مایوسی کے شکار بے روزگار نوجوان
مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی
تعلیم کے میدان میں آزاد ہندوستان میں انقلاب آیا ہے، اس سے انکار نہیں، اب رکشہ چالک، ٹائر پیٹنے، گمٹی میں پان اور چائے پکوڑے کی دکان چلانے والے بھی اپنے بچے بچیوں کو بہترین اداروں میں تعلیم دلوا رہے ہیں، غربت، مفلسی اور محرومیوں کی زندگی گذار رہے بچے، بچیوں کا رزلٹ اچھا آرہا ہے، درمیان میں تعلیم چھوڑنے (ڈراپ آؤٹ) والے بچوں کا تناسب بھی گھٹا ہے اور خواندگی ہی نہیں اعلی تعلیم میں بھی نئی نسل تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔

نئی نسل کے یہ لوگ جب اعلیٰ تعلیم پاتے ہیں تو ان کے حوصلے بلند ہوتے ہیں اور ان کے خواب بھی بڑے ہوتے ہیں، ان میں سے بیش تر اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز ہونا چاہتے ہیں، لیکن باربار انٹرویو دینے، دھکے کھانے کے باوجود سرکاری ملازمتیں ان سے دور ہوجاتی ہیں تو وہ مایوسی کے شکار ہوتے ہیں، مایوسی اور ڈپریشن انہیں اس پر آمادہ کرتی ہے کہ بی، ایڈ، ایم ایڈ، بی ٹیک، ایم ٹیک ہونے کے باوجود کوئی چپراسی کی نوکری ہی انہیں لگ جائے؛تاکہ وہ کسی طرح اپنی اور اپنے خاندان کی گاڑی کھینچ سکیں، کبھی اس میں بھی انہیں ناکامی ہی ہاتھ آتی ہے، ایسے نوجوان خودکشی پر بھی آمادہ ہوجاتے ہیں۔
راجستھان سے ایک خبر آئی ہے کہ وہاں کلاس-۴ یعنی چپراسی کی ملازمت کے لیے 53,749 آسامیاں نکالی گئی تھیں، آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس پوسٹ کے لیے 2476000 سے زائد درخواستیں موصول ہوئیں، گویا ایک آسامی کے لیے اوسطاً چھیالیس (46) درخواستیں، آخری پانچ گھنٹوں میں ایک لاکھ گیارہ ہزار درخواستیں موصول ہوئیں، یعنی ہر چھ سکنڈ میں ایک فارم جمع کرایا گیا، اس سے قبل فاریسٹ گارڈ کی 2399 آسامیوں کے لیے 22لاکھ درخواستیں آچکی ہیں، درخواست دہندگان صرف دسویں جماعت پاس نہیں تھے، ان میں پی ایچ ڈی، ایم بی اے، ایل ایل بی، پوسٹ گریجویٹٹ انتظامی اور اعلیٰ مقابلہ جاتی امتحان کی تیاری کرنے والے نوجوان بھی تھے، ان سے جب وجہ دریافت کی گئی تو ان کا احساس تھا کہ کوئی کام نہ ملے تو چپراسی کی نوکری بے روزگاری سے بہتر ہے، چاہے گھوم گھوم کر پانی پلانا، دفتری فائلوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا اور اعلیٰ افسران کی جی حضوری ہی کیوں نہ ہو،یہ صورت حال صرف ایک ریاست کی نہیں ہے، سروے سے معلوم ہوتا ہے پورے ملک میں صرف 8.25 فی صد لوگ ہی ایسی نوکریاں پانے میں کامیاب ہوتے ہیں جو ان کی تعلیمی قابلیت سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔
اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیمی ادارے، فنی اور عملی تربیت پر زور دیں، تاکہ ان کی صلاحیت صرف کتابی نہ رہے اور وہ ڈگریوں کے انبار کے ساتھ بازار کار میں صفر پر آؤٹ نہ ہوجائیں اور ان کے خواب شرمندہ تعبیر ہوسکیں، یہ طلبہ بھاری رقومات دے کر کوچنگ کرتے ہیں، انہیں موٹی رقم لے کر اساتذہ پڑھاتے ہیں، وہ امتحان میں کامیاب بھی قرار پاتے ہیں، مگر نوکری کے حصول میں ناکام رہتے ہیں، اس لیے کہ ان کو امتحان میں کامیاب کرنے کی غرض سے ہی پڑھایا جاتا ہے، امتحان میں کامیاب تو ہوگیے، لیکن ان میں فنی مہارت نہیں پیدا ہوتی، اس کام کے لیے ان پر محنت ہی نہیں کی جاتی، یہ بات بھی اپنی جگہ صحیح ہے کہ سرکاری ملازمتیں فارغین کے اعتبار سے دستیاب نہیں ہیں، ایسے میں چھوٹے کاروبار سے لگ کر نجی زندگی کی گاڑی کھینچی جاسکتی ہے۔
انتخاب کے موقع سے رائے دہندگان کو سبز باغ دکھانے کی جو روایت رہی ہے، وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے، ہر پارٹی اپنے منشور اور مینی فیسٹو میں بڑے بڑے اعلان کرتی ہے، جن کے پورے کرنے کی نوبت عام طور سے نہیں آتی ہے، سیاسی لیڈران خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ یہ تو وعدہ ہے اور وعدوں کا کیا کرنا، ان وعدوں میں ایک بڑا وعدہ بے روزگاری دور کر نے اور نئی بحالیوں کے مواقع اور امکانات تلاش کرنے کا ہے، لیکن سب جگہ یا تو لوگ پہلے سے ہی ضرورت سے زائد ہیں یا پھر مشینوں کے استعمال کی وجہ سے افرادی قوت کی ضرورت کم ہو گئی ہے، بڑے بڑے اسٹیل پلانٹ، صنعتی کار خانے اور کمپنیوں میں پہلے کی بہ نسبت چوتھا ئی لوگوں سے کام چلا یا جا رہا ہے، جو سبکدوش (ریٹائر) ہو گیا اس کی جگہ نئی بحالیاں نہیں ہو رہی ہیں، کورونا نے چھوٹی صنعت اور غیر منظم سکٹر کے کام کو بری طرح متاثر کیا ہے اور کام بند ہوجانے کی وجہ سے بہت سارے لوگ بے روزگار ہو گیے ہیں۔
ایسے میں بیس، پچیس لاکھ روزگار کے نئے مواقع کس طرح پیدا ہو سکتے ہیں، نئی آسامیاں کس طرح نکالی جا سکتی ہیں، یہ ایک سوال ہے جو حکمراں طبقہ کو پریشان کیے ہوئے ہے۔ وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے اپنے بجٹ بھاشن میں اس موضوع پرکہا کہ پائپ لائن کا جو کام حکومت کے زیر غور ہے اس میں اگلے پانچ سالوں میں ساٹھ(۰۶) لاکھ ملازمت کے مواقع ہیں، یعنی سالانہ بارہ (۲۱)لاکھ نوکریاں۔ کیا یہ بے روزگار نو جوانوں کے لیے کافی ہیں؟ یقینا یہ کافی نہیں ہیں، اس کے علاوہ ہر سال ایک کروڑ اسی لاکھ لڑکے اٹھارہ سال کے ہوجاتے ہیں اور ان کے ہاتھوں کو بھی کام چاہیے، زراعتی میدان میں جو لوگ کام سے لگے ہوئے ہیں،ا نہیں بھی کم تنخواہ اور مختلف زمینی وآسمانی آفتوں کی وجہ سے اس حلقہ کو خیر آباد کہنا پڑ رہا ہے، ایک اندازہ کے مطابق زراعت کے میدان سے ہٹ کر دس کروڑ لوگ دوسرے کاموں میں مشغول ہو کر اپنی معاشی ضروریات کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں، ایسے افراد بھی بے روزگار کے زمرے میں داخل ہوجاتے ہیں، اس طرح دیکھیں توکم وبیش ہر سال بیس(۰۲) کروڑ لوگ بے روزگار ہوتے ہیں اور انہیں روزگار فراہم کرنا آسان نہیں ہے، وزیر اعظم نریندر مودی کی تجویز کے مطابق پکوڑے اور پان بیچنے والوں کو بھی بر سر روزگار مان لیا جائے تو بھی یہ مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آتا۔
اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ نئے پروجکیٹ شروع کیے جائیں، ایک کروڑ کی آبادی والے ہر علاقہ میں نئے شہر آباد کرنے کا منصوبہ بنایا جائے، ان منصوبوں کی تکمیل کے لیے بہت سارے لوگوں کی ضرورت پڑے گی، یہ ضرورت ملازمت میں تبدیل ہو سکتی ہے، چھوٹی اور گھریلو صنعتوں کے فروغ کے ذریعہ بھی بڑی حد تک بے روزگاری دور کی جا سکتی ہے، لیکن اس کے لیے سرکاری سطح پر مالیات کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا، جو کار خانے پہلے سے کام کر رہے ہیں ان کی پیدا واری صلاحیت بڑھا نے کے منصوبوں میں بھی بہت سے لوگ کھپ سکتے ہیں، پیداوار زیادہ ہوگی تو اس کی مار کیٹنگ کے لیے بھی اچھے خاصے افراد کی ضرورت ہوگی،اسی طرح نئے کار خانے لگا کر ملکی پیداوار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے، اور جی ڈی پی (GDP)کی شرح دس فی صد تک بڑھائی جا سکتی ہے، لیکن اس میں بڑی رکاوٹ محنت سے متعلق ہندوستانی قانون ہے، جس میں مذکور شرائط مزدوروں اور بے روزگاروں کے حق میں کم اور مالکان کے حق میں زیادہ ہیں، جس کی وجہ سے کام کرنے الوں کا استحصال ہوا کرتا ہے، جن شرائط اور مطلوبہ صلاحیت کا ذکر ان قوانین میں موجود ہیں، اس کے پیش نظرایک غیر ملکی مزدور تنظیم نے یہ پیش گوئی کی ہے کہ آنے والے سالوں میں صلاحیتوں کی کمی کی وجہ سے ۰۳۰۲ء تک ہمارے پاس دو کروڑ نوے لاکھ نوکریاں متعینہ صلاحیتوں کے نہ ملنے کی وجہ سے کم ہوجائیں گی اور کام رہتے ہوئے بے روزگاری کا تناسب بڑھے گا، اگر یہ پیشین گوئی صحیح ہے تو ہمیں صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لیے بڑے پیمانے پر تربیتی نظام کی ضرورت ہوگی، یہ تربیتی نظام سرکار ہی چلا سکتی ہے اس لیے کہ اس میں بھی کثیر رقم کی ضرورت ہوتی ہے۔
ان حالات میں حکومت کو خواہ وہ ریاستی ہو یا ملکی، بہت سوچ سمجھ کر طویل منصوبہ بندی کرنی چاہیے؛ تاکہ ان نا گفتہ بہہ حالات پر قابو پایا جا سکے، نو جوانوں کو روزگار نہیں ملے گا،تو وہ تیزی سے مجرمانہ کاموں کی طرف بڑھیں گے اس طرح ملک کا مستقبل تباہ ہوگا،جو خود ان کی ذات کے لیے بھی اور ملک کے لیے بھی انتہائی غلط ہوگا۔