مولوی محمد باقر ؛ قلم کا وہ چراغ جو خون سے روشن ہوا

اسلم رحمانی

ہندوستانی زبانوں کا مرکز جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، (جے این یو) نئی دہلی

مولوی محمد باقر ؛ قلم کا وہ چراغ جو خون سے روشن ہوا
مولوی محمد باقر ؛ قلم کا وہ چراغ جو خون سے روشن ہوا

تاریخ کے اوراق پلٹتے جائیے تو ظلم و جبر کے خلاف کبھی تلواریں کھنچتی نظر آتی ہیں، کبھی نیزوں کی چمک آنکھوں کو خیرہ کرتی ہے، کبھی شمشیروں کی کاٹ فیصلے لکھتی ہے۔مگر ان سب کے بیچ ایک اور کہانی بھی ہے، ایک ایسی کہانی جس میں ایک بے خوف صحافی اپنے قلم کو تلوار اور اپنی تحریر کو ہتھیار بنا کر سامراج کے ایوانوں کو لرزا دیتا ہے۔ کچھ نفوس ایسے پیدا ہوتے ہیں جو معرکۂ حق و باطل میں میدانِ جنگ نہیں بلکہ کاغذ کے صفحے کو اپنی کربلا بنا لیتے ہیں۔ وہ جب لکھتے ہیں تو الفاظ میں آگ دہکنے لگتی ہے، اور جب اٹھتے ہیں تو اپنے قلم کو ایسا ہتھیار بنا دیتے ہیں جو فولاد سے زیادہ کاری ثابت ہوتا ہے۔انہی مردانِ حق میں ایک نام ایسا ہے جس کے بغیر جنگِ آزادی کا باب ادھورا اور صحافت کا سفر بے سمت ہے۔ وہ تھے صحافی شہید مولوی سید محمد باقر دہلوی وہ مردِ قلندر جنہوں نے قلم کو پرچمِ جہاد بنایا، صحافت کو منبرِ حق قرار دیا، اور اپنی جان دے کر اس بات پر مہر ثبت کردی کہ آزادی کی شمع خون سے روشن ہوتی ہے۔ تاریخ کے دامن میں کچھ چراغ ایسے بھی ہیں جو بجھنے کے بعد روشنی بانٹتے ہیں، خاموش ہونے کے بعد صدیوں تک بولتے ہیں، اور شہید ہوکر امر ہو جاتے ہیں۔ مولوی محمد باقر ایسا ہی چراغ تھے، جن کا شعلہ توپ و تفنگ کی بارش سے تو بجھایا گیا مگر ان کی فکر کی روشنی آج بھی زندہ ہے۔اور یہی وہ نکتہ ہے جہاں سے 1857ء کی طوفانی ساعتیں ہمیں ایک نئی پہچان دیتی ہیں۔ میدانِ جنگ میں اگر گھوڑوں کی ٹاپ اور توپ کے گولے گونج رہے تھے تو دہلی کے کوچوں میں ایک مردِ قلم کا وجود بھی قوم کے دلوں کو گرما رہا تھا۔ اس مردِ قلم نے اپنی تحریر کو بغاوت کی صدا، اپنی صحافت کو انقلاب کا ناقوس اور اپنی جان کو آزادی کی قیمت بنا دیا۔ وہ الفاظ کے ذریعے غلامی کی زنجیروں کو توڑنے والے پہلے صحافی تھے، جنہوں نے ثابت کیا کہ آزادی کی جنگ صرف میدانِ کارزار میں نہیں بلکہ صفحۂ قرطاس پر بھی لڑی جاتی ہے۔مولوی باقر نے اس وقت صحافت کو آوازِ حق بنایا جب انگریزی حکومت کا ہر پرچہ پابندِ سلاسل تھا۔ 1837ء میں ’’دہلی اردو اخبار‘‘ کی بنیاد رکھی تو یہ صرف کاغذ پر چھپے الفاظ نہیں تھے بلکہ عوامی شعور کی چنگاریاں تھیں جو دلوں میں شعلے بھڑکا رہی تھیں۔ یہ اخبار دہلی کے کوچہ و بازار سے نکل کر لکھنؤ، آگرہ، جھانسی اور گوالیار تک آزادی کا پیغام پہنچا رہا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب لفظ کی ایک سطر، توپ کے ایک گولے سے زیادہ کاری ضرب لگاتی تھی۔زمانہ بدل گیا، منظرنامے بدل گئے، چھاپہ خانوں سے نکل کر صحافت ڈیجیٹل دنیا کی برق رفتار راہوں پر جا پہنچی، لیکن سوال آج بھی وہی ہے کہ صحافت کی اصل وفاداری کس کے ساتھ ہے؟ اقتدار کے ایوانوں کے ساتھ یا محروم و مظلوم عوام کے ساتھ؟ تاریخ گواہ ہے کہ مولوی سید محمد باقر دہلوی نے اس سوال کا جواب اپنے قلم سے بھی دیا اور اپنے خون سے بھی، وہ جواب جو آج کے بلند بانگ نیوز روم اور رنگین اخبارات اپنی تمام تر شورش کے باوجود دینے سے قاصر ہیں۔1857ء کی جنگِ آزادی میں جب میرٹھ سے شعلے دہلی تک پہنچے تو ’’دہلی اردو اخبار‘‘ نے انقلابی جذبات کو قوت بخشی۔ انگریزوں کی سازش تھی کہ کارتوس کی چربی کا تنازع کھڑا کر کے ہندو اور مسلمان سپاہیوں میں تفرقہ ڈال دیا جائے، مگر مولوی باقر دہلوی نے دوٹوک انداز میں قوم کو متنبہ کیا کہ وقت کی نزاکت کو نظرانداز کرنا دین و دنیا کی پشیمانی کا سبب ہوگا۔ ان کے الفاظ انگریزوں کے لیے تیر کی مانند تھے، کیونکہ وہ اقتدار کی خوشامد نہیں بلکہ سچائی کی گواہی تھے۔ ان کے اداریے غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کا اعلان تھے اور یہی وجہ تھی کہ وہ انگریز سامراج کی آنکھوں میں سب سے بڑا کانٹا بن گئے۔بالآخر وہ لمحہ بھی آیا کہ جب 14 ستمبر 1857ء کو انگریز دہلی کے دروازے توڑ کر شہر میں داخل ہوئے اور اپنی فتح کے نشے میں جھومنے لگے۔ انہیں سب سے پہلے ان قلمی سپاہیوں کو خاموش کرانا تھا جو لوگوں کو بغاوت پر ابھار رہے تھے۔ مولوی محمد باقر کو گرفتار کر کے میجر ہڈسن کے سامنے پیش کیا گیا، اور پھر 16 ستمبر کو بغیر مقدمے اور بغیر دفاع کے انہیں گولی مار دی گئی۔

مولوی محمد باقر ؛ قلم کا وہ چراغ جو خون سے روشن ہوا
مولوی محمد باقر ؛ قلم کا وہ چراغ جو خون سے روشن ہوا

اس طرح وہ ہندوستان کے پہلے شہید صحافی قرار پائے۔وہ شہید جنہوں نے قلم کو سچائی کا علم بنایا اور اس علم کی حفاظت اپنی جان دے کر کی۔صدیوں بعد اگر آج کے منظرنامے پر نگاہ ڈالیں تو تلخ حقیقت یہ سامنے آتی ہے کہ موجودہ صحافت کا ایک بڑا حصہ اپنی عظیم وراثت سے غداری کر چکا ہے۔ آزادی کی لڑائی کے دوران جس صحافت نے مولوی محمد باقر کو شہادت کے درجے پر فائز کیا، آج وہی صحافت کارپوریٹ سرمایہ داروں اور سیاسی آقاؤں کے ہاتھوں کا کھلونا بن گئی ہے۔ نیوز چینلوں کے اسٹوڈیوز میں دن رات جو تماشا برپا ہے وہ کسی "منڈی” سے کم نہیں۔ انگریزوں نے کارتوس کی چربی کے ذریعے ہندوستانیوں کے ایمان پر وار کیا تھا، آج اسی سازش کا نیا روپ "فرقہ پرست بیانیہ” ہے، جو دل و دماغ کو مسموم کرنے کے لیے مسلسل پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ بیانیہ مسلمانوں کو دہشت گرد، غدار اور شک کے دائرے میں لا کر کھڑا کرتا ہے، دلت اور پسماندہ طبقات کو بوجھ بنا کر پیش کرتا ہے اور عوام کو اصل مسائل سے غافل رکھنے کے لیے مذہب و قومیت کی مصنوعی جنگ چھیڑ دیتا ہے۔حالیہ برسوں میں ایسے کئی واقعات دیکھنے کو ملے ہیں جہاں ٹی وی چینلوں نے خبر سے زیادہ "ہنگامہ” بیچنے کو اپنا مقصد بنا لیا۔ 2020ء کے دہلی فسادات ہوں یا حجاب کے نام پر لڑکیوں کو نشانہ بنانے کی مہم، پلوامہ اور پہل گاؤں حملے کے بعد کی سنسنی ہو یا کورونا وبا کے دوران تبلیغی جماعت کو ملک دشمن بنا کر پیش کرنے کا پروپیگنڈہ، ہر موقع پر فرقہ پرست میڈیا نے ایک ہی کہانی سنائی: "مسلمان مجرم ہیں”۔ یہ وہی سوچ ہے جس نے برطانوی سامراج کے زمانے میں عوام کو تقسیم کیا تھا تاکہ وہ اصل دشمن کو نہ پہچان سکیں۔ آج بھی یہی مقصد ہے کہ عوام روزگار، تعلیم، صحت اور مہنگائی کے سوال نہ پوچھیں بلکہ ایک دوسرے کے خلاف بھڑک اٹھیں۔

قلم جو کبھی باقر دہلوی کے ہاتھوں میں سچائی کا ہتھیار تھا، آج سرمایہ داروں اور اقتدار کے غلاموں کا پرزہ بن گیا ہے۔ وہاں ایک جملہ لکھنے پر توپوں کا سامنا تھا، یہاں جھوٹ گھڑنے پر لاکھوں کی تنخواہیں اور کروڑوں کے اشتہارات ملتے ہیں۔ وہاں صحافی عوامی بیداری کے لیے قربانی دیتے تھے، یہاں اینکر اپنی مصنوعی گرج دار آواز میں ایک پوری قوم کو کٹہرے میں کھڑا کر دیتے ہیں۔ وہاں خبر ضمیر کی آواز تھی، یہاں خبر صرف ریٹنگ اور اشتہار کا ذریعہ ہے۔

یہ مکروہ چہرہ اس وقت اور زیادہ عیاں ہوتا ہے جب اسٹوڈیوز میں بیٹھے "اینکر” عدالت کا روپ دھار کر حکومت کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو غدار قرار دیتے ہیں۔ کسانوں کی تحریک کو پاکستان سے جوڑ دیا جاتا ہے، طلبہ کے احتجاج کو دہشت گردی کا رنگ دیا جاتا ہے اور اقلیتوں کے حقوق کی مانگ کو ملک دشمنی کہا جاتا ہے۔ یہ وہی رویہ ہے جو برطانوی حاکموں نے 1857 کی تحریک آزادی کے وقت اپنا کر پورے ہندوستان کو غلام بنایا تھا۔ آج کا میڈیا بھی اسی راہ پر ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ اب یہ غلامی ذہنی و فکری ہے جس کے شکنجے سے نکلنا عوام کے لیے پہلے سے زیادہ مشکل بنا دیا گیا ہے۔یوں موجودہ فرقہ پرست صحافت نے اپنی ساکھ کو اتنا داغدار کر دیا ہے کہ وہ اب "چوتھا ستون” نہیں بلکہ "اقتدار کا ہتھیار” بن چکی ہے۔ یہ ہتھیار عوام کو تقسیم کرنے، نفرت پھیلانے اور اصل سوالوں کو دبانے میں دن رات مصروف ہے۔ تاریخ کے صفحات گواہی دیتے ہیں کہ ایسی غداری کبھی دیرپا نہیں ہوتی، لیکن جب تک یہ کھیل جاری ہے، سچائی، انصاف اور جمہوریت کا گلا گھٹتا رہے گا۔اس نئی صحافت کا سب سے ہولناک پہلو یہ ہے کہ کسی بھی جرم کو بغیر شواہد اور صرف شک کی بنیاد پر مسلمانوں کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے۔ اگر کسی واردات میں ملزم کا نام عبداللہ یا یونس نکل آئے تو پوری قوم کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا جاتا ہے۔یوں مسلمانوں کو تختۂ مشق بنا کر عوام کی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹا دی جاتی ہے۔ بے روزگاری، مہنگائی، کسانوں کی خودکشی، تعلیم و صحت کی بدحالی جیسے مسائل پسِ پشت ڈال دیے جاتے ہیں اور ہر روز ایک نیا مسلم دشمن بیانیہ کھڑا کر کے عوام کو الجھا دیا جاتا ہے۔یہ ناگفتہ بہ صورت حال ہمیں مولوی محمد باقر دہلوی کی شہادت کی معنویت کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ وہ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ صحافت محض پیشہ نہیں بلکہ امانت ہے۔ یہ سرمایہ داروں کا کھیل نہیں بلکہ عوام کا حق ہے۔ اگر آج کا میڈیا واقعی اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنا چاہتا ہے تو اسے باقر دہلوی کی راہ پر لوٹنا ہوگا، وہ راہ جہاں قلم کمزوروں کا سہارا تھا، جہاں تحریر بیداری کا ذریعہ تھی، اور جہاں سچائی کی خاطر جان قربان کرنا باعثِ فخر سمجھا جاتا تھا۔مولوی باقر دہلوی کی شہادت آج بھی ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑتی ہے۔ وہ ہمیں یہ پیغام دیتے ہیں کہ صحافت کا اصل معیار اقتدار کے قریب ہونا نہیں بلکہ حق کے قریب ہونا ہے۔ اگر آج کی صحافت ظلم کے خلاف نہیں کھڑی ہوتی تو وہ تاریخ میں محض کرائے کا مہرہ سمجھی جائے گی۔ لیکن اگر کوئی قلمکار مولوی باقر کی طرح سچائی کی گواہی دے، مظلوموں کی زبان بنے اور اقتدار کے سامنے ڈٹ جائے تو وہی اس پیشے کے تقدس کو زندہ رکھے گا۔ ان کی قربانی اس اٹل حقیقت کا اعلان ہے کہ جب قلم حق کے لیے اٹھتا ہے تو وہ کبھی گولی سے نہیں مر سکتا۔

٭٭٭

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare