پندرہویں صدی ہجری کے اعلام بہار شریف و عظیم آباد (سابق ضلع پٹنہ) ( قسط اول)

   طلحہ نعمت ندوی

بہارشریف و پٹنہ کی شخصیات پر ایک کتاب کی ترتیب وتدوین راقم کے پیش نظر ہے، جس کے لیے مطالعہ و کوشش جاری ہے۔ اس دوران خیال آیا کہ کیوں نہ اس صدی میں اب تک، جب کہ نصف صدی مکمل ہونے میں چند سال باقی ہیں، یہاں کی جن قابل ذکر شخصیات کا انتقال ہوچکا ہے ان کا ایک مختصر تذکرہ مرتب کرکے شائع کردیا جائے۔

پندرہویں صدی ہجری کے اعلام بہار شریف و عظیم آباد
پندرہویں صدی ہجری کے اعلام بہار شریف و عظیم آباد

اس سلسلہ میں ہمارا معیار انتخاب حسب ذیل ہوگا۔

اس علاقہ کے دائرہ میں وہ لوگ شامل ہوں گے، جن کی یا یہاں ان کے خاندان کے قیام کے ساتھ پیدائش ہوئی ہو،یا وہ مستقل یہاں آتے جاتے رہے ہوں، یا انہوں نے ان دونوں شہروں یا اس کے مضافات میں سے کسی جگہ کو اپنا وطن بنالیا ہو، اور ایک طویل مدت گذاری ہو،یا اخیر کے پانچ سال یہاں گذار کر یہیں وفات پائی ہو۔ ورنہ پٹنہ تو بہار کا مرکز رہا ہے اور ایک بڑی تعداد یہاں آتی جاتی رہی ہے۔ اس لیے ایسے حضرات کا تذکرہ اس میں شامل نہیں ہوگا جن کی وفات یہاں اتفاقی ہوئی ہو، یا جو یہاں رہے ضرور لیکن اپنے وطن سے مستقل تعلق رہا اور یہاں ان کی اقامت عارضی ہی سمجھی گئی، یا آبائی وطن تو رہا لیکن ولادت ووفات یا چند سال قیام کسی طرح کا کوئی تعلق نہیں رہا،نہ بہت زیادہ آمد ورفت رہی۔

دوسری طرف رجال کے انتخاب کا معیار یہ ہوگا کہ وہ کسی طرح بھی تعلیم یافتہ ہو یا کوئی شخصیت کسی سماجی خدمت میں مشہور رہی ہو، صرف مسلمان ہی اس تذکرہ میں شامل ہوں گے۔مرد کے علاوہ جو خواتین اس معیار پر پوری اتریں گی ان کا بھی تذکرہ کیا جائے گا۔۱۴۰۱ھ سے ۱۴۴۵ھ کے دورانیہ میں جن حضرات کی وفات ہوئی ہے وہ اس میں شامل ہوں گے۔ حروف تہجی یا سنہ وفات کسی چیز کی ترتیب کے بغیر یہ اجمالی تذکرہ مرتب کیا جارہا ہے۔بہارشریف ونالندہ کے سلسہ میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس میں سرزمین اس سے قبل کی یعنی چودہویں صدی میں تو شخصیات واہل کمال کی بہت کثرت نظر اتی ہے جس کا اندازہ امید ہے کہ ان شاء اللہ بہارشریف کے تذکرہ میں ہوگا، یا پھر اس کے بعد گذشتہ صدی کے اہل علم کا تذکرہ اسی طرح مرتب کرنے کا موقع ملا تو اس میں۔

تقسیم ہند کے بعد یہ شہر وعلاقہ تقریبا ویران ہوگیا لیکن پھر بھی ایسے اہل کمال سے خالی نہیں رہا جو مختلف شہروں اور ملکوں میں رہ کر علم ودین کی خدمت انجام دیتے رہے، اور علم وفضل کی دنیا میں ایک امتیازی حیثیت حاصل کی،اس لئے اس صدی میں بھی ان دونوں شہروں اور اس کے مضافات میں اہل علم کی بڑی تعداد ہر دور میں رہی ہے۔اب ہر جگہ عام طور پر انگریزی تاریخیں رائج ہیں لیکن ہم اس کو علمائے اسلام کی اتباع وتقلید میں عربی تاریخ پر مرتب کررہے ہیں ،اور یہی ہماری اصل شناخت ہے ،اورانگریزی تاریخوں کی تفصیلات بہ نسبت عربی تاریخوں کے اب زیادہ محفوظ رہتی ہیں اس لئے حتی الامکان کوشش کی جائے گی کہ مکمل دن وماہ کی عربی تاریخ بھی لکھی جائے لیکن اگر اس میں کامیابی نہ ملی تو سال کی عربی تایخ تو ضرور درج کی جائے گی کہ یہی اس کی بنیادہے۔

۱۔مولانا محمد ناظم ندوی

مولانا محمد ناظم بن اشفاق احمد مشہور وممتاز عالم اورعربی زبان کے فاضل اور جلیل القدر عالم ومدرس تھے ،ان کا وطن اگرچہ ضلع مونگیر کا ایک قریہ علی نگر مضافات سورج گڑھ ہے ،لیکن ان کی نشو ونما بہارشریف میں ہی ہوئی ،اور ان کا آبائی وطن بہارشریف ہی کے قریب کی ایک معروف بستی سربہدی متصل استھاواں ہے ،علی نگر شاید ان کی یا ان کے والد نانہال تھی ۔

ان کی پیدائش وسط دسمبر ۱۹۱۳ءمطابق ۱۳۳۳ھ میں قصبہ علی نگر میں ہوئی ،وہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی ،پھر بہارشریف کےمدرسہ عزیزیہ میں داخلہ لیا ،اور وہاں عالمیت کی تکمیل کی ،پھر دارالعلوم ندوۃ العلماء کا رخ کیا ،اور عالمیت وفضیلت کی تکمیل کی ،خصوصا عربی زبان وادب میں کمال حاصل کیا ،اس کے بعد وہیں مدرس ہوگئے ،اور ایک طویل عرصہ گذارا ،اس عرصہ میں چند سال گجرات کے قصبہ ڈابھیل کے مدرسہ میں عربی ادب کے مدرس کی حیثیت چند سال خدمت انجام دی پھر واپس ندوہ آگئے ،اسی دوران وہاں انہوں نے پرنسپل کی ذمہ داری بھی انجام دی ،تقسیم ہند کے بعد تقریبا ۱ٍ۹۵۰ میں پاکستان چلے گئے، وہاں جامعہ عباسیہ بھاول پور کے شیخ الجامعہ ہوئے ،اسی دوران سال دو سال کے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے شعبہ ادب عربی میں تدریسی خدمت انجام دی ،پھر واپس کراچی آگئے ،تاوفات وہیں رہے ،اپنے گھر پر ہی درس قرآن کا اہتمام کرتے رہے جس سے بہت سے لوگوں نے استفادہ کیا ۔ مولانا مسعود عالم ندوی کے ساتھ دارالعلوم ندوۃ العلماء سے شائع ہونے والے عربی مجلہ ماہنامہ الضیاء میں شریک مدیر رہے ،کراچی منتقل ہونے کے بعد وہاں کے عربی مجلہ الیقین پر بھی بحیثیت مدیر ان کا نام ملتا ہے ،وہ عربی کے ممتاز شاعر بھی تھے اور نثر نگار بھی ،اردو میں بھی ان کے مضامین اور کتابیں ہیں لیکن اصل کام عربی ہی میں ہے ،ان کا عربی دیوان باقۃ الازھار کے نام سے شائع ہوا ، علامہ سید سلیمان ندوی کی کتاب خطبات مدراس ،سیرت عائشہ ،سید صاحب کے کئی مضامین اور مولانا مودودی کے بعض رسائل کے عربی ترجمے ان کی یادگار ہیں ۔ کراچی میں۹ جون ۲۰۰۰ مطابق ۱۴۲۱ھ میں وفات پائی۔ (مولانا کے حالات پر میرا ایک مضمون شائع ہوکر عام ہوچکا ہے (شائع شدہ جہازی میڈیا ڈاٹ کام)،کچھ اطلاعات ان کے اعزہ سے حاصل ہوئیں)

۲۔مولانا عبداللہ عباس ندوی

مولانا عبداللہ عباس ندوی کا تعلق پھلواری شریف کے مشہور خاندان سے ہے ،ان کے والدمولانا مفتی عباس صاحب امارت شرعیہ کے مفتی اول تھے ، انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے والداو ر بڑے بھائی سے حاصل کی پھر مدرسہ قدیمیہ فرنگی محل میں ثانوی تعلیم کے بعد ندوہ میں داخلہ لیا ،اور پھر یہیں کے ہوکر رہ گئے ،تکمیل کے بعد دو تین سال لکھنو کے مضافات کے ایک قریہ میں معلمی میں گذارے پھر ندوہ میں بحیثیت استاد عربی ادب تقرری ہوئی ،پھر ادیب اول کے عہدہ پر فائزہوئے،اسی دوران حجاز میں ایک سال رہ کر دعوتی خدمت انجام دی،پھر ندوہ کی طرف سے ایک وفد کے ساتھ عراق گئے،پھر مستقل حجاز منتقل ہوگئے ،وہاں پہلے جدہ ریڈیو اسٹیشن سے وابستہ رہے ،پھر رابطہ عالم اسلامی کے اہم عہدہ پر فائز ہوئے ،پھر جامعہ ام القریٰ کے پروفیسر ہوکرایک مدت کی تدریسی خدمت کے بعد ملازمت سے سبکدوش ہوئے ،۱۹۸۰ میں دارالعلوم ندوۃ العلماء کے معتمد تعلیمات کے عہدہ پر فائز ہوئے ،اور تا زندگی یہ خدمت انجام دیتے رہے۔مولانا عربی واردو دنوں زبانوں کے ماہر ،انشاپرداز،علوم قرآن اور اعجاز وبلاغت قرآنی کے رمز شناس، ماہر تعلیم ،اور انگریزی ،فارسی اور فرانسیسی زبانوں سے بخوبی واقف تھے،مکہ مکرمہ کے دوران قیام انہوں نے تین سال لندن میں گذارکر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ،اور ایک نہایت اہم موضوع پر اپنا تحقیقی مقالہ پیش کیا۔عربی ،اردو اور انگریزی تینوں زبانوں میں ان کی تصانیف موجود ہیں۔یکم ذی الحجہ ۱۴۲۶ھ (جنوری ۲۰۰۶)میں مکہ مکرمہ میں وفات پائی اور جنت المعلیٰ قبرستان میں دفن ہوئے ۔(دیکھئے تعمیر حیات لکھنؤ کا مولانا عبداللہ عباس ندوی نمبر ۲۰۰۶،نیز المجیب پھلواری شریف خصوصی شمارہ۔)

( جاری)

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare