے قریب اسرائیلی بحریہ کی گولہ باری میں مارا گیا، اور خالد کی بیوی ثریا کچھ دن بعد اسرائیلی بمباری کی وجہ سے عمارت گرنے سے جاں بحق ہو گئی۔ اُن کے تین بچے صرف اس لیے بچ گئے کہ وہ نچلی منزل پر تھے۔’راتوں کو ہم دھماکوں سے جاگ اٹھتے اور بچوں کو سینے سے لگا لیتے۔ ہر آواز موت کا اشارہ لگتی تھی۔ اسی لیے آج کا سکون غیر حقیقی لگتا ہے۔’
یہ جنگ بندی کاغذ پر سادہ مگر عمل میں پیچیدہ ہے۔ابھی تک پہلا مرحلہ بخوبی طے پا گیا ہے، کیونکہ اس میں زیادہ تر شرائط حماس کو پوری کرنی تھیں۔ مگر جب شرطوں کو پور ا کرنے کی باری اسرائیل کے پاس آجائےگی، تو اس کے ماضی کے طرزعمل کو مد نظررکھتے ہوئے شاید ہی وہ امن کو دائمی بنانے میں مدد دےگا۔
حماس نے اپنی تحویل میں تمام زندہ اسرائیلی قیدیوں کو رہا کر دیا ہے۔ اسرائیل نے بھی اس کے بدلے دوہزار فلسطینی قیدی رہا کر دیے ہیں۔اسرائیل کی جیلوں میں اس وقت تقریباً 11 ہزار فلسطینیوں قید ہیں۔
اس منصوبے میں اب مرحلہ وار اسرائیلی انخلا، ایک بین الاقوامی’استحکام فورس’کا قیام، اور عبوری سول انتظامیہ کی تشکیل شامل ہے جو اس دوران غزہ کا نظم سنبھالے گی۔
انقرہ میں ترک وزیر خارجہ حقان فیدان نے واضح کردیا کہ’سیز فائر کے بعد غزہ کو 7 اکتوبر 2023 کی پہلے والی پوزیشن میں نہیں لایا جائےگا۔ کیونکہ جنگ کے اسباب ہی وہ حالات تھے۔’انہوں نے کہا کہ ترکیہ امریکہ، قطر، مصر اور سعودی عرب کے ساتھ زمینی سطح پر عملدرآمد کی نگرانی کرے گا۔
خارجہ پالیسی کے ماہر رمزی چَتین نے اخبار جمہوریت کو بتایا کہ یہ بندوبست پہلے کی مختصر جنگ بندیوں سے مختلف ہے،کیونکہ پچھلی جنگ بندیوں کے برعکس اس وقت امریکی صدر براہ راست اس میں شریک ہے۔
اس لیے اسرائیل کے لیے انسانی سانحہ مزید جاری رہنا ممکن نہیں لگتا۔اسرائیلی پارلیامنٹ سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے یہ تسلیم کیا کہ اسرائیل عالمی برادری میں الگ تھلگ ہو گیا تھا۔ انہوں نے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کو بتایا کہ اسرائیل پوری دنیا کے ساتھ مخاصمت نہیں رکھ سکتا ہے۔ مغربی ممالک کے شہروں میں پہلی بار اسرائیل کے خلاف منظم احتجاج ہوئے۔
آخر جنگ بندی کا معاہدہ کیسے تشکیل پایا؟ دوحہ میں اسرائیلی فضائی حملے میں حماس کے رہنماؤں کو نشانہ بنائے جانے کے بعد، قطر کے وزیراعظم محمد بن عبدالرحمن الثانی کو 29 ستمبر کو اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی ایک غیر متوقع فون کال موصول ہوئی۔
نیتن یاہو اس وقت وہائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ بات چیت کر رہے تھے۔ ان کو ٹرمپ نے اپنی موجودگی میں قطری وزیر اعظم سے معذرت کرنے کے لیے کہا۔
سفارت کاروں کے مطابق اس قدم نے ثالثوں کو دوبارہ متحرک ہونے کا موقع دیا، جو پیش رفت سے تقریباً مایوس ہو چکے تھے۔
اس بات چیت کے دوران اور قطری وزیر اعظم کی منانے کے بعد ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وِٹکوف اور داماد جیرڈ کُشنر نے عجلت میں 20 نکاتی منصوبہ مرتب کیا، جو پرانے تجاویز سے جوڑ کر ایک ایسی ضمانت کے ساتھ پیش کیا گیا جسے صدر ٹرمپ اسرائیلی سخت گیر حلقوں کے سامنے قابلِ قبول بنا سکیں۔ 23 ستمبر کو یہ خاکہ عرب اور اسلامی رہنماؤں کے ساتھ شیئر کیا گیا، مگر اسرائیلی درخواست پر اس میں کچھ تبدیلیاں کی گئی۔ قطر، مصر اور ترکیہ کے ثالثوں کو شرم الشیخ پہنچنے کے لیے کہا گیا۔
حماس نے معاہدے کے کچھ حصوں کو قبول کرنے کے اشارے دیے، لیکن’جنگ کے بعد کی صورتِ حال’پر اختلاف کیا۔ جس کی وجہ سے امریکیوں نے قیدیوں کے تبادلے کے معاملے کو سیاسی پیش رفت سے الگ کر دیا۔ فریقین کو بتایا گیا کہ صدر ٹرمپ خود سیاسی پیش رفت کے ضامن ہوں گے۔ ترکیہ اور سعودی عرب نے حماس کو یقین دہانی کرائی کہ وہ اسرائیل کو دوبارہ قبضہ جمانے نہیں دیں گے۔
ادھر اسرائیل میں کُشنر اور وِٹکوف کو نیتن یاہو نے اپنی کابینہ کو خطاب کرنے اور سخت گیر عناصر کو منانے کی ذمہ داری دی۔ کچھ وزرا نے تعریف، تو چند نے مخالفت کی۔لیکن نصف شب کے بعد کابینہ نے پہلے مرحلے کی توثیق کر دی۔مگر ایک بڑا سوال ہے کہ آگے کیا ہوگا؟
امریکی مرکزی کمان (سی ای این ٹی سی او ایم) اب غزہ کے باہر ایک ٹاسک فورس تیار کر رہی ہے جو اُس بین الاقوامی استحکام فورس کی مدد کرے گی جس کا ذکر منصوبے میں ہے۔ابھی ان ممالک کے نام ظاہر نہیں کیے گئے، جو اس فورس میں شامل ہوں گے۔ انڈونیشیا نے فی الحال فوج دینے کی پیشکش کی ہے اور دیگر سے بات چیت جاری ہے۔
معاہدے کی ایک اہم شق یہ بھی ہے کہ حماس غزہ پر حکمرانی نہیں کرے گی۔مگر مبصرین کہتے ہیں کہ وہ ایک سماجی قوت کے طور پر بدستور موجود رہے گی، اور کوئی منصوبہ اسے نظرانداز نہیں کر سکتا ہے۔
ویسے مارچ میں حماس کے معتبر ذرائع نے راقم کو بتایا تھا کہ ان کے لیڈران غزہ کی حکمرانی سے دستبردار ہونے کے لیے تیار ہیں، اگر انتظامیہ کسی قابل اعتماد فلسطینی شخصیت کے سپرد کی جائے۔ 23 جولائی 2024 کو بیجنگ میں چودہ فلسطینی دھڑوں — بشمول فتح اور حماس — نے ایک مصالحتی معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس میں مشترکہ قیادت کی تشکیل کی بات کی گئی۔
اس دوران اسرائیلی جیل میں 2002 سے قید الفتح سے وابستہ سیکولر لیڈر مروان برغوتی کا نام نمایا امیدوار کے طور پر ابھرا۔ طے تھا کہ فلسطینی اتھارٹی کی سربراہ محمود عباس اور حماس کے لیڈران ایک ساتھ مستعفی ہوکر متحدہ فلسطین کی عبوری قیادت برغوتی کے سپرد کریں گے۔
جنوری کی قلیل المدتی جنگ بندی کے دوران، جب حماس نے اسرائیل کو فلسطینی قیدیوں کی فہرست دی، برغوتی کا نام سب سے اوپر رکھا گیاتھا۔ لیکن حماس کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ محمود عباس نے ذاتی طور پر اس کی رہائی روکنے کے لیے اسرائیلی حکام پر دباؤ ڈالا۔
عباس نے یہاں تک کہا کہ اگر برغوتی کو رہا کیا گیا تو اُسے ملک بدر کر دیا جائے اور مغربی کنارے واپس نہ آنے دیا جائے۔برغوتی کی اہلیہ، فدویٰ البرغوتی، نے بھی اس کی تصدیق کی۔
فلسطینیوں کے لیے، چاہے وہ اسلام پسند ہوں یا سیکولر، مروان برغوتی ایک وحدت کی علامت بن چکے ہیں اور ان کو فلسطینی منڈیلا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اُن کی رہائی فلسطینی سیاست کو ازسرِ نو زندہ کر کرکے خطے کا نقشہ بدل سکتی ہے۔
اس جنگ بندی کے اثرات غزہ سے آگے تک پھیل گئے ہیں۔لبنان میں حزب اللہ، جو اسرائیل سے سرحدی جھڑپوں میں مصروف تھی، نے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں نرمی اور نئی شراکت کی بات کی ہے۔ حزب اللہ کے لیڈران کا کہنا ہے کہ اُن کے ہتھیار صرف اسرائیل کی طرف ہیں۔یمن میں حوثی تحریک نے بھی اشارہ دیا کہ وہ اسرائیلی بحری جہازوں پر حملے روک دے گی، بشرطیکہ وہ غزہ کی جنگ بندی کا احترام کرے ۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ بحیرہ احمر میں حملوں نے حوثیوں کو اندرونی اور عالمی سطح پر’مزاحمت’کا ایک بیانیہ دیا۔اب یہ وقفہ اُنہیں اپنی کامیابیاں مستحکم کرنے کا موقع دے گا۔
مگر ٹرمپ کا منصوبہ غزہ سے آگے بھی بڑھتا ہے۔تل ابیب اور شرم الشیخ میں انہوں نے اشارہ دیا کہ اگر جنگ بندی مستحکم رہی تو’ابراہام معاہدے’کو مزید ممالک تک پھیلایا جا سکتا ہے۔ خیر غزہ میں لوگ تاریخ کو انسانی پیمانوں پر ناپنا سیکھ چکے ہیں۔
ایک شخص جو گھٹنوں پر جال رکھ کر دوبارہ مچھلی پکڑنے کی تیاری کررہا ہے۔ ایک رضاکار جو چمچ کی کھنک سے دیگ سے کھانا نکال کر بانٹ رہا ہے۔ ایک رپورٹر جو سمندری لہروں کی آوازوں کو دوبارہ سن رہا ہے۔ ایک باپ جو ا پنے مسمار شدہ گھر کی ایک بچی ہوئی دیوار کے سامنے کھڑا ہو کر اُن ہاتھوں کو یاد کرتا ہے جنہوں نے اینٹیں رکھی تھیں۔
حماس کہتی ہے کہ وہ حکومت نہیں کرے گی مگر فلسطینی معاشرے کا حصہ رہے گی۔
فلسطینی انتظار کررہے ہیں کہ کیا وہ دنیا کے دیگر خطوں کی طرح معمول کی زندگی بسر کرپائیں گے۔ ماہرین کہتے ہیں؛ سیز فائر کوئی حل نہیں،صرف ایک موقع ہے۔جنگ بندی تبھی پائیدار ہوگی، جب زندگی کی آوازیں لوٹ آئیں گی۔اگر وعدے کے مطابق خوراک اور دوا آتی ہے، تو بھوک کوشکست دی جا سکتی ہے۔لیکن اس کے لیے سرحدوں کا کھلا رہنا، راستوں کا محفوظ ہونا، اور ایندھن و تنخواہوں کی فراہمی ضروری ہے۔لوگ اپنے کھنڈر جیسے گھروں کو لوٹ رہے ہیں۔ غیر پھٹے بارودی مواد کو صاف کرنے میں مہینے، شاید سال لگیں گے۔
بہت سے خاندان تو اس جنگ کے دوران اپنے پیاروں کا سوگ بھی نہیں منا پائے۔ فلسطینی ماں وِیام کے کانوں میں اب بھی اُس دھماکے کی آواز یں گونج رہی ہیں، جس نے اُس کے چھ بھائی بہنوں، چاچی اور بھانجی کو ہلاک کردیا۔ جنگ کے 36ویں دن اس کے خاندان کو قتل کیا گیا۔ وہ اوراس کی جڑواں بہن وسام زخمی ہو گئی تھی۔
اب وہ اپنے بیٹے سمیح کو سُلانے کے لیے قرآن کی تلاوت کرتی ہے۔ ‘پچھلے دو سالوں میں ہر آواز موت کی علامت بن گئی تھی۔ سوچو، جب تمہاری دنیا میں صرف تباہی کی آوازیں ہوں،تمہیں لگتا ہے موت تمہارے ساتھ سانس لے رہی ہے۔’یہ جنگ بندی ایک سانس لینے کا وقفہ ہے، وہ ابھی اسے’زندگی’کہنے کی ہمت نہیں کرپاتی ہے۔
غزہ کی ہر پناہ گاہ میں ایک کہانی ہے، اور ہر کہانی میں ایک مخصوص آواز ہے۔ کسی کے لیے وہ سیٹی جو بم گرنے سے پہلے آتی ہے،کسی کے لیے جھٹکے سے بند ہوتے دروازے،کسی کے لیے کتوں کا بھونکنا جو توپ خانے کی آگ کو پہچاننا سیکھ گئے تھے۔
احمد الحِصّی اپنے بیٹے کی آخری خوف ناک چیخ کو یاد کرتے ہیں۔ جنگیں ملبہ چھوڑتی ہیں، اور گونج بھی۔جنگ بندیاں نہ ملبہ مٹاتی ہیں نہ گونج۔
شام ڈھلتے ہی غزہ کے المَواسی کے خیموں میں موبائل اسکرینوں اور چولہوں کی روشنی پھیل گئی ہے۔دور ایک جنریٹر کھنکھنارہا ہے۔یہ ڈرونز کا شور نہیں، بلکہ ایک عام مشین کی عام آواز ہے۔
ایک جنگ بندی نہ مردوں کو واپس لا سکتی ہے، نہ مٹی میں بکھرے شہر کو جوڑ سکتی ہے۔ یہ وعدہ بھی نہیں کر سکتی کہ رہنما کیا رخ اختیار کریں گے۔ لیکن یہ ایک لمحے کے لیے موقع دیتی ہے کہ انسان زندہ رہنے کی وہ آوازیں سنے جو بمباری میں دب گئی تھی،جیسے بچے کی سانس، کیتلی کی سیٹی، اور گھر لوٹتے لوگوں کا ہجوم۔