مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی؛ ایک شخص، ایک انجمن

اسلم رحمانی

کچھ شخصیات کا ذکر صرف کتابوں میں نہیں ہوتا، بلکہ دلوں میں محفوظ رہتا ہے۔ کچھ چہرے صرف عکس نہیں چھوڑتے، روشنی بن جاتے ہیں۔ ایسی ہی ایک شخصیت کا تصور ذہن میں اس لمحے روشن ہوا جب چند دنوں قبل ایک خبر نے دل کو بے چین کر دیا۔ میرے عزیز اور مخلص دوست مولانا نظر الہدیٰ قاسمی(جنرل سکریٹری نور اردو لائبریری، حسن پور گنگھٹی،بکساما، ویشالی) کے وہاٹس ایپ اسٹیٹس پر جب یہ اطلاع نظر سے گزری کہ ان کے والد محترم، نائب ناظم امارت شرعیہ، مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب علیل ہیں، علاج کے لیے ممبئی جارہے ہیں،تو دل دھک سے رہ گیا۔ اسی دوران، ان کے دوسرے صاحبزادے، مفتی ظفر الہدیٰ قاسمی کے فیس بک پیغام نے اس اطلاع کی تصدیق کر دی۔ خبر سادہ سی تھی، مگر اس کے اثرات گہرے تھے۔ دل میں بے چینی سی طاری ہو گئی، الفاظ جیسے گم ہو گئے، اور ہمت بھی ساتھ چھوڑنے لگی۔ اس لمحے میں اتنی طاقت نہ پا سکا کہ براہِ راست مولانا نظر الہدیٰ قاسمی سے بات کرکے خیریت دریافت کر سکوں، بس دل ہی دل میں دعا کرتا رہا کہ اللہ تعالیٰ مفتی صاحب کو جلد صحت کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے۔

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی؛ ایک شخص، ایک انجمن
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی؛ ایک شخص، ایک انجمن

چند دنوں بعد نظر الہدیٰ قاسمی کا تسلی بخش پیغام موصول ہوا کہ الحمد للہ طبیعت میں پہلے سے بہتری ہے، اور معالجین کے مشورے سے مفتی صاحب کو گھر منتقل کیا جا رہا ہے۔ لیکن دل کو کامل سکون تب ملا جب مفتی صاحب کا تفصیلی اور پُرمغز پیغام، ان کے فرزند مفتی ظفر الہدیٰ قاسمی کی فیس بک وال پر پڑھنے کو ملا، جس میں نہایت سنجیدگی، شکر گزاری اور فکری گہرائی کے ساتھ انہوں نے اپنی بیماری، علاج اور اہلِ محبت کی دعاؤں کا تذکرہ کرتے ہوئے شکریہ ادا کیا ہے۔

ان لمحات میں ایک اور چہرہ مسلسل ذہن کے دریچوں میں گردش کرتا رہا۔میرے "نانا جان”، صاحب طرز ادیب، جید عالم دین اور سابق پرنسپل مدرسہ اصلاح المسلمین، پتھر کی مسجد پٹنہ،مولانا شفیع احمد اصلاحی رحمتہ اللہ علیہ جن کی زندگی بھی علم و عمل سے معمور رہی۔ جب ان کی طبیعت ناساز ہوتی تھی، تو علماء، طلبہ، رشتہ دار اور متعلقین، سبھی دعاؤں میں مصروف ہو جاتے۔ چوں کہ مفتی صاحب سے نانا جان کے خاصے قریبی مراسم رہے ہیں، اس لیے اُن کی بیماری کی خبر دل پر اور بھی گراں گزری۔

اسی اضطراب کے درمیان 23 ستمبر 2025 کی شام ذہن میں ایک اور منظر اس وقت روشن ہو جب جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) میں اردو کے ممتاز استاذ پروفیسر پرویز احمد اعظمی صاحب کی کلاس میں شریک تھا، جہاں ملا وجہی کی "قطب مشتری” سے "در شرح شعر گوید” کے چند اشعار اور مرزامحمد رفیع سودا کا قصیدہ "در منقبت حضرت امیر المومنین اسداللہ الغالب علی ابن ابی طالبؓ” کی علمی و ادبی شرح ہو رہی تھی۔ جیسے ہی کلاس ختم ہوئی اور میں ہاسٹل (جھیلم) کی طرف لوٹنے لگا، دل میں ایک واضح خیال ابھرا کہ مفتی صاحب کی ہمہ گیر علمی، فکری اور تحریکی خدمات کو ایک ادبی پیرائے میں سپردِ قرطاس کیا جائے۔

چوں کہ مفتی صاحب کی شخصیت کسی ایک دائرے تک محدود نہیں۔ وہ نہ صرف ایک فقیہ و مفتی ہیں، بلکہ ایک کہنہ مشق صحافی، بے باک ادیب، اور دردِ ملت سے آشنا مفکر بھی ہیں۔ ان کی تحریریں جہاں دینی بصیرت کی آئینہ دار ہیں، وہیں ان میں قومی، سماجی اور تعلیمی مسائل پر بھی گہرا شعور جھلکتا ہے۔ ان کی گفتگو میں متانت، تحریر میں وضاحت، اور موقف میں توازن پایا جاتا ہے۔مفتی صاحب کا حالیہ درج ذیل پیغام صرف ایک شکریہ نامہ نہیں، بلکہ ان کی عاجزی، شکرگزاری اور اللہ سے تعلق کی ایک جھلک ہے:

"ہم تمام علماء ، صلحاء، ائمہ ،تنظیموں کے ذمہ داران،امارت شرعیہ کے رفقاء کار دانشوران قوم و ملت طلباء عزیز اور عام مسلمانوں کا دل کی گہرائی سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آپ تمام حضرات میری بیماری سے شفایابی کے لئے خود بھی دعا گو رہے اور اپنے مدرسہ کے بچوں ، مقتدی اور متعلقین کو بھی اس طرف متوجہ کیا، آپ تمام لوگوں کی دعاؤں کے اثر کی وجہ سے الحمد للہ عافیت محسوس کررہا ہوں ، آپریشن کی تیاری کے لیے آپریشن سے قبل پلیٹ لیٹس کم ہونے کی وجہ سے اس کی بھرپائی کے لیے پلازمہ چڑھایا گیا تھا اس کے بعد سے بدن کی کیفیت میں عجیب طرح کا بھونچال آگیا تھا اس نظام کو سدھارنے میں (آئی سی یو) کے کٹھن مرحلہ سے بھی گزرنا پڑا تھا،مصلحت و حکمت خداوندی کے سامنے کسی بندہ کی پر مارنے کی ہمت نہیں ، الحمد للہ دوسرے امراض کی تلافی دوا سے تقریباً مکمل ہوگئی ہے اب عافیت محسوس کررہا ہوں ، کمزوری و نقاہت بہت ہے اسی وجہ سے اسپائنل کورڈکے آپریشن کا ارادہ فی الحال ملتوی کردیا ہوں ، ڈاکٹر نے ایک ماہ کی دوا تجویز کی ہے ، ایک ماہ کے بعد پھر آپریشن کے تعلق سے غور وفکر کروں گا، اخیر میں پھر آپ تمام لوگوں کا صمیم قلب کے ساتھ شکریہ ادا کرتا ہوں امید کرتا ہوں کہ اسی فکر مندی اور محبت کے ساتھ آپ اپنی دعا میں ہمیشہ یاد رکھیں گے ۔ اللہ تعالیٰ آپ تمام لوگوں کو اپنے شایانِ شان دنیا و آخرت کی تمام بھلائیاں عطا فرمائے ۔آمین ثم آمین۔”

یہ پیغام ان کی صحت یابی کی امید افزا اطلاع کے ساتھ ساتھ اُن کے اندرونی ایمان، رضائے الٰہی پر اعتماد، اور امت کے لیے محبت و دعا کا مظہر بھی ہے۔

کچھ شخصیات زمانے کے ہجوم میں گم نہیں ہوتیں، بلکہ خود زمانے کے لیے رہنما بن جاتی ہیں۔ وہ نہ صرف اپنے عہد کی شناخت ہوتی ہیں بلکہ ایک پورے فکری، تہذیبی اور علمی نظام کی علامت بھی بن جاتی ہیں۔ مفتی صاحب ایسی ہی ایک شخصیت ہیں۔ ایک ایسا نام جو علم و دانش، فہم و فراست، تدبر و قیادت، اور قلم و قرطاس کی دنیا میں اپنی ایک منفرد اور نمایاں شناخت رکھتا ہے۔امارتِ شرعیہ، بہار، اڑیسہ، جھارکھنڈ اور مغربی بنگال کے نائب ناظم کی حیثیت سے ان کا وجود ایک دینی، سماجی اور تہذیبی توازن کی روشن مثال ہے۔ یہ منصب بظاہر انتظامی نوعیت کا ہے، لیکن مفتی صاحب کی قیادت اسے فکری رہنمائی، دینی شعور، اور ملی بصیرت کا مرکز بنا دیتی ہے۔ وہ ان منصبوں پر محض براجمان نہیں ہوتے، بلکہ انہیں ایک نئی زندگی بخشتے ہیں۔ ان کے فیصلوں میں دینی گہرائی، سماجی حکمت، اور اخلاقی وقار جھلکتا ہے۔ امارت شرعیہ کے ترجمان "ہفت روزہ نقیب” کے مدیر اعلیٰ کی حیثیت اور ملک کے مختلف اخبارات و رسائل کے ذریعے انہوں نے اردو صحافت میں ایک ایسا معیار قائم کیا ہے جو تحریر کی تہذیب، فکر کی شفافیت اور اسلوب کی دلکشی کا مرقع ہے۔ ان کی ادارت میں "نقیب” محض ایک ادارہ جاتی ترجمان نہیں رہا، بلکہ ایک فکری کاروان، ایک دینی دستاویز، اور ایک ادبی صحیفہ بن کر ابھرا ہے۔ ان کے اداریے ہوں یا دیگر مضامین، ہر سطر میں وہ توازن، وہ سچائی، اور وہ اخلاقی جرات نظر آتی ہے جو صرف ایک صالح اور باشعور قلمکار ہی فراہم کر سکتا ہے۔

مفتی صاحب کی نثر نگاری اردو ادب کی اس خالص اور بامعنی روایت سے جڑی ہوئی ہے جس میں علم کا وقار، فکر کی گہرائی، اور تہذیب کی شائستگی ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ ان کی نثر سادہ ضرور ہے، مگر عام نہیں؛ وہ آسان ضرور ہے، مگر سطحی نہیں۔ ان کے جملے وضاحت کی عمدہ مثال ہوتے ہیں، جہاں الفاظ محض اظہار کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک فکری تجربے کی مکمل تشکیل بن جاتے ہیں۔ ان کی تحریر میں نہ غیر ضروری خطابت ہوتی ہے، نہ خشک تجزیہ، بلکہ ایک لطیف توازن کے ساتھ حقیقت اور حکمت کا سنگم دکھائی دیتا ہے۔ان کے یہاں زبان و بیان میں وہ شائستگی ہے جو قدیم علماء کے مکتوبات کی یاد دلاتی ہے، اور ساتھ ہی وہ تازگی بھی جو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ تحریروں میں ہونی چاہیے۔ وہ قاری کو محض پڑھنے پر آمادہ نہیں کرتے بلکہ اسے سوچنے، سمجھنے اور اپنا نقطہ نظر قائم کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔مفتی صاحب کی نثر قاری سے مکالمہ کرتی ہے۔ وہ تحریر میں مخاطب کو نظرانداز نہیں کرتے، بلکہ اسے شریکِ فکر و احساس بناتے ہیں۔ قاری ان کی تحریر میں خود کو تلاش کرتا ہے، اور اس کا شعور اُن کے الفاظ سے روشنی پاتا ہے۔ ان کے جملے مختصر ہونے کے باوجود معنی کی وسعت لیے ہوتے ہیں، اور طویل ہونے کے باوجود اختصار کا حسن رکھتے ہیں۔ وہ لفظوں کے انتخاب میں محتاط، اسلوب میں سنجیدہ، اور بیان میں سادہ لیکن موثر رہتے ہیں۔

