مالیگاؤں میں اردو کا سہ روزہ جشن

معصوم مرادآبادی

شمالی ہندمیں جب بھی ہم اردو کی بگڑتی ہوئی صورتحال کا ذکر کرتے ہیں تو ہمیں ایک ایسی ریاست کی بھی یاد آتی ہے جہاں اردو کی فصل لہلارہی ہے۔ اس ریاست کا نام ہے مہاراشٹر،جو اترپردیش کے بعد ملک کی دوسری بڑی ریاست ہے۔ایک طرف جہاں اترپردیش میں اردوبستر مرگ پر پڑی ہوئی ہچکیاں لے رہی ہے تو وہیں مہاراشٹر میں اس زبان کا بول بالا ہے۔مہاراشٹر کی خوبی یہ ہے کہ یہاں بچے خوب اردو پڑھ رہے ہیں اور انھوں نے اسے اپنا اوڑھنا بچھونا بنارکھا ہے۔ اسی مہاراشٹر میں ایک ایسا شہر بھی ہے جہاں ہرطرف اردو کا بول بالا ہے۔ اس شہر کانام ہے مالیگاؤں۔ یہ وہی شہر ہے جہاں قومی اردو کونسل کے کتاب میلے میں اردو والوں نے ڈیڑھ کروڑ روپے کی کتابیں خرید کر ریکارڈ قائم کیا تھا۔ اسی مالیگاؤں سے جس وقت مجھے ’رشک بہاراں‘ میں شرکت کا دعوت نامہ ملا تو میں مقدس شہر مدینہ منورہ میں تھا اور چند روز بعد وطن واپسی تھی۔ سفر کی تھکان ایسی تھی کہ میں فوری کسی دوسرے سفر کیلیے تیار نہیں تھا، مگر مالیگاؤں کی اردو نوازی اور برادرم امتیاز خلیل کی مخلصانہ دعوت میں ایسی کشش تھی کہ میں انکار نہیں کرسکا۔

مالیگاؤں میں اردو کا سہ روزہ جشن
مالیگاؤں میں اردو کا سہ روزہ جشن

عمرے سے واپسی کے تیسرے ہی دن مالیگاؤں کے لیے رخت سفر باندھ لیا۔مالیگاؤں والوں کی اردو نوازی کے قصے تو بہت سن رکھے تھے، لیکن اس کا عملی تجربہ ’رشک بہاراں‘ کے دوران ہوا۔ یہ وہ شہر ہے جہاں ہر پوسٹر، بینر اور سائن بورڈ پر اردو نظر آتی ہے۔ شاید ہی کوئی گلی، محلہ یا سڑک ہوجہاں اردو کا گزر نہ ہو۔یہاں درجنوں اردو لائبریریاں، اردو میڈیم اسکول، کالج اور متحرک ادبی انجمنیں ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہر شخص اردو کا شیدائی ہے۔یہاں کی ایک لائبریری تو سواسوسال پرانی ہے۔اردو زبان اور تہذیب کے ساتھ ایسا عشق آپ کو کہیں اور نہیں ملے گا۔ یوں تو پورے مہاراشٹر میں اردو کا چلن ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں اردو تعلیم وتدریس کا نظام بہت مضبوط ہے۔ ہائر سیکنڈری کی سطح تک ہزاروں اسکول ہیں۔ یہاں تک کہ کوکن علاقے میں تین سو سے زائد اردو میڈیم اسکول ہیں۔ سچ پوچھئے تو مہاراشٹر میں اردو تعلیم کا جال بچھاہوا ہے اور یہاں کے طلباء اور اساتذہ پوری تندہی کے ساتھ اردو کی آبیاری کررہے ہیں۔

مالیگاؤں کوئی بڑا شہر نہیں ہے، لیکن عروس البلاد ممبئی سے زیادہ دور بھی نہیں ہے۔یہ بنیادی طورپر مزدوروں کا شہر ہے۔ پاورلوم یہاں کی انڈسٹری ہے اور ہر طرف بنکروں کا بسیرا ہے۔یہاں ترقی اور جدیدسہولتوں کی اس حدتک کمی ہے کہ سیور لائن بچھانے کا کام ابھی شروع ہواہے۔مالیگاؤں کی آبادی بارہ لاکھ کے قریب ہے اور اس میں 75 فیصد مسلمان ہیں۔گھنی آبادیوں پر مقیممسلم علاقوں کے لوگ قناعت پسندبہت ہیں۔ مالیگاؤں کو میناروں کو شہر بھی کہا جاتا ہے۔اگر آپ اس شہر کا فضائی سروے کریں تو آپ کو مینار ہی مینار نظر آئیں گے۔ہر گلی کوچے میں آپ کو کوئی مسجد یامدرسہ ضرور مل جائے گا۔مالیگاؤں میں کم وبیش 400مسجدیں ہیں۔ اس کے علاوہ چھ قبرستان اور سات عیدگاہیں ہیں۔ ایشیاء کا سب سے بڑا قبرستان بھی اسی شہر میں ہے۔اس کے ساتھ ہی یہاں بے شمار مدارس اور مکاتب ہیں جہاں طلباء اور طالبات کے لیے تعلیم کا علاحدہ نظم ہے۔ ادبی اورثقافتی پروگراموں میں بھی مردوخواتین کے بیٹھنے کا علاحدہ نظم ہوتاہے۔ ایک طرف جہاں خواتین برقعوں میں نظر آتی ہیں تو وہیں ہر مردکے سر پر ٹوپی ہوتی ہے اور وہ سراٹھاکر چلتا ہے۔ایسا ماحول آپ کو کسی اور شہر میں نظر نہیں آئے گا۔ اسے آپ ایک مثالی مسلم معاشرہ تو کہہ سکتے ہیں لیکن صفائی ستھرائی کا فقدان ہے۔ سڑکوں پر تجاوزات نظرآتے ہیں۔ جمعہ کا دنچھٹی کا ہوتا ہے اور اس دن بیاہی بیٹیاں اپنے اپنے گھروں کو ضرور آتی ہیں۔

میں 31/ جنوری کو شرڈی کے راستے مالیگاؤں پہنچا۔ سائیں بابا کا شرڈی ایک مسلمان فقیر کی یادگار ہے۔ مندر کے نیچے سائیں بابا کی قبر ہے اوراوپر بابا کی مورتی۔بابا کے چاہنے والوں کا ایسا تانتا ہے کہ شرڈی کے چھوٹے سے ائیرپورٹ پر کئی فلائٹیں اترتی ہیں۔ ان میں بیشتر جنوبی ہند کے لوگ ہوتے ہیں۔شرڈی کا ایئر پورٹ سائیں بابا کے لیے ہی بنایا گیا ہے۔ شرڈی میں داخل ہونے کے بعد مجھے سب سے پہلے یہاں کی مسجدوں کے میناروں نے اپنی طرف کھینچا۔ معلوم ہوا کہ چالیس ہزار کی اس چھوٹی سی بستی میں مسلمانوں کی تعداد اچھی خاصی ہے اور یہاں بھی اردو میڈیم اسکول ہیں۔ شرڈی سے مالیگاؤں تک ہماری رہبری عظمت اقبال نے کی جو یہاں کے ایک اردو میڈیم اسکول میں معلم ہونے کے ساتھ افسانہ نگار بھی ہیں۔میں معروف صحافی پنکج پچوری کے ساتھ شرڈی سے مالیگاؤں روانہ ہوا، مگر90کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے میں کچھ زیادہ ہی وقت لگا، وجہ تھی تنگ سڑک پر ٹرکوں کی بھرمار۔

مالیگاؤں میں اردو کا سہ روزہ جشن
مالیگاؤں میں اردو کا سہ روزہ جشن

کچھ کمر سیدھی کرنے کے بعد ہم شام کو اس وسیع وعریض مالیگاؤں ہائی اسکول پہنچے جہاں بیت بازی کا مقابلہ’سیل رواں‘ چل رہا تھا۔ اردو میڈیم اسکولوں کے ذہین طلباء اور طالبات اس میں حصہ لے رہے تھے۔ اس کے بعد کوئز کا پروگرام تھا۔ اردوزبان وادب اور تہذیب سے متعلق اتنی باتیں تھیں کہ انھیں پوری طرح ضابطہ تحریر میں لانا بھی مشکل ہے۔ ’رشک بہاراں‘ کے عنوان سے سجائے گئے اردو کے اس سہ روزہ جشن کا اہتمام’وائس آف اردو‘نے کیا تھا اور اسے مالیگاؤں کے اہم تعلیمی اداروں کی سرپرستی حاصل تھی۔’رشک بہاراں‘ میں ایک اہم پروگرام جدیدتعلیمی وسائل اور اردو میڈیم اسکولوں‘ پر مرکوز تھا جس میں مہاراشٹر کے اردو تعلیمی اداروں کے اساتذہ کومدعو کیا گیا تھا۔ اس اجلاس میں مصنوعی ذہانت کے حوالے سے سیرحاصل گفتگو ہوئی اور شرکاء نے تعلیم کے بدلتے ہوئے منظرنامے پر اہم نکات پیش کئے۔

مجھے جس مذاکرے کے لیے مدعو کیا گیا تھا، اس کا عنوان تھا ”میڈیا کا بدلتا منظرنامہ اور اردو صحافت“۔پنکج پچوری مسند صدارت پر تھے۔ شرکاء میں روزنامہ ’سیاست‘(حیدرآباد)کے نیوزایڈیٹر عامر علی خاں، روزنامہ ’انقلاب‘(ممبئی)کے ایڈیٹر شاہد لطیف، روزنامہ ’ممبئی اردو نیوز‘ کے ایڈیٹر شکیل رشید، ماہنامہ ’گل بوٹے‘ (ممبئی)کے مدیر فاروق سیداور’ایشیاء ایکسپریس‘(اورنگ آباد)کے مدیر شارق نقشبندی شامل تھے۔ تقریباً دوگھنٹہ قومی ذرائع ابلا غ اور اردو صحافت پر بحث مباحثے کے بعد نچوڑ یہ نکلا کہ اردو صحافت آج بھی پوری جرات اور بے باکی کے ساتھ اپنے محور پر کھڑی ہوئی ہے تاہم اسے مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اس دوران میزبان امتیازخلیل نے مالیگاؤں کی اردو صحافت کا مختصر جائزہ بھی پیش کیا۔

’رشک بہاراں‘ کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں دوردراز کے شہروں سے لوگ کھنچے چلے آئے تھے اور یہ سب امتیاز خلیل اور ان کی ٹیم کی شبانہ روز محنت کا ثمر تھا۔ ممبئی سے فلم وادب کی برگزیدہ شخصیت جاوید صدیقی طویلسفر طے کرکے مالیگاؤں پہنچے تھے۔ انھوں نے نہایت کارآمد گفتگو کی۔’کہانیوں کے درمیان‘، ’اردو شاعری کی نئی لفظیات اور نئے رجحانات، جیسے اہم موضوعات پر شرکاء نے سیرحاصل گفتگو کی۔ سہ روزہ ’رشک بہاراں‘ کا اختتام مشاعرے پر ہوا۔اس پروگرام کے اہم شرکاء میں مولانا حذیفہ وستانوی، پروفیسرسید اقبال، قاسم امام، ندیم صدیقی، عزیزنبیل، حافظ کرناٹکی، پروفیسر شہپررسول، عبید اعظم اعظمی وغیرہ شامل تھے۔ اس قسم کے پروگرام جو واقعی اردو زبان اور اس کی تعلیم وتدریس کے نئے درکھولتے ہیں، دوسرے شہروں میں بھی ہونے چاہئیں۔

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare