مفتی ثناءالہدی قاسمی بحیثیت محقق تاریخ بہار مدرسہ بورڈ
شاہنواز احمد خاں
قبل اس کے کہ موضوع کی رعایت کا خیال رکھتے ہو ئے کلام کو صفحۂ قرطاس کے سپرد کیا جائے میں چیر مین بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کو ابنائے قدیم کا ایک غریب الدیار طالب علم ہو نے کے ناطے بطور تبریک مبارک باد پیش کرتا ہوں موصوف نے ایک جرات مندانہ قدم اٹھا کر مدرسہ بورڈ کے طویل سفر کی کڑیوں کو جوڑنے کا عزم کیا ہے۔جشن صد سالہ انھیں ٹوٹی ہوئ کڑیوں کی نمائش کا ایک عوامی پلیٹ فارم ہو گا دعا ہے جشن صد سالہ کے موقع پر علمائے مدارس ملحقہ اپنے شاندار ماضی کی جلوتوں کا دیدار کر سکیں۔مدرسہ بورڈ کی کہانی علمائے سلف و خلف کی علمی و ثقافتی دیدہ وری کی منھ بولتی داستان ہے۔اس داستان کے عظیم کردار وہ تمام علمائے ہند ہیں جنھوں نے انگریزوں کے ظلم و ستم کو مردانہ وار جھیلتے ہو ئے علوم دینیہ کی ہر نا مساعد حالات میں حفاظت کا بیڑا اٹھایا۔انھین مردان کار میں سرخیل حریت ھند مولانا ابوالکلام آزاد، شیخ الہند مولانا محمود حسن، ابوالمحاسن محمد سجاد،سید سلیمان ندوی، مولانا مناظر احسن گیلانی، اور بہار کے عظیم سیاست دانوں میں مسٹر مظہر الحق، سر فخرالدین،بیرسٹر عبد العزیز، سید محمود،عبدالقیوم انصاری،خان بہادر مولانا محمد مبارک کریم،الحاج معین الدین ندوی، مولانا منت اللہ رحمانی،شیخ الہند کے خلیفۂ مجاذ مولانا محمد سہول، قاضی مجاھد الاسلام قاسمی ، جسٹس نور الہدیٰ ، جسٹس شمس الھدیٰ اور اسے خانوادہ مبارک کے متعدد علماء و دانشوران ھند کی مساعی جمیلہ سے بہار مدرسہ بورڈ کا قیام ١٩٢٢ میں عمل میں آیا۔انھیں بزرگوں کی کوشش سے بہار کے کم و بیش ہر ضلع میں علوم دینیہ کے مراکز قائم ہو ئے۔

اپنے زمانۂ قیام سے ہی بہار مدرسہ بورڈ علوم دینیہ بشمول علوم عصریہ کی حفاظت و صیانت پر مامور ہے۔آج سے پینتیس سال پہلے جب مدرسہ بورڈ کے چیر مین یکے بعد دیگرے انوار کریم اور نسیم اختر منتخب ہو ئے تھے اور مجھے ان دونوں بزرگوں کے ساتھ بحیثیت سکریٹری کام کرنے کا موقع ملا۔یہ دونوں حضرات علوم دینیہ کی گرتی ہوئ ساکھ کو بچانے کے آرزومند تھے میں بھی اسی خیال دلدادہ تھا چنانچہ ابنائے قدیم مدارس ملحقہ اور آل بہار مدرسہ اسٹوڈنٹس یونین بشمول اساتذہ مدارس ملحقہ کے صلاح و مشورہ سے طے پایا کہ بورڈ کو اپنے روایتی کام سے وقت فارغ کرکے اصلاح تعلیم کو بھی ایجنڈہ میں شامل کرنا چاہئے۔اساتذہ مدارس میں جس شخص فرید نے بورڈ کی اصلاح تعلیم کے منصوبہ کو سراہا اور اپنی طرف سے ہر ممکنہ تعاون کا یقین دلایا اسے دنیائے علم و ادب مولانا مفتی ثناء الھدیٰ قاسمی کے نام سے جانتی ہے۔اس زمانہ میں مولانا محترم مدرسہ احمدیہ ابابکرپور کے فاضل استاذ تھے۔ان کے شریک کارمولانا شکیل قاسمی بھی اسی نظریہ کے حامل تھے اسی کے ساتھ ابنائے قدیم کی صف سے پروفیسر رضوان الحق ندوی، پروفیسر محمد ارشد جمیل،پروفیسر حافظ انیس صدری، پروفیسر عید محمد انصاری، پروفیسر واعظ الحق شمشی، اسٹوڈنٹس کے درمیان سے محمد ارشد استھانوی اور عبد القدوس نے اصلاح تعلیم پر بورڈ کے رخ کی بھرپور حمایت کی۔مولانا ثناءالھدی قاسمی نے تو اس موضوع کو اپنے دیرینہ مشن کا حصہ بنا لیا۔انھیں زعمائے مدارس کی رائے سے بورڈ نے ١٩٩٢ کو تعلیمی سال کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا۔میری یاد داشت کے مطابق اصلاح تعلیم کا پورا منصوبہ مولانا ہی نے تیار کیا تھا جس میں سر فہرست مدرسہ بورڈ کی تاریخ نگاری، اساتذہ مدارس کی تربیت اور طلبائے مدارس کے وظائف کو ترجیحی طور پر رکھا گیا تھا۔اب بڑا مسئلہ فنڈ کی فراہمی کا تھا بورڈ کی تحویل اس کے لئے آمادہ نہیں تھی۔بجٹ میں بھی اس کے لئے کوئ پروویزن نہیں رکھا گیا تھا۔بورڈ کے عاملین اسے ایک لا یعنی کام سمجھتے تھے۔میں نے چیر مین سے التماس کہا کہ اصلاح تعلیم کے منتخب ایجنڈہ کو پس پشت نہیں ڈالا جا سکتا۔بات طے پائ کی بورڈ کی تاریخ سازی پر ہو نے والے اخراجات کی بھر پائ contingency سے کی جائے گی۔اب بورڈ کی ساری نگاہ مولانا قاسمی پر ٹکی ہو ئ تھی۔مولانا کی خمیر جس مٹی سے تیار ہوئ تھی اس میں آہنی عزم کی قوت ارادے میں نے کام کے آغاز کے پہلے ہی دیکھ لیا تھا۔انھوں نے بس اتنا ہی کہا کہ سکریٹری صاحب مجھے جس دریا کے حوالے کر رہے وہ اب خشک ہو چکی ہے مجھے ریگ سے پانی نکالنا ہو گا۔قرعہ فال ان کے نام نکل چکا تھا ۔مولانا نے محض اساتذہ مدارس کو ان کا بھولا ہوا سبق یاد دلانے اور قوم وملت کے قائم کردہ مدارس کو صحیح رخ پر لا نے کے لئے اس راہ کی مشکلوں کو ہنستے رہتے برداشت کیا۔مولانا نے کم و بیش ہر مدرسے کا دورہ کیا، منتظمین مدارس سے ملے،اساتذہ سے براہ راست باتیں کیں، کتب خانوں سے ربط کیا۔تنظیم مدارس کے ذمہ داروں سے ملے اور تب جاکر بہار مدرسہ بورڈ تاریخ و تجزیہ منصہ شہود پر جلوہ فگن ہوئ۔اس تاریخ پر پیش لفظ بہار کے گورنر ڈاکٹر اخلاق الرحمن نے ایک ماہر تعلیم کی حیثیت سے لکھا۔سندیش کے حصّے کو غلام سرور نے اپنے حکیمانہ انداز میں سپرد قلم کیا۔غلام سرور نے اپنی آنکھوں سے مدارس کی زبوں حالی دیکھی تھی اور بحیثیت وزیر تعلیم انھوں نے اساتذہ مدارس کی تنخواہوں کا دیرینہ مسئلہ حل کیا تھا اس لئے ان کے کلام میں جو تلخ نوائ ہے اس میں ایک درد کا پہلو ہے ایک کرب ہے وہ مجھ سے بارہا فرماتے خان صاحب! میں نے مزدور کو پوری اجرت دی لیکن اس نے کام پورا نہیں کیا۔جب وہ فاقہ مستی کے شکار تھے تو ان کی لو خالق و رازق سے تھی تعلیم و تعلم ان کا نصب العین تھا لیکن پیٹ کی بھوک مٹتے کے ساتھ ہی وہ مدارس علمیہ کے موقف سے دور جا لگے اس کا قلق انہیں تا حیات رہا وہ اپنے سندیش میں ایک جگہ لکھتے ہیں: آپ کو یقین نہ آئے گا مگر یہ حقیقت ہے کہ ایک ہزار سال کے دوران ہندوستان کے کسی مسلم بادشاہ نے ایک بھی یو نیورسیٹی، دار العلوم،جامعہ،یا اسکول کالج کی بنیاد نہیں رکھی۔بر صغیر میں آج مسلمانوں کے جتنے پرانے اور جانے مانے تعلیمی ادارے ہیں گذشتہ دو سو برسوں کے اندر یعنی ایسٹ انڈیا کمپنی کی آمد کے بعد کے دور کے ہیں۔
پیغام کی تحریر اس کوشش رندانہ کے محرک و مؤید مولا نا شکیل قاسمی کی ہے وہ رقم طراز ہیں: آج سے چند سال قبل جب میں نے مدرسہ بورڈ کے ذمہ داروں کی توجہ اس طرف مبذول کرائ تھی تو مجھے احساس تھا کہ مدرسہ بورڈ کی تاریخ کی ترتیب کا کام ایک دشوار عمل ہے، کیوں کہ اس سلسلے کی معلومات سفینوں میں کم، سینوں میں زیادہ ہیں اور اس کے لئے بزرگ شخصیتوں سے ملنا، ان کی یادوں کو کریدنا پھر ان کے حافظہ کی مدد اور نقش کہن سے نتیجہ اخذ کرنا جوئے شیر لا نے کے مترادف ہے١٩٩٢ کو تعلیمی سال قرار دے کر بورڈ نے تعلیمی اور تدریسی میدان میں کچھ اہم کرنے کا عزم کیا تھا جس کی جھلک آپ کو بورڈ کے طویل ایجنڈہ میں ملے گی۔بر سوں سے طلبا کا اسکالر شپ رکا ہوا تھا اسے جاری کردیا گیا مشاہیر ملک و ملت کے نام پر دربھنگہ، مدھوبنی، بورنیو اور رانچی میں سیمینار منعقد ہو ئے دربھنگہ کے سیمینار میں خود غلام سرور نے اپنے مخصوص انداز میں علماء کو ان کا سبق یاد دلایا تھا مدرسوں کی افتادہ زمین پر شجر کاری کی مہم بھی چلائ گئ تھا اس زمانہ میں ابنائے قدیم بھی میری یاوری فرماتے تھے ہماری خامیوں کی نشاندھی کرتے آگے کیا کرنا ہے اور کیسے کرناہے اسے واضح کرتے مولانا ثناءاللہ قاسمی نے ابنائے قدیم کے ایک فعال رکن پروفیسر ارشد جمیل کا ایک خط بہار مدرسہ بورڈ تاریخ و تجزیہ کے صفحہ نمبر١٣١ پر موجود ہے اس خط کو خود میں نے روزنامہ قومی تنظیم پٹنہ کے حوالہ کیا تھا جو ١٣/ فروری١٩٩٢کو شائع ہوا میں اسے من و عن یہاں نقل کر رہا ہوں
امتحانات کی موجودہ حالت؛مولانا قاسمی لکھتے ہیں ان ساری تدابیر کابھی خاطر خواہ فائدہ نظر نہیں آیا، اوران دنوں امتحانات جس انداز سے ہو رہے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ڈاکٹر جمیل نے بورڈ کے امتحانات کو کچھ زیادہ قریب سے دیکھا ہے، لکھتے ہیں؛
ہمارے قرب و جوار میں دو مراکز امتحان تھے، امتحان کے نام پر جو ننگا ناچ ہوا اس کا نظارہ کچھ میں نےبھی اپنے گاؤں میں بیٹھ کر کیا، اس پر آپ یقین کریں یا نہیں کریں لیکن یہ حقیقت ہے کہ وہ دونوں مراکز امتحان، مراکز امتحانات رہے ہوں یا نہیں اس کے ارد گرد کے گاؤں یقیناً مراکز امتحانات تھے ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ میرا گاؤں خود مرکز امتحان ہو، گلی کوچوں میں آپ کے امتحانات کی کاپیاں گشت کرتی نظر ہی نہیں آئیں بلکہ ایک کاپی تو میں نے سڑک پر گری ہوئ یا پھیکی ہوئ پائ جس میں جوابات لکھے ہوئے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔ اس امتحان نے دل کے سارے پھپھولے پھوڑ ڈالے
ایک دوسری تصویر دیکھیں جو محلہ شیخانہ میں قائم مدرسہ ابتدائیہ قونیہ مومنیہ کی ہے ۔مولانا لکھتے ہیں؛ بورڈ کے قیام کے بعد اس کا الحاق مدرسہ بورڈ سے ہو گیا، تب سے آج تک مدرسہ بورڈ کا نصاب اس مدرسہ میں رائج ہے اور بورڈ کے دیگر مدارس کی طرح تعلیمی انحطاط نے یہاں بھی اپنے قدم جمائے ہیں۔طلبہ پڑھتے نہیں بلکہ امتحان میں شریک ہو تے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔خدا اب بھی ان کے ذمہ داروں کو صحیح فہم عطا کرے تا کہ یہ پرانی روایت کی طرف لوٹ سکے۔
مولانا قاسمی نے اپنی متذکرہ تاریخ میں بہار میں مدارس کی مختصر تاریخ، کچھ اولین مدارس جن میں مدرسہ سیف خاں،مدرسہ خانقاہ پھلواری شریف،مدرسہ شہبازیہ بھا گلپور، مدرسہ گیلانی،مدرسہ اسلامیہ بہار شریف، مدرسہ امدادیہ در بھنگہ،شیخ بڈھ حقانی کا قائم کردہ کاشانہ علم دانا پور کا ذکر کیا ہے۔اسی کے ساتھ باد شاہوں اور حکمرانوں کے دور میں اہل مدارس کی سرپرستی کا بھی ذکر آگیا ہے خود میرے ضلع روہتاس میں مدرسہ خانقاہ کبیرہ سہسرام کی تاریخ لیں اس کا شمار بہار کے قدیم ترین مدرسوں میں ہو تا ہے۔اس مدرسہ کی سرپرستی دو مغل حکمرانوں کے حصہ میں آئ جیسا کہ کتاب کے صفحہ ٤٢/ پر درج ہے۔مولانا قاسمی نے اپنی تحریر میں میری ریپورٹ کو شامل کر کے اسے دوآتشہ بنا دیا ہے۔انھیں چاہئے تھا کہ جس طرح صغریٰ وقف اور شمس الھدیٰ وقف کا ذکر انھوں نے نہایت تفصیل سے صفحہ ٦٧-٧٢ کے درمیان کیا ہے اسی طرح خانقاہ کبیریہ سہسرام کے وقف نامہ کو بھی قارئین کے حوالہ فرماتے۔ریپورٹ پڑھ کر ہر صاحب دل آہ کے علاوہ کیا کرسکتا ہے سعدی این ہمہ آوردہ تست۔الحاق شدہ مدرسوں میں کلیدی مدارس کا عمومی ذکر آگیا ہے لیکن ایک خلش رہ گئ وہ یہ کہ ان مدارس سے فیض یافتہ حضرات کا ذکر جمیل بھی سامنے آجا تا تو ان مدارس کا سینۂ آبگینہ ہو جاتا۔شمس الھدیٰ سے اکثر فارغین وہی تھے جو اپنے گاؤں کے مدرسوں سے پڑھ کر آئے تھے۔ پروفیسر عبد المغنی ہوں،ڈاکٹر ظفر اوگانوی ہوں۔ڈاکٹر حبیب المرسلین ہوں،ڈاکٹر عبد الغفار صدیقی ہوں،محمد اظہار عالم ہوں۔ڈاکٹر ارشد جمیل ہوں،احمد حسین ہوں، واعظ الحق شمسی ہوں، مختار احمد شمسی ہوں۔ڈاکٹر خواجہ اکرام الدین ہوں۔سبطین آسی ہوں۔قاضی عبد الوارث ہوں،عید محمد انصاری ہوں، عبد القیوم انصاری ہوں، پروفیسر حافظ انیس صدری ہوں،خود میری ابتدائ تعلیم مدرسہ نیازیہ نظامیہ اکبر پور میں ہوئ، اس طرح مدرسہ ملحقہ کے فارغین سے محبوب کی ہر گلی آباد ہے لیکن قابل غور اور توجہ طلب بات یہ کہ جن اسماء کی میں نے ورق گردانے کی اور میرے تصور میں پنہان ہیں کل بغیر استثنیٰ کے اس زمانہ کی یاد گار ہیں آپ انھیں پروڈکٹ بھی کہ لیں، جب بہار مدرسہ اکزامینیشن بورڈ گورنمنٹ بہار کا ایک ذیلی ادارہ تھا جس میں اسسٹنٹ ڈایریکٹر اسلامک ایجوکیشن کا ایک با وقار عہدہ ہوا کرتا تھا۔رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائ میں معاف، بہار مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کہنے کو تو خود مختار ادارہ ہے لیکن عمل میں ایسا نظر نہیں آتا اس کی واضح مثال اپریل٢٠٢٢ کا وہ نوٹیفیکیشن ہے جس نے ببانگ دہل بورڈ کی خود مختاری کو دعوت مبارزت دی ہے۔یہ سچ ہے کہ تاریخ و تجزیہ مدرسہ بورڈ کا نقش گر میں تھا جس کا اعتراف خود مولانا قاسمی نے حرف آغاز میں میں کیا ہے۔لیکن وائے حسرتا! کہ مدرسہ بورڈ سے میری اپنے پیرنٹ ڈی پارٹمنٹ میں منتقلی کے بعد مولانا قاسمی بالکل اکیلے رہ گئے بورڈ ہی نہیں ارباب مدارس نے بھی بے مروتی برتی جس کا اعتراف خود مولانا قاسمی کے قلم سے سنئے؛
بارہا میرے ارادوں پر اوس پڑی، پریشانیوں سے گھبرایا، دشواریوں نے راستہ روکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے با وجود حقیقت یہ ہے کہ اس تاریخ کی ترتیب میں جس انداز میں کرنا چاہتا تھا، نہیں ہو سکا۔بورڈ کے پرانے رکارڈ دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے بعض جگہ قاضیوں کو جوڑ کر نتائج نکالنے پڑے اور بعض جگہ وہ بھی ممکن نہیں ہو سکا، مدارس ملحقہ کے ذمہ داروں نے بھی بے توجہی برتی اور بار بار کی دہانیوں کے باوجود اپنے مدرسہ کا تذکرہ بھیج نہیں پائے، اس طرح چاہ کر کئ نامور مدارس کا ذکر شامل کتاب نہیں ہو سکا۔ میں نے قبل عرض کیا ہے کہ عاملین بورڈ اسے ایک لا یعنی کام سمجھتے تھے۔اکاؤنٹس والے ہمیشہ ان کے بل پر نامناسب نوٹنگ دیتے اور مجھے ہر بار چیرمین کا دامن تھامنا پڑتا۔سب کو یہی ڈر تھا کہ کہیں اس پروجکٹ پر عنادی گروپ حکومت کی توجہ مبذول کرا کے اسے بند نہ کرا دے۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ بورڈ شروع سے روٹین ورک کی پابند تھی۔سر مو انحراف ممکن نہ تھا۔١٩٨٩-٩٠ کی دہائ میں بورڈ کے عاملین کا دبدبہ پورے بہار کے مدارس پر مستولی تھا۔سیلری میں بیک وقت بڑھوتری ہو جانے پورے مدارس میں عید کا جشن تھا۔عیدی کے بٹوارے میں ہر نکتہ داں اپنے حصّے کا متلاشی تھا۔محقق شائد یہ لکھنا بھول گئے کہ جب عسرت تھی تو علم کا چراغ روشن تھا عوام بھی مدرسوں کی خبر رکھتی تھی لیکن جب تھوڑی فارغ البالی آئ تو علماء اپنی پرانی فاقہ مستی بھول گئے۔یہ علم کے ساتھ بے وفائ تھے جس علم نے حکومت کے سامنے ان کی دستگیری کی اور ان کو ان کا واجبی حق دلایا اسی کی وہ مہار چھوڑ بیٹھے۔حالانکہ یہ آج بھی پورا سچ نہی ہے۔مدرسہ صدیقیہ ذکروا ہاٹ جیسے کچھ اور مدارس ہیں جو یک سوئ سے تعلیم و تعلم میں نہایت ایمانداری سے لگے ہو ئے ہیں۔اب اور آگے سنئے تاریخ و تجزیہ مدرسہ بورڈ کاجب مسودہ تیار ہو گیا تو بورڈ نے پہلے مرحلے میں اس کی طباعت سے ہاتھ کھینچ لیا خیر خداخدا کر کے بورڈ کے خرچ پر اس کی طباعت تو ہوگئ اب مسئلہ اس کے اجراء کا تھا۔مولانا قاسمی کوشاں رہے کہ علماء کی جماعت کے سامنے اس کتاب کا اجراء ہو جائے لیکن اس کے لئے ارباب بورڈ تیار نہیں ہوئے۔کتاب میں درج تلخ حقیقتیں کچھ ایسی تھیں کہ اس کی پہلی زد میں ارباب بورڈ ہی آتے تھے۔کوئ اپنا کھردرا چہرہ دیکھنا نہیں چاہتا ہاں، کوئ دکھانے پر اتر آئے تو صاحب چہرہ بے چارہ کیا کرے۔آج مدارس پر ادبار کے جو بادل چھا رہے ہیں اور ہم سب خوف زدہ بھی ہیں اس کی تہ میں جانے کے لئے مولانا قاسمی کی یہ باوزن اور پر وقار تحریر ہر صاحب ادراک کو مدارس ملحقہ کے وجود کے بارے میں سوچنے کا موقع فراہم کرے گی۔آپ قارئین کو جان کر خوشی ہو گی کہ اس کتاب کا اجراء اس عالم ربانی نے کیا جسے عالم انسانیت علی میاں کے نام سے جانتی ہے۔اور اجرا ہوا ایشیا کی مشہور و معروف خدا بخش لائبریری پٹنہ میں
۔میرے بھی تاثرات قلمبند ہوئے تھے۔یہ کتاب آج برسوں سے نہاں خانہ بورڈ میں سسکیاں لے رہی ہے ممکن ہے ان تیس برسوں میں اس پر ناگہانی فالج کا شملہ بھی ہو چکا ہو۔کچھ بھی ہو سکتا ہے۔اس جشن صدی کے موقع پربا ادب میں سلیم پرویز صاحب چیرمین مدرسہ بورڈ کی خدمت میں کہنا چاہوں گا کہ وہ بورڈ کی نصابی کمیٹی سے بات کرکے بہار مدرسہ بورڈ تاریخ و تجزیہ کو نصاب عالیہ میں شامل کرائیں۔دوسری گذارش یہ کہ وہ اپنی سطح سے وابستگان مدارس بالخصوص مدرسہ اولڈ بوائز کو بھی ہم نشینی کا موقع فراہم کریں۔ہماری ترجمانی مولانا ابوالکلام قاسمی سابق پرنسپل مدرسہ اسلامیہ شمس الھدیٰ فرمائیں گے۔تین دہائ کے بعد بھی جی چاہتا ہے کہ میں ثناءالھدی قاسمی کو ایک بار پھر مبارک باد دوں۔آج بہار ہی نہی پورے ہندوستان میں جو چند لکھنے والے لوگ موجود ہیں ان میں ثناءالھدی کی تحریر طبیب حاذق کا اثر رکھتی ہے۔اس نرم بیانی کا سہرا انھیں کے سر ہے۔دعا ہے ان سے تا دیر امت کام اللہ لیتا رہے۔