مفتی صاحب معاصر اردو نثر میں ایک معتبر نام ہیں جن کی تحریروں میں سادگی، تہذیب، خلوص اور سچائی کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ ان کی نثر نہ صرف ایک خوش اسلوب قلم کار کی جھلک پیش کرتی ہے بلکہ ایک سچے، صاف گو اور باضمیر انسان کی شخصیت کا بھی عکس دکھاتی ہے۔ وہ نہ علم و ادب کے مصنوعی اظہار کے قائل ہیں، نہ ہی الفاظ کی زیبائش و آرائش سے کسی تاثر کو قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی تحریر کا حسن اس کی سادگی، بے ساختگی اور حقیقت پسندی میں پنہاں ہے۔ ماہنا ملی اتحاد، نئی دہلی کے مدیر معاون صفی اختر مفتی صاحب کی کتاب یادوں کے چراغ کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ:

"یادوں کے چراغ میں مفتی ثناء الہدی قاسمی صاحب نے جہاں متعدد برگزیدہ شخصیتوں کا ذکر کیا ہے وہیں اپنے ہم عصروں اور دیگر متعلقین کی زندگی پر بھی قلم برداشتہ روشنی ڈالی ہے۔ ان کی تحریریں خلوص و ایمانداری سے مملو ہیں۔ انھوں نے مبالغہ آرائی سے ہر چند گریز کیا ہے۔ آپ نے اپنے بزرگوں اور ہم عصروں پر بے تکلف لکھنے میں سادہ، عام فہم اور چھوٹے چھوٹے جملوں سے کام لیا ہے۔ میں برملا یہ کہہ سکتا ہوں کہ مولانا ثناء الہدی قاسمی نے کسی تصنع ، تکلف اور بناوٹ کے بغیر تہذیب و اقدار کا قیمتی سرمایہ اکٹھا کر دیا ہے۔”

(یادوں کے چراغ، جلد اول، ص 12)

مفتی صاحب کی نثر میں خلوص اور ایمانداری کی جھلک نمایاں ہے۔ وہ شخصیتوں کے تذکرے کرتے ہوئے حقیقت کو چھپاتے نہیں اور نہ ہی جذبات میں بہہ کر مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں۔ ان کے جملے سادہ، مختصر اور عام فہم ہوتے ہیں، جو ہر سطح کے قاری کو بآسانی اپنی بات سمجھا دیتے ہیں۔ ان کا اسلوب نہایت بے تکلف ہے، جس میں کسی قسم کا تصنع یا بناوٹ نظر نہیں آتی۔ یہی بے ساختگی ان کی تحریروں کو دل نشین بناتی ہے۔

مفتی صاحب نے اپنے بزرگوں، معاصرین اور دیگر متعلقین کے حالات کو جس انداز سے قلم بند کیا ہے، وہ نہ صرف ان شخصیات کی زندگیوں کا عکس ہے بلکہ اس میں ایک پوری تہذیب کی جھلک بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ ان کی تحریریں محض سوانحی خاکے یا تاثراتی نوٹس نہیں بلکہ ہمارے علمی، دینی اور تہذیبی ورثے کی دستاویزی حیثیت رکھتی ہیں۔

ان کی نثر سے ہمیں یہ سبق بھی ملتا ہے کہ سنجیدگی اور وقار کو قائم رکھتے ہوئے کس طرح سادگی کے ساتھ مؤثر انداز میں بات کہی جا سکتی ہے۔ مفتی صاحب کی نثر اس بات کی عمدہ مثال ہے کہ دل سے نکلی ہوئی بات، سادہ لفظوں میں کہی جائے تو دل تک پہنچتی ہے۔ان کی تحریر کا ایک اور پہلو اس کی فکری و معنوی وسعت ہے۔ چاہے دینی مسائل ہوں یا سماجی موضوعات، تاریخی تجزیے ہوں یا ادبی گفتگو، ہر مقام پر ان کی نثر ایک بلند فکری سطح کی نمائندگی کرتی ہے۔ وہ روایت سے جڑے رہتے ہیں، مگر روایت کی تقلید میں جمود کا شکار نہیں ہوتے۔ ان کی نثر میں ایک طرف اکابر کی علمی وراثت جھلکتی ہے، تو دوسری طرف عصر حاضر کے مسائل پر گہری نظر اور دل سوزی محسوس ہوتی ہے۔ان کی تحریروں میں درد بھی ہے اور درایت بھی۔ وہ ملت کے زخموں پر مرہم بھی رکھتے ہیں اور ان کی وجوہات کی نشان دہی بھی کرتے ہیں۔ یہی ان کے اسلوب کا کمال ہے کہ وہ قارئین کو فکری روشنی دیتے ہیں، مگر بغیر کسی چکاچوند یا تاثر باندھنے کی کوشش کے۔ ان کی نثر میں الفاظ ایک تربیت یافتہ ذہن کے ماتحت ہوتے ہیں، اور جذبہ ایک باوقار عالم دین کے دل میں سانس لیتا محسوس ہوتا ہے۔ ان کا قلم ایک ایسی آواز ہے جو دلیل سے قائل کرتی ہے، تہذیب سے متاثر کرتی ہے، اور سادگی سے دل میں اتر جاتی ہے۔اردو نثر کو آج جن اسالیب، جن زبانوں اور جن لہجوں کی ضرورت ہے، مفتی صاحب کی نثر ان میں سے ایک زندہ اور مخلص لہجہ ہے۔ وہ نہ صرف علم کی دنیا میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں، بلکہ ادب کے میدان میں بھی ان کی نثر جدید اردو نثر کا ایک متوازن، معتبر اور معتبر نمائندہ کہی جا سکتی ہے۔ ان کی تحریریں وقتی جذبات کا ابال نہیں بلکہ دیرپا فکری بصیرت کی آئینہ دار ہیں آپ کی علمی و فکری خدمات نے اردو دنیا کو ایک ایسا اثاثہ دیا ہے، جس کی قدر و قیمت وقت کے ساتھ مزید آشکار ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ادبی تنقید اور مقالوں میں مفتی صاحب کی منفرد پہچان اور گہری بصیرت کو سابق ریڈر شعبۂ اردو بہار یونیورسٹی،مظفرپور پروفیسر ممتاز احمد خان نے یوں بیان کیا ہے:

"مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی کے ادبی شعور کی پختگی اور تنقیدی بصیرت کی گہرائی ان کے ادبی مقالوں میں جابجا نظر آتی ہے۔ وہ شعر و ادب کا مطالعہ سنجیدگی، شوق اور گہرائی سے کرتے ہیں۔ وہ دوسروں کی رائے کی بنیاد پر اپنی رائے قائم نہیں کرتے، بلکہ وہ قدیم وجدید شاعروں اور ادبیوں سے متعلق اپنی اُریجنل (Original) رائے قائم کرتے ہیں اور انہیں جامع لفظوں میں پیش کرتے ہیں۔

مفتی صاحب کی شخصیت ان کے ادبی مقالوں میں زیادہ نکھر کر سامنے آتی ہے، بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ مفتی صاحب کی رنگارنگ شخصیت کا انعکاس ان کے ادبی مقالوں ہی میں ہوا ہے۔ ان مقالوں کے مطالعے سے یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ مولانا شبلی، مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا عبد الماجد دریا آبادی اور مولانا سید ابو الحسن علی ندوی جیسے علماء کی مہتم بالشان روایت کو تسلسل عطا کر رہے ہیں۔ مفتی صاحب انہی بزرگوں کی مانند اپنی علمی جامعیت کے ساتھ بزم ادب میں داخل ہوئے ہیں۔”

(نقد معتبر، صفحہ 6 تا 7)

مفتی صاحب کی ادبی تحاریر میں علمی پختگی اور تنقیدی بصیرت کی گہرائی نمایاں ہے۔ ان کا ادب سے تعلق محض ظاہری نہیں بلکہ ایک گہرے جذبے اور سنجیدگی پر مبنی ہے۔ وہ اپنے ادبی تجزیوں میں دوسروں کی نقل کرنے کے بجائے اپنی اصل اور منفرد رائے پیش کرتے ہیں، جو ان کے ادبی شعور کی گواہی دیتی ہے۔ ان کی تحاریر میں ان کی خود کی علمی اور شخصی شناخت کا واضح عکس ملتا ہے، جو انہیں ادبی میدان میں ایک ممتاز مقام عطا کرتا ہے۔ علاوہ ازیں، ان کی علمی روایت بزرگ علماء جیسے مولانا شبلی اور سید ابو الحسن علی ندوی کی روشنی میں قائم و دائم ہے، جو ان کی ادبی خدمات کی گہرائی اور وقعت کو بڑھاتی ہے۔ اس طرح، مفتی صاحب ادب کی تاریخ اور روایت کے ساتھ جڑے رہتے ہوئے اسے نئی روح اور جدید زاویے دیتے ہیں۔ابو المحاسن ڈاٹ کام کے مدیر اعلیٰ غالب شمس کی تحقیق کے مطابق مفتی صاحب کی ساڑھے چار درجن سے زائد کتابیں مختلف موضوعات پر منظر عام پر آچکی ہیں، جن کی فہرست درج ذیل ہے۔

شرح حدیث پر:

(1)تفہیم السنن شرح آثار السنن جلد اول (1996)

(2)تفہیم السنن شرح آثار السنن جلد دوم (ء1998)

یہ دونوں جلدیں حدیث فہمی، دقیق فقہی نکات، اور سادہ اسلوب کا حسین امتزاج ہیں۔ یہاں مفتی صاحب محض شارح نہیں بلکہ قاری کو ایک فکری مسافر بناتے ہیں، جو احادیث کی وادیوں سے گزر کر علم کے چشموں سے سیراب ہوتا ہے۔

فن فقہ پر:

(3) نئے مسائل کے شرعی احکام جلد اول (2014ء)

(4) نئے مسائل کے شرعی احکام جلد دوم (2018ء)

(5) حضرت فاطمہ کے جہیز کی حقیقت (1986ء)

(6) المسائل المستجدہ فی ضوء القرآن و السنۃ ( عربی ترجمہ؛ نئے مسائل کے شرعی احکام)

یہ کتب عصری فقہی مباحث میں گراں قدر اضافہ ہیں۔ اجتہادی بصیرت، قرآنی دلائل، اور سنت کی روشنی میں جدید زندگی کے سوالات کے جوابات مفتی صاحب نے جس دانشمندی سے دیے ہیں، وہ اہل علم کے لیے رہنما اصول کی حیثیت رکھتے ہیں۔

اسلامیات:

(7) المنہج السلیم الی دعوۃ اللہ العظیم (عربی ترجمہ: دین کی دعوت کا آسان طریقہ)

(8) دین کی دعوت کا آسان کا طریقہ (1986ء)

(9) اذان مجاہد ( قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کی تقریر کا مجموعہ) (2007ء)

(10) دعا عبادت بھی -حل مشکلات بھی (2017ء)

(11) عمرہ حج و زیارت – سفر محبت و عبادت (2009ء)

(12) اچھا سماج بنائیے (2013ء)

(13) اصلاح کی فکر کیجیئے ( 2010ء)

(14) حرف حرف زندگی ( 2018ء)

(15) اتحاد امت اور اختلاف رائے – اصول و آداب ( 2016ء)

اسلامیات کے ان متنوع عنوانات پر قلم اٹھا کر مفتی صاحب نے ایک طرف عوام کو دین کے قریب کیا، تو دوسری طرف خواص کو اصلاح امت کے اصولی خطوط کی یاد دہانی کرائی۔ ان میں دعوت، عبادت، اتحاد اور سماجی شعور کی ایسی نرماہٹ ہے جو قاری کے دل میں اترتی چلی جاتی ہے۔

تعلیم و تدریس:

(16) تعلیم ترقی کی شاہ کلید (2015ء)

(17) مدارس اسلامیہ میں منصب تدریس اور طریقہ تدریس (2014)

(18) عصر حاضر میں مسلمانوں کا نظام تعلیم- تجزیہ مسائل و حل۔ ( 1992ء) ہمہ گیر تعلیمی مہم میں شامل نصابی کتاب

(19) آو ہم پڑھیں ( 2009ء)

(20) خاصیات ابواب ( 1987ء)

یہ کتابیں تعلیم و تدریس سے وابستہ افراد کے لیے آئینہ اور چراغ دونوں ہیں۔ صرف تنقید نہیں بلکہ اصلاحی تجاویز، اور عملی پہلووں کے ساتھ ان کا طرز تحریر نہایت فکر انگیز ہے۔

ترتیب و تدوین:

(21) نامے میرے نام (جلد اول ) (مفتی صاحب کے نام لکھے گئے خطوط کا مجموعہ (2016ء)

(22) نامے میرے نام (جلد دوم ) زیر طباعت

(23) دیوان عبد اللطیف اوج (2015ء)

(24) دیوان سراج سلطانپوری (زیر طباعت)

(25) میری سنو ( مولانا نبی اختر مظاہری کا مجموعۂ کلام) \[2012ء]

(26) گلدستۂ شادمانی( سہروں کا مجموعہ)\[ 1990]

(27) حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی۔تھانوی اور مولانا عبد العزیز بسنتی کے علمی مراسلے ( 2016ء)

(28) ام شمیم جرنلسٹ ۔حیات و خدمات (1989)

(29) قومی یک جہتی ( 1990)

ترتیب و تدوین میں بھی ان کا قلم ایسا خادمِ علم بن جاتا ہے، جو ماضی کی اہم شخصیات کو حال سے جوڑ دیتا ہے۔

ادبیات – (تاریخ، تحقیق و تنقید):

(30) نقد معتبر (2009ء)

(31) حرف آگہی (2015ء)

(32) تذکرہ مسلم مشاہیر ویشالی (2001ء)

(33) فضلائے دارالعلوم اور ان کی قرآنی خدمات ( 1980)

(34) حرف تازہ\_ غزلوں کا مجموعہ ۔ ( غیر مطبوعہ)

(35) یہ سفر قبول کرلے (2020ء)

(36) بہار مدرسہ بورڈ\_ تاریخ و تجزیہ ( 1992)

(37) آوازہ لفظ وبیاں (2021ء)

یہاں مفتی صاحب محض ادیب نہیں بلکہ تاریخ کے راوی، تنقید کے محقق، اور ادب کے سچے خیر خواہ دکھائی دیتے ہیں۔ ہر کتاب ایک فکری دعوت ہے۔

خاکہ:

(38) یادوں کے چراغ جلد اول (2009ء)

(39) یادوں کے چراغ جلد دوم ( 2017ھ)

(40) یادوں کے چراغ جلد سوم ( 2022ء)

(41) یادوں کے چراغ جلد چہارم ( 2022ء )

(42) یادوں کے چراغ جلد پنجم ( غیر مطبوعہ )

(43) دکھتی رگیں ( افسانوں کا مجموعہ) \[ غیر مطبوعہ]

(44) آدھی ملاقات ( مفتی صاحب کے مکاتیب کا مجموعہ) \[ 2022ء]

(45) سی اے اے، این آر سی، اور این پی آر – حقائق، اندیشے، مضمرات ۔( 2020ء)

(46) کورونا مسائل، مصائب اور مشکلات

(47) نقطۂ نظر ( 2020ء)

(48) زاویہ نظر (2022)

(49) تماشا مرے آگے (2022ء)

(50) تذکرہ مسلم مشاہیر بہار

(51) مکاتیب شاہ علی منعمی کا تنقیدی و تجزیاتی مطالعہ ( پی ایچ ڈی کے لئے لکھا گیا تحقیقی مقالہ،غیر مطبوعہ )

ان خاکوں، افسانوں اور خطوط میں ان کی ذاتی زندگی، ملی تڑپ، اور علمی قد کا عکس جھلکتا ہے۔ "یادوں کے چراغ” نہ صرف یادداشت ہیں بلکہ تاریخ کے دھندلکوں میں جلاتی ہوئی روشنیاں ہیں۔

آپ پر لکھی گئی کتابیں:

(1) مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی: شخصیت اور خدمات

(مصنف: ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق)

(2) مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی اور ان کی ادبی خدمات

(یہ ڈاکٹر راحت حسین کے پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے، جو کتابی صورت میں شائع ہو چکا ہے)

(3) مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی شعراء کرام کی نظر میں

(مرتب: عبد الرحیم، استاد: معہد العلوم الاسلامیہ چک چمیلی سرائے ویشالی)

آپ پر لکھے گئے مضامین جو دوسری کتابوں میں شامل ہوئے:

(1)باتیں میر کارواں کی(مصنف: عارف اقبال دربھنگوی)

(2)ہندوستان کے قائدین (مصنف: شمیم اختر)

(3) بہار کی بہار(مصنف: مولانا وصی احمد شمسی)

(4)ضلع اردو نامہ 2022/23 (مرتب: آفتاب عالم)

مفتی صاحب کی شخصیت ایک ایسے روشن مینار کی مانند ہے جس کی روشنی علم و حکمت، تحقیق و تدقیق، ادب و خطابت، دین و دعوت، اور سماجی شعور کے مختلف گوشوں کو منور کرتی ہے۔ آپ کی تحریریں محض علمی ذخیرہ نہیں بلکہ ایک زندہ فکری تحریک کا استعارہ ہیں۔آپ نے اپنی تحریروں سے جس جامع انداز میں دین، فقہ، تعلیم، ادب، تنقید، اور عصری مسائل کو سمیٹا ہے، وہ اردو اسلامی ادب میں ایک بے مثال اضافہ ہے۔ علم و قلم کا یہ سفر، جو ساڑھے چار درجن سے زائد کتابوں پر محیط ہے، محض تعداد کا نہیں بلکہ معیار، تنوع اور اثر انگیزی کا مظہر ہے۔آپ کی تحریریں پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے قلم نے نہ صرف الفاظ کو لکھا بلکہ درد کو آواز دی، علم کو راستہ دکھایا، اور امت کو سوچنے کا سلیقہ عطا کیا۔

آج جب ہم مفتی صاحب کو دیکھتے ہیں، تو ایک ایسی شخصیت سامنے آتی ہے جس نے علم، ادب، فقہ، صحافت، قیادت اور دعوت ہر میدان میں توازن و ہم آہنگی کے ساتھ نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ وہ ملت کے ان رہنماؤں میں سے ہیں جن کی موجودگی بلاشبہ ایک نعمت ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مفتی صاحب کو مکمل صحت و عافیت عطا فرمائے، ان کی علمی و فکری توانائیوں کو باقی رکھے، اور ان کے ذریعہ قوم و ملت کو دیر تک فائدہ پہنچاتا رہے۔ان کے علم و قلم میں مزید برکت عطا فرمائے، ان کی خدمات کو امت کے لیے نفع بخش بنائے، اور نئی نسل کو ان کے علمی ورثے سے فیضیاب ہونے کی توفیق دے۔(آمین یا رب العالمین)

٭٭٭

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare