مکتوبات شاہ مقبول احمد
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
ڈاکٹر شفیع الرحمن ( ولادت 1972ء) کا وطن اصلی رفیع گنج ضلع اور نگ آباد ہے، وہ ان دنوں کولکاتہ یونیورسٹی سے ایم اے اور پی ایچ ڈی کرنے کے بعد مٹیا برج کالج کولکاتا میں تدریسی خدمت انجام دے رہے ہیں، وہ اپنے استاذ شاہ مقبول احمد سے بے پناہ محبت کرتے ہیں ، اس لیے ان کی تحقیق و تنقید کا محور و مرکز شاہ مقبول احمد کی حیات و خدمات رہی ہیں، ان کی چار کتابیں اب تک طبع ہو چکی ہیں اور سب کا موضوع شاہ مقبول احمد کے احوال و آثار ہیں، شاہ مقبول احمد کی فکری جہات، چند ادبی مسائل کا تعلق بھی شاہ صاحب ہی ہے، ان کی پانچویں کتاب کلیات شاہ مقبول احمد بھی تیار ہے، منظر عام پر آنے کی دیر ہے، اس موضوع سے ہٹ کر ڈاکٹر شفیع الرحمٰن کی صرف ایک کتاب آئی ہے جو طلبہ کی رہنمائی کے لیے اسکول/مدرسہ سروس گائیڈ کے نام سے ہے، میرے سامنے ابھی مکتوبات شاہ مقبول احمد ہے، اس کا تعارف مقصود ہے۔

پروفیسر شاہ مقبول احمد اس کتاب کے مکتوب نگار ہیں ، وہ موضع پچنہ موجودہ ضلع شیخ پورہ میں 1916ء میں پیدا ہوئے اور 18 جون 1999ء کو ان کی حیات مستعار کا آخری ورق الٹ گیا، وہ مولانا آزاد کالج کولکاتہ میں پروفیسر کے عہدے سے یکم جون 1976ء کو سبکدوش ہوئے تھے، میری ہی طرح وہ بھی تحقیقی مقالہ لکھنے کے باوجود پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل نہ کر سکے، اس کا ملال پوری زندگی ان کو بھی رہا اور مجھے بھی ہے۔
شاہ صاحب نے مختلف اصناف ادب میں طبع آزمائی کی، شاعری، افسانہ نگاری، انشائیے، تحقیق و تنقید ان کی توجہ کا مرکز رہے، ادبی معاملات پر انہوں نے بے شمار خطوط لکھے، جس کا مجموعہ مکتوبات شاہ مقبول احمد ہے، ڈاکٹر شفیع الرحمن نے ان مکتوبات کو مختلف لوگوں کے ذخیرے سے برآمد کیا، پھر طویل مقدمہ لکھا، تحقیق و ترتیب کے فرائض انجام دیے، تب جا کر یہ مجموعہ قارئین کے لیے استفادہ کے لائق ہوا، مجموعہ میں مکتوبات کی کل تعداد دو سو گیارہ ہے، جو ستائس شخصیات کے نام لکھے گئے ہیں، یہ خطوط فصیح الدین بلخی ، قاضی عبدالودود، پروفیسر سید حسن ، سالک لکھنوی ، سید حسن بہار شریف ، قیوم خضر ، احمد سعید ملیح آبادی، پروفیسر نادم بلخی ، کلام حیدری ، ریحان احمد عباسی ، عابد رضا بیدار، وسیم الحق ، پروفیسر وہاب اشرفی، پروفیسر ابوذر عثمانی، شبر امام پٹنہ اشرف احمد جعفری ، ڈاکٹر سید ظہیر احسن اور مدیر سبیل گیا کے نام ہیں ، ان تمام کا شمار اپنے اپنے وقت میں اساطین علم وادب میں رہا ہے، تین سو اکاسی صفحات کی یہ کتاب احمد اقبال صدیقی اسکرینز کے مطبع سے چھپی ہے، چھ سو روپے قیمت دے کر 32 لینس اسٹریٹ فرسٹ فلور کولکاتہ -14 سے حاصل کی جاسکتی ہے، کمپوزنگ میں محمد شاہد احسن خان نے پیشہ دارانہ صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے، اس لیے کمپوزنگ اور سیٹنگ عمدہ ہے، کاغذ، طباعت ، ہارڈ بائنڈنگ خوبصورت اور دیدہ زیب ٹائٹل آنکھوں کو نور اور دل کو سرور بخشتا ہے، اس کی بڑی وجہ ٹائٹل کا قوس قزح کے رنگوں سے مزین ہوناہے، کتاب کا انتساب والدہ انیسہ خاتون اور بڑے بھائی مطیع الرحمن کے نام ہے، دونوں مرحوم ہو چکے ہیں اس لیے ان کی لحد پر شبنم افشانی اور سبزہ نورستہ کی نگہبانی کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے۔

مکتوبات کے مجموعہ کے شروع میں حرف چند، پروفیسر نسیم احمد، تقریظ پروفیسر رئیس انور، اجازت نامہ شائق احمد اور مکتوب نگار کے سوانحی کوائف، کچھ میری باتیں اور طویل مقدمہ خود مرتب کتاب ڈاکٹر شفیع الرحمن کا ہے، کچھ میری باتیں کا بڑا حصہ شکر گذاری پر مبنی ہے البتہ چند سطور اس مجموعہ کے بارے میں بھی قلم بند کیا گیا ہے، اس کتاب کا مقدمہ مرتب کے قلم سے بڑا وقیع ہے ۔ اس میں مختلف مکتوب نگاروں کے تذکرے اور مکتوبات کی تاریخی اور صنفی و حیثیت کے ساتھ ان کے اقسام پر بھی قابل قدر باتیں آگئی ہیں ، مرتب نے اپنی تحقیقی اور تنقیدی صلاحیت سے اس میں خوب کام لیا ہے، انہوں نے اردومیں پہلے مکتوب نگار کا بھی ذکر کیا ہے، جن حضرات کے مکاتیب مشہور ہوئے ، ان میں رجب علی بیگ سرور کی انشاء اور غلام غوث بے خبر کی فغان بے خبر اور انشاء بے خبر ، غالب سے پہلے لکھے گیے مکاتیب کے مجموعے ہیں، اس کے بعد غالب ، مولانا ابوالکلام آزاد ، صفیہ اختر ، شاہ مقبول احمد کے نام کا ذکر کیا ہے، ظاہر ہے یہ فہرست نامکمل ہے، اس فہرست میں خاصہ اضافہ کیا جا سکتا ہے اور اگر اسے تسلسل عطا کرنا ہو تو اکبر الہ آبادی کی مکاتیب اکبر، علامہ اقبال کی کلیات مکاتب اقبال ، مکاتیب سرسید ، مکاتیب حالی ، مکاتیب شبلی ، مکتوبات ماجدی، مشاہیر ادب کے خطوط ، آئینہ خیالی ، اوراق جاوداں مکاتیب گیلانی ، مکتوبات رحمانی ، امام اعظم کی کتاب چٹھی آئی ہے اور میرے خطوط کے مجموعے ” آدھی ملاقات اور نامے میرے نام "کو بھی شامل کرنا ہوگا ، مرتب کتاب نے جن چند مکاتیب نگاروں کا ذکر کیا ہے اسے برسبیل تذکرہ سمجھنا چاہیے، اس موضوع پر میرا تفصیلی مقالہ مکتوب اور مراسلہ نگاری کی روایت بہت پہلے چھپ چکا ہے اور وہ نیٹ پر بھی موجود ہے۔
مرتب نے اس کتاب میں مکتوب الیہ کا تعارف بھی کرایا ہے، جو کہیں مختصر اور کہیں طویل ہے، یہ اچھا کام ہے، جب تک مکتوب نگار اور مکتوب الیہ کی شخصیت سامنے نہ ہو ، خطوط کی اہمیت واضح نہیں ہوتی ۔
پوری کتاب پڑھ کر ڈاکٹر شفیع الرحمن کی عرق ریزی، تحقیقی ذوق اور ادبی سوجھ بوجھ کا پتہ چلتا ہے، اس مجموعہ میں جو خطوط شامل کیے گیے ہیں اس کو پڑھ کر شاہ مقبول احمد کے عہد کی پوری ادبی جدو جہد کی داستان تیار کی جاسکتی ہے، ان مکاتیب میں تحقیق کے ساتھ اسلوب میں سادگی اور برجستگی ہے، ڈاکٹر شفیع الرحمن کے مقدمہ میں اپنے استاذ کے اسلوب کا پر تو اور عکس پایا جاتا ہے، میں اس اہم کتاب کی تحقیق و ترتیب اور وقیع مقدمہ لکھنے پر ڈاکٹر صاحب کی ستائش کرتا ہوں ، مبارکباد دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ ان کی ادبی کاوشیں روز افزوں ہمارے سامنے آئے اور وہ اسی طرح ادبی چمن میں گل بوٹے کھلاتے رہیں ۔ آمین ۔