مولانا آزاد : تاریخ کی ایک مظلوم شخصیت

معصوم مرادآبادی

آج مولانا ابوالکلام آزاد کا یوم ولادت ہے۔ وہ 11/نومبر 1888کو مقدس سرزمین مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ دوبرس کی عمر میں اپنے والدین کے ساتھ کلکتہ آگئے اور یہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ ان کی سرگرمیوں کا اصل مرکز ان معنوں میں کلکتہ تھا کہ وہاں سے انھوں نے ’الہلال‘ اور ’البلا غ‘ جیسے معیاری اخبارات شائع کئے۔کلکتہ میں رہ کر ہی انھوں نے اپنی معرکۃ الآراء تفسیر ’ترجمان القرآن‘ لکھی۔ کلکتہ میں سرکلر روڈ پر واقع اس مکان کو اب ایک میوزیم میں تبدیل کردیا گیا ہے، جہاں انھوں نے بیشتر وقت گزارا اور یہیں ان کی اہلیہ کی وفات بھی ہوئی۔ جس وقت ان کی اہلیہ زلیخا بیگم فوت ہوئیں تووہ قلعہ احمد نگر کی جیل میں قید تھے۔ انگریزوں نے انھیں اپنی اہلیہ کی تدفین میں شرکت کی اجازت نہیں دی۔ یہ وہی قلعہ احمد نگر ہے جہاں نظر بندی کے دوران مولانا آزاد نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’غبار خاطر‘ لکھی،

 جسے اردو ادب میں آج بھی ایک شاہکار کا درجہ حاصل ہے۔

مولانا آزاد : تاریخ کی ایک مظلوم شخصیت
مولانا آزاد : تاریخ کی ایک مظلوم شخصیت

جن دنوں مولانا آزاد کلکتہ میں ’ترجمان القرآن‘ لکھ رہے تھے، یہ ان کی بڑی تنگدستی کا زمانہ تھا۔ قومی اردو کونسل نے حال ہی میں مولانا آزادکے کاتب ’منشی عبدالقیوم خاں خطاط‘ پر خاکسار کی ایک کتاب شائع کی ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ جن دنوں مولانا آزادکلکتہ میں ’ترجمان القرآن‘ لکھ رہے تھے تو اکثر اوقات وہ ابلے ہوئے چاولوں پر گزاراکرتے تھے۔ ان پر قرض بھی کافی ہوگیا تھا۔ وہ جب قلعہ احمدنگر جیل سے رہا ہوئے تو انھوں نے منشی عبدالقیوم خاں خطاط کو بلا کر ’غبار خاطر‘ کی کتابت اور طباعت کا انتظام کرنے کے لیے کہا تاکہ وہ قرض اتارا جاسکے جو اسیری کے دنوں میں ان پر ہوگیا تھا۔

مولانا ابوالکلام آزاد کا نام آتے ہی ان کی کئی حیثیتیں ایک ساتھ ذہن میں ابھرتی ہیں۔ وہ ایک عالم دین تھے، مجاہدآزادی تھے، مفسر قرآن تھے، صحافی تھے اور ایک ایسے دوراندیش قائد تھے جن کی پیشین گوئیاں آج بھی ہمیں ان تاریخی غلطیوں سے آگاہ کرتی ہیں جو ہم سے سرزد ہوئیں۔ وہ ملک کی تقسیم کے سخت مخالف تھے اور انھوں نے ہجرت کررہے قافلوں کو جامع مسجد کے منبر سے پکارتے ہوئے بڑے درد انگیز لہجے میں کہا تھا:

”آج تمہارے چہرے کا اضطراب اور دلوں کی ویرانی دیکھتا ہوں تو مجھے بے اختیار پچھلے چند برسوں کی بھولی بسری کہانیاں یاد آجاتی ہیں۔تمہیں یاد ہے،میں نے تمہیں پکارا،تم نے میری زبان کاٹ لی، میں نے قلم اٹھایا اور تم نے میرے ہاتھ قلم کردئیے۔ میں نے چلنا چاہا،تم نے میرے پاؤں کاٹ دئیے۔ میں نے کروٹ لینی چاہی، تم نے میری کمر توڑ دی۔۔۔نتیجہ معلوم ہے کہ آج ان ہی خطروں نے تمہیں گھیر لیا ہے، جن کا اندیشہ تمہیں صراط مسقیم سے دور لے گیا تھا۔سچ پوچھو تو میں ایک جمود ہوں یا ایک دور افتادہ صدا، جس نے وطن میں رہ کر بھی غریب الوطنی کی زندگی گزاری۔“

مولانا آزاد کا یہ تاریخی خطبہ جو انھوں نے ملک کی آزادی اور تقسیم کے بعد اکتوبر1947میں دیا تھا، ایک ایسی دستاویز ہے جو مسلمانوں کی غفلتوں کی یاد تازہ کرتی ہے۔ کاش مسلمانوں نے مولانا آزاد کے کہے پر عمل کیا ہوتا تو آج ملک کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔

مولانا آزاد کی قومی اور ملی خدمات اس درجے کی ہیں کہ ان کے یوم ولادت پر ملک بھر میں تقریبات منعقد ہونی چاہئیں،لیکن المیہ یہ ہے کہ دہلی کی شاہجہانی جامع مسجد کے پہلو میں واقع ان کے مزار پر جہاں پہلے اچھے خاصے لوگ فاتحہ خوانی کرتے تھے، اب چند ہی لوگ گلہائے عقیدت پیش کرتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے انھیں فراموش کردیا ہے اور ان خدمات کو بھلادیاہے جو تاریخ کے سینے میں محفوظ ہیں۔ پہلے ان کے یوم ولادت کو ’یوم تعلیم‘ کے طورپر منایا جاتا تھا، کیونکہ وہ ملک کے پہلے وزیرتعلیم تھے اور انھوں نے اس حیثیت سے ملک کے تعلیمی منظر نامے میں رنگ بھرے تھے، لیکن اب یہ سلسلہ بھی ختم ہوگیا ہے۔موجودہ حکومت تو اس لیے ان کا نام نہیں لینا چاہتی کہ وہ کانگریسی قائد تھے، مگر خود ہمارا رویہ بھی اچھا نہیں ہے۔

مجھے گزشتہ دنوں اپنی ایک ریسر چ کے سلسلہ میں مولانا آزاد کے ذاتی ذخیرے تک پہنچنے کا موقع ملا، جو نئی دہلی میں خود ان ہی کے قائم کردہ ادارے انڈین کونسل برائے کلچرل ریلیشنز (آئی سی سی آر)میں محفوظ ہے۔ یہاں ان کے ذاتی ذخیرے کی دس ہزار سے زیادہ کتابیں اور مسودات ہیں۔ اس مقام کو ’گوشہ آزاد‘ کا نام دیا گیا ہے۔ مجھے یہ جان کر دکھ ہوا کہ حکومت اس ذخیرے کو کہیں اور منتقل کرنا چاہتی ہے۔ظاہر ہے یہاں کوئی ان نوادرات کو دیکھنے نہیں جاتا اور نہ ہی ان سے رجوع کرتا ہے۔

مولانا آزاد اپنوں اور غیروں دونوں کی بے رخی کا شکار ہیں۔ اس اعتبار سے وہ تاریخ کی ایک مظلوم شخصیت ہیں۔ ان کی اس مظلومیت کو شورش کاشمیری نے ان کے ایک خاکہ میں بڑے معنی خیز انداز میں بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

”ہندوستانی مسلمانوں کی دوعظیم ہستیوں میں ایک اقبال تھا، جو بصر عقیدت کی بھینٹ چڑھ گیا، دوسرا ابواکلام تھا، جو حصول آزادی کے آخری ایام میں مسلمانوں کی غضب ناک نفرت کا شکار رہا۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنی ہر زبان میں اس کو گالی دی۔ وہ اردوزبان کا سب سے بڑا ادیب، سب سے بڑا خطیب اور سب سے بڑا سیاستدان تھا، لیکن ڈاکٹر ذاکر حسین کے الفاظ میں ’اردو زبان کی ایسی کوئی گالی نہ تھی، جومسلمانوں نے اپنے اس سب سے بڑے محسن کو نہ دی ہو۔وہ گالیاں کھاتا رہا اور دعائیں دیتا رہا۔‘

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare