وقف ترمیمی بل

میں ابھی ہارا نہیں ہوں ابھی میدان میں ہوں

   از ـ محمود احمد خاں دریابادی

آخر کار اکثریت کی طاقت پر پارلیمنٹ میں وقف ترمیمی بل پاس کرالیا گیا، اگرچہ اپوزیشن نے آخر وقت تک دونوں ایوانوں میں زبردست مزاحمت کی، مگر پوری رعونت کے ساتھ عدل وانصاف کا قتل کرکے پارلیمنٹ میں ظلم وجبر کی ایک نئی تاریخ لکھ دی گئی ـ

میں ابھی ہارا نہیں ہوں ابھی میدان میں ہوں
میں ابھی ہارا نہیں ہوں ابھی میدان میں ہوں

کہنے کو تو وزیر داخلہ سمیت سبھی یہ کہتے رہے کہ یہ بل مسلمانوں کی فلاح وترقی، اوقاف کے تحفظ، اور اس کی جائدادوں پرناجائز قبضے ختم کرنے کے لئے لایا جارہا ہے ـ مگر درمیان میں دل کی بات زبان پر بھی آجاتی تھی کہ اس بل کا مقصد وقف کی زمینوں سے ناجائز قبضے ہٹانا نہیں بلکہ وقف کے پاس جو زمینیں ہیں ان پر وقف بورڈ کا ناجائز قبضہ بتاکر چھیننا ہے ـ چنانچہ تقریروں کے درمیان زیادہ تر مثالیں ایسی ہی دی گئیں کہ فلان گاوں کی زمینوں پر، فلاں عبادت گاہ کی زمین پر وقف بورڈ نے ناجائز قبضہ کررکھا ہے، یہ بل ایسی تمام زمینوں کو وقف کے قبضے سے آزاد کرائے گا ـ

 

وقف بائی یوزر کا خاتمہ، وقف بورڈ میں غیرمسلوں کے شمولیت، وقف مقبوضہ جائدادوں پر لیمٹیش کے قانون کا نفاذ جیسی صریح ناانصافیوں کو عین انصاف قرار دینے کے لئے عجیب عیجب طرح کی احمقانہ تاویلیں کی گئیں، ” سوال آم جواب املی ” قسم کی دلیلیں دی گئیں، ……….. اس طرح ۲’ ۳ اپریل کی سیاہ راتوں میں آزاد ہندوستان کی تاریخ کا سیاہ ترین بل ہم سب پر تھوپ دیا گیا ـ

 

اس موقع پر جہاں حکمراں ٹولے اور ان کے دوغلے ساتھیوں کا منافقانہ کردار یاد رکھا جائے گا وھیں ہندوستان کی تمام اپوزیشن پارٹیوں کی حق وانصاف بلندی اور جمہوری اقدار کے تحفظ کے لئے جانبازانہ مزاحمت بھی تاریخ کا حصہ بن جائے گی ـ ایسے موقعوں پر جب اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے پارلیمنٹ میں شکست یقینی ہو اپوزیشن پارٹیاں عموما یہ کرتی ہیں کہ شروع ہی میں شور ہنگامہ کرکے واک آوٹ کرجاتی ہیں اور یکطرفہ طور پر حکمراں پارٹیاں اپنی منمانی کرلیتی ہیں، مگر اس بار اپوزیشن نے تعداد کی کمی زیادتی کی پرواہ کئے بغیر آخری منٹ تک جس طرح زبردست مقابلہ کیا یہ ہندوستانی جمہوریت کے لئے انتہائی خوش آئند بات ہے ـ

 

مگر اس موقع پر ایک اور بات غلط بلکہ بہت غلط ہوئی ہے، …………. لوک سبھا اور راجیہ سبھا دونوں ایوانوں میں بل پاس ہونے بعد جس طرح حکمراں ٹولے نے جے سری رام کے نعرے لگائے، اس کا صاف مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ بل مذہبی بنیاد پر لایا گیا اور اس کا مقصد مسلمانوں کو نقصان پہونچانا ہی تھا، گویا بل پاس کراکے مسلمانوں کو مذہبی بنیاد پر شکست دی گئی ہے، ورنہ کیا وجہ ہے کہ اب تک پارلیمنٹ میں کسی بل کے پاس ہونے پر مذہبی نعرے نہیں لگے صرف وقف کے خلاف بل پاس ہونے پر ہی کیوں ان کی ضرورت محسوس ہوئی ـ

 

پارلیمنٹ جس کو جمہوریت کا سب سے بڑا ادارہ کہا جاتا ہے، وہاں پر منتخب شدہ ممبران پارلیمنٹ نے اسپیکر اور راجیہ سبھا کے چئرمین جو نائب صدر بھی ہیں کے سامنے صرف مسلمانوں چڑانے کے لئے ایسے نعرے لگائے اور سب لوگ خاموشی سے دیکھتے رہے، کسی نے منع نہیں کیا ؟ آخر ہمارا ملک کس طرف جارہا ہے؟ ……….. ہم ملک کے تمام انصاف پسندوں اور اپوزیشن لیڈران کی توجہ پارلیمنٹ میں ہونے والی اس فرقہ پرستی کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں ـ اگر اس ابھی اس کا نوٹس نہیں لیا گیا تو ہمارے ملک میں سیکولرازم، یکجہتی اور جمہوریت جو تھوڑی بہت باقی ہے اس کو رخصت ہونے میں بہت زیادہ وقت نہیں لگے گا ـ

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare