واقعی اکابر کا ہندوستان بدل رہا ہے۔
غالب شمس قاسمی ✍️
اب مسلمان براہِ راست نشانے پر ہیں۔ مدارس منہدم ہو رہے ہیں، کئی جگہ پنج وقتہ نماز پر اعتراض ہونا شروع ہوگیا ہے ( یہ صرف ابتدائی مرحلہ ہے) ۔ ہماری عبادت گاہیں مسمار ہو رہی ہیں اور اب کسی کو فرق نہیں پڑتا۔
ہم خاموش تماشائی بن کر اچھے دنوں کے منتظر ہیں، خوابِ غفلت میں یقین رکھتے ہیں کہ ایک دن حالات خود بخود بدل جائیں گے، فسطائیت ختم ہو جائے گی، سامراجیت اپنی موت مر جائے گی اور سنگھی ذہنیت معدوم ہو جائے گی۔ تب ہم اطمینان کی سانس لیں گے۔ یعنی مزاحمت کی ضرورت نہیں۔

آسام میں لاکھوں مسلمان بے گھر ہوئے، مگر ہم کہیں گے: “میں وہاں کا تو نہیں ہوں”۔ اتراکھنڈ میں مدارس سیل کیے گئے، تعلیمی اصلاحات کے نام پر مخصوص نظریات نافذ کیے جا رہے ہیں، اور ہم کہتے ہیں: “جو کچھ کرنا ہے، وہاں کے اکابر کریں گے”۔
بہار میں لاکھوں مسلمانوں کو ووٹر لسٹ سے باہر کرکے ان کی شہریت پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔
یوپی، جو علما و مشائخ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے، وہاں تقریباً پانچ سو مدارس منہدم ہو چکے ہیں، پھر بھی ہمارا مؤقف یہی ہے: “جو کرنا ہوگا، جمعیت کے لوگ کریں گے”۔
پورے ملک میں مسلم بستیوں کو غیرقانونی قرار دے کر بلڈوزر کارروائی جاری ہے۔
مسلم بازار توڑے جا رہے ہیں، وسائل پر قبضہ ہو رہا ہے اور ہمارا سراپا یہی ہے: “اس سے میرا کیا لینا دینا؟” یا پھر آسان جواب: “میں اکیلا کیا کر سکتا ہوں؟”
کتنی عجیب بات ہے کہ پورے ہندوستان میں ایک بھی ایسا میڈیا ادارہ نہیں جو مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو زمینی سطح پر دکھائے، ان کے زخموں کو محسوس کرے، ان کی کہانیاں دنیا تک پہنچائے۔ بیسیوں میڈیا پلیٹ فارم اپنی جگہ اچھا کام کر رہے ہیں، مگر قومی سطح پر ہماری آواز دھندلی ہے۔
ہماری بستیوں کی خاموش تصویریں، ٹوٹے ہوئے مدارس اور اجڑے ہوئے بازار کسی اسکرین پر نہیں آتے۔
ہم خود اپنی بات دنیا تک پہنچانے کا کوئی منظم وسیلہ آج تک نہیں بنا سکے۔
اور ہم اب بھی اسی خوش فہمی میں ہیں کہ شاید کوئی اور آ کر ہماری کہانی سنائے گا، ہمارا مسیحا بن کر زخموں پر مرہم رکھ دے گا۔