مسلم قوم ؛ بومابوم قیادت ، اور ہمارے مسائل

تکلف برطرف : سعیدحمید

’’مسلمانوں کے نیتا اور ملاُّجب دیکھو تب بوما بوم کرتےرہتے ہیں، ان کی بوما بوم منتریوں اور پولس والوں کوصرف

ایک میمورنڈم دینے اور ایک فوٹو نکالنے کیلئے ہوتی ہے ،تاکہ اس فوٹو کو اخبار اور میڈیا میں دیا جا سکے ۔‘‘

مسلم قوم ؛ بومابوم قیادت ، اور ہمارے مسائل
مسلم قوم ؛ بومابوم قیادت ، اور ہمارے مسائل

یہ الفاظ ایک ایسے تجربہ کار پولس افسر کے ہیں ، جنہوں نے ممبئی کے مسلم اکثریتی علاقوں کے پولس اسٹیشنوں میں گذارے اور انہیں مسلم قوم کی نبض کا پتہ ہے ،مسلم قیادت کی اصلیت و حقیقت کا بھی علم ہے ۔

ان کی نظر میں مسلم نیتا گیر ی اور مُلاّگیری کی حقیقت صرف ’’بوما بوم ‘‘ ہے ۔

ممبئی کی بول چال کی اپنی زبان ہے،اس میں ’’بوما بوم ‘‘ خواہ مخواہ کی چیخ پکار اور شور شرابہ کو کہتے ہیں۔

ظاہر سی بات ہے ،کہ یہ تبصرہ ساری مسلم قیادت کیلئے نہیں ہے ۔

سارے مسلم علماء کیلئے بھی نہیں ہے ۔

البتہ، وہ مسلم نیتا ، سوشل ورکرس اور مُلاّ مولوی ، جو اکثر مسلم قوم کے معاملات کے حوالے سے اکثر و بیشتر پولس افسران

یا ذّمہ دار افسران یا حکام و وزراء سے مسلسل رابطہ میں رہا کرتے ہیں،لیکن ، کچھ خاص نہیں کرتے ، محض بوما بوم کرتے ہیں،

ایسے نیتاؤں اور مُلاّؤں کے بارے میں یہ ایک قابل توجہ کمنٹ ہے ۔

یہ بڑے افسوس کا مقام ہے کہ قیادت کے نام پرگذشتہ کچھ دہائیوں میں مسلم قوم میں ایک ایسا گروہ پیدا ہوگیا ہے ،

جس میں نیتا بھی ہیں ، مُلاّ مولوی بھی ہیں ، سوشل ورکرس بھی ہیں ، تعلیم یافتہ لوگ بھی ہیں ، جو اپنے آپ کو دانشور کہتے ہیں ۔

اسے اکثر و بیشتر مسلم قیادت کہا جاتا ، یا سمجھا جاتا ہے ، جن کا کام مسلم معاملات پر صرف شور مچانا ہے ، ان کے حل کیلئے سنجیدگی سے کوشش کرنا ، ان کی لیڈری کے ایجنڈے میں شامل نہیں ہے ۔

ایک زمانہ میں ہمارے شہر میں کسی معاملہ پر مسلم قیادت کی کوئی میٹنگ ہوا کرتی تھی ، تو اکثر چائے پانی سے بات زیادہ آگے نہیں بڑھتی تھی ۔

جسے قوم کے مسائل کا درد ہوا کرتا تھا ، وہ چائے پانی کیلئے نہیں ، بلکہ مسلم قوم کی درد مندی میں ایسی میٹنگوں میں شریک ہوا کرتا تھا ۔

ہمیں یاد ہے کہ جونی مسجد ، مدنپورہ میں مرحوم یاسین انصاریکسی سنگین قومی و ملیّ مسئلہ پر میٹنگ منعقد کرتے تھے ،

تو تمام بڑے بڑے علما ء ، اکابرین ، دانشور ، یہاں تک کہ وزراء بھی مسجد کے ایک حصہ میں جو دفتر اور گودام کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا ،چٹائی پر منعقد ہونے والی اس میٹنگ میں بڑی تعداد میں شریک ہوتے تھے ،اور ان سب کیلئے محض ایک کپ چائے مخصوص ہوا کرتی تھی ،

دعوت طعام کا کوئی عمل دخل نہیں ہوا کرتا تھا ۔

ہاں ، ویسے عام دنوں میں یاسین انصاری جیسے سرگرم افراد اپنے دوستوں کیلئے دال گوشت کی دعوت رکھ دیں ،وہ دیگر بات ہوا کرتی تھی ،لیکن جب کوئی ملی مسئلہ درپیش ہو ، اور مسلم قیادت کی میٹنگ منعقد کی جائے ،تب چائے پانی پر ہی بات اور میٹنگ مکمل ّہوجاتی تھی ۔

لیکن ، جب سے اس نئی مسلم قیادت کا وجود ہوا ، اور نئے نئے لوگ ملی خدمت ، ملت کی خدمت ، مسلمانوں کی خدمت جیسے عنوانات بنا کر سرگرم عمل ہونے لگے ، اور اس نئی قیادت کو آگے بڑھایا گیا ،

جسےہم ایک تجربہ کار پولس افسر کی زبان میں غریب مسلم قوم کی ’’بوما بوم قیادت ‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں ، تب سے اس بومابوم مسلم قیادت کی ہر میٹنگ کسی بڑے کلب ، ہوٹل یا جم خانہ میں ہوتی ہے ۔اور میٹنگ کے ساتھ ظہرانہ یا عیشائیہ یعنی LUNCH OR DINNER لازمی شرط ہوا کرتی ہے ۔یا پھر آج کل پروگرام کے بعد HIGH TEA کا بھی انتظام ہے ، یہ بات دعوت ناموں کا حصہ بن رہی ہے ۔

ہم گذشتہ کم از کم دو دہائیوں سے مسلمانوں کی اس بوما بوم قیادت کا تماشہ دیکھ رہے ہیں اور ان کی مقبولیت کا اندازہ بھی بخوبی کر رہے ہیں

کہ جہاں ظہرانہ یا عیشائیہ نہیں ہو ، وہاں سامعین غائب۔۔۔۔اور ان میٹنگوں کو ہم نے ناکام ہوتے ہوئے بھی دیکھا ہے ۔

قوم کے غم میں ڈنر کھاتے ہیں حکام کے ساتھ

رنج (بومابوم ) لیڈر کو بہت ہے ، مگر آرام کے ساتھ

مسلمانوں کی بوما بوم قیادت نےاپنی حرکتوں سے مرحوم اکبر الہ آبادی کے شعر کو گویا زندہ و جاوید کردیا ،

آج کل ہم اس شعر کو بومابوم مسلم قیادت کے پروگراموں میں فلمی منظرنامہ کی طرح دیکھا کرتے ہیں ۔

ایک بات قدیم مسلم قیادت اور جدید بوما بوم مسلم قیادت کے درمیان موازنہ کرتے ہوئے ہم نے یہ بھی نوٹ کی کہ روایتی اور قدیم مسلم قیادت کے اطراف صحافی ، اردو جرنلسٹ گھوما کرتے تھے ،ان سے اپوایئنٹمنت کے طلب گار ہوا کرتے تھے ، ان سے ملاقات کے منتظر رہا کرتے تھے ، کہ ان کا انٹرویو لیں ، ان کی میٹنگوں ، سرگرمیوں کی رپورٹ کریں ۔

لیکن خدا بھلے کرے اس بوما بوم مسلم قیادت کا ، جب سے یہ میدان میں اتر آئی ، اردو صحافیوں اور انگریزی میں مسلم BEAT کے صحافیوں کے تو وارے نیارے ہوگئے ، مزے ہی مزے ہوگئے ۔۔۔۔۔۔۔بوما بوم مسلم قیادت نے اپنی رپورٹ اور تصویر

لیکر صحافیوں ، اردو اخبارات کے دفاتر ہی نہیں بلکہ ،اردو صحافیوں کے گھروں تک بھاگنا شروع کیا ۔

ان کو ڈنر ، لنچ پر بلانا شروع کردیا ، انہیں تحفے تحائف بنام ہدیہ دینا شروع کردیا۔

اردو صحافیوں کے لئے بھی کام آسان ہوگیا کہ بوما بوم قیادت اپنی خبر خود ہی اردو میں ٹائپ کرواتی اور بھیج دیا کرتی ہے ، اور اردو صحافی کا کام صرف ایک سرخی لگانا اور اپنی BYE_LINE دینا ہوا کرتا ہے ، اسلئے آپ سارے اردو اخبارات دیکھ لیجئے ، بوما بوم قیادت کی خبروں کی صرف سرخیاں مختلف ہونگی ، تمام اردو اخبارات میں خبریں حرف بہ حرف ایک ہوگی ۔

وہ پرنٹ کا زمانہ تھا جب ایک رپورٹ یا تصویر شائع کروانے میں بڑی مشقت ہوجاتی تھی ۔

وہ تو بھلا ہو ، ان لوگوں کا جنہوں نے فیس بک ، ٹوئیٹر ، وہاٹس اپ اور سوشل میڈیا کی کھوج کردی ۔

یوں مسلمانوں کی بوما بوم قیادت کی تو گویا نکل پڑی ۔

اب ادھر کہیں میٹنگ ہوئی ، ادھر لائیو رپورٹ سوشل میڈیا پر بھی چل پڑی ۔ادھر حکام یا افسران کو میمورنڈم پیش کیا ،اُدھر ڈھیر ساری تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگیں ۔سوشل میڈیا نے مسلمانوں کی بوما بوم قیادت کیلئے بڑی آسانیاں فراہم کردیں ، بلکہ اس قبیلہ کی آبادی بڑھانے میں بھی بڑا کردار ادا کیا ۔

مسلمانوں کو یہ شکایت ہے کہ سنجیدہ مسلم مسائل پر بھی تجربہ کارافسران یا حکام کیوں سنجیدگی سے غور نہیں کرتے ؟

اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ فوٹو چھاپ مسلم لیڈر شپ کی حرکتوں اور منشا ء کی وجہ حکام بھی سمجھ گئے ،

اس بوما بوم مسلم قیادت کو صرف مسائل اٹھانے میں دلچسپی ہے ،مسائل حل کرنے میں قطعی کوئی دلچسپی نہیں ۔

ہر گرما گرم مسئلہ پر یہ قیادت سرگرم ہو جاتی ہے ۔

یعنی خوب بوما بوم کرتی ہے ۔

اس بوما بوم کا اصلی مقصد حکام کی توجہ اور قربت حاصل کرنا ، عام دنوں میں ان سے ربط و ضبط بڑھانا ، اور اپنے اپنے علاقوں میں ان ربط ضبط کی تشہیر کے ذریعہ اثر و دبدبہ پیدا کرنا ، ہوا کرتا ہے ۔اس لئے ہر سنگین مسئلہ پر بوما بوم ، اور پھر ایک میمورنڈم اور اس کی ویڈیو و تصویر ۔۔۔۔ بومابوم مسلم قیادت کا مقصد حل ۔

اب انہیں کسی دوسرے مسئلہ کا انتظار رہتا ہے ۔لنچ و ڈنر کی دعوت اور حکام سے ایک اور ملاقات کے موقع کیلئے ۔

انہیں مسائل اٹھانے میں ، اسی لئے دلچسپی ہے ،لیکن مسائل کے حل میں انہیں بھی کوئی دلچسپی نہیں ۔تجربہ کا افسران و حکام بھی اس بات کو سمجھ چکے ہیں ، اوراسی لئے وہ مسلم مسائل کو بھی محض’’ بومابوم ‘‘ ہی سمجھتے ہیں ۔

اب گستاخ گری مہاراج سے لے کر مسجدوں کے لاؤڈاسپیکر سے لیکر دیگر تمام مسائل پر نظر دوڑا لیجئے ، کہ روزانہ کس کس نے میمورنڈم نہیں دئیے ؟ کسے کسے نہیں دئیے ؟ نتیجہ کیا نکلا ؟ کچھ بھی نہیں ؟ تو پھر بلا وجہ کا شور شرابہ ، ہنگامہ؟ یعنی بوما بوم ، بوما بوم ؟

دوسری طرف ، ان کا طرز عمل کیا ہوا کرتا ہے ؟

یہ بتانا تھا کہ ممبئی کو بھونگا مکت کردیا جائے گا ، تاکہ الیکشن میں اس کا سیاسی فائدہ اٹھایا جائے ، اور اس کام کے شور شرابے کیلئے ہر کوئی میمورنڈم لیکر بھاگنے نہیں لگا ، صرف ایک شخص کو کام پر لگایا گیا ، اور کام کردیا گیا ۔ہمارے یہاں کیا ہو رہا تھا ؟ایک دوڑ لگی ہوئی تھی ، بوما بوم کی ،

بوما بوم ۔۔۔بوما بوم ۔۔۔بوما بام ۔۔۔۔۔۔صرف بوما بوم !!!

عدالت میں تو پہلے دن ہی پٹشن فائل کی جاسکتی تھی ، جب کچھ مساجدکو نوٹس جاری کئے گئے اور ان کے جبراً لاوڈ اسپیکر اتارے گئے،

کیونکہ اس بات کا سب کو علم تھا کہ کرت سومیا کس کا آدمی ہے ، اور کس کے اشارے پر وہ بھونگا مکت ممبئی کا کاریہ کرم مکمل کرنے میدان میں اترا ہے ، اس کا اصلی ایجنڈا کیا ہے ۔

لیکن ہمارے یہاں تو بوما بوم قیادت کافی سرگرم ہے ، جو بوما بوم ، بوما بوم میں زیادہ یقین رکھتی ہے ۔

کئی مہینے گذار دئے گئے اور جب کرت سومیا نے یہ اعلان کردیا کہ ممبئی کو اسی فیصد بھونگا مکت کردیا گیا تب کہیں جاکر کچھ لوگوں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا اور جب تک سماعت ہوتی ، کرت سومیا نے اعلان کردیا ، ممبئی کو بھانگا مکت کردیا گیا ۔

ہماری بوما بوم قیادت ہی اگر قوم کی قیادت کر رہی ہے ، نمائندگی کر رہی ہے ، رہنمائی کر رہی ہے ،

تو پھراس صورتحال کیلئے ذمہ دار کون ؟ اس سوال پر ضرور غور کرنا چاہئے !!!

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare