پروفیسر گوپی چندنارنگ

معصوم مرادآبادی

آج اردوکی ہمہ رنگ اور ہفت پہلو شخصیت پروفیسرگوپی چند نارنگ کا یوم پیدائش ہے۔ انھوں نے 11 فروری 1931 کو اس دنیائے رنگ و بو میں آنکھ کھولی اور 15جون 2022کو امریکہ میں آخری سانس لی۔ان کے انتقال سے ادبی حلقوں میں اسی طرح صف ماتم بچھ گئی، جس طرح شمس الرحمن فاروقی کے انتقال سے بچھی تھی۔ بلاشبہ یہ دونوں اردو زبان وادب کے ایسے ہیرے تھے، جنھیں زمانہ برسوں یاد رکھے گا۔ ان دونوں ہی نے اردو تحقیق، تنقید اور ترویج کے میدان میں ایسی خدمات انجام دیں کہ انھیں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ آج دور دور تک ان کی جگہ لینے والا کوئی نظر نہیں آتا۔شمس الرحمن فاروقی نے جہاں علم وادب کی خدمت کے لیے گوشہ نشینی کی راہ اختیار کی تھی تو وہیں پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اس کام کے لیے سفردرسفر کو ترجیح دی اور وہ وہ ’سفیراردو‘کہلائے۔

پروفیسر گوپی چندنارنگ
پروفیسر گوپی چندنارنگ

گوپی چند نارنگ بنیادی طور پر ایک محقق، نقاد اورماہر لسانیات تھے، لیکن وہ جہاں بھی رہے،انھوں نے اپنی انتظامی صلاحیتوں کا لوہا بھی خوب منوایا۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں ان کی شناخت ایک بیدارمغزدانشور، روشن خیال نقاد اور محقق کی ہے، وہیں ان کی انتظامی صلاحیتوں کی وجہ سے بھی انھیں یاد کیا جاتا ہے ۔نارنگ صاحب کا سب سے بڑا وصف یہ تھا کہ اردو زبان وادب کا رسیا ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی راہ ورسم دیگر زبانوں کے ادیبوں اور فن کاروں سے بھی خوب تھی۔ سرکاری حلقوں میں بھی انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھا۔ اپنی ان ہی صلاحیتوں کی وجہ سے وہ ساہتیہ اکادمی جیسے سب سے بڑے ادبی ادارے کے صدر بنے۔ وہ اس عہدے تک پہنچنے والے پہلے اردو ادیب تھے۔ جس زمانے میں وہ ساہتیہ اکادمی کا انتخاب لڑرہے تھے تو راشٹرپتی بھون کے’ایٹ ہوم‘ میں ان سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ ”میں اس وقت پل صراط سے گزررہا ہوں اور آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔“ میں ان کے کس کام آسکتا تھا، مگر ان کی خوبی یہ تھی کہ وہ ہرکس وناکس سے کام لینا جانتے تھے۔ جو لوگ ان کے قریب تھے، انھیں انھوں نے نوازا بھی اور ان کی پذیرائی بھی کی۔

پروفیسر گوپی چند نارنگ کو میں نے پہلے پہل اسی غالب اکیڈمی میں دیکھا تھا جہاں اردو کے بیشتر ادیبوں، شاعروں اور فن کاروں کو دیکھا۔یہ80 کی دہائی کا آخری زمانہ تھا۔ میں غالب اکیڈمی کی اردو خوشنویسی کلاس کا طالب علم تھا، جہاں روزانہ ہی کوئی نہ کوئی ادبی تقریب منعقد ہوتی تھی اور ہم اس میں بطور سامع شریک ہوتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھاجب دہلی کا علمی وادبی منظرنامہ بڑا بھرپور تھا اور غالب اکیڈمی ان سرگرمیوں کا سب سے بڑا مرکزتھی۔غالب اکیڈمی کے اسٹیج پر جہاں علم وادب کی نابغہ روزگار شخصیات کو سننے کا موقع ملتا تو وہیں اس اسٹیج کے پیچھے اردو خطاطی کلاس میں انھیں قریب سے دیکھنے کا بھی موقع ملا۔ اس کلاس کے انسٹرکٹر مایہ ناز خطاط محمدخلیق ٹونکی تھے، جن کے قدموں میں بیٹھ کر ہم خطاطی کا فن سیکھا کرتے تھے۔ خلیق ٹونکی کے فن کی بلندی کے پیش نظر ہر بڑا ادیب اور شاعراپنی کتاب کا سرورق ان سے بنوانا چاہتا تھا۔یہی وجہ تھی کہ وہاں بڑے بڑے ادیبوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔پروفیسرگوپی چند نارنگ بھی ان ہی لوگوں میں سے ایک تھے۔ جس زمانے میں وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اردو سے وابستہ تھے تو وہاں شعبوں کے نام اردو میں لکھے جانے کی ذمہ داری نارنگ صاحب کو سونپی گئی تھی۔ وہ اس کام کو لے کر ہماری کلاس میں آئے اور خلیق ٹونکی صاحب سے انھیں لکھنے کی فرمائش کی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ جامعہ میں تمام شعبوں کے نام اوردیگر تختیاں خلیق ٹونکی صاحب نے لکھی تھیں اور ہم جب بھی جامعہ جاتے تو ان تختیوں اور ناموں کو دیکھ کر خوش ہوتے تھے کہ یہ ہمارے سامنے اور ہمارے استاد نے لکھی تھیں۔اب ان تختیوں اور ناموں کو کمپیوٹر کی کتابت کی مددسے لکھا گیا ہے، لیکن ان میں وہ بات کہاں؟

اس کے بعد جب ہم نے صحافت کے میدان میں قدم رکھا تو نارنگ صاحب سے ذاتی مراسم قایم ہوگئے۔2008میں جدہ میں منعقدہ عالمی اردو کانفرنس میں ہم نے ساتھ ساتھ شرکت کی اور ایک ہی ہوٹل (ٹرائڈنٹ)میں ٹھہرے۔ساتھ میں ہمارے دوست چندربھان خیال بھی تھے۔ یہاں تین دن تک خوب باتیں اور ملاقاتیں ہوئیں۔ جس زمانے میں ہم غالب اکیڈمی میں تھے تو نارنگ صاحب وہاں ہونے والے ہرپروگرام میں شرکت کرتے تھے۔ ان کی سیکڑوں تقریریں سننے کا موقع ملا۔ انھیں گفتگو پر جو کمال حاصل تھا، وہ اردو کے کم ہی ادیبوں کو نصیب ہواہے۔ یہی وجہ ہے مشفق خواجہ نے ایک بار ان کے بارے میں لکھا تھا کہ ”گوپی چندنارنگ صرف ماہر لسانیات ہی نہیں بلکہ ماہر لسّانیات بھی ہیں۔“ انھیں علمی وادبی گفتگو کرنے پرملکہ حاصل تھا۔ جب وہ بولتے تھے تو ہال میں ’پن ڈراپ سائلنس‘ ہوتا تھا۔وہ زاوئے بدل بدل کر سامعین سے مخاطب ہوتے تھے اور نثر میں بھی شاعری کا سماں پیدا کردیتے تھے۔ان کی گفتگو بہت نپی تلی اور موضوع کے مطابق ہوتی تھی۔

پروفیسر گوپی چند نارنگ11/فروری1931کوضلع دوکی (بلوچستان) میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کی مادری زبان سرائیکی تھی، لیکن انھوں نے اردو زبان اور اس کے لٹریچر پر جو دسترس حاصل کی وہ قابل رشک تھی۔انھوں نے دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے پروفیسر خواجہ احمد فاروقی کی نگرانی میں ایم اے اور لسانیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی تھی۔وہ پروفیسر فاروقی کے چہیتے شاگرد تھے اور ان کی علمی وادبی ترقی میں فاروقی صاحب کا بڑا ہاتھ تھا۔ پروفیسر نارنگ نے اپنا کیریر1957میں سینٹ اسٹیفن کالج سے بطور لیکچرر شروع کیااور 1959 تک دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے وابستہ رہے۔ اس دوران کئی برس انھوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اردو میں بھی خدمات انجام دیں۔وہ مجموعی طورپر 64 کتابوں کے مصنف ومرتب تھے جن میں 45اردو میں اور بارہ انگریزی میں ہیں۔انھیں پدم شری، پدم بھوشن، اقبال سمان، ساہتیہ اکادمی ایوارڈ کے علاوہ حکومت پاکستان نے ستارہ امتیاز سے بھی نوازا تھا۔

گوپی چند نارنگ نے اردو ادب کو ثروت مندبنانے میں اہم کردار اداکیا۔ وہ ادیب،محقق، مقرر، مفکر اور منتظم سب ہی کچھ تھے۔ اپنا کام بڑے سلیقے سے انجام دیتے تھے اور جس کام میں ہاتھ ڈالتے اسے چارچاند لگادیتے تھے۔ حالانکہ ان کے ناقدین ان پر ادب میں گروہ بندی کو فروغ دینے کا الزام لگاتے ہیں، لیکن انھوں نے جو کچھ کیا اس سے ادیبوں کو بہت فائدہ پہنچا۔انھیں سب سے زیادہ ادبی انعام ملے۔ انھوں نے مختلف شعری اور نثری اصناف میں نمایاں کارنامے انجام دئیے۔ نہ صرف یہ کہ انھوں نے اپنے عہد میں سب سے زیادہ کتابیں لکھیں بلکہ ان پر بھی سب سے زیادہ کتابیں اور مضامین شائع ہوئے۔ انھوں نے رجحان ساز کتابیں ہی تصنیف نہیں کیں بلکہ رجحان ساز سیمینار اور ادبی تقریبات بھی منعقد کیں۔1983میں انھوں نے جامعہ میں میر پر جو سیمینار کیا تھا، اس میں میر کی نئی بازیافت ہونے کا دعویٰ کیا گیا۔ اسی طرح فکشن پر انھوں نے دوتاریخ ساز سیمینار کرائے اور ان میں اپنے زمانے کے تمام بڑے ادیبوں مثلاً راجندرسنگھ بیدی، کرشن چندر، قرۃ العین حیدر جیسے چوٹی کے ادیبوں کو مدعو کیا۔ان کی معرکۃ الآراء تنقیدی کتاب ”ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات“ کو ساہتیہ اکیڈمی انعام سے نوازا گیا تھا۔انھیں اس بات کا افسوس تھا کہ اردو زبان سیاست کا شکار ہے۔ان کا ماننا تھا کہ اردو کی جڑیں ہندوستان میں ہیں اور ہندی اردوکی بہن ہے۔

 

نارنگ صاحب کے ساتھ خاکسار کی یہ تصویر 2007 کی ہے۔

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare