قوم کا یہ حال اور بھگوا لو ٹریپ

تکلف برطرف : سعید حمید

جو قوم آدھی رات تک جاگتی رہتی ہے ۔ہوٹل بازی کرتی رہتی ہے ۔ڈھابوں میں بھیڑ لگائے ہوئے رہتی ہے ۔

چائے خانوں کو آباد کرتی رہتی ہے ۔محلوں میں شب بیداری کرتی رہتی ہے ۔

اس قوم سے کیا کہئے کہ آدھی روٹی کھاؤ ، بچوں کو پڑھاؤ ۔

انہیں کیا تعلیم کی بڑھتی ہوئی اہمیت کا احساس نہیں ہے ؟

ان کے گھروں میں اگر وہ جھانک لیں ،تو یہ پتہ چلتا ہے کہ لڑکیاں خوب پڑھ رہی ہیں ،لیکن اسی طرح لڑکے نہیںپڑھ رہے ہیں ۔

قوم کا یہ حال اور بھگوا لو ٹریپ
قوم کا یہ حال اور بھگوا لو ٹریپ

اس لئے ہماری قوم میں رشتہ ناطوں کا بھی بحران پیدا ہو رہا ہے ۔اعلی تعلیم یافتہ لڑکیوں کیلئے مناسب رشتوں کا قحط ہے ۔

کہیں کہیں اعلی تعلیم یافتہ لڑکیاں اگر کم تعلیم یافتہ لڑکوں کے ساتھ بیاہی جائیں تو پھر گھر کی گاڑی ایسی بن جاتی ہے ،

گویا ایک ٹائر تو لگ گیا ہے کار ، کا ۔دوسرا اسکوٹر کا ، یعنی بیکار کا ،

ایسی شادیوں کا چلنا اور کامیاب ہونا قسمت اور خوش قسمتی کی بات ہے ۔

قسمت اگر لڑکی کی اچھی ہو ،یا والدین خوش قسمت ہوں ، تو دنیا والے جن کو بے جوڑ کی شادی کہتے ہیں ، وہ کامیاب بھی ہو سکتی ہے ، اللہ کی مرضی ۔لیکن اگر بندہ یا بندی کی مرضی پر چھوڑ دیا جائے ، تو پھر نوبت پولس اسٹیشن ، عدالت تک بھی پہنچ سکتی ہے ۔

جس قوم میں کبھی لڑکی یا عورت پولس اسٹیشن کے احاطہ میں بھی نظر نہیں آتی تھی ، آج وہی مسلمان لڑکیاں ، عورتیں ایک خاصی

تعداد میں پولس اسٹیشنوں اور عدالتوں میں نظر آتی ہیں۔

Domestic Violnce Act اور 498 – A کے کیسوں میں ان کی عمر کھپ جاتی ہے ۔

بھلا خانگی معاملات کو عدالتوں یا پولس اسٹیشنوں میں سلجھایا جاسکتا ہے؟

جی نہیں ، بلکہ ، یاد رکھو ، میاں بیوی کے جو تنازع عدالت اور پولس اسٹیشن پہنچ جاتے ہیں ، ان میں سے بہت کم کیسوں میں مصالحت ہوتی ہے۔ورنہ دو افراد کی زندگی تو تباہ ہوتی ہے ،ان کے ساتھ ساتھ کئی زندگیوں اور خاندانوں کا مستقبل بھی داؤ پر لگ جاتا ہے ۔

اسلئے ، آپسی معاملات میں پولس اسٹیشن یا عدالت کی سیڑھیاں بالکل آخری مرحلہ ہونا چاہئے ۔

لیکن ، مسلم علاقوں میں یہاں گھر میں جھگڑا ہوا۔

وہاں بات پہنچی پولس اسٹیشن ۔ وہاں سے عدالت ، یعنی جھگڑوں کا کوئی یو ٹرن نہیں ۔

گھر میں سمجھ دار اور ذمہ دار بڑے بزرگوں کی موجودگی اسی لئے لازمی سمجھی جاتی ہے کہ گھر کے معاملات گھر میں سلجھ جائیں ۔

ورنہ ، محلوں میں کچھ ایسے اثر دار ، ذمہ دار ہوں،کہ محلہ والے گھروں کو ٹوٹنے سے بچالیں ۔

افسوس ، ہمارے معاشرے میں ایسا سماجی ڈھانچہ ٹوٹ چکا ہے ،جو گھروں کو ٹوٹنے سے بچایا کرتا تھا ۔

آج تو نوجوان اپنے باپ کی بات نہیں سنتے ہیں ،محلہ کے کسی شخص کی کیا بات سنیں گے ؟

یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے گھروں کے معاملات پولس اسٹیشن ،

اور عدالتوں میں جا رہے ہیں ۔

کیونکہ سب کو پتہ ہے ،

جو مسلمان اپنے باپ کی نہیں سنتا ، محلہ کے بزرگوں کی نہیں سنتا ،وہ پولس اسٹیشن میں حوالدار اور پولس افسر کی ضرور سنے گا ،

یا عدالت میں مجسٹریٹ اور جج کی ضرور سنے گا ۔

اس لئے ہمارے خانگی مسائل بھی گھروں سے سیدھے پولس اسٹیشن اور عدالت پہنچ رہے ہیں ۔

آدھی روٹی کھاؤ ، بچوں کو پڑھاؤ ؛

یہ کوئی آج کا نعرہ نہیں ہے ، 1857 ء کی تباہ کاریوں کے بعد سر سید احمد خان نے علی گڑھ تحریک کی شکل میں یہی بات کہی تھی۔

آج قوم میں کافی تعلیمی بیداری آچکی ہے ، کیونکہ جب جب کوئی سنگین بحران منڈلاتا ہے ، امت کے سارے حکیم یہی نسخہ تجویز فرماتے ہیں۔آدھی روٹی کھاؤ ، بچوں کو پڑھاؤ ۔

تقسیم وطن کے بعد۔بابری مسجد کی شہادت کے بعد ۔اور آج کے پریشان کن حالات کے بعد ۔

مسلم علاقوں میں یہی صدا گونج رہی ہے ۔آدھی روٹی کھاؤ ، بچوں کو پڑھاؤ ۔

لیکن ، سو دیڑھ سو سال گذرنے کے بعد بھی اس کا آدھا ہی اثر ہوا ۔

تعلیم کے میدان میں لڑکیا ں آگے آگے ہیں ، اور لڑکے بہت پیچھے ۔

اس لئے ، تعلیمی ترقی میں ہمارا حصہ کل آبادی میں ہمارے تناسب کے مطابق نہیں ہے ۔

اسی طرح ، اعلی تعلیم میں بھی مسلمانوں کا حصہ ملک کی آبادی میں ان کے تناسب کے مطابق نہیں ہے ۔

کیوں ؟ اس پر غور ضروری ہے ۔ایک وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ مسلم علاقوں میں شب گذاری

اور شب بیداری یعنی بلا وجہ دوستوں یاروں کے ساتھ راتوں میں جاگنے کا سلسلہ ہماری قوم کے لڑکوں کیلئے تعلیم کے حصول میں رکاوٹ ہے ۔یہ سلسلہ ان کی توجہ بھٹکاتا ہے ۔

افسوس کی بات تو یہ ہے کہ مسلم علاقوں میں رت جگے کے یہ اڈّے کم ہونے کی بجائے زیادہ ہوتے جا رہے ہیں۔

پہلے ایک بھنڈی بازار یا ایک مدنپورہ ہوا کرتا تھا ۔

آج تو بھنڈی بازار اور مدن پورہ بھی پھیل کر مولانا آزاد روڈ اور مولانا شوکت علی روڈ کو کھاؤ گلی بنا چکا ہے ۔

اور راتوں کی یہ جگمگ ، سارے مسلم علاقوں کو روشن کر چکی ہے ۔راتوں کا یہ اجالا ، دن کے اندھیرے میں تبدیل ہو رہا ہے ۔

جس قوم کے نوجوان راتوں کا بڑا حصہ ہوٹل بازی میں برباد کر دیتے ہوں، وہ صبح کس وقت اٹھتے ہونگے ؟

کب اور کیوں کالج جاتے ہونگے ؟ صرف Attendence لگانے ؟پھر وہ کیا خاک پڑھائی کرتے ہونگے ؟

شکر ہے کہ لڑکیاں مسلم محلوں کی اس بیماری یعنی بلا وجہ کی شب بیداری سے محفوظ ہیں، اسلئے پڑھ رہی ہیں ۔

آگے بڑھ رہی ہیں ۔

لیکن کہیں کہیں ، بہت زیادہ پڑھ لینے کے بھی مسائل سامنے آ رہے ہیں۔

کچھ مسلم لڑکیوں نے اس بات پر کہ وہ جس قدر تعلیم یافتہ اور QUALIFIED ہیں، اس جوڑ کے انہیں مسلمان لڑکے نہیں ملے ،

اسلئے انہوں نے غیر مسلم لڑکوں سے شادیاں کرلیں ،تو پھر بتائیے ، کہ ایسی صورتحال پیدا کرنے کیلئے کہ جس میں جوڑ کی شادی کے نام پر قوم کی لڑکیاں غیر قوم کی بن جائیں ،

آج کل سوشل میڈیا پر بہت سی تصاویر نظر آتی ہیں ، اور قوم شرمندہ ہو جاتی ہے کہ کوئی برقعہ پوش لڑکی کسی لڑکے کےساتھ بہت ہی نا مناسب حالت میں عوامی مقامات پر دکائی دے رہی ہے ، لڑکے کے ہاتھوں میں بھگوا دھاگا بندھا ہوا ہوتا ہے اور قوم کو غیرت دلائی جاتی ہے کہ دیکھو مسلم لڑکیاں بھگوا لو ٹریپ کا شکار بن رہی ہیں ۔

علاوہ ازیں بہت سے افراد سول کورٹ اور رجسٹرار آف میرج کی جانب سے جاری کی گئی شادی کی نوٹس کی فہرست بھی سوشل میڈیا پر بھیجتے ہیں ، جس میں مسلم لڑکیوں کی ہندو لڑکو ں کے ساتھ شادی کی نوٹس دی جاتی ہے ، اور غیرت مند مسلمان ایسی شادیوں کو بھی بھگوا لو ٹریپ کا نام دے رہے ہیں ۔

یہ تمام لڑکیاں وہ ہیں ، جن کے ماں باپ نے ان کی تعلیم پر بڑا خرچ کیا ہوگا ۔

ہوسکتا ہے کہ غریب ماں باپ نے ایسی لڑکیوں کی تعلیم کیلئے مسلم فلاحی اداروں سے زکوۃ کی رقومات بھی حاصل کی ہوگی اور انہیں اعلی تعلیم کیلئے کالجوں میں بھیجا ہو گا اور وہ کالجوں میں جاکر بھگوا لو ٹریپ کا شکار بن گئیں ، تو کیا یہ قوم کا نقصان نہیں ہے ؟

اب ایسی لڑکیوں کے رشتہ دار وغیرہ یہ پوچھ لیں کہ ان لڑکیوں کو کالج بھیج کر کیا فائدہ ہوا ؟ اور کوئی یہ بھی سوال کر بیٹھے کہ

آدھی روٹی کھانے اور بچوں کو پڑھانے سے کیا فائدہ ؟ تو کیا جواب دیا جائے گا ؟

ایسا نا ہو کہ بھگوا لو ٹریپ کی وجہ سے خوددار ، مذہب پسند ، دین پرست والدین اپنی بیٹیوں کو کالج اور اعلی تعلیم کیلئے بھیجنا ہی بند کردیں اور اسکول کے بعد انہیں گھر بیٹھنے پر مجبور کردیں ، کہ اگر ایسا ہوا تو پھر مسلمانوں کا ڈراپ آؤٹ ریٹ بھی بڑھ جائے گا ۔

علما ء ، قائدین ، اکابرین نے اس مسئلہ پر صرف زبانی جمع خرچ کے کوئی ٹھوس و عملی قدم نہیں اٹھایا ہے ۔

کیا کوئی ٹھوس منصوبہ نہیں بنایا جا سکتا ، اس بھگوا لو ٹریپ سے مسلم لڑکیوں کی حفاظت کیلئے ؟ کیا کالجوں میں مسلم لڑکیوں کو اپنا شکار بنا نے والے سازشی ٹولے کی حرکتوں کے خلاف کوئی ٹھوس حکمت عملی مرتب نہیں کی جاسکتی ؟

کیا فرماتے ہیں اکابرین ملت ّ ، اس معاملہ میں قوم کیا کرے ؟

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare