’نوائے خاموش‘ : سرکردہ ادیبوں کے علمی اور فنی تشخص پر ایک اہم کتاب

پروفیسرشافع قدوائی

ایک ایسے دور میں جب حرف جگانے اور شعر سنانے کو کمال کی دلیل سمجھنے کا چلن کم ہو گیاہے، معصوم مرادآبادی نے اپنی کتاب’نوائے خاموش‘ میں گزشتہ چند برسوں میں جدا ہونے والے سرکردہ شاعروں، ادیبوں، صحافیوں اور فن کاروں بشمول مشتاق احمد یوسفی، مشفق خواجہ، ڈاکٹر محمد حسن، شجاع خاور، فہمیدہ ریاض، فضیل جعفری، کلدیپ نیر، ملک زادہ منظور احمد، جون ایلیا، کلیم عاجز، سعید سہروردی، رضوان احمد، ٹام آلٹر، ایم ایف حسین، ڈاکٹر ہاشم قدوائی، جی ڈی چندن، ڈاکٹر سعادت علی صدیقی، یونس دہلوی، جمیل مہدی، بیکل اتساہی، محبوب الرحمن فاروقی، ابن صفی اور خواجہ احمد عباس کو توجہ کا مرکز بنایا ہے اور ان کے علمی و فنی تشخص کی مختلف جہتوں کو فنکارانہ شعور کے ساتھ آشکارا کرکے ایک خیال انگیز بیانیہ تشکیل دیا ہے جس سے متعلقہ فن کار کے امتیازات بڑی حد تک روشن ہو جاتے ہیں، گو کہ تنقیدی محاسبہ کا نقش زیادہ واضح نہیں ہوتا۔

’نوائے خاموش‘ : سرکردہ ادیبوں کے علمی اور فنی تشخص پر ایک اہم کتاب
’نوائے خاموش‘ : سرکردہ ادیبوں کے علمی اور فنی تشخص پر ایک اہم کتاب

مصنف نے اپنی اس کتاب میں تاثرات اور تنقیدی محاکمہ کو ذاتی تجربات اور مشاہدات سے ہم آہنگ کیا ہے۔ لہٰذا یہاں معاملہ ’حال‘اور’قال‘دونوں کا ہے اور قاری کی کثیر حسی مدارات کا انتظام کیا گیا ہے۔ معصوم مرادآبادی نے اپنے ان مضامین کے ضمن میں لکھا ہے:

”ان مضامین میں ان سرکردہ شخصیات کی شعری اور ادبی خدمات کے تذکرے کے علاوہ ان کے شخصی محاسن کو بھی احاطہ تحریر میں لایا گیا ہے۔ یہ مضامین نہ تو محض تاثراتی نوعیت کے ہیں اور نہ ہی انہیں روا روی میں لکھا گیا ہے۔ بلکہ ان میں سے بیش تر شخصیات ایسی ہیں جن سے اس ناچیز قلم کارکو تعلق خاطر رہا اور اکثر ان کی محفلوں اور صحبتوں میں ان سے اکتساب فیض کا موقع ملا۔ اس لیے ان مضامین کا مواد محض سنی سنائی باتوں یا تحریری اقتباسات پر مشتمل نہیں ہے بلکہ ان میں ذاتی مشاہدات کا عکس بھی شامل ہے۔“

اس کتاب میں ان شعرا، ادبا اور صحافیوں کے کارناموں کو موضوع ِبحث بنایا گیا ہے جن کی تحریریں قارئین کو براہ راست متاثر کرتی تھیں اور ان کے فن پر ابہام کے پردے حائل نہیں تھے۔ معصوم مرادآبادی نے”1857 اور اردو صحافت“ پر تحقیقی کام کیا ہے اور صحافت کی تاریخ ان کا خاص موضوع ہے۔زیر نظر کتاب میں بھی بعض ایسے صحافیوں کے کارناموں کو اجاگر کیا گیا ہے جن سے واقفیت عام نہیں ہے۔ اب سے پچاس برس قبل لکھنؤ کے معروف صحافی جمیل مہدی کے اداریوں کی گونج برصغیر کے صحافتی حلقوں میں سنائی دیتی تھی مگر اب نئی نسل ان کے نام سے بھی واقف نہیں ہے۔ جمیل مہدی کے علاوہ لکھنؤ میں ایسے بہت سے اہم صحافی گزرے ہیں جن کی گرانقدر خدمات کا نہ تو اعتراف کیا گیا ہے اور نہ ان سے متعلق تحریری مواد دستیاب ہیں۔ اس نوع کے صحافیوں میں جالب دہلوی (ہمدرد)، حکیم عبد القوی دریابادی (ایڈیٹر قائد اور صدیق جدید)، عشرت علی صدیقی(قومی آواز)، عثمان غنی (قومی آواز)، حسن واصف عثمانی (قومی آواز)، رضا انصاری (قومی آواز)، نافع قدوائی (قومی آواز)، حسین قدوائی (سیاست جدید)، اقبال صدیقی (عہد نو)، امین سلونوی (انڈپنڈنٹ نیوز سروس)، رافع قدوائی (عزائم)، مشتاق پردیسی (راشٹریہ سہارا) اور شوکت عمر وغیرہ کے نام شامل ہیں۔

معصوم مرادآبادی نے جمیل مہدی کے صحافتی اکتباسات پر بڑا خیال انگیز مضمون لکھا ہے۔ جمیل مہدی بظاہر ایک چھوٹے سے اخبار کے مدیر تھے مگر ان کی تحریریں صلابت، گہری دانش وری، دور اندیشی اور ذہن سازی کی نئی منزلوں کا پتہ دیتی تھیں۔

زیادہ تر لوگ شاید اس بات سے واقف نہ ہوں گے کہ مشہور انگریزی صحافی کلدیپ نیر نے اپنی صحافتی زندگی کاآغاز اردو اخبار ’انجام‘ سے کیا اور پھر شام کو شائع ہونے والے ایک روز نامے’وحدت‘ سے بھی وابستہ رہے۔ کلدیپ نیر کے صحافتی اور تصنیفی کارناموں سے واقفیت عام ہے مگر مصنف نے اردو صحافت سے ان کی وابستگی کو مرکز نگاہ بنایا ہے۔ انہوں نے کلدیپ نیر کی آپ بیتی کے حوالے سے لکھا ہے کہ کلدیپ نیر اردو صحافت سے اپنی وابستگی کے اولین نقش کو فراموش نہیں کر سکے۔ کلدیپ نیر نے’وحدت’میں اپنی ملازمت کا ذکر کرتے ہوئے حسرت موہانی سے اپنی ملاقات کا تذکرہ کیا ہے اور اس سلسلے میں لکھا ہے؛

”یہاں (وحدت کے دفتر میں) میری ملاقات اردو کے مشہور شاعر حسرت موہانی سے ہوئی۔ کبر سنی کے سبب ان کی کمر جھک گئی تھی۔ وہ ہر وقت کھانستے رہتے تھے اور اپنی کھری چارپائی پر پڑے رہتے تھے جو اسی کمرے میں تھی جہاں ہماری ایڈیٹوریل ڈیسک تھی۔ وہ دستور ساز اسمبلی کے رکن تھے اور اکثر ہمیں بتایا کرتے تھے کہ اس کی کارروائیوں میں ان کا حصہ کیا رہا ہے۔ میں انہیں ایک افسردہ انسان سمجھتا تھا، ان انسانوں میں سے ایک فرد جنہوں نے پاکستان کو وجود میں لانے کے لیے کام کیا تھا لیکن جنہوں نے بعد میں محسوس کیا کہ ہندوستان کے بقیہ مسلمانوں کو قربانی کا بکرا بنایا گیا۔

فضیل جعفری کی تنقیدی ژرف نگاہی اور شعری کاوشوں سے اردو داں حلقہ بخوبی واقف ہے مگر ان کے صحافتی اکتباسات کا عرفان عام نہیں ہے۔ فضیل جعفری تدریسی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کے بعد مشہور اردو روزنامہ’انقلاب‘ سے وابستہ ہو گئے تھے اور انہوں نے دو مرتبہ اس کے مدیر کے فرائض انجام دیے۔ فضیل جعفری کی بذلہ سنجی اور ظرافت سے متعلق متعدد واقعات معصوم مرادآبادی نے بڑے دلنشیں پیرائے میں بیان کیے ہیں۔

انقلاب کے علاوہ فضیل جعفری’بلٹز‘ سے بھی وابستہ رہے اور انہوں نے باقر مہدی کے ساتھ مل کر ممبئی سے ایک اہم ادبی جریدہ’اظہار‘بھی نکالا تھا۔ مصنف نے فضیل جعفری کی تنقیدی کتابوں پربھی اظہار خیال کیا ہے اور صحافتی تحریروں پر بھی تاہم یہاں قاری کو یک گونہ تشنگی کا احساس ہوتا ہے کہ ان کے اداریے یا صحافتی مضامین کے اقتباسات درج نہیں کیے گئے۔

معصوم مرادآبادی ہمارے عہد کے ایک معروف صحافی ہیں اوران کی نثر بہت شگفتہ اور سلیس ہوتی ہے، تاہم انہوں نے کہیں کہیں الفاظ کے استعمال میں چلن کو پیش نظر رکھا ہے،مثلاً خامہ فرسائی کو عموماً لکھنے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے مگر اس میں ذم کا پہلو شامل ہے، یعنی لکھنے کو جب بطور ایک پسندیدہ سرگرمی پیش نہیں کیا جانا مقصود ہو تو’خامہ فرسائی‘ کا استعمال کیا جائے گا۔ اس جملہ معترضہ سے قطع نظر معصوم مرادآبادی کی رواں دواں اور حساس نثر مذکوہ صحافیوں کے علاوہ بعض اہم شعرا، ادیبوں اور فنکاروں کی صورت گری سحر آگیں انداز میں کرتی ہے جس کے لیے وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ہاشم قدوائی، ٹام آلٹر، شجاع خاور، سعید سہروردی، یونس دہلوی، ڈاکٹر سعادت علی صدیقی اور ڈاکٹر رضوان احمد سے متعلق مضامین تاثر انگیز اور معلومات آفریں ہیں۔کتاب درج ذیل نمبر پر رابطہ کرکے حاصل کی جاسکتی ہے۔رابطہ نمبر9810780563:

’نوائے خاموش‘ : سرکردہ ادیبوں کے علمی اور فنی تشخص پر ایک اہم کتاب
’نوائے خاموش‘ : سرکردہ ادیبوں کے علمی اور فنی تشخص پر ایک اہم کتاب

(نوٹ: ‘نوائے خاموش’ کاپہلا ایڈیشن 2018 میں شائع ہوا تھا اور کتاب جلد ہی فروخت ہوگئی تھی ۔ اب قارئین کے اصرار پر اس کا نیا ایڈیشن اسی ماہ شائع ہوا ہے۔)

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare