نعمان شوق کی سبکدوشی
معصوم مرادآبادی
ممتازشاعراور براڈکاسٹر نعمان شوق گزشتہ31/جولائی کو آل انڈیا ریڈیو میں طویل خدمات انجام دے کر سبکدوش ہوگئے۔وہ کئی برس سے آل انڈیا ریڈیو کے مقبول پروگرام ’اردو مجلس‘ کے انچارج تھے۔ وہی اردو مجلس جوکسی زمانے میں رفعت سروش کی آواز اور نظامت کے زیروبم سے پہچانی جاتی تھی۔ جب یہ پروگرام شروع ہوا تھا تو ریڈیو سب کی دلچسپی کا مرکز تھا اور اپنے عہد کے بڑے بڑے ادیب وشاعر اس کے پروگراموں میں شریک ہونا اپنے لیے باعث فخر سمجھتے تھے۔نعمان شوق نے اردو مجلس میں آنے سے پہلے اردو سروس میں بھی خدمات انجام دیں اور حالات حاضرہ کے پروگرام بھی کئے۔میں نے دیکھا کہ انھوں نے ریڈیو کے معیار اور وقار کو بچائے رکھنے کی بھرپورکوشش کی۔ وہی معیار اور وقار جو کبھی ریڈیو کا طرہ امتیاز تھا۔ ان کے دور میں جو بھی پروگرام یا مذاکرے نشر ہوئے ان میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ کہیں کوئی چوک نہ ہوجائے۔یہی وجہ ہے کہ وہ خود اپنے سامنے پروگرام کی ریکارڈنگ کراتے تھے اور جہاں کہیں اس میں جھول پیدا ہوتا تو فوری مداخلت بھی کرتے تھے۔

برادرم نعمان شوق کو میں نے اب سے لگ بھگ تیس برس پہلے اس وقت دریافت کیا تھا جب میں مشرقی دہلی کی منفرد ہاؤسنگ سوسائٹی تاج انکلیو کا باسی ہوا تھا۔ نعمان یہاں پہلے سے موجود تھے اور ان کے ساتھ ساتھ یہاں خورشید اکرم،مشرف عالم ذوقی، جی آرسید،عبدالسلام عاصم اور ناصر عزیز بھی تھے۔ نعمان کی جس ادا نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ ان کی شخصی بردباری تھی۔ وہ بہت سوچ سمجھ کر بامعنی گفتگو کرتے تھے اور الفاظ کو ضائع نہیں ہونے دیتےتھے۔انھیں نہ تو ترقی کی سیڑھیاں چڑھنے کی کوئی جلدی تھی اورنہ ہی دولت سے کوئی لگاؤ تھا جبکہ یہاں ان کے بعض دوست بے تحاشا شہرت اوردولت دونوں کی طرف دوڑ رہے تھے۔پھر یوں ہوا کہ نعمان یہاں سے گریٹر نوئیڈا منتقل ہوگئے۔ یوں بھی کرائے کی زندگی بڑی عارضی اور بے کیف ہوتی ہے۔ دور جانے کی وجہ سے ملاقاتیں کم ضرور ہوگئیں لیکن فون پر اور ریڈیو اسٹیشن میں تجدید ملاقات ہوتی رہی۔نعمان شوق سے تین دہائیوں قبل جو برادرانہ رشتہ قائم ہوا تھا وہ آج بھی برقرار ہے۔
نعمان شوق کی اصل کمزوری شاعری ہے۔ وہ بقول خود تنہائی پسند انسان ہیں، لیکن جب دوستوں کی محفل میں ہوتے ہیں تو ان کی گفتگو کا رنگ دوسرا ہی ہوتا ہے۔ جس دن وہ ریٹائر ہوئے اتفاق سے وہی ان کا یوم پیدائش بھی تھا(حالانکہ سرکاری کاغذات میں ان کا یوم پیدائش 2/اگست1965درج ہے)اس طرح ایک طرف ریٹائرمنٹ کا جشن تھا تو دوسری طرف برتھ ڈے پارٹی بھی تھی۔ میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ نعمان قبل ازوقت ریٹائر ہوگئے ہیں، کیونکہ ان میں کام کرنے کا جذبہ پہلے سے زیادہ ہے اور تجربے کا تو کہنا ہی کیا۔ مجھے اس بات کا قلق ضرور ہے کہ نعمان شوق کے ریٹائر ہونے کے بعد اب آل انڈیا ریڈیو ایسے لوگوں سے بالکل خالی ہوگیا ہے جو اردو زبان وتہذیب کے پروردہ تھے اور جن کے لب ولہجے سے اردو تہذیب جھلکتی تھی۔ مجھے اس بات کا رنج اس لیے زیادہ ہے کہ جب میں نے 1982میں اپنے کیریئر کا آغاز آل انڈیا ریڈیو کے پندرہ روزہ جریدے ”آواز“ سے کیا تھا تو یہاں ایک پوری کہکشاں موجود تھی۔ کیسے کیسے لوگ تھے جو اردوسروس سے وابستہ رہے۔ کس کس کا نام لوں۔ مجیب صدیقی، مریم کاظمی، محمودہاشمی، ثریا ہاشمی، زبیر رضوی، موج رامپوری اورمعین اعجاز وغیرہ۔ ان میں اب صرف معین اعجاز بقید حیات ہیں اور باقی سب راہی اجل ہوچکے ہیں۔واقعی کیا دور تھا۔ آل انڈیا ریڈیو کی عمارت براڈ کاسٹنگ ہاؤس میں داخل ہونا ہی اپنے آپ میں ایک خواب جیسا تھا۔ اب سب کچھ بدل گیا ہے اور ہرجگہ جمود طاری ہے۔مگرعمارت وہی ہے اور اسٹوڈیوز بھی ویسے ہی ہیں۔جب کبھی جاتا ہوں تو پرانی یادیں پریشان کرنے لگتی ہیں۔
نعمان شوق کی آواز کے زیروبم ریڈیو کی ضرورتوں سے پوری طرح ہم آہنگ ہیں۔ان کی آواز میں ایک خاص قسم کی کھنک ہے،جو ریڈیو کی بنیادی ضرورت ہے۔وہ جب گفتگو کرتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ ریڈیو یا ٹرانسسٹرکے پیچھے سے بول رہے ہیں۔ نعمان خوش آواز ہی نہیں خوش شکل، خوش مزاج اور خوش انداز بھی ہیں۔وہ غزل اور نظم دونوں میں طاق ہیں۔ اب تک اردو میں ان کے چار اور ہندی میں دوشعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔لکھنا ان کا شوق نہیں مجبوری ہے۔رات انھیں تخلیقی حرارت سے لبریز کردیتی ہے۔وہ تخلیق کے لمحے میں بالکل اکیلے رہنا چاہتے ہیں۔ اتنے اکیلے کہ کبھی کبھی اپنا وجود بھی گراں گزرنے لگتا ہے۔مجھے امید ہے کہ آل انڈیا ریڈیو کی ملازمت سے سبکدوشی کے بعد ان کی یہ تنہائی کم ہوجائے گی۔ وہ فی الحال آئندہ چھ مہینے کچھ بھی نہ کرنے کا عہد کئے ہوئے ہیں۔ شاید شاعری بھی نہیں۔