نام ، چھترپتی شیواجی مہاراج کا ؛ کام !! ساورکر کا ؟

تکلف برطرف : سعید حمید

آج یہ سوال اٹھانا ضروری کہ مہاراشٹر میں چھترپتی شیواجی مہاراج کے ہندوی سوراجیہ کا بول بالا کیا جا رہا ہے ؟ یا شیواجی مہاراج کا نام لیکر ساورکر کی وچار دھارا کو روبہ عمل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ؟

نام ، چھترپتی شیواجی مہاراج کا ؛ کام !! ساورکر کا ؟
نام ، چھترپتی شیواجی مہاراج کا ؛ کام !! ساورکر کا ؟

سچ تو یہ ہے کہ ساورکر کے ہندوتوا سے چھترپتی شیواجی مہاراج کا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ۔

چھترپتی شیواجی مہاراج کے اقتدار میں ہندوتوا کا نام و نشان بھی نہیں تھا ۔

چھترپتی شیواجی مہاراج ۱۶۷۵ ء میں تخت نشین ہوئے تھے اور ہندوتوا کا نعرہ اور نظریہ تو ساورکر نے ۱۹۲۱ ء میں پیش کیا تھا ، یعنی چھترپتی شیواجی مہاراج کے راجہ بننے کے ۲۴۶ ؍ برس بعد ۔۔۔۔۔۔۔

لیکن آج ہندوتوا کے نفاق و نفرت پر مبنی نظریہ کو چھترپتی شیواجی مہاراج کے عوام دوست ، بہوجن وادی ، نظریہ کے برخلاف یوں پیش کیا جا رہا ہے جیسے یہی ( ہندوتوا کا نظریہ ہی ) چھترپتی شیواجی مہاراج کا نظریہ تھا ، جبکہ یہ بات سراسر جھوٹ ہے ۔

چھترپتی شیواجی مہاراج کی شیو شاہی میں ہندوتوا کا گذر تک نہیں تھا ۔

یہ بات تاریخی کتابوں سے ثابت ہوچکی ہے ، لیکن محض نفرت کی سیاست کیلئے مہاراشٹر کے کئی مہاپرشوں کا نام لیا جا رہا ہے ، جنہوں نے گنگا جمنی تہذیب کی بات کہی ۔

البتہ ان مہاپرشوں کا نام لیکر کام ، ساورکر وادیوں کا کیا جا رہا ہے ،

جب بھی ریاستی حکومت کا بجٹ سیشن ہوتا ہے ، تو اس کا آغاز گورنر کے خطاب سے ہوا کرتا ہے ، اور گورنر موصوف دونوں ایوانوں سے

جب خطاب کرتے ہیں تو ان کے خطبہ کا آغاز انہی الفاظ سے ہوا کرتا ہے ،

کہ میری سرکارچھترپتی شیو اجی مہاراج ، چھترپتی سمبھا جی مہاراج ، مہاتما پھلے ، چھترپتی شاہو مہاراج ، بھارت رتن ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کے اصولوں پر چل رہی ہے ۔

لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے ۔

ایک زمانہ تھا جب عوام کو مہاراشٹر کی حقیقی تاریخ کا علم نہیں تھا ، لیکن آج مہاراشٹر ہی نہیں ملک بھر کے عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان نفرت پھیلانے کیلئے تلک ، ساورکر سے لیکر سمبھا جی بھڈے تک کئی انتہا پسند لیڈروں نے جھوٹی تاریخ کا استعمال کیا ، شیو جینتی کا استعمال فرقہ واریت کو فروغ دینے کیلئے استعمال کیا ،اور عوام کو جھوٹی تاریخ کے ذریعہ گمراہ کیا ، لیکن اب عوام پر حقیقت آشکار ہو چکی ہے ،

مہاراشٹر اور خاص طور پر چھتر پتی شیواجی مہاراج کی سچی تاریخ کو عوام کے سامنے لانے کا کام خطروں سے بھرپور تھا لیکن کئی ایماندار و دیانت دارمورخین نے یہ خطرہ بھی مول لیا اور سچ سامنے لایا کہ چھترپتی شیواجی مہاراج کی تاریخ کو فرقہ پرستی کی عینک لگا کر دیکھنا درست نہیں ۔

عوام تک یہ پیغام پہنچانے اور چھترپتی شیواجی مہاراج کی حقیقی تاریخ عوام کے سامنے پیش کرنے کا جراءت مند کام کرنے والے مورخین

کامریڈ گوند پنسارے ، ڈاکٹر دھابولکر کو ان دہشت گردوں ، مفسدوں اور انتہا پسندوں نے قتل بھی کردیا ،جن کا ایجنڈا ہے ، کہ چھترپتی شیوا جی مہاراج کی جھوٹی ، خلط ملط اور آلودہ تاریخ کو عوام کے سامنے پیش کیا جائے اور اس کے ذریعہ نفرت کی دوکان کا کاروبار آگے بڑھایا جائے ۔

اسلئے ، آج چھترپتی شیواجی مہاراج کی جئے جئے کار کی نعرہ بازی وہ لوگ بھی کرتے ہیں، جو مسلم دشنمنی کو اپنا سیاسی اور سماجی ایجنڈہ بنائے ہوئے ہیں۔

اس مرتبہ کا بجٹ سیشن بھی گورنر صاحب کے خطاب سے ہوا ۔

انہوں نے بھی چھترپتی شیواجی مہاراج کا حوالہ دیا ۔

ایک تاریخی سچ یہ ہے کہ چھترپتی شیواجی مہاراج کی حکومت ، وزارت اور افسر شاہی یعنی بیوروکریسی میں بڑے بڑے اہم عہدوں پر مسلمان فائز تھے ۔

چاہے وہ نیوی ہو ، پیدل فوج ، گھڑسوار فوج ، توپ خانہ ، باڈی گارڈ دستہ ،یا پرسنل باڈی گارڈ ، یا وزارتوں اور افسر شاہی کے اہم عہدیدار؛

شیو شاہی میں مسلمان اہم اہم عہدوں پر تعینات تھے ، اور ان پر باوجود اس حقیقت کے شیواجی مہاراج یا ان کے برہمن وزراء اور مراٹھا رعایا کی طرف سے ان مسلمان سرداروں ، سپاہیوں ، وزرا ء وغیرہ کی وفاداری پر کوئی شک و شبہ نہیں کیا جاتا تھا ، حالانکہ شیو شاہی کا بیشتر مقابلہ مغل ایمپائر سے تھا۔

کامریڈ گوند پنسارے ، پرشوتم کھیڈیکر ، پروفیسر نام دیو راؤ جادھو جیسے موجودہ دور کے مورخین ہی نہیں بلکہ بھولے بسرے شیو جینتی تہوار اور

چھترپتی شیواجی کی بھلادی جانے والی سمادھی کی کھوج کرنے والے مہاراشٹر کے سماجی رہنما مہاتما جوتی با پھلے نے بھی اس حقیقت کو اجاگر

کیا ہے کہ شیو شاہی میں مسلمان بڑی تعداد میں ، بڑے اہم عہدوں پر مقرر تھے ۔

لیکن ، آج چھترپتی شیواجی مہاراج کے اصولوں پر چلنے والے مہاراشٹر کا کیا حال ہے ؟

سرکاری نوکریوں میں مسلمانوں کی تعداد تشویش ناک حد تک گھٹ رہی ہے ۔

مہاراشٹر میں مسلمانوں کی آ بادی 11.5 % ہے ۔

لیکن سرکاری نوکریوں میں کتنے مسلمان ہیں ؟ بمشکل 1.5 % ، اور ان میں بھی

اعلی عہدوں پر مسلمانوں کی تعداد آٹے میں نمک برابر ہے ،

اسلئے کئی اہم عہدہ ہیں ، جن کیلئے قابل مسلم افسران دستیاب نہیں ہیں ۔

ان عہدوں پر کم تر درجے کے افسران کو تعینات کیا جا رہا ہے ، اور ان سے کام لیا جا رہا ہے ، اور اس کی وجہ سے کئ مسلم افسران کو کئی کئی محکموں کا اضافی چارج بھی دیا جا رہا ہے ۔

ایک مثال مہاراشٹر اسٹیٹ وقف بورڈ کی ہے جس کے سی ای او کو کل وقتی سی ای او اس لئے دستیاب نہیں ہو رہا ہے کیونکہ سی ای او کیلئے

ضابطہ کے مطابق کم ازکم ڈپٹی سیکریٹری رینک کا افسر ہونا چاہئے ۔

لیکن مہاراشٹر میں اس رینک کے افسر گنے چنے ہی ہیں ۔

کیوں ؟

یہ سوال چھترپتی شیواجی مہاراج اور ان کےچھترپتی شاہو مہاراج کا نام لینے اور جئے جئے کار کرنے والے سیاست دانوں سے کیا جائے !!

چھترپتی شاہو مہاراج کی مثال تو حالیہ اور درخشاں ہے ۔

بھارت کے حکمرانوں میں وہ اولین حکمران ہیں جنہوں نے اپنی رعایا کے کمزور طبقات کی ترقی کیلئے تعلیم ، اعلی تعیلم اور سرکاری نوکریوں

میں پچاس فیصد ریزرویشن کا پرویزن رکھا ۔

اس کا فائدہ چھترپتی شاہو مہاراج کی ریاست میں رہنے والے مسلمانوں کو بھی ملا اور انہوں نے اعلی تعلیم حاصل کی

اور پھر چھترپتی شاہو مہاراج کی حکومت میں اعلی عہدوں پر خدمات بھی انجام دی۔

کیا آج مہاراشٹر میںسرکای ملازمتوں میںاہم عہدوں کیلئے مسلم افسران دستیاب نہیں ہیں ، تو کیا یہ بات اس کا تقاضا نہیں کرتی ہے ،

کہ مسلمانوں کو سرکاری نوکریوں اور اعلی تعلیم میں ریزرویشن ملنا چاہئے ؟

جی نہیں !!

موجودہ سرکار نے مسلم ریزرویشن کے معاملہ کو نظر انداز ہی کردیا ہے ،

جبکہ بامبے ہائی کورٹ نے ۲۰۱۴ ء کے جی آر پر مسلمانوں کو اعلی تعلیم کے میدان میں پانچ فیصد ریزرویشن دینے کا فیصلہ صادر کیا تھا ۔

اسلئے ، جہاں اس راجیہ اور ریاست میں مسلمانوں کے ساتھ سماجی ، اقتصادی ، سیاسی ، تعلیمی انصاف نہیں ہو رہا ہے ،

تب بجٹ پیش کرتے ہوئے گورنر صاحب اپنی سرکار کی طرف سے یہ کہتے ہیں کہ ان کی سرکار چھترپتی شیاجی مہاراج ، چھترپتی شاہو مہاراج اور دیگرمہا پرشوں کے راستے ، آدرش ، اصولوں پر چل رہی ہے ،

تو یہ پاکھنڈ ہی معلوم ہوتا ہے !!

بھارت رتن ڈا

کٹر بابا صاحب امبیڈکر کے بنائے ہو ئے دستور کی بات بھی کہی جاتی ہے ، لیکن دستور نے جو یہ بنیاد بنائی ہے کہ قانون کی نظر

میں سارے شہری ایک برابر ہیں ، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ میرا روڈ ، مالونی ، مانخورد ، گھاٹ کوپر ، سانگلی ، ستارا ، ناندیڑ میںذرا سی خطا پر مسلمانوں پر سنگین دفعات لگا دی جاتی ہیں ، کہ انہیں آسانی سے ضمانت نہیں مل سکے ،

وہیںسکل ہندو سماج کے پرچم تلے دہشت پھیلانے کی کیوں چھوٹ ملی ہے ؟

کس نے دی ہے ؟ کیوں دی ہے؟

تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سرکار چھترپتی شیواجی مہارج اور چھترپتی شاہو مہاراج کے اصول اور آدرش پر کہاں چل رہی ہے ؟

یہ تو نام شیواجی مہاراج اور دیگر مہا پرشوں کا لے رہی ہے ،

لیکن اس نے راستہ ساورکر وادیوں کا اختیار کر رکھ ہے ، اور مہاراشٹر کے بھولے بھالے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ، جن کی اکثریت پھلے ، شاہو ، امبیڈکر نظریات پر یقین رکھتی ہے ، ساورکر واد پر نہیں !!!

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare