مولانا محمد اختر قاسمی سہارن پوری

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

جامعہ اسلامیہ ریڑھی تاج پورہ سہارن پور کے مہتمم،مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے خلیفہ و مجاز حضرت مولانا محمد اختر قاسمیؒ نے یکم جنوری 2024ء بروز سنیچر اس عارضی قیام گاہ کو خیرباد کہہ کر دارالبقیٰ کے لیے رخت سفر باندھ لیا، انا للہ وانا الیہ راجعون ۔

مولانا محمد اختر قاسمی سہارن پوری
مولانا محمد اختر قاسمی سہارن پوری

حضرت مولانا محمد اختر قاسمی بن محمد اسحاق کی ولادت ان کے آبائی گاؤں ریڑھی محی الدین پور ضلع سہارن پور میں 24/اپریل 1943ء بروز سنیچر ہوئی، ابتداء سے لے کر شرح جامی تک کی تعلیم مدرسہ تعلیم القرآن عرف جامعہ اسلامیہ ریڑھی تاج پورہ میں حاصل کرنے کے بعد 1964ء میں دارالعلوم دیوبند تشریف لے گیے، دورہ حدیث کی تکمیل 1968 میں ہوئی، انڈین آرمی میں منصب امامت پر فراغت کے بعد بحالی ہوئی، لیکن آرمی کے اصول وضوابط سے طبیعت میل نہیں کھارہی تھی، اس لیے وہاں جوائن نہیں کیا، جنوری 1968ء سے بحیثیت استاذ اپنی مادر علمی جامعہ اسلامیہ میں تدریسی خدمت انجام دینے لگے، 14/نومبر1974ء کو مجلس شوریٰ نے عارضی طورپر آپ کو جامعہ کا مہتمم مقرر کیا اور آپ کے حسن انتظام، خوش سلیقگی، جامعہ کے لیے فکرمندی کو دیکھ کر چند ماہ بعد ہی اس عہدہ پر ان کا استقلال ہوگیا اور وہ باضابطہ مہتمم کی حیثیت سے کام کرنے لگے اپنے انتقال تک اس عہدہ پر فائز رہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ بحیثیت مہتمم کوئی پینتالیس (45) سال آپ نے جامعہ کی خدمت کی، مولانا مرحوم کی زندگی کا دو ہی مشن تھا، ایک تو جامعہ اسلامیہ کو تعلیمی اور تعمیری اعتبار سے عروج بخشنا اور طلبہ کی ذہنی آبیاری اس طرح کرنا کہ وہ ملت کے لیے مفید ثابت ہوسکیں، 1999ء میں جب حضرت مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اجازت و خلافت تفویض کی تو وہ عوام کی اصلاح اور ان کی روحانی بیماریوں کے علاج پر توجہ دینے لگے اور طلبہ، اساتذہ، نیز عام مسلمان آپ کی اس تربیت سے مستفیض ہونے لگے، لوگوں کا رجوع شروع ہوا، تربیت کا ایک خاص نظام آپ نے ترتیب دیا، نماز فجر کے بعد اذکار کی مجلس منعقد ہوتی، عصر کے بعد بھی مجلس لگتی، رمضان المبارک کے اخیر عشرہ کے اعتکاف کا بھی اہتمام ہوتا، جس میں قرآن کریم کی تلاوت اور نوافل نمازوں پر خصوصی توجہ مرکوز رہتی، تعلق مع اللہ کے حصول کے لیے جو ریاضت اکابر نے تجویز کی ہے، اپنے شیخ کی ہدایت کے مطابق پوری زندگی اس پر گامزن رہے اور لوگوں کو اس کی تلقین کرتے رہے۔

روحانی علاج اور تعلق مع اللہ پیدا کرنے کی کوششوں کے بیچ ان کے ذہن ودماغ سے جامعہ کی ترقی کبھی اوجھل نہیں رہتی، وہ اپنے گھر سے زیادہ جامعہ کے لیے فکرمند رہتے، یہی وجہ ہے کہ مولانا کے ہی دور اہتمام میں دورہ حدیث شریف تک جامعہ کا تعلیمی معیار پہونچا، شعبہ تجوید قرأت کا آغاز ہوا، شعبہ کمپوٹر کو وجود بخشا، انہوں نے مدرسہ کو اس قدر ترقی عطا فرمائی کہ وہ جامعہ بن گیا، دیدہ زیب، دلکش عمارتیں جو ان کے وقت میں تعمیر ہوئیں ان میں دار جدید، حشمت لائبریری، رحیمیہ مسجد کی توسیع کے ساتھ اس کی بالائی منزل کی تعمیر، باب رحیمیہ کی تزئین کاری، دارالقرآن، دارالحدیث، دارالطعام اور شعبہ تجوید و قرأت کے لیے ایک وسیع ہال کی تعمیر ان کی مخلصانہ جدوجہد کے بڑے مظاہر ہیں، ان کے وقت میں مختلف لوگوں کی جانب سے جامعہ کے لیے کئی قطعہ اراضی کا بھی حصول ہوا۔

مولانا جس طرح فرائض کی ادائیگی میں مستعد اور چاق وچوبند تھے، دوسروں کے حقوق کی ادائیگی میں بھی بڑے حساس تھے، اساتذہ اور طلبہ سے بے انتہا محبت کرتے تھے، ان کا تعلق جامعہ کے اساتذہ اور کارکنوں کے ساتھ حاکم و محکوم والا نہیں تھا، وہ سب کے ساتھ شفقت ومحبت کا برتاؤ کرتے اور انہیں ایک خاندان کے افراد کی طرح سمجھتے ان کی ضرورتوں کی تکمیل کرتے، اس لیے ان کے دور میں جو فتنے اٹھے وہ ان کے حسن اخلاق کی بدولت دب گیے، دور اہتمام کے پینتالیس سال کے طویل دور میں یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ مولانا کو مسائل، مصائب اور مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑا، یقیناً آزمائشوں کا دور بھی آیا، موافق ہوا کے ساتھ تند و تیز مخالف ہواؤں کا بھی سامنا کرنا پڑا، لیکن مولانا نے اپنے ناخن تدبیر سے ان ہواؤں کا رخ جامعہ کی ترقی کی طرف موڑ دیا نیز داخلی وخارجی سازشوں اور منافقوں کی روش سے جامعہ کو بچائے رکھا، یقیناً اس میں ان کے صبر واستقامت کا بھی بڑا عمل دخل رہا، انہوں نے مستقبل کے خطرات کے پیش نظر اپنی زندگی میں مولانا جمشید علی قاسمی کو اپنا نائب مقرر کردیا تھا، جو مولانا کے بعد ڈپٹی عبد الرحیم کے لگائے ہوئے اس پودے کو مزید تناور بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔

مولانا اصلاح معاشرہ کے لیے مختلف پروگراموں میں شریک ہوا کرتے تھے، اس سے بھی اس علاقہ کے مسلمانوں کو بہت فائدہ پہونچا، اب مولانا ہمارے درمیان نہیں ہیں، ان کی نیکیاں باقی ہیں، اللہ تعالیٰ حضرت کی خدمات کو قبول فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے، آمین ثم آمین یارب العالمین۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare