مستان ٹائمز ، اور باسط بدایونی
سعید حمید
۱۹۷۰ ٔ کی دہائی میں حاجی مستان مرزا کا طوطی بولتا تھا ، ان کے مداحوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں تھی ۔ ان کے ایک مداح باسط بدایونی بھی تھے ۔

ممبئی کے ڈنکن روڈ پر واقع کندوری چال میں رہائش پذیر اردو داں اور حاجی مستان مرزا کے بڑے مداح ، جانے کیا جنون تھا کہ انہوں نے ایک ہفت روزہ اخبار شایع کیا ، جس کا ٹائٹل تھا ؛ مستان ٹائمز۔
اس زمانے میں کچھ لوگوں کا یہ خیال تھا ، اور انہیں شبہ تھا کہ باسط بدایونی نے یہ اخبار محض حاجی مستان مرزا کو اینٹھنے کیلئے نکالا ہے ، کیونکہ اس زمانے میں حاجی مستان مرزا کو اینٹھنے والے کئی صحافی بھی موجود تھے ، جن کا تعلق اردو ، انگریزی، ہندی سے تھا۔
میری باسط بدایونی سے اکثر ملاقات ہوا کرتی تھی ۔
ان کا اخبار آٹھ صفحات کا Tabloid ……بلیک اینڈ وہائٹ اخبار تھا ۔
بھارت لیتھو پریس میں اس کی طباعت ہوا کرتی تھی ، حالانکہ اس زمانے میں اردو رپورٹر آفسیٹ پریس بھی موجود تھا۔
اخبار سے تو ایسا کچھ بھی نظر نہیں آتا تھا ، کہ اس اخبار کو حاجی مستان مرزا فائنانس کرتے رہے ہوں ۔ باسط بدایونی کا جو حلقہ تھا ، ا س کے مدنظر کبھی ایسا نہیں لگا کہ حاجی مستان مرزا تک ان کی رسائی ہوئی ہو ، یا شناسائی رہی ہو !!!
بہر کیف وہ اپنا ہفت روزہ اردو اخبار مستان ٹائمز ، باقاعدگی سے شایع کیا کرتے تھے ۔ حاجی مستان مرزا ، نے اس زمانے مں اسمگلنگ ترک کرکے بلڈنگ کنسٹرکشن اور سماج سیوا کے میدان میں قدم رکھا تھا ۔
جے جے اسپتال کے سامنے انہوں نےایک این جی او آل انڈیا ملی سیکریٹریٹ بھی قائم کی تھی ، جس کا نام بعد میں آل انڈیا پوپلز سیکریٹریٹ رکھ دیا گیا ۔
حاجی مستان مرزا کے قریبی حلقوں میں اس بات کا علم بہت سے لو گوںکو تھا ، کہ حاجی مستان مرزا نے اس زمانے میں ایک انتہائی اعلی قسم کا وزٹنگ کارڈ بنایا تھا ، جو چہار رنگی ہوا کرتا تھا ، اور اس پر گولڈن امبوزنگ میں ان کا نام لکھا ہوتا تھا ۔ ان کا یہ کارڈ ضرورت مندوں کی مدد کیلئے مخصوص ہوا کرتا تھا ۔
جب بھی کوئی اخبار یا میگزین والا مدد کیلئے ان کے پاس آتا تھا ، تو وہ کبھی کیش نہیں دیا کرتے تھے ، یہ کارڈ دے دیا کرتے تھے ۔ جس کی جتنی مدد کرنی ہو ، اسے یہ کارڈ اتنی تعداد میں دے دیا کرتے تھے ۔
اخبار اور میگزین والوں کو علم ہوا کرتا تھا کہ حاجی مستان مرزا کے یہ مخصوص وزٹنگ کارڈ لے کر کہا ں جانا ہے ؟ اس زمانے میں دو بزنس ، بڑی دھوم سے ممبئی میں چل رہے تھے ۔
(۱) عرب اور گلف ممالک کی ریکروٹنگ ایجنسیاں
(۲) بلڈنگ کنسٹرکشن اور ری کنسٹرکشن
مستان بھائی کے یہ مخصوص کارڈس اخبارات ، اور میگیزین والوں کیلئے ویزا ، پاسپورٹ کی طرح ہوا کرتے تھے ، وہ جس ریکروٹنگ ایجنٹ یا بلڈر کے دفتر یہ کارڈ لیکر پہنچتے تھے انہیں ، اس کارڈ کی وجہ سے اشتہارات مل جاتے تھے ،
میں نے کبھی باسط بدایونی کے پاس ایسا کوئی کارڈ نہیں دیکھا اور نا ہی ان کے کسی شمارہ میں ، یہاںتک کہ عید نمبر میں بھی ، کسی بلڈر یا ٹراول ایجنٹ کا اشتہار دیکھا ۔ انہوں نے کبھی چہار رنگی سرورق والا عید نمبر شایع نہیں کیا ، ان کے مستان ٹائمز کا عید نمبر بھی بلیک اینڈ وہائٹ ہوا کرتا تھا ، ورنہ اس زمانے میں اخبار والے ایسے اشتہارت حاصل کرلیا کرتے تھے کہ کم از کم عید نمبر تو چہار رنگی سرورق کے ساتھ شایع ہو جائے۔۔۔۔۔
مستان ٹائمز کو کبھی میں نے چہار رنگی سر ورق میں نہیں دیکھا ۔
باسط بدایونی کو اشتہار دینے والے لوگ بھی زیادہ تر مقامی کاروباری ، بیوپاری اور ان کے خیرخواہ ہی ہوا کرتے تھے ، اس لئے ان کا اخبار بھی کبھی لیتھو پرنٹنگ سے فوٹو آفسیٹ پرنٹنگ تک بھی نہیں پہنچ سکا ۔
مستان ٹائمز کے لئے مسلسل جدوجہد کے دوران انہیں ٹی بی کی بیماری ہو گئی ۔ اور وہ پھر ویسی مشقت نہیں کرسکتے تھے ، جیسی پہلے کیا کرتے تھے ۔ ان کی صحت کا اخبار پر اثر پڑنا فطری تھا ۔
وہ قلم کی مزدوری کیا کرتے تھے ، اور اپنے اخبار کے مالک مدیر ، نیوز ایڈیٹر سے لیکر پیون تک ، خود تھے ، اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں تھی کہ حاجی مستان مرزا کے نام سے منسوب ہفت روزہ اخبار مستان ٹائمز کا کوئی اسٹاف بھی نہیں تھا ، کتابت تو اجرت پر کروا لی جاتی تھی ،
ایک قلم کا مزدور تھا ، حاجی مستان مرزا کا مداح تھا ، اردو صحافت کا ایک گوشہ نشین صحافی تھا ۔ اپنا کام کئے جا رہا تھا ۔
باسط بدایونی کی بیماری کا اثر مستان ٹائمز کی اشاعت پر بھی پڑا ۔
کبھی دو ہفتے میں ، کبھی تین ہفتے میں ، اخبار شایع ہونے لگا۔
پھر یہ بیماری جان لیوا ثابت ہوئی ، ایک دن باسط بدایونی کا انتقال ہوگیا ۔۔۔۔۔ٹی بی کے مرض نے ان کی جان لے لی اور اس کے ساتھ ہی ہفت روزہ مستان ٹاٗٗمز کی اشاعت کا سلسلہ بھی ہمیشہ کیلئے ختم ہوگیا ۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں اس اخبار نے اس زمانے میں ایک نو عمر قلم کار کو کافی پروموٹ کیا تھا ، وہ نوجوان باسط بدایونی کا اچھا دوست بھی بن گیا ، اور مستان ٹاٗئمز میں اس کی کہانیاں ۔مضامین ، مراسلےخوب چھپنے لگے ۔
اس نوجوان کا نام تھا ، شیر خان رنگیلا ، باندرہ میں رہائش تھی اس کی اور وہ اکثر باسط بدایونی سے ملاقات کرنے کندوری چال ڈنکن روڈ آیا کرتا تھا ۔۔۔ بعد میں یہ کم عمر قلم کار شیر خان رنگیلا ، ایک بہت بڑا اور مصروف فلم رائٹر بن گیا جسے لوگ ایس خان کے نام سے پہچاننے لگے ۔۔۔۔۔۔
، ان کو ابتدائی دور میں باسط بدایونی اور ان کے اخبار ہفت روزہ مستان ٹائمز نے کافی پروموٹ کیا تھا۔