مساجد اور مذہبی مقامات کے خلاف تازہ مہم ، ذمہ دار کون؟

 سرفرازاحمد قاسمی حیدرآباد

گذشتہ کچھ برسوں سے ملک میں جمہوریت اور جمہوری نظام کو جس طرح پاؤں تلے روندا جارہاہے اور جمہوریت کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں،اس سے تو اب ایسا محسوس ہورہاہے کہ اس ملک جمہوریت اب شجرممنوعہ بن چکی ہے،اور جمہوریت کسی نامعلوم پرندے کا نام ہے،جس سے اس ملک کی حکومت بالکل ناآشنا ہے،اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف جس طریقے سے ملک کی مختلف ریاستوں میں کریک ڈاؤن اور طوفان بدتمیزی ہورہی ہے یہ بلاشبہ جمہوری ملک کے چہرے پر ایک بدنما داغ ہے، ان دنوں مسلمانوں کی مساجد اور دیگر مذہبی عبادت گاہیں نشانے پر ہیں اور انھیں شہید کرنے کا سلسلہ جاری ہے،اتر پردیش میں یوگی حکومت کے تحت مسلم عبادت گاہوں کی منظم تباہی بلا روک ٹوک جاری ہے،سپریم کورٹ نے عبادت گاہوں کے انہدام پر عدالتی پابندی کے باوجود ریاست کے علاقہ کشی نگر میں ایک مسجد کے انہدام پر انتظامیہ کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا ہے، کشی نگر ضلع کی نوری مسجد کی مسماری پر سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ مسجد کا انہدام عدالت کی سنگین توہین ہے،لہذا انتظامیہ کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا جاتا ہے جس کا جواب دو ہفتے میں دینا ہوگا،درخواست گزار عظمت النساء کا کہنا ہے کہ مسجد کی تعمیر کے لیے اراضی انہوں نے ہی وقفے کی تھی ان کے مطابق جانچ کے دوران یہ سامنے آیا تھا کہ مسجد کی تعمیر منظور شدہ نقشے کے مطابق ہے البتہ جو حصہ نقشے کے مطابق نہیں تھا اسے درخواست گزارنے خود ہی منہدم کر دیا تھا اس کے باوجود درخواست گزار کے مطابق انتظامیہ نے کشی نگر کے مقام ہاٹا میں واقع مدنی مسجد کے بیرونی حصے کو منہدم کر دیا، ان کے بقول انتظامیہ نے انہدام سے قبل انہیں اپنا موقف پیش کرنے کا موقع بھی نہیں دیا،اس سے قبل عدالت نے مسجد کے انہدام پر 8 فروری تک حکم امتناعی جاری کیا تھا،جس کا وقت ختم ہوتے ہی یوگی حکومت کے عہدے داروں نے انہدامی کاروائی شروع کر دی،قابل غور بات یہ ہے کہ ہندو تنظیموں نے اس مسجد کے بارے میں شکایت کی تھی کہ اس کی شکل مسجد کی طرح نہیں ہے، کیونکہ اس میں کوئی گنبد نہیں ہے ان کا دعوی تھا کہ اس عمارت کو ہندوؤں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے،آپ کو یادہوگا کہ حال ہی میں مسلم تجارتی اداروں اور ہوٹلوں کا بائیکاٹ،مسلمانوں کو کرائے پر مکان دینے سے انکار،مسلمان گھروں پر بڑے پیمانے پر بلڈوزر چلانے کے بعد،ہندو شدت پسند گروپوں کی جانب سے اب نئے نئے دعوے سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں،جگہ جگہ قدیم ہندو مندروں کی موجودگی ثابت کرنے کے لیے قدیم زمانے کی تمام مساجد اور درگاہوں پر آثار قدیمہ کے سروے کرانے کی درخواستوں پر عدالتی پابندی کے بعد ایسی عبادت گاہوں کا پتہ لگا کر جن کی تعمیر میں تجاوزات کی گئی ہیں انھیں نشانہ بنایا جا رہا ہے اور شہیدکیاجارہاہے۔

مساجد اور مذہبی مقامات کے خلاف تازہ مہم ، ذمہ دار کون؟
مساجد اور مذہبی مقامات کے خلاف تازہ مہم ، ذمہ دار کون؟

اتر پردیش کے ضلع بلند شہر میں واقع امر گڑھ گاؤں میں اکثریتی طبقہ کے کچھ لوگوں کو وہاں تعمیر ہو رہے مسجد کے مینار پر اعتراض ہے،وہ لوگ مینار کی اونچائی کم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں،ہندو اکثریتی طبقے کے لوگوں کا مطالبہ ہے کہ یا تو مینار کو گرا دیا جائے یا پھر اونچائی آدھی کردی جائے،امر گڑھ گاؤں کے پردھان اوم پر کاش شرما کے مطابق جب وہ مسجد تعمیر ہو رہی تھی تو کسی مقامی شخص کو کوئی اعتراض نہیں تھا لیکن اب ہندو طبقے کا کہنا ہے کہ مینار کی اونچائی سے ان کی زندگی کو خطرہ ہے کیونکہ اس کا غلط استعمال کیا جا سکتا ہے،اتر پردیش ہی کے گورکھپور ضلع کے گھوش کمپنی چوراہے کی مسجد کو گورکھپور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (جی ڈی اے) نے مبینہ طور پر غیر قانونی تعمیر کا حوالہ دیتے ہوئے منہدم کرنے کا حکم دیاہے،جبکہ اس دعوے کو وہاں کے مسلمانوں نے خارج کر دیا،جی ڈی اے کا دعوی ہے کہ نگر نگم کی طرف سے مختص زمین پر گذشتہ سال تعمیر کی گئی مسجد عمارت کے منصوبے کی مناسب منظوری کے بغیر تعمیر کی گئی تھی،مسجد کے نگراں شعیب احمد کو جاری کردہ نوٹس میں ہدایت دی گئی ہے کہ 15 دن کے اندر مسجد گرا دی جائے،نوٹس میں خبردار کیا گیا ہے کہ تعمیل کرنے میں ناکامی کے نتیجے میں عہدے دار اس مسجد کو خود منہدم کر دیں گے اور انہدام کے اخراجات بھی وصول کریں گے،ایک اور واقعے میں میرٹھ کی 150 سال پرانی مسجد کو متنازع ریپڈ ریل منصوبے (آرآر ٹی ایس) کی راہ میں رکاوٹ قرار دے کر منہدم کر دیا گیا،تا ہم متعدد رپورٹس میں دعوی کیا گیا ہے کہ یہ مسجد رضاکارانہ طور پر منہدم کی گئی ہے،یہ مسجد دہلی روڈ پر واقع تھی اور عہدے داروں کا کہنا ہے کہ اس کی مسماری منصوبے کی تکمیل کےلئے ضروری تھی، یہ انہدام گذشتہ جمعہ کو سخت پولیس کی نگرانی میں ہوا،جہاں مسجد کا مرکزی دروازہ توڑ دیا گیا اور بجلی کا کنکشن بھی کاٹ دیا گیا،اتر پردیش اورملک کے مختلف ریاستوں میں مذہبی عدم برداشت کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش بڑھتی چلی جا رہی ہے، خاص طور پر یوگی حکومت کی قیادت میں حکومت کے اقدامات سے مسلمانوں میں خوف اور بے یقینی پائی جا رہی ہے،اس طرح کے اقدامات سے مسلمانوں میں خوف اور بے یقینی پائی جا رہی ہے،ان کا خیال ہے کہ اگر اس طرح کے اقدامات جاری رہیں گے تو مسلمانوں کے لئے مزید مشکلات پیدا ہوں گی،سوال یہ ہے کہ اس طرح کے حالات پیدا کرنے کا ذمہ دار کون ہے؟ آخرمسلمانوں کو ملک کا دشمن کیوں سمجھا جارہاہے؟ان حالات کے تناظر میں گذشتہ کچھ ماہ قبل سپریم کورٹ کے نامور اور سینئر وکیل راجیو رام چندرن نے انڈیا اسلامک کلچر سینٹر کے اشتراک سے منعقد ایک پروگرام میں انہوں نے کہا تھا کہ اس وقت ملک میں قدیم مسجدوں اور مذہبی مقامات میں مندر تلاش کرنے کی فرقہ پرست عناصر نے جو مہم شروع کر رکھی ہے اس کےلئے سپریم کورٹ ذمہ دار ہے، جس نے گذشتہ سال بنارس کی تاریخی گیان واپی جامع مسجد میں سروے کی اجازت دے کر اس شر انگیز مہم کا دروازہ کھولا ہے،”آزادئ ضمیر” کے عنوان سے اس پروگرام میں راجیو رام چندرن کا خصوصی خطبہ رکھا گیا تھا،ساؤتھ ایشین مائنارٹیزلائرز ایسوسی ایشن(ساملا) نے یوم آئین ہندکے موقع پریہ پروگرام کیاتھا،خیال رہے کہ راجیو رام چندرن بابری مسجد مقدمہ میں مسلم فریق کے وکیل تھے اوراس کیس میں بہترین بحث کی تھی، انھوں نے کہا کہ دستور میں بنیادی حقوق کے باپ کو فریڈم آف کونشنس بھی کہا جاتا ہے،ساملا کی ایک پریس ریلییز کے مطابق راجیو چندرن نے اپنے لیکچر میں مسئلے کا تفصیلی احاطہ کرتے ہوئے اور عدالت عظمی کے متعدد فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ حقوق مسلمہ ہیں اور مذہبی، علاقائی، لسانی اور نسلی ہر نوع کے اقلیتی برادریوں کے حقوق کی آئین میں پاسداری کی گئی ہے،رام چندرن نے کہا کہ دستور کی دفعہ 25 مذہبی آزادی و اس پر چلنے اور اسکی تبلیغ کرنے کی ضمانت دیتی ہے، گذشتہ 75 سالوں میں سپریم کورٹ کے جو فیصلے آئے ہیں ان میں بیشتر اس حق کا دفاع کیا گیا ہے،جب بھی سیاسی،جانبدارانہ اور اکثریتی مفاد کے پیش نظر اس بنیادی حق پر ضرب لگنے کا خطرہ پیدا ہوا،انھوں نے کہا کہ تبدیلی مذہب کی آزادی کی بھی دستور ضمانت دیتا ہے،اس مسئلے میں دستور ساز اسمبلی میں زوردار بحث ہوئی تھی اور اس اصول کو تسلیم کیا گیا تھا کہ فرد کا اپنا مذہبی عقیدہ تبدیل کرنا اس کا بنیادی حق ہے،اس آئینی اصول کے باوجود متعدد ریاستوں نے” انسداد تبدیلی مذہب” کے عنوان سے ایسے قوانین بنائے ہیں جو اس بنیادی اصول کی خلاف ورزی کرتے ہیں،اس ضمن میں یو پی کے قصبہ سنبھل میں المناک واقعات پیش آئے ہیں اور ان میں پانچ معصوم جانوں کا اتلاف ہوا ہے،اس تناظر میں زیر تنازع مذہبی مقامات وارانسی اور متھرا کا حوالہ دیتے ہوئے راجیو رام چندرا نے کہا کہ سپریم کورٹ نے بابری مسجد بنام رام جنم بھومی ملکیت مقدمہ میں مذہبی مقامات کے 1947 سے پہلے کی حالت پر برقرار رکھنے کے متعلق قانون کے احترام اور پاسداری پر بڑا زور دیا تھا لیکن خود اس فیصلے کے خلاف جا کر گذشتہ سال سپریم کورٹ نے گیان واپی جامع مسجد میں سروے کی اجازت دے دی،اسطرح اس فیصلے نے قدیم مسجدوں میں مندر تلاش کرنے کا ایک دروازہ کھول دیا ہے،سنبھل کی جامع مسجد کا نام لیے بغیر انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں اس حوالے سے جو کیفیت پیدا ہوئی ہے،اس کے لئے ملک کی عدلیہ اور خاص طور سے عدالت عظمی ذمہ دار ہے،انہوں نے کہا کہ اگر 1991 کے مذہبی مقامات قانون کی پیروی کی جاتی تو آج ملک کے میں یہ حالات بالکل پیدا نہیں ہوتے”

گذشتہ سال نومبر کے اخیر میں پنجاب و ہریانہ ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ مسلمانوں کے قبرستان یا مسجد کی حیثیت سے ریوینیو ریکارڈ سمیت درج اراضیات کا اس صورت میں بھی تحفظ ہونا چاہیے،جب مسلمان طویل عرصے سے وہاں نہیں رہ رہے ہیں، اس طرح کی زمینات کو پنجاب میں تکیہ کہا جاتا ہے،عام مسلمانوں کے استعمال کےلئے جو زمین ہوتی ہے یعنی مسجد اور قبرستان وغیرہ اسے پنجاب میں تکیہ کہاجاتاہے،جسٹس سریشور ٹھاکر اور جسٹس سدیپتی شرما پر مشتمل ڈویژنل بنچ نے کہا تھا کہ تکیہ کی حیثیت سے درج زمینات اور ریکارڈرز قطعی ہیں،عدالت نے ایک گرام پنچایت کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے یہ کہا تھا، گرام پنچایت نے اس اراضی کو وقف قرار دینے کے لیے وقف ٹریبونل کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا ٹریبونل نے پنچایت کو ان اراضیات میں دخل دینے سے روک دیا تھا،عدالت کے اس فیصلے کا مطلب یہی تھا کہ جسے مسلمان نے وقف کردیا ہے،اسکی ہرحال میں حفاظت ہونی چاہئے، چاہے وہ قبرستان ہوں یا مسجد کی اراضیات ہوں،انکا تحفظ ہوناچاہئے۔

دو تین دن پہلے ایک قومی اخبار کے پہلے صفحے پر دو دو خبر ایک ساتھ تھی اس میں سے ایک خبر تو اسی میرٹھ کی تاریخی مسجد کی شہادت کا تھا، جس کا ذکر ہم نے اوپر کیا ہے اور ایک دوسری خبر یہ تھی کہ اتر پردیش کے ضلع سہارنپور کلکٹریٹ احاطے میں واقع مسجد میں باہری لوگوں کے آنے پر انتظامیہ نے پابندی عائد کر دی ہے، مسجد کے متولی محمد تنویر نے آج یہاں بتایا کہ جمعہ کے دن مسجد میں نمازیوں کی بھیڑ ہوجانے سے کلکٹریٹ میں راستہ جام ہو جاتا ہے،اس لئے جمعہ کی نماز میں اب باہری لوگ نہیں آسکیں گے،انہوں نے کہا کہ مسجد کمیٹی اس معاملے میں انتظامیہ کا پورا تعاون کرے گی،بجرنگ دل لیڈر وکاس تیاگی نے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کو خط لکھ کر شکایت کی تھی کہ مسجد غیر قانونی ہے اور سرکاری جگہ پر بنی ہوئی ہے، مسجد احاطے میں ڈاک گھر ہے اور تین چار کمروں میں لوگ کرائے پر رہتے ہیں،جن کا کرایہ مسجد کمیٹی ہی وصولتی ہے،ڈی ایم منیش بنسل اس معاملے کی جانچ کرا رہے ہیں،بنارس ہندوکالج کی مسجد میں بھی اسی طرح کا تنازع کھڑا کیاگیا اور وہاں بھی دوسرے لوگوں کے نماز پڑھنے کو بہانہ بناکر نشانہ بنایا گیا اور ہنگامہ کھڑا کیاگیاتھا،اخبار کے اسی صفحے پر ایک اور خبر بھی تھی کہ مہا شیوراتری کے موقع پر اجمیر شریف درگاہ میں موجود سنکٹ موچن مندر میں پوجا کرنے کی اجازت مانگی گئی ہے، ہندو سینا نے اس سلسلے میں ضلع کلکٹر کو ایک خط لکھ کر درخواست کی ہے، ہندو سینا کے قومی صدر وشنو گفتا نے دعوی کیا ہے کہ اس مقام پر ایک قدیم شیو مندر موجود ہے،جہاں صدیوں سے بھگوان شیوکی پوجا کی جاتی رہی ہے،اسی روایت کو دوبارہ شروع کرنے کےلئے ہندو سینا نے مہاشیوراتری کے موقع پر خصوصی پوجا کی اجازت مانگی ہے، ہندو سینا کے صدر وشنو گفتا نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ اجمیر درگاہ کو ہندو مندروں کو توڑ کر تعمیر کیا گیا تھا،شرپسندوں کی رفتار اور حکومتی پشت پناہی کے مدنظر خیر کی کوئی امید نظر نہیں آرہی ہے، ملک کے دیگر شہروں سے آنے والے دنوں میں ایسے درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں مقدمات سامنے آسکتے ہیں کیونکہ انکی تیاری پوری ہے، ہندوشدت پسند تنظیموں سے وابستہ افراد سول کورٹوں میں علاقائی مسجدوں اور درگاہوں کے خلاف مقدمات قائم کرکے ہیرو بننے اور مسلمانوں کو دبانے کی کوشش کررہے ہیں،ایسے میں ہمارے اور ہماری تنظیموں کے پاس لائحہ عمل کیاہے؟اور کون ہے اسکا ذمہ دار؟ہمیں اس سوال پر ضرور غور کرنا ہوگا، جھوٹ اور پرو پیگنڈے کے ذریعے سیتارام گویل نے ہندو ٹیمپل کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے جس میں انھوں نے جھوٹ اور پروپیگنڈے کو دستاویزی شکل دیکر پورے ملک کے مسجدوں اور درگاہوں کی ایک لمبی فہرست بنائی ہے، جوانکے بقول مندر توڑ کر بنائے گئے ہیں، یہ فہرست صوبہ،ضلع اور مقام کے ساتھ مذکورہ مسجد اور درگاہوں کانام درج ہے، یوپی میں 299 مساجد اور درگاہیں،کرناٹک میں 192 مساجد اور درگاہیں،بنگال میں 102 مساجد اور درگاہیں،راجستھان میں 170،ہریانہ میں 77،مدھیہ پردیش میں 151،مہاراشٹر میں 143،گجرات میں 170،دہلی میں 170،بہار میں 77 اور تمل ناڈو میں 174 مساجد اور درگاہیں شامل ہیں۔

مسلمانوں کے خلاف ملک میں چو طرفہ حملے جاری ہیں،میڈیا مسلمانوں کے تعلق سے گمراہ کن معلومات پھیلارہاہے،انتظامیہ اور مقننہ ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت کام کررہاہے،ان حالات میں مسلمانوں کے حقوق کی پامالی اور مذہبی و ثقافتی ورثے پر حملہ و نشانہ کا کیا مطلب ہے؟ملک میں مسلمانوں کی املاک نذر آتش کرنا،عبادت گاؤں کو مسمار کرنا،انھیں مذہبی،سیاسی وسماجی آزادی سے محروم کرنا ہندوتنظیموں کا محبوب مشغلہ بن چکا ہے،مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی ان کا روائیوں پر حکومتیں اور عدالتیں سب خاموش ہیں،عالمی میڈیا کی طرف سے بھی متعدد بار ملک میں بڑھتی ہوئی انتہاء پسندی پر سخت تنقید کرتے ہوئے یہ اعتراف کیا جاچکاہے کہ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد ہندوستان میں مذہبی شدت پسندی اور اقلیتوں کے خلاف رجحانات میں شدید اضافہ ہواہے،بالخصوص مسلمانوں کو زیر کرنے کےلئے آئین میں ترامیم کی گئیں،کالے قانون جیسے سخت قوانین نافذکئے گئے اور جنونی ہندؤں کو مسلمانوں کے خلاف اکساکر انھیں قتل کرنے،ان پر قدغنیں لگانے اور انکی املاک کو نقصان پہونچانے کی راہ ہموار کی گئی یہ سب کاروائیاں دراصل ملک کو ہندو ریاست بنانے کا عملی ثبوت ہیں جسے عالمی سطح پر بھی مسلسل نظر انداز کیا جارہاہے،ایسے میں ملک میں جمہوریت کہاں باقی ہے،اور کون ہے اسکا ذمہ دار آپ بھی غورکیجئے!

 

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare