لکھنو كی سیر قسط

(قسط دوم)

ڈاكٹر عبدالملك رسولپوری

یہاں دہلی كہ بہ نسبت كافی پہلے صبح ہوگئی تھی‏، اٹھے ‏،وضو كیا اور مسجد كی راہ لی۔ مسجد كافی كشادہ كیمپس كے بیرونی حصے میں واقع ہے ‏، آگےكامسقف حصہ قدرے اونچا ہے؛ كیوں كہ تہہ خانے میں جامعہ كی طالبات امام كی معیت ہی میں جماعت كے ساتھ نماز ادا كرتی ہیں۔ باہر كا غیر مسقف حصہ بھی كافی كشادہ ہے‏، یوں تو اگلا حصہ ہی بمشكل پُرہوتا ہے ‏، بس جمعہ كی نماز میں پوری مسجد مكمل نظر آتی ہے۔ اتفاقا نماز ہمارے بھانجے اور داماد قاری محمد اسامہ سلمہ نے پڑھائی ‏، ماشاء اللہ نہایت عمدہ اور پركشش قرأت كی ۔ ان كی امامت میں نماز پڑھنے كا ہمارا یہ پہلا اتفاق تھا۔ عزیزم یہیں جامعہ كی مسجد میں واقع شعبہ تحفیظ القرآن میں حفظ كے استاذ ہیں ‏۔ نماز مكمل ہوئی تو خیال آیا كہ كچھ شناسا چہرے نظر آئیں گے ‏، ملاقاتیں ہوں گی مصافحے ہوں گے اور معانقے ؛لیكن ایساكچھ بھی نہیں ہوا‏، ہم سیدھے اسی چھ نمبرمیں واپس آگئے ‏،ابھی نیند كی دوسری قسط كی تیاری میں تھے كہ انظر بھائی ٹرے میں صبح كی چائے اور كچھ وائے لیے ہوئے كمرے میں تشریف لے آئے۔ وائے كیا امیروں كی مونگ پھلی یعنی پستے اور شہر لكھنو كے مشہور برمابسكٹ ‏، بسكٹ بذاتہ بھی لذیذ تھے ؛البتہ چوں كہ یہ كمپنی پچاس كی دہائی میں مرحوم جناب رفیق احمد صاحب كی كاوشوں سے امین آباد میں قائم ہوئی تھی ؛اس لیے ہمارے لیے اس كا ذائقہ قدرے دوبالا تھا‏، ہم جس نبی كی امت میں ہیں ان كو النبی التاجر بھی كہا جاتا ہے ‏، تجارت ان كی سنت ہے؛ لیكن نہ جانے كیوں ان كے امتی تجارت سے مفرور نظر آتے ہیں‏، جب كہ یہ حقیقت جگ ظاہر ہےكہ جس كے ہاتھ میں تجارت اسی كی ہاتھ میں بھینس۔ ہمیں تو كوئی بڑی مسلم كمپنی نظر آتی ہے تو دل كے نہاخانوں میں خوشی كے جذبات موج زن ہوجاتے ہیں۔ موجودہ حالات میں جب غیر مذہب لوگ ہم مسلمانوں كا بحیثیت خریدار بھی بائیكاٹ كررہے ہیں تو سمجھو كہ قدرت ہمیں اپنا تجارتی نظام قائم كرنےكا ایك حسین موقع فراہم كررہی ہے؛ لیكن غیب پر ایمان لانے والے ہم لوگ تجارت كا رسك لینے سے گریزاں ہیں۔ ہم یہ پڑھتے تو ضرور ہیں كہ نوے فی صد انسانی معاش تجارت میں منحصر ہے اور دس فی صد میں زارعت اور ملازمت جیسی دیگر سب چیزیں ؛ لیكن ہم اس حقیقت كوكوئی اہمیت نہیں دیتے ہیں‏، جب تك تجارت ہمارے لیے غیر اہم رہے گی ‏،ہم بھی حكومتوں كے لیے غیراہم رہیں گے‏، ید العلیا خیر من الیدالسفلی كا فلسفہ صرف صدقات ہی میں تھوڑی جاری ہوتا ہے‏، حكومتی ٹیكسز میں بھی یہی خدائی قانون نافذ ہے‏، آپ ٹیكس دہندہ بنیں گے تو حكومتیں آپ كی عزت كریں گی ؛ورنہ تو شی لا یؤبہ بہ كی طرح حباب دریا بنے رہیں گے۔

لکھنو كی سیر
لکھنو كی سیر

خیر ناشتے كے اس ابتدائیے كے بعد ہم لوگ كچھ دیر كے لیے بستر پر دراز ہوگئے‏، نیند آئی ‏،خواب لائی اور پھر ایك بے موقع فون سے آنكھ كھلی اور خواب ٹوٹ گئے۔ ہماری نسل نے ابھی فون كا استعمال نیا نیا سیكھا ہے؛ اس لیے ہم پہلی ہی فرصت میں گھنٹی بجاتے ہیں‏، جو نسلیں اس میدان میں پہلےسے ترقی پاچكی ہیں وہ پہلے میسج كرتی ہیں اور فون كرنےكی اجازت مانگتی ‏ہیں‏، ہمارے یہاں بھی ایك روز ایسا ہی ہوگا ؛لیكن ہمارے عہد میں نہیں؛ بلكہ ہمارے پوتوں كے دور میں ۔ جب آنكھ كھل ہی گئی تو اٹھے ‏، غسل كیا اور لباس زیب تن كر كے باہر نكلنے كی تیاری كررہے تھے كہ ناشتے كے لیے بلاوا آگیا‏، انظر بھائی كے اپنے كمرے ہی میں ناشتہ لگا ہوا تھا ‏، بیٹھے اور ناشتہ كیا ‏، ہمارے روبرو ایك سلائی مشین ركھی ہوئی تھی معلوم ہوا كہ انظر بھائی كی بچیوں نے سلائی كا ہنر سیكھا ہوا ہے اورگھر كے اكثر كپڑے وہی لوگ سلتی ہیں۔ یہ سن كر ہمیں خوشی ہوئی‏، خوشی اس معنی كر كہ ہمارے یہاں ہندوستان میں ہماری نصف آبادی تعلیم سے محروم ہونے كے ساتھ ساتھ ہنر مندی سے بھی عاری نظر آتی ہے اور نئی نسل تو سمجھو ایك دم كوری ہے۔ اگر آپ تعلیم حاصل كر كے دانش مند نہیں بن سكتے ہو تو كم از كم ہنر مند بن جائیے‏، دنیا بغیر ہنر كے ایك قدم بھی آگے نہیں بڑھ سكتی ؛ہے اس لیے تجربہ اور ہنر مندی كی اہمیت ہمیشہ مسلم رہے گی۔ تعلیم كے بعد ملازمت كوئی ضروری چیز نہیں ہوتی ہے؛ البتہ مشكل حالات كے لیے اپنےاندر قابلیت پیدا كرنا نہایت ضروری ہوتا ہے ۔ سسرالوں میں ہماری خواتین كی اہمیت كچھ اس لیے بھی زیادہ نہیں ہوتی ہے؛ كیوں كہ ان كاخانگی اقتصادیات میں حصہ بس معمولی سا ہوتا ہے‏، حالاں كہ اپنی اہمیت بنانے كے لیے اقتصادی طور پر تعاون نہایت اہم كردار ادا كرتا ہے ‏،اقتصادیات كا تعلق محض كسب مال سے نہیں؛ بلكہ حفظ مال سے بھی ہوتا ہے۔ اگر ہماری بچیاں اور خواتین گھریلو كام كاج كے لیے ضروری ہنر سیكھ لیں اور بازار كی خریداری سے بچ جائیں شوہر كی تن خواہ كا ایك اچھا خاصا حصہ محفوظ كرسكتی ہیں ‏۔ یہ باتیں دختران نیك اختران كے لیے نہیں بلكہ ملت اسلامیہ كی تمام خواتین كے لیے ہیں۔

ناشتے كے بعد ہم لوگ ہردوئی روڈ پر واقع مدرسۃ الحرم كی سمت روانہ ہوگئے۔ سوچا كہ یہ فارغ اوقات مدرسوں كی زیارت میں گزار لیے جائیں تو دو طرفہ فائدہ ہوگا ۔ ابھی كچھ دور ہی چلے تھے كہ انظر بھائی نے بتایا كہ دارالعلوم ندوۃ العلماء كی ایك شاخ یہاں سكروری میں بھی واقع ہے ‏، اس كی نظارت كا فریضہ سیتاپور سے نسبت ركھنے والے مولانا مطیع الرحمن عوف ندوی انجام دے رہے ہیں‏، ہمارے كانوں نے جیسے ہی یہ نام سنا تو فورا اردو كے ماہانہ مجلات میں شایع ہونے والا یہ نام ذہن كے صفحے پر روشن ہوگیا موصوف مضمون نگاری كاستھرا ذوق ركھتے ہیں كئی كتابوں كے مصنف ہیں۔ پھر جس طرح خربوزہ خربوزے كو دیكھ كر رنگ پكڑتا ہے اسی طرح مطیع بھی مطیع كی طرف كھنچے چلےجارہے تھے۔ گاڑی گیٹ كی طرف مڑی تو ایك سفید ریش بزرگ دربانی كرتے ہوئے نظرآئے‏، جو انظر بھائی سے پہلے ہی سے متعارف تھے‏، انظر بھائی نے دریافت كیا كہ یہاں ڈیوٹی لگی ہوئی ہے ‏،تو كہنے لگے كہ جب مقصود خدمت ٹھہرا تو كہیں بھی ڈیوٹی لگ جائے ہمیں تو مست ہوكر ہی ڈیوٹی انجام دینا ہے۔ پتلے سے گیٹ سے گاڑی اندر داخل ہوئی تو دو رویہ درختوں كے مابین راستے كے دونوں طرف وسیع و عریض میدان اور ان كے آگے ایك رہائشی عمارت اور اس كے پیچھے ایك طرف مسجد اور دوسری سمت حبیب الرحمن شیروانی سیمنار ہال وغیرہ تھے۔ یہ عمارت حضرت مولانا علی میاں صاحب ؒ كا شملہ ہاؤس تھی‏، انظر بھائی نے بتایا كہ وہ جب شہر سے دور خاموشی میں كچھ تصنیفی كام كرنا چاہتے تھے تو اسی باغ میں تشریف لے آتے تھے‏، اس محل میں رہتے تھے اورلكھتے پڑھتے تھے۔ مسجد كے متوازی حصے میں درس گاہیں نظر آئیں‏، اسی میں ایك كمرے میں ناظر صاحب كا دفتر تھا ہم لوگ دفترمیں پہنچے تو مولانا عوف صاحب ہم لوگوں كے منتظر تھے ‏، كچھ دیر وہاں بیٹھے باتیں كیں پھر وہ ہم لوگوں سےمعذرت كر كے تدریس كے لیے چلے گئے ہمارے پاس ایك دوسرے استاذ بیٹھے رہے‏ ‏، ہم نے طلبہ كی تعداد اور ان كے وطنی اصلی كے بارے میں سوال كیا تو معلوم ہوا كہ تقریبا سات سو طلبہ ہیں‏، جن كا وطنی تعلق ملك كے تمام گوشو ں اور ہم سایہ ملك نیپال سے ہے۔ بڑے اداروں كے ابتدائی درجات میں طلبہ كی اتنی بڑی تعداد ہمارے اپنے تعلیمی نظریے كے برعكس نظر آتی ہے۔ ہمارا نظریہ یہ ہے كہ حفظ اور ابتدائی درجات كی تعلیم وطن اصلی كے دس كلو میٹر كےدائرے میں ہونا چاہئے اور ندوہ و دیوبند اور بنارس ومبارك پور جیسے بڑے تحریكی اداروں كو چاہئے كہ اپنے كیمپس میں صرف اعلی تعلیم كی متعدد درسگاہیں بنائیں ‏،مختلف موضوعات میں تكمیلات كے شعبے قائم كریں اور ابتدائی و ثانوی تعلیم كے لیے ملك كے ہر گوشے اور جہاں جہاں ضرورت محسوس ہو اپنے بنیادی ادارے قائم كرتے جائیں‏، جن كا نظم ونسق ‏،اساتذہ كی تقرری اور تعلیمی نگرانی انھیں بڑے اداروں كی ہاتھوں میں ہو‏، اس طرح قوم كا پیسہ بھی بچے گا او ربچے بھی اپنے وطن سے زیادہ دور نہیں ہوں گے اور علم بھی محض ایك شہر میں مركوز نہ رہ كر مختلف گوشوں میں شمعوں كی طرح بكھرا ہوا نظر آئے گا‏، جس سے ہر چہار سو روشنی ہوگی اور ہر قصبہ اور ہر شہر منور نظر آئے گا۔

وہاں تعلیمی معیار كیسا تھا یہ خدا بہتر جانیں گے ہم نے تو كوئی جائزہ نہیں لیا؛ البتہ واپس آتے ہوئے اپنی آنكھوں كو نہ بند كرسكے ‏،جس كی وجہ سے محسوس ہوا كہ میدان اور پاركیں تو كافی وسیع و عریض ہیں ‏،راستے بھی كشادہ ہیں؛ البتہ باغ بانی كا ذوق نہیں ہے كہ میدانوں میں بے ترتیب اونچی نیچی خودرو گھاس اگی ہوئی تھی‏، جو كسی بھی طرح پاركوں كے آباد رہنے كی غمازی نہیں كررہی تھی ‏۔ ہم نےانظر بھائی سے كہا كہ یہ ذوق تو نجیب بھائی كا ہے ‏،وہاں حرم شریف میں بہار نظر آئے گی ان شاء اللہ۔

معہد سے نكل كر ہم لوگ حرم كی سمت روانہ ہوئے ‏، آم كے باغوں كے درمیان ہردوئی شاہ راہ پر چلتے ہوئے كچھ ہی دیر میں ہم لوگ مدرسہ الحرم پہنچ گئے‏، روڈ پر بورڈ نظر آیا ‏،جس میں عربی میں مدرسۃ الحرم اور انگریزی میں حرم اكیڈمی لكھا ہوا تھا ‏، تدریس سے وابستہ مسافر كے ذہن میں فورا خیال آیا كہ اسے یا تو أكادیمیۃ الحرم یا پھرمؤسسۃ الحرم ہونا چاہئے تھا اكیڈمی قدرے باوزن لفظ ہے‏، جس كی بہ نسبت مدرسہ بہت چھوٹا نظر آتا ہے۔ یہ تو ایك استاذ كا زاویہ نظر تھا ہوسكتا ہے كہ بانی كی نگاہ میں كوئی اور معنی بسے ہوئے ہوں۔ ہم لوگ گاڑی سے اترے مدرسے میں داخل ہوئے ‏،گیٹ كی داہنی سمت انتظامی دفاتر نظر آئے اور سامنے ایك ہر ابھرا لان تھا ‏،جس كے چاروں طرف سرو قد پام كے درخت تھے ‏،فرش پر گھاس بھی اچھے سے تراشی گئی تھی ‏، جس سے ارباب انتظام كا سلیقہ نظرآرہا تھا۔ سیڑھیوں سے اوپر چڑھے تو ایك درس گاہ سے ایك مسكراتا ہوا چہرا تیز قدموں نكل كر آیا ‏، آتے ہی ہمارا استقبال كیا سلام ہوا مصافحہ ہوا پھر انظر بھائی نے ہمارا ان سے اور ان كا ہم سے تعارف كرایا ‏، یہ مولانا داؤد صاحب ندوی تھے مولانا منظور نعمانی كے سنبھل سے وطنی نسبت ركھتے ہیں‏، شادی سے پہلے جامعۃ المؤمنات كے مایہ ناز استاذ تھے ‏،شادی كے بعد حُرمۃ كے ساتھ حَرم تشریف لے آئے۔ مسكراتے ہوئے باتے بناتے ہوئے وہ ہمیں دفتر اہتمام میں لے گئے چائے ناشتہ كرایا اور بتایا كہ مہتم صاحب چوں كہ كچھ گھریلو كاموں میں مصروف ہیں اس لیے آج مدرسے نہیں آسكے ‏،ہم نے بھی سوچا كہ گھر ہی پر ملاقات ہوگی ان كے ہونہار بچے محمد سلمہ كی عیادت بھی ہوجائے گی ۔ مولانا داؤد صاحب كو آج مشكاۃ شریف كا پہلا درس دینا تھا ‏،انھوں نے سوچا كیوں نہ مفت میں مہمانوں سے یہ كام كرالیا جائے‏، پہلے انظر بھائی سے اصرار كیا انھوں نے معذرت كی‏، تو ہم سے اصرار كرنے لگے ہم نے بھی یہ سوچ كر منع كردیا كہ كل خبر شایع ہوگی كہ یونیورسٹی كے لكچرارا نے مشكاۃ شریف كا آغاز كرایا تو شاید ادارے كے لیے مناسب نہ ہو ؛البتہ جب تشجیعی بیان كے لیے اصرار كیا گیا تو ہم نے انما الأعمال بالنیات كو مدار بنا كر ‏، نیت واراد‏ہ‏، منصوبہ بندی‏ اور سعہی پیہم جیسے تین نكات كی اہمیت پر روشنی ڈالی بعد كی چوتھی چیز یعنی كامیابی و كامرانی كے تعلق سے عرض كیا كہ اس كو اللہ ر ب العزت كے لیے چھوڑدیجئے ‏، كامیاب ہوجانا انسان كے ہاتھ ہی میں نہیں ہے اورنہ اس سے یہ مطلوب ہے‏، مطلوب تو بس كامیابی كے لیے سعی پیہم ہے۔ آپ اپنا كام كریں تو اللہ رب العزت اپنے فضل وكرم سے آپ كو كامیابی عطا كرسكتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare