نفرت کی زبان اور اقتدار کی سرپرستی

افتخار احمد قادری

   دور حاضر کی ہندوستانی سیاست اس زوال پذیر رویے کی عکاسی ہے جس میں اقتدار کے نشے میں چور بعض رہنما شائستگی، اخلاقیات، آئینی حدود اور سماجی ذمہ داریوں کو بالائے طاق رکھ کر نفرت و اشتعال اور تضحیک کو سیاسی سرمایہ بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ بدقسمتی سے بی جے پی کی موجودہ سیاست میں ایسے کردار نہ صرف نمایاں ہیں بلکہ انہیں ایک طرح کا تحفظ، خاموش تائید اور غیر اعلانیہ سرپرستی بھی حاصل ہے۔ گری راج سنگھ اسی سیاسی مزاج کی ایک واضح مثال بن چکے ہیں جن کا نام اب کسی تعمیری سوچ، مثبت قیادت یا عوامی فلاح کے بجائے بیہودہ، اشتعال انگیز اور نفرت آمیز بیان بازی کے ساتھ جڑ چکا ہے۔ گری راج سنگھ کوئی نوآموز سیاست داں نہیں بلکہ ایک مرکزی وزیر ہیں۔ ان کا ہر لفظ، ہر جملہ اور ہر اشارہ محض ذاتی رائے نہیں رہتا بلکہ ریاستی طاقت، حکومتی ذہنیت اور اقتدار کے رویے کی نمائندگی سمجھا جاتا ہے۔ اس کے باوجود وہ بارہا مسلمانوں کے خلاف غیر ذمہ دارانہ اور اشتعال انگیز بیانات دیتے آئے ہیں۔ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ان کے ان رویوں پر نہ تو پارٹی کی جانب سے کبھی سنجیدہ کارروائی کی گئی، نہ سرزنش اور نہ ہی کسی قسم کی اخلاقی حد بندی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ خود کو ہر حد سے آزاد سمجھتے ہوئے مسلسل ایسی زبان استعمال کرتے جا رہے ہیں جو کسی عام شخص کے شایانِ شان بھی نہیں چہ جائیکہ ایک مرکزی وزیر کے۔

نفرت کی زبان اور اقتدار کی سرپرستی
نفرت کی زبان اور اقتدار کی سرپرستی

   بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے حالیہ عمل نے پورے ملک میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی۔ ایک مسلم خاتون کا حجاب خود اپنے ہاتھ سے ہٹانا نہ صرف خواتین کے وقار کی صریح خلاف ورزی ہے بلکہ شخصی آزادی، مذہبی حق اور آئینی اقدار پر بھی ایک کاری ضرب ہے۔ اس عمل کا دفاع کرنا تو درکنار اگر ذرا سا بھی سیاسی و اخلاقی شعور باقی ہوتا تو فوری طور پر معذرت خواہی کی جاتی اور اس واقعے کو ایک سنگین غلطی تسلیم کیا جاتا مگر یہاں معاملہ الٹ نکلا۔ گری راج سنگھ نہ صرف اس عمل کی مدافعت میں سامنے آئے بلکہ اس دفاع کو ایسے دلائل کے ساتھ پیش کیا جن میں نہ عقل کی رمق تھی اور نہ ہی انسانی احترام کی کوئی جھلک۔

شناخت ظاہر کرنے کے نام پر کسی خاتون کے حجاب کو خود اتار دینا کسی بھی مہذب سماج میں قابل قبول نہیں ہو سکتا اگر واقعی شناخت کا مسئلہ درپیش تھا تو یہ کام متعلقہ خاتون سے شائستگی اور احترام کے ساتھ کہا جا سکتا تھا۔ ریاست کے وزیر اعلیٰ کا خود اس طرح پیش آنا نہ صرف طاقت کے غلط استعمال کی مثال ہے بلکہ ایک پدر شاہی اور جابرانہ ذہنیت کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ اس پر مستزاد گری راج سنگھ کا یہ کہنا کہ اس میں کوئی غلطی نہیں اس پورے واقعے کو مزید سنگین بنا دیتا ہے۔

  گری راج سنگھ یہاں بھی نہیں رکے۔ جب ایک نامہ نگار نے سوال کیا کہ اگر اس واقعے کے بعد وہ خاتون ملازمت قبول نہ کرے تو کیا ہوگا تو گری راج سنگھ کا جواب تھا کہ ”لڑکی جہنم میں جائے“ یہ جملہ محض ایک غیر ذمہ دارانہ بیان نہیں بلکہ ذہنی پستی، اخلاقی دیوالیہ پن اور انسانی ہمدردی کے مکمل فقدان کی علامت ہے۔ ایک مرکزی وزیر کا اس طرح کی زبان استعمال کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے بعض لوگ سماج کے جذبات، خواتین کے وقار اور مذہبی حساسیتوں سے کس قدر بے نیاز ہو چکے ہیں۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ نتیش کمار کے اس عمل پر صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم حلقوں سے بھی سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔ سماجی کارکنان، دانشوران، وکلا اور خواتین تنظیموں نے اس واقعے کی مذمت کی اور معذرت خواہی کا مطالبہ کیا ہے۔ پولیس میں شکایات درج کرائی جا رہی ہیں اور عوامی سطح پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ اس کے برعکس گری راج سنگھ کی بیان بازیوں پر ایک پراسرار خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ چند سیاسی قائدین کے علاوہ بڑے پیمانے پر وہ ردعمل نظر نہیں آتا جو ایک مرکزی وزیر کی ایسی زبان پر آنا چاہئے تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ گری راج سنگھ کی زبان کوئی نئی بات نہیں۔ وہ پہلے بھی مختلف مواقع پر ایسی بیان بازی کر چکے ہیں جس سے سماج میں نفرت، بے چینی اور انتشار کو فروغ ملا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ہر بار حد مزید نیچے گرتی چلی جاتی ہے۔ بی جے پی کے کئی قائدین اس روش پر چلتے دکھائی دیتے ہیں لیکن گری راج سنگھ اس دوڑ میں سب سے آگے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں شاید اس امید پر کہ اشتعال انگیزی ہی آج کی سیاست میں پہچان اور بقا کا ذریعہ بن چکی ہے۔ نتیش کمار کے عمل کا کوئی جواز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی گری راج سنگھ کی مدافعت کسی منطق پر پوری اترتی ہے۔ عورت کا احترام، اس کی مرضی اور اس کے مذہبی تشخص کا خیال رکھنا کسی بھی جمہوری اور مہذب سماج کی بنیادی شرط ہے۔ شناخت کے نام پر حجاب اتارنا ایک ایسا عمل ہے جس کی نہ آئین اجازت دیتا ہے نہ قانون اور نہ ہی اخلاق۔ جو دلائل پیش کیے جا رہے ہیں وہ نہ صرف ناقابل قبول ہیں بلکہ سماج کو مزید تقسیم کرنے کا سبب بھی بن رہے ہیں۔

  بی جے پی کی اعلیٰ قیادت کو سنجیدگی سے یہ سوچنا ہوگا کہ اس طرح کے بے لگام بیانات پارٹی، حکومت اور ملک کے لیے کس قدر نقصان دہ ہیں۔ ایک مرکزی وزیر کی زبان اگر نفرت اور تضحیک سے آلودہ ہوگی تو اس کا اثر صرف سیاسی مباحث تک محدود نہیں رہے گا بلکہ سماجی ہم آہنگی، باہمی اعتماد اور قومی یکجہتی کو بھی متاثر کرے گا۔ گری راج سنگھ کو نہ صرف اپنی بیان بازیوں پر غور کرنا چاہئے بلکہ پارٹی کو بھی انہیں لگام دینے کی ضرورت ہے۔ مزید یہ کہ گری راج سنگھ کے بیانات کے قانونی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا جانا چاہئے۔ اگر کوئی بیان سماج میں نفرت پھیلانے، کسی طبقے کی تضحیک کرنے یا خواتین کے وقار کو مجروح کرنے کا سبب بنتا ہے تو اس پر قانونی کارروائی محض ایک امکان نہیں بلکہ ایک ضرورت بن جاتی ہے۔ قانون کی گرفت صرف کمزوروں کے لیے نہیں بلکہ طاقتوروں کے لیے بھی ہونی چاہئے، ورنہ جمہوریت محض ایک کھوکھلا نعرہ بن کر رہ جاتی ہے۔ آج ہندوستان ایک نازک دور سے گزر رہا ہے جہاں الفاظ زخم بن جاتے ہیں اور بیانات آگ بھڑکا دیتے ہیں۔ ایسے میں اقتدار پر بیٹھے لوگوں کی ذمہ داری دوچند ہو جاتی ہے۔ بدقسمتی سے گری راج سنگھ جیسے رہنما اس ذمہ داری کو بوجھ نہیں بلکہ ایک رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ اگر یہی روش جاری رہی تو تاریخ انہیں ایک عوامی خدمت گزار کے طور پر نہیں بلکہ نفرت کی سیاست کے ایک نمائندہ کردار کے طور پر یاد رکھے گی اور یہ کسی بھی سیاست داں کے لیے سب سے بڑی ناکامی ہوتی ہے۔ اسی ناکامی جس کا ازالہ نہ بعد کے بیانات سے ہو سکتا ہے اور نہ ہی وقتی صفائیوں سے۔ تاریخ نہ صرف الفاظ کو محفوظ رکھتی ہے بلکہ نیت، رویے اور طرزِ فکر کو بھی بے نقاب کرتی ہے۔ اقتدار کے نشے میں کہی گئی ہر بات، کمزور کو روندنے والا ہر جملہ اور نفرت کو ہوا دینے والا ہر بیان بالآخر اسی اقتدار کے خلاف گواہی بن جاتا ہے۔ گری راج سنگھ جیسے رہنما شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ عوامی عہدہ محض طاقت نہیں بلکہ امانت ہوتا ہے اور امانت میں خیانت کرنے والوں کے لیے تاریخ ہمیشہ سخت فیصلے سناتی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ موجودہ سیاست میں ایسے بیانات کو وقتی سیاسی فائدے، میڈیا کی توجہ اور مخصوص ووٹ بینک کو خوش کرنے کا ذریعہ سمجھا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف گری راج سنگھ بلکہ ان جیسے کئی دیگر رہنما بھی کھلے عام شائستگی کی حدیں پار کرتے ہیں اور پھر اسے بے باکی، صاف گوئی یا جرات کا نام دے دیا جاتا ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یہ جرات نہیں بلکہ کمزوری کی علامت ہے، یہ صاف گوئی نہیں بلکہ فکری افلاس ہے، اور یہ بے باکی نہیں بلکہ اخلاقی دیوالیہ پن ہے۔ نتیش کمار کے عمل پر اگر فوری اور واضح معذرت سامنے آتی، اگر اس واقعے کو ایک غلطی مان کر خواتین کے وقار اور مذہبی آزادی کے احترام کا اعادہ کیا جاتا تو شاید معاملہ اتنا نہ بگڑتا۔ مگر افسوس کہ یہاں نہ صرف غلطی کو ماننے سے انکار کیا گیا بلکہ اس کے دفاع میں ایسے لوگ آگے آئے جنہوں نے آگ پر تیل ڈالنے کا کام کیا۔ گری راج سنگھ کا کردار اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جس نے مسئلے کو سلجھانے کے بجائے مزید الجھا دیا اور سماج میں پہلے سے موجود زخموں پر نمک چھڑک دیا۔

   یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ اگر یہی حرکت کسی دوسری مذہبی شناخت رکھنے والی خاتون کے ساتھ ہوتی تو کیا ردعمل یہی ہوتا؟ کیا تب بھی شناخت کے نام پر اس طرح کی مداخلت کو جائز قرار دیا جاتا؟ اور اگر کسی مرکزی وزیر کی جانب سے ایسی زبان استعمال کی جاتی تو کیا تب بھی خاموشی اختیار کی جاتی؟ یہی دوہرا معیار دراصل آج کی سیاست کا سب سے بڑا المیہ ہے، جہاں انصاف، اخلاق اور آئین سب کچھ شناخت اور مفاد کی عینک سے دیکھا جانے لگا ہے۔ ہندوستان جیسا متنوع ملک نفرت اور تضحیک کی سیاست کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ یہاں ایک غیر ذمہ دارانہ بیان بھی سماجی توازن کو بگاڑ سکتا ہے اور برسوں کی ہم آہنگی کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اس لیے یہ محض کسی ایک وزیر یا ایک واقعے کا معاملہ نہیں بلکہ پورے سیاسی کلچر کا سوال ہے۔ اگر آج گری راج سنگھ جیسے رہنماؤں کو کھلی چھوٹ دی جاتی رہی تو کل اس کے نتائج کہیں زیادہ سنگین ہوں گے۔سیاسی جماعتیں محض انتخابی حساب کتاب سے اوپر اٹھ کر اپنے رہنماؤں کے رویّوں کا سنجیدہ جائزہ لیں۔ بی جے پی کی قیادت اگر واقعی خود کو ایک ذمہ دار قومی جماعت کے طور پر پیش کرنا چاہتی ہے تو اسے گری راج سنگھ جیسے بے لگام بیانات دینے والوں کے خلاف واضح اور عملی قدم اٹھانا ہوگا۔ خاموشی بھی ایک جرم ہوتی ہے، خاص طور پر جب وہ خاموشی نفرت کو تقویت دے رہی ہو۔

Leave a Reply