نتیش کی واپسی بہار کی سیاست کا نیا مرحلہ
(حافظ)افتخاراحمدقادری
بہار میں آج نتیش کمار دسویں مرتبہ وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف لینے جا رہے ہیں اور اس کے ساتھ ہی ریاست میں ایک نئی حکومتی ترتیب کی بنیاد پڑ رہی ہے۔ این ڈی اے قانون سازیہ پارٹی کی میٹنگ میں انہیں متفقہ طور پر دو بارہ لیڈر منتخب کیا گیا جس کے بعد انہوں نے گورنر سے ملاقات کی، موجودہ عہدہ سے استعفیٰ دیا اور این ڈی اے کی نئی حکومت بنانے کا باضابطہ دعویٰ پیش کیا۔
یہ تمام کارروائیاں آئینی تقاضوں کا حصہ ضرور ہیں مگر ان کے پیچھے گزشتہ چند مہینوں کے سیاسی حالات، اتحادوں کی تبدیلی، اقتدار کے توازن اور حکومتی حکمتِ عملی کی کئی پرتیں چھپی ہوئی ہیں جنہوں نے بہار کی سیاست کو ایک بار پھر مرکز توجہ بنا دیا ہے۔

نتیش کمار کا سیاسی سفر بہار میں ایک غیر معمولی تسلسل رکھتا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں وہ متعدد بار سیاسی اتحاد بدل کر اقتدار میں واپس آئے، کبھی این ڈی اے کا ساتھ چھوڑ کر مہاگٹھ بندھن میں گئے اور کبھی مہاگٹھ بندھن سے نکل کر دوبارہ این ڈی اے کا رخ کیا۔ ان کی سیاست پر اکثر موقع پرستی، لچک یا حالات کی مناسبت سے فیصلہ سازی کے تناظر میں تنقید ہوتی رہی ہے لیکن یہ حقیقت بھی بہرحال اپنی جگہ موجود ہے کہ وہ آج بھی بہار کے سب سے تجربہ کار، مضبوط اور زیادہ قابل قبول انتظامی چہروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ این ڈی اے کے اندر بھی قیادت کے لیے کوئی دوسرا نام مضبوطی سے ابھر کر سامنے نہیں آیا اور فیصلہ ایک بار پھر انہی کے حق میں ہوا۔ اس تازہ سیاسی تبدیلی نے ریاست میں کئی طرح کے سوالات پیدا کیے ہیں۔ ایک طرف یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ نتیش کمار کے تجربے سے فائدہ اٹھانے کے لیے انہیں دوبارہ قیادت سونپی جا رہی ہے تاکہ انتظامی کام میں تسلسل قائم رہے جبکہ دوسری طرف اپوزیشن اس سلسلے کو ایک اور سیاسی یوٹرن، عوامی مینڈیٹ کی توہین اور ذاتی مفاد پر مبنی حکمت عملی قرار دے رہی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کا مؤقف ہے کہ بار بار اتحادوں کی تبدیلی سے حکومت کے نظام پر شہریوں کا اعتماد کمزور ہوتا ہے اور سیاسی استحکام متاثر ہوتا ہے مگر اس کے باوجود نتیش کمار کو ایک بار پھر قیادت مل جانا اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ بہار کی سیاست آج بھی شخصیات کے زیر اثر ہے نہ کہ مضبوط نظریاتی ڈھانچوں کے۔ ریاست کے عام شہریوں کے سامنے اس وقت سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ نئی حکومت ان مسائل پر کس حد تک سنجیدہ اور موثر حکمتِ عملی اختیار کرے گی جنہیں گزشتہ برسوں میں مسلسل نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔
بہار کی معیشت کمزور بنیادوں پر کھڑی ہے، ریاست میں ترقیاتی سرگرمیوں کا دائرہ محدود ہے، بے روزگاری کا گراف بڑھ رہا ہے اور نوجوانوں میں مایوسی پھیل رہی ہے۔ سرکاری بھرتیوں کے عمل میں تاخیر، امتحانوں کے بار بار ملتوی ہونے اور تعلیمی اداروں کی خستہ حالی نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ حکومت کی ترجیحات میں اگر ان مسائل کو اولین حیثیت نہیں ملتی تو سیاسی تبدیلیوں کا فائدہ زمینی سطح پر محسوس نہیں ہوگا۔ اس کے ساتھ امن و قانون کی صورتحال بھی ایک سنجیدہ مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ دیہی علاقوں میں جرائم کی شرح میں اضافہ، پولیس تفتیش اور کارروائی میں کمزوری، زمین و جائیداد سے متعلق تنازعات اور سماجی کشیدگی نے انتظامیہ کی کارکردگی پر سنگین سوالات کھڑے کیے ہیں۔
ایسے نئی حکومت کی کامیابی اسی وقت ممکن ہے جب وہ انتظامی مشینری پر اپنی گرفت مضبوط کرے اور ایسے اقدامات کرے جس سے عوام کا اعتماد بحال ہو اور روزمرہ زندگی میں سکون پیدا ہو۔ نتیش کمار کی واپسی کا ایک سیاسی پیغام یہ بھی ہے کہ این ڈی اے فی الحال مرکزی اور ریاستی سطح پر ہم آہنگی برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ اس سے مرکز کے ساتھ بہتر روابط قائم رکھنے میں بھی آسانی ہوتی ہے اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے ممکنہ وسائل کی فراہمی میں بھی سہولت ملتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ بہار میں سیاسی بیانیہ تیزی سے بدل رہا ہے۔ نئی نسل اب پہلے کی طرح سیاسی وفاداریاں مستقل بنیادوں پر قائم نہیں رکھتی بلکہ کارکردگی اور شفافیت کی بنیاد پر اپنی رائے بناتی ہے۔ اس لیے نتیش کمار کے لیے یہ ذمہ داری پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ سنگین ہے کہ وہ ثابت کریں کہ قیادت کی واپسی محض رسمی کارروائی نہیں بلکہ ریاست میں بہتری کی حقیقی کوشش ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو نتیش کمار کا دسویں مرتبہ حلف لینا بہار کی سیاست میں ایک اور اہم باب کی شروعات ہے۔ یہ فیصلہ اگرچہ سیاسی جماعتوں کے درمیان مفاہمت اور ضرورت کا نتیجہ ہے مگر آنے والے مہینوں میں یہ واضح ہو جائے گا کہ آیا یہ فیصلہ عوام کے لیے مثبت نتائج پیدا کرتا ہے یا ریاست کو ایک اور سیاسی تجربے کی طرف دھکیل دیتا ہے۔ بہار کے عوام اس وقت صرف ایک مضبوط، واضح اور نتیجہ خیز حکومتی عمل کے منتظر ہیں جو وعدوں سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات دکھائے۔ اب یہ ذمہ داری پوری طرح نئی حکومت کے کندھوں پر ہے کہ وہ ان توقعات پر پورا اترے اور ریاست کو سیاسی انتشار سے نکال کر ترقی اور استحکام کے ایک بہتر مرحلے کی طرف لے جائے۔
نتیش کمار کے دوبارہ حلف لینے کے ساتھ ہی یہ سوال پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ گردش کر رہا ہے کہ کیا یہ حکومت واقعی ریاست کے دیرینہ مسائل پر توجہ دے گی یا پھر ایک مرتبہ پھر سیاسی حکمتِ عملی، اتحادی مجبوریوں اور اقتدار کے توازن کے بیچ حقیقی عوامی مسائل پس منظر میں چلے جائیں گے۔ بہار کے عوام نے گزشتہ برسوں میں بہت سے دعوے سنے، بہت سے اعلانات دیکھے اور سیکڑوں منصوبوں کا آغاز اور تعطل دونوں کا تجربہ کیا۔ اس لیے اب کسی نئی حکومت کے سامنے سب سے بڑی آزمائش یہ ہے کہ وہ وعدوں سے آگے بڑھ کر وہ عملی کام دکھائے جسے لوگ اپنی روزمرہ زندگی میں محسوس کر سکیں۔ ریاست کو اس وقت جن چیلنجز کا سامنا ہے وہ محض پالیسی سازی سے حل نہیں ہو سکتے بلکہ مستقل مزاجی، شفافیت، مضبوط انتظامی ڈھانچے اور سیاسی سنجیدگی کا تقاضا کرتے ہیں۔ نوجوان طبقہ کئی برسوں سے روزگار کے مواقع کی کمی کا سامنا کر رہا ہے۔ سرکاری نوکریوں کے امتحانات میں تاخیر، ریزلٹ کی غیر یقینی صورتحال اور مسلسل بدلتی پالیسیوں نے نوجوانوں میں بے چینی پیدا کر دی ہے۔ نئی حکومت کے سامنے یہ ذمہ داری بڑھ گئی ہے کہ وہ روزگار کے معاملے میں کوئی واضح، قابلِ عمل اور نتائج پر مبنی پالیسی سامنے لائے تاکہ نوجوانوں میں اعتماد پیدا ہو اور ان کا بددل ہونا رکے۔ اسی طرح تعلیمی ڈھانچے کی شکست و ریخت بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اسکولوں میں بنیادی سہولیات کا فقدان، کالجوں میں اساتذہ کی کمی، یونیورسٹیوں میں انتظامی الجھنیں، تکنیکی اداروں میں معیار کی کمی اور تحقیق کے میدان میں پسماندگی ایسے مسائل ہیں جو برسوں سے سیاسی نعروں کے سہارے چلتے رہے ہیں مگر ان پر کوئی پائیدار عملی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔ نئی حکومت اگر تعلیمی ڈھانچے کو سنجیدگی سے مضبوط کرنے میں کامیاب ہوتی ہے تو یہ تبدیلی نہ صرف ریاست کے مستقبل بلکہ اس کی معاشی بنیادوں کو بھی مضبوط بنا سکتی ہے۔ امن و قانون کی صورتحال بھی کسی حکومت کی کامیابی کا بنیادی پیمانہ ہوتی ہے۔ پچھلے کچھ برسوں میں جرائم، زمینی تنازعات، پولیس کارروائی میں سستی، مقدمات کی تاخیر اور سماجی سطح پر بڑھتی کشیدگی نے عوام کے اندر بے یقینی کی فضا پیدا کر دی ہے۔ نئی حکومت اگر واقعی اپنی ساکھ بحال کرنا چاہتی ہے تو اسے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اندر شفافیت، جواب دہی اور کارکردگی میں بہتری لانا ہوگی۔ ریاست کے دور دراز علاقوں میں امن و امان کا قیام وہ بنیاد ہے جس پر ترقی کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔
بہار کی سیاست کا ایک بڑا مسئلہ یہ رہا ہے کہ اکثر فیصلے وقتی سیاسی فائدے کے لیے کیے جاتے ہیں جبکہ عوامی مفاد اور طویل مدتی منصوبہ بندی کو پیچھے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ نتیش کمار کی دسویں مرتبہ واپسی نے اس بحث کو پھر تازہ کر دیا ہے کہ آیا قیادت کی تبدیلی واقعی کسی بہتر مستقبل کی ضمانت بن سکتی ہے یا یہ محض سیاسی مصلحتوں کی ایک اور قسط ہے۔ عوام اب پہلے کی طرح سیاسی نعروں سے متاثر نہیں ہوتے بلکہ وہ کارکردگی کو اپنی نگاہ کا محور بناتے ہیں۔ اگر حکومت اس حقیقت کو نظر انداز کرتی ہے تو آنے والے وقت میں یہ قیادت بھی اسی تنقید کے دائرے میں آ جائے گی جس میں گزشتہ کئی سیاسی تجربات گزر چکے ہیں۔ بہار کے لوگوں نے ہمیشہ سیاسی اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ کسی بھی حکومت کی کامیابی صرف اعلانات سے نہیں بلکہ واضح نتائج سے ماپی جاتی ہے۔ چاہے وہ روزگار ہو، تعلیم ہو، صحت کا نظام ہو، کسانوں کے مسائل ہوں، شہری سہولیات ہوں یا انفراسٹرکچر کی ترقی ہر میدان میں عوام اب صرف وعدے نہیں بلکہ عملی پیش رفت کے خواہاں ہیں۔ حکومت کے لیے یہ موقع بھی ہے اور آزمائش بھی کہ وہ ثابت کرے کہ سیاسی استحکام کا یہ نیا باب واقعی عوام کی زندگی میں مثبت تبدیلی لا سکتا ہے۔ اختتام میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ نتیش کمار کا دسویں مرتبہ وزیر اعلیٰ بننا ایک جانب بہار کی سیاسی تاریخ کا ایک اہم لمحہ ہے تو دوسری جانب یہ ریاست کے مستقبل کا ایک نازک مرحلہ بھی۔ یہ وقت فیصلہ کرے گا کہ آیا یہ عہد بہار کو ترقی، شفافیت، انصاف اور عوامی فلاح کی سمت لے جاتا ہے یا پھر یہ بھی ماضی کی طرح محض ایک سیاسی باب بن کر رہ جاتا ہے۔ بہار کے عوام اپنی جگہ ثابت قدم ہیں، ان کی توقعات اپنی جگہ قائم ہیں اور اب دیکھنا یہ ہے کہ ان توقعات پر پورا اترنے کے لیے نئی حکومت اپنے عہد اور ذمہ داریوں کو کس حد تک سنجیدگی سے نبھاتی ہے۔ اگر یہ دور واقعی عوامی فلاح کا دور ثابت ہوتا ہے تو یہ حلف برداری ریاست کی تاریخ میں ایک اہم موڑ کے طور پر یاد رکھی جائے گی اور اگر نہیں تو یہ لمحہ بھی بہار کی سیاسی یادداشت میں ایک اور تشویشی سوال کی صورت محفوظ ہو جائے گا۔ وقت کے صفحات جلد اس فیصلے کو واضح کر دیں گے کہ نئی حکومت نے اپنے وعدوں کا بوجھ اٹھایا یا ایک بار پھر تاریخ نے خود کو دہرا دیا۔









