مولانا احمد سجاد ساجد صاحب قاسمی کا شعری مجموعہ

غبار شوق: ایک تاثر

 شائق یکہتوی

مولانا احمد سجاد ساجد صاحب قاسمی دامت برکاتہم ابن حضرت مولانا مفتی محمد ظفیر الدین صاحب مفتاحی نور اللہ مرقدہ سابق مفتی دارالعلوم دیوبند سے میں فیس بک کے ذریعے متعارف ہوا ۔مولانا ایک عظیم المرتبت عالم دین عربی، فارسی اور سنسکرت کے اچھے جانکار ہیں ، اردو کے کہنہ مشق ادیب اور فطری شاعر ہیں ، منکسر المزاج ،حلیم الطبع ،خورد نواز اور صابر و شاکر انسان ہیں ۔ دینی مدارس کے تربیت یافتہ اور عصری درس گاہوں کے فیض یافتہ ہونے کے سبب ان کی شخصیت ہمہ گیر اور ہمہ جہت ہے ، ان کی زندگی وسیع تجربات اور گوناگوں مشاہدات کا آئینہ دار ہے ۔

مولانا احمد سجاد ساجد صاحب قاسمی کا شعری مجموعہ
مولانا احمد سجاد ساجد صاحب قاسمی کا شعری مجموعہ

فی الحال ہائی اسکول سے سبکدوش ہو کر تصنیف و تالیف میں مشغول ہیں ، سلاست و روانی اور سادگی ان کی تحریر کا خاصہ ہے ، کسی بھی موضوع پر بے ساختگی سے لکھنے پر قدرت رکھتے ہیں ، تدوین و ترتیب کا بھی شستہ اور شائستہ مذاق رکھتے ہیں ، کئی کتابوں کی ترتیب کاری میں انہوں نے اپنی خوش سلیقگی کا بہترین ثبوت دیا ہے ، وہ صحیح معنوں میں اپنے والد گرامی حضرت مفتی ظفیر الدین صاحب مفتاحی قدس اللہ سرہ کی علمی اور ادبی وراثت کے سچے امین ہیں۔ ان کے خانوادے کی مذہبی خدمات کا دائرہ نہایت وسیع ہے ۔

انہوں نے بہت پہلے پی ڈی ایف کی شکل میں اپنا مجموعہءکلام غبار شوق ارسال کیا تھا ، جسے وقتا فوقتا پڑھتا رہا ، اب جب کہ پوری کتاب کا بالاستعاب مطالعہ کر چکا ہوں تو اپنا تاثر بھی سپرد قرطاس کرتا چلوں ۔

غبار شوق پڑھنے کے بعد میرا ذاتی تاثر یہ ہے کہ مولانا نے اپنے جذبات و احساسات کو شعری پیکر میں نہایت خوبصورتی سے ڈھالا ہے۔ انھوں نے کلاسیکی شعری روایت کی بھی پیروی کی ہے  اور عصری موضوعات پر بھی اظہار خیال کیا ہے۔

208 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں ایک حمد ، دو نعتیں ، تئیس نظمیں ، سنتاون غزلیں اور چند رباعیات و قطعات ہیں ۔ یہ 2018ء میں منظر عام پر آئی ، انتساب مولانا نے اپنے والد محترم حضرت مولانا مفتی محمد ظفیر الدین صاحب مفتاحی قدس سرہ سابق مفتی دارالعلوم دیوبند کے نام کیا ہے۔ کتاب کا پیش لفظ دہلی یونیورسٹی کے شعبہء اردو سے وابستہ مشہور نقاد اور ادیب ڈاکٹر ابو بکر عباد نےتحریر کیا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب نے پیش لفظ میں علماء اور شاعری کے باہمی تعلق اور کشمکش پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ بعد ازاں مولانا کی شاعری پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے ۔

مولانا احمد سجاد صاحب نے خود بھی "قصہ میری شاعری کا” کے عنوان سے اپنے شعری سفر کے اسباب و محرکات پر تفصیل سے لکھا ہے ۔

غبار شوق کے موضوعات نہایت متنوع ہیں ۔ جہاں ایک طرف حمد اور نعت شریف جیسی مقدس اور پاکیزہ اصناف ہیں جو مذہبی وابستگی کی مظہر ہیں، وہیں دوسری طرف غم فرقت ،اشک ہائے غم  ، نیر تاباں ڈوب گیا، مادر علمی دارالعلوم دیوبند اور مقدس امانت جیسی نظمیں ہیں جو قلبی کیفیات کی نمائندہ ہیں۔ سیاست ، معاشرت، تصوف اور حب الوطنی پر مبنی موضوعات بھی اس مجموعے میں شامل ہیں ۔ تاہم مرکزی اور غالب موضوع عشق ہے ۔

حسن عالم تاب ہر سو منتشر ہے اس لیے

یہ غبار شوق اڑتا پھر رہا ہے در بہ در

 

یوں تو ہیں آنکھوں میں لاکھوں صورتیں رقصاں مگر

ایک صورت میرے دل کے آئینہ خانے میں ہے

 

پاؤں میں چھالے پڑ جاتے ہیں سر بھی تیشہ سہتا ہے

کاروبار دل میں اکثر ایسا ہوتا رہتا ہے

 

عقل خود بین خود آرا تو ہے عیار بہت

عشق سے رہتی ہے یہ برسر پیکار بہت

 

آج کچھ اور ہے معیار سخن فہمی کا

پھر بھی کیوں لوگ ہیں غالب کی طرف دار بہت

 

مسئلہ نازک بہت یہ نوع انسانی کا ہے

سر میں اب سودا جسے دیکھو ہمہ دانی کا ہے

 

فیضان عشق کیف جنوں لازوال ہے

دنیا کا کیا ہے ادھر سے آئی ادھر گئی

 

سکوت شب میں جو تو اس کی آرزو کر لے

حسیں ستاروں سے دامن ترے سجا دے گا

 

تقریبا ہر شاعر کے شعری ذخیرے میں چند الفاظ بار بار آتے ہیں اور ہر جگہ ایک نیا لطف اور مفہوم لیے ہوتے ہیں ، مولانا کے اس مجموعے میں بھی غم، شوق، اشک، چشم، جیسے الفاظ مختلف سیاق و سباق میں کلام کو کلاسیکی رنگ عطا کرتے ہیں۔

سب کو لطف و کرم سے نوازا گیا

میری قسمت میں غم کی خوشی رہ گئی

 

یہ غم متاع گراں ہے سنبھال کر رکھیے

یہی تو آپ کو جینے کا حوصلہ دے گا

 

فرقت یار کی نذر سب کچھ ہوا

دیدہء شوق میں بس نمی رہ گئی

 

ادھر ہے شوق دیدار تجلی

ادھر صادر ہے حکم لن ترانی

 

ابھی پہچانتا ہوں دوستوں کو

ابھی آنکھوں میں کچھ کچھ روشنی ہے

 

کیا کہوں ساجد خیال یار بھی کیا چیز ہے

چشم دل کے سامنے جیسے کھلی ہو اک کتاب

 

مولانا کا اسلوب سادہ ، رواں اور دل نشیں ہے، انھوں نے اپنے جذبات کے اظہار کے لیے آسان اور دلکش و دل آویز الفاظ کا چناؤ کیا ہے، ان کے ہاں عربی اور فارسی کے مشکل الفاظ اور پیچیدہ ترکیبیں نہیں ہیں ، انہوں نے ایسی زبان کا استعمال کیا ہے جو اردو کے عام قاری کے لیے بھی قابل فہم ہے ۔ ان کی شاعری میں نئے الفاظ اور ترکیبیں اگرچہ کم ہیں، لیکن انہوں نے پرانے الفاظ اور روایتی تراکیب کو نئے انداز میں برتنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ نظموں کے مقابلے میں مولانا کی غزلیں اپنے مخصوص لہجے اور شعری آہنگ کی وجہ سے قاری کے دل میں دیر پا اثر چھوڑتی ہیں۔ انھوں نے تشبیہ، استعارہ ، تلمیح اور دیگر شعری صنعتوں کو بھی خوبصورتی سے برتا ہے جو ان کے فنی شعور ،ذوق جمال اور وسعت مطالعہ کا پتہ دیتے ہیں ۔

 

غم دیا جو کچھ بھی اس نے اس کا مجھ کو غم نہیں

غم تو بس مجھ کو فقط اس کی پشیمانی کا ہے

 

گر تجھے رہبری کا دعوی ہے

فکر اپنی نہیں ہماری کر

 

ذرا سی لغزش بےجا ہوئی، دنیا بدل ڈالی

الہی تو نے وہ جرات عطا کی ذوق عصیاں کو

 

مرے ذوق طبیعت نے غذائے دل بنا ڈالا

غم دنیا، غم جاناں، غم ہستی، غم جاں کو

 

سکوت شب میں جو تو اس کی آرزو کر لے

حسیں ستاروں سے دامن ترے سجا دے گا

 

آخر شب ہے ہوشیاری کر

کچھ تو اب فکر رستگاری کر

 

فیضان عشق کیف جنوں لازوال ہے

دنیا کا کیا ہے آئی ادھر سے ادھرگئی

 

ایک بھی اچھا کام کیا تو خوب ڈھنڈورے پیٹتے ہیں

اپنی بد عملی کی باتیں کون کسی سے کہتا ہے

 

صاف رکھ دل کو مثل آئینہ

حاجت جبہ و عبا کیا ہے

 

دیدہ دلیری اس کی دیکھو جس نے مجھے برباد کیا

میرے ہی دل میں بستا ہے آنکھوں میں وہ رہتا ہے

 

پہلے تو درد و غم سے نوازا گیا مجھے

پھر غم کو میرے درد کا درماں بنا دیا

 

پہلے تو اس نے دی انہیں زنداں میں تربیت

پھر جا کے ان کو مصر کا سلطان بنا دیا

اس طرح کے درجنوں اشعار غبارشوق میں آپ کو مل جائیں گے۔مولانا نے لمبی بحر میں بھی چند ایک غزلیں کہی ہیں ، بہ طور نمونہ ایک شعر ملاحظہ کریں ۔

اہل عقل و خرد ،صاحب علم و فن ،شاعر نکتہ داں ، ماہ رو گل بدن

کیسے کیسے تھے وہ رشک صد انجمن، سارے اہل ہنر کو زمیں کھا گئی

الغرض مولانا احمد سجاد ساجد صاحب قاسمی نے کلاسیکی روایت کی پاسداری کے ساتھ ساتھ عصری حسیت کو بھی جگہ دی ہے ، ان کا کلام اس بات کا بین ثبوت ہے کہ وہ روایت و جدت اور مذہب و ادب کے امتزاج کو خوبصورتی سے برتنے کا ہنر رکھتے ہیں ۔ کتاب پڑھنے لائق ہے ، مدارس کے طلبہ اور علما کو اس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے ۔

فرید بک ڈپو لمیٹڈ دہلی سے چھپی ہے ، آپ مفتی ظفیر الدین اکیڈمی موضع پورہ ڈاخانہ کبریا ضلع دربھنگہ سے بھی حاصل کر سکتے ہیں ۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare