ندیم صدیقی ’چنے‘ بیچ رہے ہیں
معصوم مرادآبادی
ہمارے سینئر دوست ندیم صدیقی ممبئی کی اردو صحافت کا جلی عنوان ہیں۔ وہ ایک جینوئن صحافی ہی نہیں بلکہ قادرالکلام شاعر بھی ہیں اور ان مشاعروں میں بلائے جاتے ہیں جہاں متشاعروں کو پاؤں رکھنے کی جگہ نہیں ملتی۔ اپنے مزاج اور کسی درجہ تنک مزاجی کی وجہ سے وہ ہمیں ممبئی کے دوستوں میں سب سے زیادہ عزیزہیں۔ ان کی بڑی خوبی یا خامی یہ ہے کہ وہ کسی کے نادان دوست کبھی نہیں بنتے۔ حالانکہ اس وقت وہ کسی حد تک گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہے ہیں، لیکن علم وادب کی دنیا میں ان کا جلوہ اب بھی برقرار ہے۔ان سے پہلی ملاقات ممبئی میں تاردیو پر واقع ’انقلاب‘ کے دفتر میں اس وقت ہوئی تھی جب وہ بڑے گمبھیر قسم کے صحافی ہوا کرتے تھے۔گمبھیر تو وہ اب بھی ہیں، لیکن اب انھوں نے صحافت کی بجائے چنے بیچنے کا کاروبار شروع کردیا ہے اور وہ بھی ’اردو کے چنے‘، جبکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ ان کے لیے سراسر خسارے کا سودا ہے، کیونکہ انھوں نے زندگی میں کبھی کوئی کاروبار کیا ہی نہیں، اس لیے وہ اس کے نشیب وفراز سے واقف نہیں ہیں۔ اردو کا کاروبار وہی لوگ کرسکتے ہیں، جو اس زبان کو ایک تہذیب سے زیادہ اپنا قدبلند کرنے کا وسیلہ تصور کرتے ہیں۔ مثل مشہور ہے کہ اکیلا چنا بھاڑ نہیں پھوڑ سکتا۔ لہٰذاتن تنہاچنے بیچنے کے اس کاروبار میں انھیں سوائے نقصان کے کچھ نہیں ہوگا۔اس نئے کاروبار کا انکشاف انھوں نے ظ۔انصاری پر اپنی تازہ کتاب ”ظ۔ایک شخص تھا“ میں خودہی کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں:
”2009میں جب روزنامہ ’انقلاب‘ کی ملازمت سے ریٹائر ہوا تو روزنامہ ’اردو ٹائمز‘ میں وہی کچھ ایڈٹ کرتا رہا جو ’انقلاب‘ میں میرے ذمے تھا۔ اس کے بعد روزنامہ ’ممبئی اردو نیوز‘سے 2019تک وابستہ رہا اور اب وہاں سے سبکدوشی کے بعد آوازہ لگاتا پھرتا ہوں:
”اردو کے چنے لے لو بھائی،اردو کے چنے!۔“
۔۔۔مگر پتہ چلا کہ اب ہماری اردو کے چنے بھی نہیں بکتے۔“
ندیم بھائی کا یہ خیال غلط ہے کہ اب اردو کے چنوں کا کاروبار بندہوگیا ہے کیونکہ ابھی یہ اطلاع آئی ہے کہ ممبئی میں ’جشن اردو‘ منایا جارہا ہے۔ جشن تو اسی چیز کا منایا جاتا ہے جوعروج حاصل کررہی ہو۔اردو نہ سہی اردو والے اتنے عروج پرہیں کہ وہ اپنی مرجھاتی ہوئی زبان کا جشن منانے کا یارا رکھتے ہیں۔ ندیم بھائی کامسئلہ یہ ہے کہ وہ ایسے حلقوں میں مقبول نہیں ہیں کیونکہ وہ کھرے آدمی ہیں اور گفتگو میں کسی لاگ لپیٹ کے قائل نہیں۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کے قدردانوں میں ممبئی کی بڑی قدآور شخصیات شامل ہیں۔اس کا اندازہ ہمیں پچھلے دنوں ان کی کتاب”ظ۔ایک شخص تھا“ کے اجراء کی رپورٹ پڑھ کر ہوا۔ خلافت ہاؤس میں منعقدہ اس تقریب میں جاوید صدیقی اور علی ایم شمسی جیسی سربرآوردہ شخصیات اپنی بیماری اور نقاہت کے باوجود شریک ہوئیں۔یہ دونوں ہی ہمارے بھی کرم فرماؤں میں شامل ہیں اور بڑی دل آویز شخصیت کے مالک ہیں۔جاوید صدیقی مشہور مکالمہ نویس اور علی ایم شمسی معروف بینکر اور ممبئی کی بڑی معتبر شخصیت ہیں۔
ندیم بھائی کی ایک خاص ادا یہ ہے کہ وہ کبھی کسی کے نادان دوست نہیں بنتے۔ کوئی کتنا ہی قریبی دوست کیوں نہ ہواور وہ زبان کے معاملے میں غچہ کھاجائے تو ندیم بھائی اسے تنہائی میں لے جاکر ٹوک ضرور دیتے ہیں۔ حالانکہ وہ یہ کام ایسے زمانے میں کررہے ہیں جب کسی کی غلطی کی گرفت کرنا، خود کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔کیونکہ فی زمانہ اردو دنیا میں وہ بھی اپنی غلطی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے، جو سرتاپا غلط ہے۔دراصل آپ کا حقیقی دوست وہی ہوسکتاہے جو آپ کی صلاحیتوں کا اعتراف کرنے کے ساتھ آپ کی غلطیوں کی بھی نشاندہی کرے اور آپ کو یہ بتائے کہ آپ کی فلاں تحریر میں یہ نقص ہے،اسے دور کیجئے۔حقیقت یہ ہے کہ ہم نے ندیم بھائی سے زبان وبیان کے بہت سے اسرار و رموز سیکھے ہیں۔تحریر کے معاملے میں وہ اتنے حساس ہیں کہ کسی لفظ کو زیر و زبر اور پیش وتشدید سے محروم نہیں رہنے دیتے جبکہ ہمیں کمپیوٹر کے اس دور میں یہ سب کرنا بڑا بھاری لگتا ہے۔ ندیم بھائی کی حساسیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ وہ اردو کے الف میں بھی پیش لگانا نہیں بھولتے۔اتنے زیر و زبر اور پیش وتشدید دیکھ کر ان کی تحریر پڑھتے ہوئے کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ ہم اردو نہیں، عربی پڑھ رہے ہیں۔جس زمانے میں عالم نقوی ممبئی کی اردو صحافت میں عروج پر تھے اور اپنے مضامین اور سرخیوں کے لیے عربی تراکیب استعمال کیا کرتے تھے تو میں نے ندیم بھائی سے ایک دن اس کا سبب پوچھا تو انھوں نے کہا ”اماں کچھ نہیں،انھیں اسلام ہوگیا ہے۔“
ندیم بھائی کی جنم بھومی تو کانپور ہے لیکن ان کی کرم بھومی خوابوں کا شہر ممبئی ہے جس کے ایک نواحی علاقہ ممبرا میں وہ رہتے اور اس سے زیادہ اسے سہتے ہیں۔انھوں نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز روزنامہ ’قومی آواز‘ (ممبئی)سے کیا تھا۔بعدازاں وہ ممبئی کے بڑے روزنامے ”انقلاب“ سے وابستہ ہوئے اور یہ وابستگی ان کے ریٹائرمنٹ تک باقی رہی۔ ’انقلاب‘ میں ان کا سب سے قریبی تعلق اس کے ایڈیٹر ظ۔انصاری سے رہا، جس کا ثبوت ظ۔انصاری پر ان کی تازہ کتاب ”ظ۔ایک شخص تھا“ ہے۔ اس وقت اس کتاب نے ہی ان کے بارے میں کچھ لکھنے پر مجبورکیا ہے۔دراصل یہ کتاب ایک مونوگراف کی صورت میں ندیم بھائی سے دہلی اردو اکادمی نے لکھوائی تھی، مگر اس کی اشاعت میں اتنی تاخیرہوئی کہ انھوں نے اکادمی سے اپنا مسودہ واپس لے کر اسے ’اردو قبیلہ‘ کے حوالے کردیا۔ کتاب واقعی بڑے اہتمام سے شائع ہوئی ہے۔
’انقلاب‘ سے وابستگی کے دوران انھوں نے سب سے بڑا ہنر یہ سیکھا کہ خبروں کو مختصر ترین جگہ میں کیسے لگایا جائے۔ ایک دن ایک مختصر ترین خبر کے حوالے سے میری ان سے گفتگو ہوئی تو کہنے لگے”بھائی ہمیں قبروں کے چوکھٹے بناکر دئیے جاتے ہیں کہ اتنی جگہ میں مردے کو دفن کرنا ہے، سو ہم کردیتے ہیں۔“ اس پر مجھے ایک واقعہ یاد آیا۔ یہاں دہلی میں ایک مسلمان پولیس آفیسر تھے۔ انھوں نے ایک مرتبہ رات دوبجے مجھے فون کرکے روہانسو ہوکر کہاکہ”میری اہلیہ گزرگئی ہیں، کیا یہ خبر صبح کے اخبار میں چھپ سکتی ہے۔“میں نے جواب دیا کہ رات دوبجے تو انگریزی اخباروں کے دفتر بھی بند ہوجاتے ہیں جبکہ اردواخبار تو دس بجے سے ہی بوریا بستر سمیٹنا شروع کردیتے ہیں۔لہٰذا آپ اس وقت خبر کی بجائے قبر کی فکرکیجئے۔“قبروں کے چوکھٹوں میں خبریں لگاتے لگاتے ندیم بھائی اتنے ماہر ہوگئے کہ انھوں نے اردو ادیبوں اور شاعروں کے کتبے لکھنے شروع کردئیے جو اب سے کئی برس پہلے ”پرسہ“ کے عنوان سے شائع ہوچکے ہیں۔اگست2018میں ندیم بھائی نے اس کتاب کا ایک نسخہ راقم کوروانہ کرتے ہوئے اس میں لکھا تھا”بھائی معصوم صاحب (مرادآبادی)ذرا دیکھئے تو گنہگار کی یہ کتاب، ہمارا اعمال نامہ سیاہ ہوا“ اب دسمبر 2024میں ”ظ۔ایک شخص تھا“ پر وہ لکھتے ہیں ”ممبئی کے ایک گنہگار کی طرف سے مرادآباد کے ایک معصوم کی خدمت میں“۔
ندیم بھائی کو اپنی گنہگاری اور ہماری معصومیت پر اتنا یقین ہے کہ وہ جب بھی فون کرتے ہیں تو پہلا جملہ یہی ہوتا ہے کہ ”معصوم کو ایک گنہگار کا سلام پہنچے۔“ حالانکہ ہم نے ممبئی اور ممبرا کے کئی لوگوں سے ان کے گناہوں کا حساب معلوم کیا تو کوئی اس کا جواب نہیں دے سکا۔اسی لیے ہمیں اپنی معصومیت اور ان کی بے گناہی پر پورا یقین ہے۔ البتہ ممبئی کے پچھلے سفر میں جب وہ ہمیں حسب عادت ناگپاڑہ سے بھنڈی بازار میں اپنے پسندیدہ نورمحمدی ہوٹل میں دال گوشت کھلانے لے جارہے تھے تو بس اسٹاپ پر کھڑے ہوکر ایک عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے بتایا تھا کہ”دیکھئے یہی وہ عمارت ہے جہاں منٹو اپنے ممبئی کے قیام کے دوران پارسی دوشیزاؤں سے’عشق‘لڑاتے تھے۔“ممبئی کی علمی، ادبی اور صحافتی تاریخ پر ان کی گرفت بہت مضبوط ہے۔ کبھی آپ ان کے ساتھ ممبئی کے پرانے علاقوں میں گھومئے تو وہ ایک ایک عمارت کی تاریخ بتاتے چلے جائیں گے۔اس میں ناگپاڑہ، بھنڈی بازار اور محمدعلی روڈ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
حالانکہ وہ مورخ نہیں ہیں لیکن ممبئی کی علمی، ادبی اور صحافتی تاریخ کا انھیں جتنا علم ہے، اتنا شاید ہی ممبئی میں کسی اور کوہو۔ اخبار میں کام کرنے کا سب سے زیادہ نقصان انھیں یہ پہنچا ہے کہ وہ رات کو جاگنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ اب جبکہ ان کے پاس کسی اخبار کی ذمہ داری نہیں ہے تب بھی وہ رات کے آخری پہر میں سوکر عصر کے وقت بیدار ہوتے ہیں اور اردو کے چنے لے کر ممبرا کی گلیوں میں نکل پڑتے ہیں۔ ابھی تک انھیں اردو کے ان چنوں کا ایک بھی خریدار نہیں ملا ہے۔ خدا انھیں سلامت رکھے اور وہ یونہی ہماری اصلاح فرماتے رہیں۔