موسم کا بدلتا مزاج
مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی
ہندوستان میں جاڑا، گرمی، برسات تین موسم ہوتے ہیں اور سب کی اپنی اپنی خصوصیات اور افادیت ہے، موسم کی یہ تبدیلی اللہ رب العزت کی قدرت کاملہ کا مظہر ہے، جب دنیا اللہ رب العزت کے بنائے ہوئے طریقے پر کام کر رہی تھی، اس نے جنگلوں کو کاٹ کر صحرا نہیں بنایا تھا، پہاڑوں کو زمین بوس نہیں کیا تھا، تو ان موسموں کے لیے مہینے مقرر تھے، جاڑے کے مہینے میں جاڑا، گرمی کے مہینے میں گرمی اور برسات کے موسم میں برسات وقت پر ہوا کرتی تھی، قدرت تو آج بھی اللہ ہی کے پاس ہے، لیکن اس نے بندوں کو اس کے کیے کا تھوڑا مزہ چکھانے کے لیے اس میں کچھ کچھ تبدیلیاں کر دی ہیں، اب ہمارے یہاں موسم کا مزاج محبوبہ کے مزاج کی طرح پل میں بدلتا رہتا ہے، موسمیات والے بارش کو اسباب کے درجہ میں مانسون سے جوڑتے ہیں اور ان کی تحقیق کے مطابق مانسون کی آمد ورفت میں دیر سویر کی وجہ سے خشکی وسیلاب کے حالات پیدا ہوتے ہیں، اسی سال آپ نے سنا، یادیکھا ہوگا کہ مسلمانوں نے مختلف جگہوں پر استسقاء کی نماز پڑھی، تب اللہ کی رحمت متوجہ ہوئی اور بارش ہونے لگی، بعض علاقوں میں اس قدر بارش ہوئی کہ سیلاب آگیا، دور کیوں جایئے میرین ڈرائیو پٹنہ سے گذرتے ہوئے آپ کو سیلاب زدگان کے خیمے جابجا نظر آئیں گے، گاندھی سیتو پار کرکے پُل کے متصل حاجی پور سے گذرتے ہوئے آپ کو بہت سارے بے گھر لوگ اونچی جگہ پر پناہ گزیں آپ کو نظر آجائیں گے، ایسے لوگوں کی مدد کے لیے حکومت کو بھی متوجہ کرنا چاہیے اور قریب کی آباد کو بھی فکر کرنی چاہیے کہ اللہ نے انہیں اس پریشانی سے بچا لیا ہے، تو ان لوگوں کی مدد کے لیے آگے آئیں، یہ ان کے لیے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں شکرانے کی ایک شکل ہوگی۔

ایک اور مصیبت برسات کے مہینے میں پہلے سے زیادہ آنے لگی ہے وہ ہے بادل کا پھٹنا (کلاؤڈ برسٹ) اس کی وجہ سے اتراکھنڈ، اتر کاشی کے دھرالی اور جموں کشمیر کے کشتوار میں سخت تباہی آئی اور سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں کو اپنی جان ہی نہیں، گھر در سب سے ہاتھ دھونے پڑے، سیلاب میں زمین کھسکنے اور سڑکوں کے بند ہوجانے یابہہ جانے کی وجہ سے بہت سارے علاقوں سے رابطہ منقطع ہوگیا ہے اور دونوں جگہوں میں قیامت کا سماں دیکھنے کو مل رہا ہے۔
زمین اور بادلوں کے درمیان سے گذر کر گرم ہوا کی لہر جب اوپر چلی جاتی ہے تو اس گرم لہر کے دباؤ کی وجہ سے بادل پھٹ جاتا ہے، شہری علاقوں سے زیادہ ایسے واقعات پہاڑی علاقوں میں وقوع پذیر ہوتے ہیں، بادل پھٹنے کا یہ عمل کبھی بادلوں کے قافلے کے پہاڑوں سے ٹکرانے کی وجہ سے بھی ہوتا ہے، ایسے میں بادل سے پانی کی نکاسی بوندوں کی شکل میں نہیں، پرنالے کی شکل میں تیزی سے ہونے لگتی ہے، جس کی وجہ سے اچانک سیلاب آجاتا ہے اور دیکھتے دیکھتے سب کچھ بہہ جاتا ہے، محکمہئ موسمیات والے اب تک اس کی پیشیں گوئی میں بھی کامیاب نہیں ہوسکے ہیں، محکمہئ موسمیات کے مطابق اگر کسی علاقہ میں ایک گھنٹہ میں 200 ملی لیٹر بارش ہوجائے تو اسے کلاؤڈ برسٹ بادل پھٹنا کہا جاسکتا ہے۔
اب ایسا بھی نہیں ہے کہ بادل پھٹنے کا یہ عمل ہندوستان، پاکستان میں ہی ہوتا ہے، دنیا کے بہت سارے ممالک ماضی میں اس کے شکار ہوچکے ہیں، 1952 میں ری یونین میں کلاؤڈ برسٹ ہوا تھا جو چوبیس گھنٹے تک جاری رہا، 8جون 1966 کو ہندوستان اور مشرقی پاکستان کے علاقہ میں جو اب بنگلہ دیش کے نام سے جانا جاتا ہے، 20 گھنٹے کا کلاؤڈ برسٹ ہوا تھا جس میں 2329 ملی لیسٹربارش رکارڈ کی گئی تھی، 8جون 1966 کو ری یونین میں 13 گھنٹے، 26 جولائی 2005 کو ہندوستان میں 10 گھنٹے، 2اپریل 2013 کو ارجنٹینا کے شہر لاپلاتا میں 5 گھنٹے، 2009 میں کراچی اور 2001 میں اسلام آباد پاکستان میں کلاؤڈ برسٹ ہوا تھا، جس سے بھاری جانی ومالی نقصان ہوا۔
موسم کے بدلتے مزاج کی وجہ سے اب بادل بھی پہلے جیسے نہیں رہے، پہلے اکثر وبیشتر بوندوں کی جھری لگی رہتی تھی، جسے اردو والے رم جھم برستا بادل سے تعبیر کیا کرتے تھے، لیکن اب ایسا منظر دیکھنے کو نہیں ملتا، بوچھار آتی بھی ہے تو کچھ دیر کے بعد رک جاتی ہے، بادل ٹکروں میں برسنے لگے ہیں اور اس میں بھی کمی آئی ہے، دو ہزار کے بعد یہ بدلاؤ بڑے پیمانے پر محسوس کیا گیا ہے، ماہرین کی مانیں تو ایسا ماحولیات کے پٹرولیم، کیمیکل سے متاثر ہونے کی وجہ سے ہورہا ہے، اس کے نتیجے میں بہار میں بارش کی مقدار کم ہوتی جارہی ہے، مانا جاتا ہے کہ بہار میں مانسون اسباب کے درجے میں 13 جون سے 15 اکتوبر تک رہتا ہے، لیکن 124 دنوں میں بارش کے ایام صرف اسی (80) رہ گیے ہیں، بجلی گرنے میں پچہتر فی صد (75%)کا اضافہ ہوا ہے جس سے اموات بھی زیادہ ہورہی ہیں، محکمہئ موسمیات والوں نے بہار میں بارہ سے اڑتالیس فی صد تک بارش میں کمی رکارڈ کیا ہے، ایسا ہی کچھ حال دہلی، اترپردیش، جھارکھنڈ اور اتراکھنڈ کا ہے، اس کا اثر کھیتی اور دماغ پر پڑتا ہے، کھیتی پر اس لیے کہ وقت پر فصل نہیں لگ پاتی اور دماغ پر اس لیے کہ کاشتکار اس کو لے کر تناؤ میں رہتا ہے۔
اس صورت حال کو بدلنے کے لیے اسباب کے درجہ میں ہمیں پھر سے ماحولیات کے تحفظ پر اپنی توجہ مرکوز کرنی ہوگی اور نظام کائنات کو معتدل رکھنے کے لیے اللہ رب العزت کا جو نظام ہے، اس کی برقراری کے لیے کام کرنا ہوگا۔