وقف جائیدادوں پر شب خون

معصوم مرادآبادی

پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور ی اور اس پر صدر جمہوریہ کی مہر لگنے کے بعد وقف بل نے ایک ایسے قانون کی شکل اختیار کرلی ہے جو پورے ملک میں ہزاروں کروڑ کی وقف جائیدادوں کا تیا پانچہ کردے گا۔اس کا سب سے زیادہ اثر اترپردیش میں ہوگا، جہاں پچاس ہزار سے زیادہ وقف جائیدادیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یوپی میں سبھی ضلع مجسٹریٹوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ غیرقانونی طورپر وقف قرار دی گئی جائیدادوں کی نشان دہی کرکے انھیں بحق سرکار ضبط کریں۔ واضح رہے کہ یوپی کی جو وقف املاک محکمہ مالیات میں درج نہیں ہیں، ان پر اب وقف بورڈ کی جگہ ضلع مجسٹریٹ کو فیصلہ لینے کا مجاز قرار دیا گیا ہے۔ نئے وقف ایکٹ میں ایسی ترامیم کی گئی ہیں جن سے وقف جائیدادوں پر وقف بورڈوں کی بجائے حکومت کا کنٹرول ہوجائے گا۔ سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس کی زد مسجدوں، درگاہوں اورقبرستانوں پر بھی پڑے گی۔ یہی وجہ ہے کہ وقف ترمیمی بل 2025 کے خلاف مسلمان سراپا احتجاج ہیں۔ کشمیر سے کنیا کماری تک احتجاج کی صدائیں بلند ہورہی ہیں۔ نیا قانون چونکہ دستوری تحفظات کے بھی صریحاً خلاف ہے، اس لیے اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا ہے۔ اس کی پہل ایم آئی ایم کے صدر بیرسٹر اسد الدین اویسی نے کی ہے، جنھوں نے لوک سبھا میں اس بل پر نہایت مدلل تقریر کی تھی اور اس کی کاپی پھاڑ ڈالی تھی۔اس بل کی حمایت کرنے والے نام نہاد سیکولرلیڈروں چندربابو نائیڈو اور نتیش کمار کو اپنے اپنے صوبوں میں شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ نتیش کمار کی پارٹی میں شامل کئی مسلم عہدیدار پارٹی چھوڑ چکے ہیں اور وجے واڑہ کی سڑکوں پر نائیڈو کے خلاف احتجاج جاری ہے۔

وقف جائیدادوں پر شب خون
وقف جائیدادوں پر شب خون

سپریم کورٹ میں اس غیر آئینی بل کو چیلنج کرنے والوں میں ڈی ایم کے، کانگریس ، مسلم لیگ اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ وغیرہ شامل ہیں۔ سپریم کورٹ میں اگر اس بل کے خلاف مضبوط پیروی کی گئی تو پوری امید ہے کہ یہ قانون کالعدم ہوجائے گا کیونکہ اس کی بہت سی شقیں دستوری تحفظات سے متصادم ہیں۔

تین طلاق کو قابل سزا جرم قرار دینے کے بعد یہ دوسرا موقع ہے جب مودی سرکارنے مسلمانوں کے داخلی معاملات میں مداخلت کا دروازہ کھولا ہے۔ اس کے بعد یکساں سول کوڈ کا نمبر ہے جو بی جے پی کے انتخابی منشور کا اہم حصہ ہے۔پچھلے گیارہ سال کا جائزہ لیا جائے تو اس حکومت نے ہر وہ کام کیا ہے جس کی ضرب مسلمانوں کے مفادات پر پڑتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں مسلمانوں کے بنیادی شہری حقوق پر ڈاکہ زنی کرنا ہی اس حکومت کا بنیادی مقصدہے۔ وقف ترمیمی بل کی منظوری کے بعد کھربوں روپوں کی وقف جائیدادوں کا مستقبل تاریکی میں چلا گیا ہے۔ رات کی تاریکی میں منظور کی گئی ترمیمات مسلم حقوق پر شب خون کے مترادف ہیں۔

اقلیتی امور کے مرکزی وزیر کرن رجیجو نے لوک سبھا میں وقف ترمیمی بل پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے جو کچھ کہا اس کا نچوڑ یہ ہے کہ یہ حکومت مسلمانوں کی سب سے بڑی خیرخواہ ہے اور ان کی فلاح وبہبود چاہتی ہے۔ کرن رجیجو کا کہنا ہے کہ ہندوستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں سب سے زیادہ وقف املاک ہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ آزادی کے اتنے برسوں بعد بھی مسلمانوں کی بدحالی دور نہیں ہوسکی؟ اس بیان سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وقف ترمیمی قانون کے وجود میں آنے کے بعد ملک گیر سطح پر مسلمانوں کی بدحالی دور ہوجائے گی، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس قانون کے ذریعہ اوقاف کی جائیدادوں کومسلمانوں سے چھین لینے کا ایک انتہائی تکلیف دہ عمل شروع ہوگا۔اس جھوٹ کو باربار بولاگیاہے کہ وقف کے نام پر مسلمانوں نے سرکاری زمینوں پر قبضے کررکھے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بے شمار ایسی سرکاری عمارتیں ہیں جو وقف کی زمینوں اور قبرستانوں پر بنائی گئی ہیں۔ کرن رجیجو کی ایک گھنٹہ طویل تقریر کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے کانگریس پارلیمانی پارٹی کے ڈپٹی لیڈر گورو گوگوئی نے درست ہی کہا ہے کہ”رجیجو کی تقریر گمراہ کن اور جھوٹی تھی۔“ انھوں نے رجیجو کے جھوٹ کا پردہ چاک کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”جو حکومت مسلمانوں کو عید کی نماز پڑھنے سے روکتی ہے اور جس کا لوک سبھا میں ایک بھی ممبر مسلمان نہیں ہے،وہ آخر مسلمانوں کی خیرخواہ کیسے ہوسکتی ہے۔“قابل ذکر بات یہ ہے کہ وزیرداخلہ امت شاہ نے لوک سبھا میں اپنی تقریر کے دوران دہلی میں وقف کی 123 قیمتی جائیدادوں کو سرکاری املاک قراردے دیا ہے۔ واضح رہے کہ ان قیمتی جائیدادوں کو2013 کے وقف بل میں دہلی وقف بورڈ کو سونپا گیا تھا۔ مگر نئے بل میں اس پر سرکاری قبضہ بحال کردیا گیا ہے۔2007میں سچر کمیٹی نے ان اوقافی جائیدادوں کی قیمت کا تخمینہ چھ ہزارکروڑ روپے لگایا تھا، جن سے اب مسلمان محروم کردئیے جائیں گے۔مرکزی وزیرانوراگ ٹھاکر نے وقف جائیدادوں کو ’لینڈجہاد‘ سے تشبیہ دے ڈالی ہے اور یہی کام یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ بھی کررہے ہیں۔

حکومت کے ان ہی عزائم کے پیش نظر گزشتہ برس اگست میں وقف ترمیمی بل کی پارلیمنٹ میں زبردست مخالفت ہوئی تھی۔ اپوزیشن پارٹیوں کی زبردست مزاحمت کے بعد حکومت اس بل کو جو ائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی (جے پی سی)کو بھیجنے پر مجبور ہوئی تھی۔ بی جے پی ممبر جگدمبیکا پال کی سربراہی والی اس کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کے ممبران شامل تھے، لیکن جب اس کمیٹی کی رپورٹ پیش کی گئی تو اس میں اپوزیشن ممبران کے اعتراضات کو درکنار کرتے ہوئے صرف سرکاری ممبران کی رائے کو ہی اہمیت دی گئی۔ یہ سب کچھ ایک طے شدہ حکمت عملی کا حصہ تھا۔ حکومت پہلے ہی طے کرچکی تھی کہ وہ ہرصورت میں وقف ترمیمی بل کو پارلیمنٹ سے پاس کروالے گی۔ اس سے پہلے کم وبیش پانچ کروڑ مسلمانوں نے ای میل بھیج کر وقف ترمیمی بل کی مخالفت کی تھی۔ خود اقلیتی امور کے مرکزی وزیر کرن رجیجو نے یہ تسلیم کیا کہ انھیں اس بل کے سلسلے میں 97 لاکھ عرضداشتیں موصول ہوئی ہیں۔ اس دوران حکومت نے مسلمانوں جیسے نام رکھنے والے کچھ ضمیر فروشوں کو اس بل کی حمایت میں بیان جاری کرنے کوکہا۔ اس میں درگاہ اجمیر اورفتحپور سیکری کی درگاہ کے نام نہاد سجادہ نشین بھی شامل تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کاکام مسلم مفادات کے خلاف حکومت کے ہرغلط کام کی تائید کرنا ہے۔ ایسے ہی گندم نما جوفروش پارلیمنٹ میں بحث کے دوران وقف ترمیمی بل کیحمایت میں مودی کی تصویریں لے کرجگہ جگہ مظاہرہ کررہے تھے اور گودی میڈیا کے چینل انھیں خوب نمایاں کرکے دکھارہے تھے۔اسی قسم کے لوگوں نے نتیش کمار کے افطار کے بائیکاٹ کی اپیل کے باوجود پوری بے شرمی کے ساتھ اس میں شرکت کی تھی۔سب سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ جس نتیش کمار سے مسلمانوں نے ان کے ’سیکولر‘ ہونے کی بنا پر بڑی امیدیں باندھی تھیں ان کے نمائندے للن سنگھ نے پارلیمنٹ میں بی جے پی ممبران سے زیادہ جوش وخروش کے ساتھ وقف ترمیمی بل کی حمایت کی اور وزیراعظم کی شان میں قصیدے پڑھے۔اس کے برعکس اپوزیشن پارٹیوں کے ممبران نے اوقافی جائیدادوں کے معاملے میں حکومت کے خفیہ ایجنڈے کو بے نقاب کیا۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ حکومت کی ہمنوا جن نام نہاد سیکولر پارٹیوں سے مسلمانوں نے اس بل کی مخالفت کی امیدیں باندھی تھیں انھوں نے سب سے پہلے اپنے ممبران کو ہدایت دی کہ وہ وقف ترمیمی بل کے حق میں ووٹ دیں۔ مسلمانوں کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ باربار ایک ہی قسم کے لوگوں سے دھوکہ کھاتے ہیں۔ اس میں قصور دھوکہ دینے والوں کا نہیں بلکہ بے جا اعتبار کرنے والے مسلمانوں کا ہوتا ہے۔مسلمان جنھیں سیکولر سمجھ کر ووٹ دیتے ہیں وہ سب سے بڑے موقع پرست ثابت ہوتے ہیں۔مسلمانوں کو سب سے زیادہ تعجب بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار پر ہے۔ بہار میں اسمبلی انتخابات کی آمد آمد ہے اور مسلمانوں کو یقین تھا کہ وہ مسلم ووٹوں کے لالچ میں وقف ترمیمی بل کی مخالفت کریں گے۔ اس سلسلہ میں مسلم پرسنل لاء بورڈ نے پٹنہ میں ایک احتجاجی پروگرام بھی کیا تھا مگرنتیش نے مسلمانوں کی امیدوں پر پانی پھیرتے ہوئے اپنے سیاسی آقاؤں کو خوش کرنے کاکام کیا۔ حکومت کے دوسرے اتحادی چندرا بابو نائڈو نے تو باقاعدہ وجے واڑہ میں جمعۃ الوداع کی نماز میں شرکت کی اور چوغہ پہن کر مسلمانوں کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ وقف کے معاملہ میں مسلمانوں کے ساتھ ہیں، لیکن پارلیمنٹ میں انھوں نے بھی نتیش کمار ہی راہ لی۔ اسی طرح چراغ پاسوان اور جینت چودھری سے بھی مسلمانوں کو کچھ امیدیں تھیں، لیکن انھوں نے بھی اس بل کی تائید کی۔جن حقیقی سیکولر پارٹیوں نے پوری قوت کے ساتھ اس بل کی مخالفت کی ہے، مسلمانوں کو ان کا احسان مند ہونا چاہئے۔ اس کے ساتھ ہی ان شرپسند عناصر سے ہوشیار رہنا چاہیے جو وقف بل کی وجہ سے مسلمانوں میں پھیلے ہوئے غم وغصہ کا فایدہ اٹھا کر انھیں مشتعل کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ یہ وقت سوجھ بوجھ سے کام لینے کا ہے۔ سوشل میڈیا پر گردش کررہی فرضی ویڈیوز سے ہوشیار رہیں ۔

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare