نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اظہار محبت کا تنازعہ
عدیل اختر
آئی لو محمد” کا سلوگن کہاں اور کس نے وضع کیا یہ بات ابھی بھی ایک معمہ ہے ۔ جو کچھ معلوم ہے وہ یہ کہ کانپور میں کسی مقام پر اس نعرے کو ایک بینر پر لکھا گیا تھا جس کا چرچا اور جس کے خلاف احتجاج ہندوتوادیوں نے شروع کیا اور پھر فوراً پولس حرکت میں آئی اور اس بینر کو ایک جرم قرار دیتے ہوئے اس کے الزام میں مسلمانوں کو پکڑنا دھکڑنا شروع کردیا ۔ پھر یہ خبر جیسے جیسے پھیلتی گئی تو رد عمل میں اس نعرے کی تکرار شروع ہو گئی اور سوشل میڈیا کے علاوہ مقامی سطح پر بھی بعض نوجوانوں نے اس طرح کے اسٹیکرز اور بینرز پر امن طور پر لہرائے۔ جنہیں پکڑنے اور جیل بھیجنے میں پولس نے غیر معمولی سرعت دکھائی ۔ بریلی میں غیور ملی قائد توقیر رضا صاحب نے اس ناجائز سرکاری استبداد کے خلاف اور رسول اللہ سے مسلمانوں کے اظہار محبت کے بنیادی حق کو جتانے کے لئے بہت پرامن اور محتاط طریقے سے ایک محفوظ مقام پر عوامی مظاہرے کا اہتمام کیا جسے ناکام بنانے کا کام پولس نے کیا اور آخر بدترین تشدد کرکے مسلمانوں کو اس کی سزا دی۔ اللہ و رسول اور اسلام کے کھلے دشمن وزیر اعلٰی نے کھل کر بدزبانی کی اور اس کے احکامات پر توقیر رضا صاحب و ان کے ساتھیوں نیز مظاہرے میں شامل عام لوگوں کے خلاف دار و گیر کی کارروائیاں جاری ہیں ۔ توقیر صاحب جیل میں ہیں جن کے عمر بھر قید میں رہنے کا انتظام کردیا گیا ہے ، عمارتیں سیل کی جارہی ہیں اور بلڈوزکئے جانے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے ۔

ملت کامتضاد رد عمل۔
عام مسلمان جو خود کو مسلسل کچلے جانے کو محسوس کررہے ہیں وہ تو بالعموم سراسیمہ ہیں اور خود سے ہی یہ سوال کررہے ہیں کہ کیا اب ہمیں اللہ اور رسول سے اپنے تعلق کے اظہار میں بھی احتیاط کرنا ہوگی؟ یہ عام مسلمان توقیر صاحب کے جذبے کی تائید و حمایت میں ہیں ۔ لیکن مسلمانوں میں جو لوگ بولنے لکھنے والے ہیں ان میں اچھا خاصا طبقہ ان لوگوں کا ہے جو مسئلہ کی واقعی نوعیت کو سمجھے بغیر یا سمجھنے کے باوجود اس طرح کی باتیں کہہ رہے ہیں کہ اس نعرے بازی کی کیا ضرورت ہے ؟ کوئی اسے نادانی کہہ رہا ہے ، کوئی سازش کہہ رہا ہے اور کوئی جہالت کہہ رہا ہے یا یہ طنز کررہا ہے کہ رسول اللہ سے سچی محبت عمل سے ثابت ہوگی، نعروں سے نہیں ۔
یہ تمام باتیں اپنے اپنے جداگانہ پہلوؤں سے لائق تائید ہو سکتی ہیں لیکن مسئلہ کی بنیاد سے ان کا تعلق نہیں ہے ۔ مسئلہ کی بنیاد وہ ہے جس سے علماء ، فقہا، قائدین ، جماعتوں کے ذمہ دار اور عافیت پسند و دنیا دار سیاسی و سماجی کارکن جانے انجانے آنکھیں چرا رہے ہیں ۔ وہ بنیاد کیا ہے ؟ یہ وہ چیز ہے جس کا بے باکانہ اظہار وزیر اعلٰی اور اس کی طرح کے متعدد اشرار کرتے ہیں ۔ یہ اللہ ، اللہ کے رسول اور اللہ کے دین سے شدید دشمنی کا وہ جذبہ ہے جو صدیوں سے سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا آرہا ہے اور اپنے اظہار و بروئے کار انے کے لئے مواقع بنانے میں لگا رہا ہے ۔ چنانچہ یہ شرپسندوں کی کوئی سازش ہو یا نہ ہو اصل سوال یہ ہے کہ کیا مسلمانوں کو رسول اللہ سے اظہار محبت پر سزا دی جائے گی؟ یا مسلمانوں کے لئے یہ مناسب ہوگا کہ وہ سزا یا شرانگیزی کے ڈر سے اس کا اظہار نہ کریں؟ یہ تو عام بے پڑھے یا کم پڑھے لکھے یا ناپختہ عقائد رکھنے والے مسلمانوں کا سب سے قیمتی جو ہرہے کہ وہ اللہ اور رسول کے نام پر جوش میں آجائیں۔ بلکہ صحیح بات تو یہ ہے کہ یہ تمام اہل علم وایمان مسلمانوں کا بنیادی وصف ہے اور یہی ان سے مطلوب ہے کہ اللہ و رسول کی حرمت پر اپنی جانیں نچھاور کرنے کو تیار رہیں۔ جن معصوم اور سادہ دل نا آشنائے دین مسلمانوں کے جذبات کی مذمت بعض لوگ کر رہے ہیں انہیں یہ سوچنا چاہئے کہ ان بےچاروں سے اگر یہ چیز بھی آپ ختم کردیں گے تو ان کے پاس اپنی مسلم شناخت اور اللہ و رسول سے نسبت کی غیرت کے لئے اور بچے گا کیا؟ یہ ان کی میراث اور پونجی ہے جس کو بڑھانے کی ضرورت ہے ناکہ چھین کر نالی میں پھینک دینے کی۔
کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ حزب مخالف نے ووٹ چوری کا جو ایشو چھیڑا ہوا ہے اس سے توجہ ہٹانے کے لئے یہ سازش رچی گئی ہے ۔ یہ بات بھی قرین قیاس ہے ۔ مسلمان ہمیشہ سازشوں کی زد میں رہتے ہیں اور ان کو ایسی سازشوں کا محور بنایا جاتا ہے جس میں ان کا پسنا اور کچلنا ہر طرح سے یقینی ہوتا ہے ۔ مثال کے طور ایسی مبینہ سازشوں کو اگر تمام مسلمان بہ یک وقت سمجھ لیں اور پوری طرح خاموشی اختیار کرلیں ، جو کہ فطری طور سے کبھی بھی ممکن نہیں ہے ، تو کیا اس میں ان کی حفاظت اور نجات ممکن ہے ؟ کیا یہ انہیں دینی، ایمانی ،جذباتی اور اخلاقی طور سے مار دینے کے لئے ایک اور انجیکشن نہیں ہوگا ؟ بعض لوگ اس طرح کی سازشوں کو محض وقتی سیاست اور الیکشن جیتنے کی حکمت عملی کہہ کر اسے بڑا ہلکا معاملہ سمجھتے اور بتاتے ہیں ۔ لیکن حقیقت یہ ہے مسلمانوں سے ان کے دین و ایمان کی وجہ سے دشمنی رکھنے والا گروہ اپنے اصل مقصد کے لئے ہر طرح کے مواقع کا استعمال کرتا ہے ۔ مسلمانوں کے خلاف سازش کرکے وہ اپنے فوری سیاسی مقاصد بھی بے شک حاصل کرتا ہے ، لیکن خود الیکشن جیتنا اور اقتدار حاصل کرنا بھی اسی مقصد کے لئے ہے جو اس کا اجتماعی نصب العین ہے یعنی اہل توحید کو کچلنا اور ہلاک کرنا اور ان میں سے کمزور ایمان والوں کو اپنے آبائی فخر یعنی دین شرک کے آگے سر نگوں کرانا۔
لیکن انتہائی افسوس اور تشویش کی بات یہ ہے کہ اس اصل مسئلہ کو باور نہیں کیا جارہا ہے اور اس کی سنگینی پر غوروخوض نہیں کیا جا رہا ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ گنگا کا پانی خطرے کے نشان سے بہت اوپر پہنچ گیا ہے اور اس پر بندھ لگانے کے لئے بڑی اونچی دیوار کھڑی کرنے کی ضرورت ہے جس میں ملت کے ہر فرد کو مزدور بننا پڑے گا لیکن اس کے لئے ملت کے معماروں کو سامنے آنا ہوگا ، مزدور تو معماروں کے پکارنے پر ہی آئیں گے۔
ملت کے معمار کہاں ہیں؟
ملت کو اس خطرناک اور ہلاکت خیز طوفان سے بچانے کی پہلی ذمہ داری تو ان لوگوں کی ہے جنھوں نے ملت کی کشتی کو گنگا میں اتارا تھا اور گنگا جمنی تہذیب کا لایعنی نعرہ وضع کیا تھا ۔ جنھوں نے سیاسی سرحدوں کی محبت میں ملت کی تقسیم منظور کی تھی اور اسی میں راہ نجات ڈھونڈی تھی اور ابھی تک گنگا جمنی وحدت کے لئے ملت کے دین و ایمان ، جان و مال اور عزت و آبرو کی قربانی کا موقف اختیار کئے ہوئے ہیں تاہم اب ان کے لیے بھی دو کشتیوں میں سوار رہنے کی سہولت ختم ہوتی جارہی ہے۔ لیکن ان کے علاوہ بھی وہ تمام سربر آوردہ لوگ جو ملت اور دین و ایمان سے نسبت کو اپنی زندگی کا اصل سرمایہ سمجھتے ہیں آخر کب تک خاموش تماشائی بنے رہیں گے یا موہوم سہاروں کی امید پر وقت گزاری کریں گے؟ بہت ہی سنجیدگی سے سوچنے کا وقت ہے ۔ ایک درست مؤقف اور درست نظریے و بیانئے کے ساتھ ملت کی قیادت و ترجمانی ایسے تمام لوگوں پر فرض ہے ۔
ملک میں مسلمانوں کے علاوہ دوسرے لوگوں کے جو مسائل و مشکلات ہیں وہ الگ نوعیت کی ہیں ۔ وہ مجموعی ہندو سماج کی داخلی سیاسی و سماجی کشمکش ہے جس کے لئے وہ اس سیاسی نظام میں ایک دوسرے سے برسر پیکار رہ سکتے ہیں جب کہ مسلمانوں کا اصل مسئلہ ان کے مذہبی تشخص کی حفاظت اور بقا کا ہے جس سے خود اہل ایمان مسلمانوں کے علاوہ کسی کو کوئی خاص دل چسپی نہیں ہو سکتی۔ دستور بچانے کا نعرہ بہت سے لوگوں کے لئے خوش کن ہو سکتا ہے اور مخالف سیاسی پارٹیاں اس کی بازگشت میں اپنا فائدہ دیکھ سکتی ہیں لیکن ایک تو یہ کہ مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوتا آیا ہے وہ اس دستور کی موجودگی میں ہی ہوتا آیا ہے جس کو بچانے کی بات کی جاتی ہے اور دوسرے یہ کہ مجموعی ہندو قوم کے لئے اصل اپیل ان کے مذہبی تصورات اور جذبات کی تسکین میں ہے , اور مسلمانوں سے انتقام لینے کی تمنا بھی صدیوں سے دبے ہوئے ان جذبات کا ہی حصہ ہے جس سے کوئی سیاسی پارٹی یا انسانیت نواز شخصیات مسلمانوں کو بچانے کی کبھی اہل نہیں ہو سکتیں۔ قرآن کریم کا واضح اعلان ہے کہ مسلمانوں کے ولی تو اللہ ، اللہ کے رسول اور مومنین ہی ہیں ۔ اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتے جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہ بدلیں ۔
تن بے روح سے بیزار ہے حق
خدائے زندہ زندوں کا خدا ہے