پندرہویں صدی ہجری کے اعلام بہار شریف و عظیم آباد (سابق ضلع پٹنہ) ( قسط چہارم)
طلحہ نعمت ندوی
۱۲۔ کلیم الدین احمد
اردو کے مشہور ناقد وادیب کلیم الدین احمد کاپورا نام رحیم الدین احمد عرف رحمو تھا ،والد پٹنہ کے مشہور فاضل ڈاکٹر عظیم الدین تھے۔۱۵ستمبر ۱۹۰۹ کو اپنے آبائی مکان محلہ خواجہ کلاں پٹنہ سیٹی میں پیدا ہوئے ۔گھر میں ایک معلم سے ابتدائی دینی تعلیم کے بعد محمڈن اینگلو عربک اسکول میں داخلہ لیا اور ۱۹۲۴ میں وہاں سے ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کی پھر ۱۹۲۸ میں پٹنہ کالج سے گریجویشن مکمل کی ۔ایم اے انگریزی میں اسی کالج میں داخلہ لیا لیکن جلد ہی وظیفہ مل گیا تو اعلی تعلیم کے انگلستان چلے گئے ،وہاں انگریزی اور فرانسیسی زبان میں مہارت پیدا کی ،اس کے بعد پٹنہ واپس آئے اور پٹنہ یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی میں تدریسی خدمت پر مامور ہوئے ۔۱۹۵۲ میں وہ پٹنہ کالج کے پرنسپل اور ڈین فیکلٹی آف آرٹس ہوئے۔۱۹۵۸ میں پی آئی اے حکومت بہار ہوئے ،اس کے بعد ڈائریکٹر خدابخش لائبریری اور اور دوبار چیرمین بہار اسکول اگزامنیشن بورڈ کے عہدوں پر فائز ہوئے ۔ستمبر ۱۹۶۷ میں ملازمت سے سبکدوش ہوئے ،اس کے بعد بھی وہ مستقل فعال وسرگرم رہے اور دسیوں علمی سرگرمیوں سے وابستہ رہے۔دائرہ ادب پٹنہ کے رسالہ معاصر کے بڑے فعال مدیر رہے ۔اس کے علاوہ بھی ان کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔مختلف بڑے اداروں نے خدمات کے اعتراف میں اعزاز ات سے بھی نوازا ۔۲۱ دسمبر ۱۹۸۳ مطابق ۱۶ربیع الاول ۱۴۰۴ھ میں پٹنہ انتقال ہوا ،اور اپنے والد کے پہلو میں دفن ہوئے۔انہوں نے اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں لکھا ہے ،اور تصانیف کی بڑی تعداد ہے ۔جس میں ترقی اردو بیورو کے زیر اہتما آٹھ جلدوں میں انگریزی اردو لغت اہم کام ہے ،اس کے علاوہ ان کی مشہور کتابیں اردو شاعری پر ایک نظر ،اردو تنقید پرایک نظر ،عملی تنقید اور شعری مجموعے اور ان کے علاوہ دسیوں کتابیں ان کی یاد گار ہیں۔انہوں نے اپنی خود نوشت اپنی تلاش میں میں اپنے ابتدائی حالات لکھے ہیں۔نیز پروفیسر سید محمد حسنین کی کتاب حیات کلیم جو ان کی زندگی ہی میں منظر عام پر آئی تھی ان کے حالات پر ایک اہم ماخذ ہے ،ان کے علاوہ بھی متعدد علمی وتحقیقی مقالات منظر عام پر آچکے ہیں۔

۱۳۔ کیف عظیم آبادی
کیف عظیم آبادی کاپورا نام محمد یسین اور والد کا نام عبدالغفور تھا ،کیف عظیم آبادی کے قلمی نام سے شہرت پائی۔ممتاز شاعر تھے۔۸ جون ۱۹۳۷ کو پٹنہ کے محلہ شاہ گنج میں پیداہوئے۔ابتدائی تعلیم کے بعد گھر کے معاشی حالات کی وجہ مزید تعلیم کا موقع نہیں مل سکا ۔اور انہوں نے پٹنہ ہی میں ایک چوٹی سی کپڑے سینے کی دکان کھول لی۔لیکن اس کے ساتھ شاعری سے مستقل تعلق رہا ،رمز عظیم آبادی کی حوصلہ افزائی سے شاعری کرکے ان سے اصلاح لینے لگے ،اس کے بعد مشاعروں میں اپنا کلام سنانے لگے ،۱۹۵۴ سے مشاعروں میں شرکت کا آغاز ہوا ،ا س کے بعد ملک کے مشہور مشاعروں میں مدعو کئے جانے لگے۔۱۹۵۷ سے ۱۹۹۳ کے دوران ملک کے علاوہ بیرون کے دسیوں اہم مشاعروں اور ادبی تقریبات میں مدعو کئے گئے۔آخر شعرخوانی ہی ان کا ذریعہ معاش بھی ہوگئی،تقریبا تیس سالوں تک مشاعروں کے کامیاب شاعر رہے۔۲۴جنوری ۱۹۹۴مطابق ۱۳شعبان ۱۴۱۴ھ کو ان کا انتقال ہوا اور شاہ گنج قبرستان میں دفن ہوئے۔کئی شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں ،جن میں صداؤں سے سائے ،انگنائی ،جنون وآگہی کے نام ہیں۔ان کے حالات وخدمات پر ڈاکٹر غلام جیلانی نے کیف عظٖیم آبادی حیات اور کارنامے کے عنوان سے مگدھ یونیورسٹی گیاکے شعبہ اردو مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔(بہار کی بہار۔ص ۲۰۴جلد ۱)
۱۴۔ پروفیسر سید حسن
پروفیسر سید حسن فارسی کے مشہور فاضل تھے۔والد کا نام سید محمد یحییٰ اور آبائی وطن شہر شیخ پورہ تھا ،اور امہرہ ضلع لکھی سرائے سے بھی تعلق تھا،۱۹۰۸ میں ان کی ولادت ہوئی ۔۱۹۲۷ میں میٹریکولیشن کےامتحان میں پورے بہار میں اول درجہ حاصل کیا پھر پٹنہ کالج سے بی اے اور پٹنہ یونیورسٹی سے ایم اے اردو پھر ایم اے فارسی میں طلائی تمغہ کے ساتھ نمایاں کامیابی حاصل کی ،پھر کچھ دنوں رانچی میں ملازمت کی اس کے بعد پٹنہ کالج میں فارسی کے استاد ہوگئے ،ایک دو سال کے بعد حکومت ہند کے وظیفہ پر فارسی زبان وادب میں اختصاص کے لئے ایران گئے ،اور تہران میں ایک سال گذار کر اس میں قدیم وجدید زبان میں مہارت حاصل کی پھر پٹنہ آکر آپنی سرگرمیوں میں مشغول ہوگئے ۔یہاں ایک طویل مدت تک ادارہ تحقیقات عربی وفارسی کے استاد پھر اس کے مدیر ہوئے اور اس ادارہ کو فروغ دیا ،دسیوں علمی کتابیں اور قدیم مخطوطے اپنی تحقیق سے شائع کئے ،اس کے بعدشعبہ فارسی پٹنہ یونیورسٹی کے صدر رہے۔ملازمت سے سکبدوشی کے بعد بھی علمی کاموں میں مشغول رہے۔ ۱۸ نومبر ۱۹۹۸مطابق ۲۸ رجب ۱۴۱۹ھ کو پٹنہ ہی میں وفات پائی ۔دیوان صائن ہروی اور دیوان مظفر کی تدوین کے علاوہ پچاسوں علمی مقالات ان کی یادگار ہیں۔(تفصیلی حالات وخدمات کے لئے دیکھئے ،حسن نامہ از ڈاکٹر اشرف ،پٹنہ،عظیم آبادکے فارسی اساتذہ از رضوان اللہ آوری ،پٹنہ ۲۰۲۲)
۱۵۔ مولاناابومحفوظ الکریم معصومی
مولانا ابو محفوظ الکریم معصومی نامور عالم ،محدث ومحقق اور عربی کے فاضل تھے۔والد کا نام امیرحسن تھا ،بہارشریف شہر کا محلہ مہوا ٹولہ ان کا آبائی وطن تھا جہاں ۱۹۳۱ میں ان کی ولادت ہوئی ،مدرسہ عالیہ کلکتہ میں تعلیم کی تکمیل کی ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے کیا ،پھر مدرسہ عالیہ میں استاد ہوگئے ،اور تازندگی اسی خدمت میں مشغول رہے ،ان کی شخصیت کا نمایاں وصف علم وتحقیق کی گہرائی اور عربی ،اردو اور انگریزی زبانوں میں ان کے علمی مقالات ورسائل ہیں،انہوں نے فارسی میں بھی مضامین اور اشعار کہے ہیں ۔ان کے عربی مقالات کا مجموعہ دو جلدوں میں بحوث وتنبیہات کے نام سے شائع ہوچکا ہے ،اردو میں ادبیات کے عنوان سے تحقیقی مقالات کی ایک ضخیم جلد شائع ہوئی ہے۔اردو ،فارسی اور عربی کے نثر وشعر پر پوری قدرت تھی ،کچھ مقالات انگریزی میں بھی لکھے ہیں۔غرض علمی جامعیت ان کی شخصیت کا نمایاں وصف ہے،اور وہ ملک کے مشہورمحقق ہیں۔۲۳جمادی الثانی ۱۴۳۰ھ ۱۶ جون ۲۰۰۹ کو کلکتہ ہی میں وفات پائی۔(حالات کے لئے دیکھئے ان کی اپنی تحریر مشمولہ بحوث وتنبیہات ،نیز ،پروفیسر ابومحفوظ الکریم معصومی، مرتبہ صدرالاسلام بنگال اردو اکیڈمی ،۲۰۱۳ء،کلکتہ)
۱۶۔ ڈاکٹرصغیر حسن معصومی
ڈاکٹر صغیر حسن معصومی جید عالم ومحقق تھے ۔مولانا ابومحفوظ الکریم معصومی کے بڑے بھائی تھے ۔بہارشریف ہی میں ۱۹۱۸ میں ولادت ہوئی ،ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی ،پھر والد کے ساتھ ڈھاکہ چلے گئے ،اور مدرسہ حمادیہ میں والد صاحب ہی سے پوری تعلیم حاصل کی ،پھر علوم مشرقیہ کے امتحانات دئے ،اور انگریزی پڑھی ،اور اس میں کمال حاصل کیا ،اس کے بعد ڈھاکہ یونیورسٹی میں اسلامیات کے استاد مقرر ہوئے ،وہیں سے ۱۹۵۳ میں اوکسفورڈ گئے جہاں ابن باجہ اندلسی کی کتاب النفس کی تحقیق وتدوین کرکے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ،اس کے بعد کراچی آگئے ،وہاں کچھ دن ایک ادارہ میں رہے ،اس کے بعد وہاں کے مشہور علمی ادارہ ادارہ تحقیقات اسلامی سے وابستہ ہوگئے ،اوراردو اور عربی میں کئی اہم مقالات بھی لکھے اور قدیم مخطوطات کی تدوین بھی کی ،پھر اس ادارہ کے ڈائریکٹر ہوئے اور اس کو آگے بڑھایا ،بیرون ملک کے کئی علمی سیمیناروںمیں مدعو کئے گئے۔موصوف بھی علوم اسلامیہ کے ساتھ عربی ،اردو اور انگریزی پر بے تکلف قدرت رکھتے تھے،ان کا اہم کارنامہ کئی قدیم عربی مخطوطات کی ترتیب وتدوین اور تحقیق ہے،مجمع اللغۃ العربیہ دمشق کے رکن بھی رہے ،اور وہاں سے ان کے کئی رسائل شائع ہوئے،۲۸ستمبر۱۹۹۶ ،۱۶ جمادی الاولی ۱۴۱۷ھ کو کراچی ہی میں وفات پائی ۔(تفصیلی حالات کے لئے دیکھئے ،مجلہ مجمع اللغہ العربیہ دمشق۱۴۱۷ھ)
۱۷۔ شاہ عنایت اللہ فردوسی
شاہ عنایت اللہ فردوسی خانقاہ منیر کے سجادہ نشیں تھے ۔ان کے والد کا نام شاہ سعید الدین قادری تھا،نومبر ۱۹۱۱ ء میں منیر ہی میں پیدا ئش ہوئی ،ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی پھر مدرسہ شمس الہدیٰ پٹنہ اور مدرسہ عالیہ کلکتہ میں تکمیل کی ۔اس کے بعد مسند سجادگی پر بیٹھے اور ایک طویل مدت تک وعظ وارشاد کی خدمت انجام دی ۔مریدین کا وسیع حلقہ تھا،مطالعہ میں بھی وسعت تھی،یکم دسمبر ۱۹۹۱ کو وفات پائی۔(مزید تفصیل کے لئے دیکھیں ان کے فرزندمولانا شاہ تقی الدین فردوسی ندوی کی خود نوشت حیاتی،مطبوعہ پٹنہ ۲۰۲۴)
۱۸۔ شاہ صبیح الحق عمادی
شاہ صبیح الحق بن حبیب الحق عمادی پٹنہ کے مشائخ میں تھے،ان کی کی ولادت ۱۹۰۱ء میں ہوئی ،ابتدائی تعلیم اپنے دادشاہ رشید الحق اور والد شاہ حبیب الحق سے حاصل کی ۔ اس کے بعد کچھ سال مدرسہ شمس الہدیٰ پٹنہ میں تعلیم حاصل کی پھر مدرسہ سلیمانیہ پٹنہ سیٹی میں داخلہ لیا،پھر ترک موالات کے زمانہ میں مولانا آزاد سبحانی کے قائم کردہ مدرسہ الٰہیات کانپور میں تعلیم حاصل کی ۔پھر وطن واپس آئے ،اپنے والد کے انتقال کے بعد ۱۹۴۲ء میں خانقاہ عمادیہ پٹنہ کے سجادہ نشیں ہوئے ۔فارسی واردو شعر وادب اور صوفیاء کے اقوال وملفوظات پر وسیع نظر تھی ۔۱۶جمادی الاول ۱۴۰۵ھ مطابق ۷ فروری۱۹۸۵ء کو وفات پائی اوراپنے آبائی قبرستان لعل میاں کی درگاہ پھلواری شریف میں دفن ہوئے ۔(حالات کے لئے دیکھئے نقوش صبیح از متین عمادی)
۱۹۔ حضرت شاہ امان اللہ قادری
حضرت شاہ امان اللہ عظیم آباد کے ممتا ز بزرگوں میں ہیں ، ایک طویل مدت خانقاہ مجیبیہ کی مسند ارشاد ان کے وجود سے آراستہ رہی ۔امیرشریعت ثانی مولانا شاہ محی الدین صاحب کے فرزند ارجمندتھے ۔۸محرم الحرام ۱۳۴۰ھ مطابق ۴ستمبر ۱۹۲۱ء کو پھلواری شریف میں ولادت ہوئی ،ابتدائی تعلیم وطن میں حاصل کی ،اس کے بعد کچھ دن الہ آباد پھر مدرسہ قیدیمیہ فرنگی محل میں اپنے استاد کے ساتھ رہےاور ا سے استفادہ کرتے رہے ،لکھنؤ ہی میں تجوید وقراءت کی بھی سند لی ،پھر ان کے استاد اجمیر منتقل ہوگئے تو وہاں چند سال رہ کر تعلیم کی تکمیل کی۔اس کے بعد وطن واپس آئے اور اپنی خانقاہ مجیبیہ ہی میں درس وتدریس کی خدمت انجام دینے لگے اور حدیث کی اعلی درجات کی کتابیں بھی پڑھائیں۔پھر اپنے والد حضرت شاہ محی الدین قادری کی وفات کے بعد ان کی سجادہ نشینی ہوئی جس کے بعد انہوں نےپوری زندگی وعظ وارشاد ،تعلیم وتدریس ،اورتصنیف وتالیف میں گذاری۔قومی وملی کاموں میں بھی پوری طرح شریک رہے ۔۲۶ شعبان ۱۴۰۵ھ اپریل ۱۹۸۵ کو وفات پائی ۔(تفصیلی حالات کے لئے دیکھئے سوانح حضرت مولانا سید شاہ امان اللہ قادری ،از مولانا شاہ ہلال احمد قادری۔)
۲۰ ۔ شاہ سلیم الدین منعمی
خانقاہ منعمیہ میتن گھاٹ پٹنہ کے سجادہ نشیں تھے۔والد کا نام منظوراحمد منعمی تھا ،تقریباً ۱۹۳۵ میں ان کی ولادت خانقاہ ہی میں ہوئی ،تعلیم کے مراحل وہیں طے کئے ،اور والد کی زندگی ہی میں خانقاہ کا نظم ونسق سنبھالا ،پھر والد کی زندگی ہی میں ۱۳۹۸ھ میں وہ صاحب سجادہ بھی ہوگئے اور تا حیات لوگوں کو مستفید کرتے رہے ،ان کے دور سجادگی میں خانقاہ نے ترقی کی اور اس کی شہرت دور تک پہنچی ۔مسند ارشاد پر طویل عرصہ تک فائز رہ کر۲۷ربیع الاول۱۴۱۹ھ مطابق ۲۲جولائی ۱۹۹۸میں انہوں نے وفات پائی اور خانقاہ ہی کے احاطہ میں دفن ہوئے ۔(مزید دیکھئے ناموران عظیم آباد)
(جاری)