ڈاکٹر تابش مہدی کی یاد میں
معصوم مرادآبادی
شعروادب کی پاکیزہ شخصیت ڈاکٹر تابش مہدی بھی ہم سے جدا ہوگئے۔ان کی طبیعت کافی دنوں سے ناساز تھی مگر وہ اپنی ہمت اور مومنانہ صفات کے بل پر بیماریوں کو شکست دے رہے تھے، لیکن یہ سلسلہ زیادہ دنوں تک نہیں چلا اور آخر 22 جنوری 2025کی صبح انھوں نے دہلی کے ایک اسپتال میں داعی اجل کو لبیک کہا۔ان کے انتقال کی خبر جہاں جہاں تک پہنچی وہاں لوگوں نے اس پر رنج وغم کا اظہار ہی نہیں بلکہ علم وادب کی دنیا میں اندھیرے کے بڑھنے کا احساس بھی کیا۔ ایک ایسے دور میں جبکہ شاعروں کے مقابلے میں متشاعروں کی بن آئی ہے اور اہل علم وفن کی بجائے جوڑتوڑ کرنے والوں کو مسندیں عطا کی جارہی ہیں، ڈاکٹر تابش مہدی کی شخصیت ایک جزیرے کی مانند تھی۔ وہ اپنی تمام تر علمی و ادبی صلاحیتوں کے ساتھ ایک گوشے میں بیٹھ کر تماشائے اہل کرم دیکھ رہے تھے۔انھوں نے شہرت، دولت یا رتبہ حاصل کرنے کے لیے ان اعلیٰ معیاروں سے کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا، جنھیں انھوں نے ابتدائی زندگی میں اپنالیا تھا۔وہ اپنے قلندرانہ اوصاف کے ساتھ شعروداب کی دنیا میں زندہ رہے۔بقول خود
خطا میں نے کوئی بھاری نہیں کی
امیر شہر سے یاری نہیں کی
کسی منصب کسی عہدے کی خاطر
کوئی تدبیر بازاری نہیں کی

تابش مہدی کے ظاہر وباطن میں کوئی فرق نہیں تھا۔ انھوں نے کبھی دوہری زندگی کو منہ نہیں لگایا اور ہمیشہ صراط مستقیم کو ہی پیش نظر رکھا۔ کوئی دنیاوی منفعت اور ترقی ان کا مطمح نظر نہیں رہی۔ وہ ساری عمر چھوٹے چھوٹے اور گمنام اداروں کی آبیاری کرتے رہے اور کبھی بڑے اداروں سے وابستہ ہوکر اپنا مصنوعی قد بلند کرنے کی کوشش نہیں کی۔ان کی شاعری ہی نہیں بلکہ وضع قطع اور بودوباش بھی پوری طرح اعلیٰ انسانی اور اخلاقی سانچوں میں ڈھلی ہوئی تھی۔انھوں نے کبھی اپنے بنیادی مشرب سے انحراف نہیں کیا اور سستی شہرت سے دور بھاگتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی موت کے بعد ہی بیشتر لوگوں کو یہ علم ہوسکا کہ انھوں نے کتنی اہم علمی اور ادبی خدمات انجام دیں۔ انھوں نے نہ تو دوسروں کی طرح اپنے علم کی نمائش کی اور نہ ہی کسی کو اپنی مدح سرائی پر مجبور کیا۔ انھوں نے سیکڑوں آدمیوں کی ذہنی تربیت کرکے انھیں انسان بنایا۔
ڈاکٹر تابش مہدی سے میری ملاقاتیں کم ہی ہوتی تھیں، لیکن جب بھی ملتے تو بڑی شفقت اور محبت کا سلوک کرتے تھے۔ مجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ میں ہمہ وقت ان کی دعاؤں میں شامل ہوں۔ انتقال سے دو ماہ قبل انھوں نے بستر علالت سے مجھے جو مختصر خط لکھا تھا، وہ ان کے مشفقانہ اور محبانہ کردار کا ثبوت ہے۔یہ خط انھوں نے معروف شاعر رفعت سروش پر میرا ایک مضمون پڑھ کر لکھا تھا۔ میں نے اس خط کے جواب میں اظہارتشکر کرتے ہوئے ان سے جلد ہی ملاقات کی خواہش ظاہر کی تھی۔ ایک دن اس مقصد سے اوکھلا پہنچ کر فون بھی کیا، لیکن دیر تک گھنٹی بجتی رہی اور میں مایوس واپس آیا۔ انھوں نے مجھے جو خط لکھا تھا، اسے یہاں نقل کرنا چاہتا ہوں۔ملاحظہ فرمائیں۔
”برادرمکرم معصوم صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج مشفقی وممدوحی رفعت سروش مرحوم کی تاریخ وفات سے متعلق آپ کی مختصر مگر پرمغز تحریرپڑھی۔آپ کی اس نوعیت کی تحریریں ’علم وکتاب‘گروپ اور دوسرے ذرائع سے مستقل نگاہ سے گزرتی رہتی ہیں۔ بہت اچھی لگتی ہیں۔آپ کی درازی عمر اور دونوں جہان کی ترقی درجات کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے۔ یہ تمنا رہ رہ کر ابھرتی ہے کہ آپ مجھ سے بہت بعد تک اس دنیا میں رہیں۔ اس میں میری غرض بھی شامل ہے۔
آپ سے ملاقات کا اشتیاق ہے۔ دیکھئے کب تکمیل کو پہنچتا ہے۔والسلام
طالب دعا،آپ کا اپنا
تابش مہدی
یکم دسمبر 2024“
انھوں نے اس خط میں مجھے اپنے بہت بعد تک زندہ رہنے کی جو دعا دی ہے، اس کا مفہوم آپ سمجھ سکتے ہیں۔ میں اس کا اہل تو نہیں تھا کہ ان جیسی بلند شخصیت پر قلم اٹھاؤں، لیکن میرے اوپر ان کا یہ حق ضرور تھا کہ میں انھیں ان کے شایان شان خراج عقیدت پیش کروں۔ یہ الفاظ اسی تقاضے کے تحت لکھے جارہے ہیں۔
جس وقت مجھے ان کے انتقال کی خبر ملی تو میں مدینہ منورہ میں اسی روضہ رسولؐ کے روبرو تھا، جس کو محور میں رکھ کر انھوں نے نعتیہ شاعری کا جہاں آباد کیا تھا۔ یوں تو وہ ادب کی سبھی اصناف میں طاق تھے، لیکن ان کی نعتیں لوگوں کے دلوں پر براہ راست اثر کرتی تھیں۔ وہ جب بہترین ترنم کے ساتھ نعت سناتے تو لوگوں کو اپنے کانوں میں شہد کے گھلنے کا احساس ہوتا تھا اور ان سے بار بار سننے کی فرمائش کی جاتی تھی۔ان کے ترنم میں بھی ایک خاص قسم کا سوز اور ساز تھا۔
پئے ذکر نبی میں لب جو کھولوں
زباں کو مشک سے عنبر سے دھولوں
سناؤں نعت اہل بزم تم کو
تمہارے کان میں بھی شہد گھولوں
بلاشبہ ان کی زبان مشک اور عنبر سے دھلی ہوئی تھی اور وہ سامعین کے کانوں میں شہد گھولتے تھے۔وہ بہترین زبان داں اور ا س کی باریکیوں کے شناور تھے۔ان کو اردو زبان پر جو قدرت حاصل تھی، وہ ہمارے عہد کے بہت کم شاعروں و ادیبوں کو حاصل ہے۔پروفیسر محسن عثمانی نے انھیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے درست ہی لکھا ہے کہ
”وہ فن قرات کے ایک ممتاز عالم تھے اور اسی کے ساتھ زبان وادب پر ان کو غیر معمولی قدرت حاصل تھی۔ صحیح لفظ کیا ہے اور لفظ کا املا کیا ہے؟ ان چیزوں پر انھیں ماہرانہ قدرت حاصل تھی۔ کسی لفظ کا صحیح استعمال کیا ہونا چاہئے اور لوگ لکھنے میں کیا کیا غلطیاں کرتے ہیں، اس کا جاننے والا اور بتانے والا رخصت ہوگیا۔ اچھے اچھے صاحب قلم ڈاکٹر تابش مہدی سے مشورہ کرتے تھے۔ الفاظ اور جملوں کی بناوٹ کے بارے میں ان کی رائے جاننا چاہتے تھے۔“(روزنامہ ’انقلاب‘ نئی دہلی،26/دسمبر 2025)
ڈاکٹر تابش مہدی منفرد لب و لہجے کے شاعر تھے، لیکن شاعری کی دنیا میں ان کی وہ پوچھ گچھ نہیں تھی جو آج کے سطحی شاعروں کی ہوتی ہے، ہوتی بھی کیوں کہ انھوں نے شاعری کے اعلیٰ معیاروں سے کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اور ہمیشہ اس کا آہنگ بلند رکھا۔ کسی توڑجوڑ اور تگڑم کے بغیر انھوں نے شعروادب کی دنیا میں اپنا سکہ چلایا اور ان دلوں پر حکمرانی کی جو محبت کے لیے مخصوص ہوتے ہیں۔انھوں نے1970کی دہائی میں جب دنیائے شعر وسخن میں قدم رکھا تھا، اس وقت نشور واحدی، خاموش غازی پوری اور میکش غازی پوری جیسے شاعروں کے عرو ج کا زمانہ تھا، جن سے سامعین متاثر ہوتے تھے اور بہت کچھ سیکھتے تھے، لیکن اس کے بعد کچھ یوں ہوا کہ شعراء سامعین کی سطح پر آکر اپنا کلام پیش کرنے لگے۔ یعنی پہلے شعراء سامعین کی ذہنی اور شعوری تربیت کرتے تھے لیکن اس کے بعد معاملہ برعکس ہوگیا۔
تابش مہدی نے اپنی زندگی میں پچاس سے زائد کتابیں تخلیق کیں۔ ان میں بیشتر تحقیق، تنقید، تصوف،تاریخ اور شاعری پر ہیں۔ان کا سب سے بڑا وصف حمدیہ اور نعتیہ شاعری تھا۔ان کے13/شعری مجموعوں میں چھ مجموعے نعتیہ شاعری پر ہیں۔ انھیں اس بات کا گلہ تھا کہ ہندوستان میں حمدیہ اور نعتیہ شاعری کو اہمیت نہیں ملی، لیکن پڑوسی ملک میں ایسا نہیں ہوا۔ انھوں نے ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ آج شاعری کی قدردانی پوری دنیا میں ہورہی ہے۔ بیرونی ملکوں میں لوگ شاعری کی سطح پر شعر سنتے ہیں، لیکن ہندوستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں سامعین شعراء کو اپنی سطح پر لانا چاہتے ہیں۔ وہ آن لائن مشاعروں کو بھی اردو کے حق میں مضر سمجھتے تھے۔
تابش مہدی کی شخصیت پوری طرح اسلام کے سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی۔ وہ ادب اسلامی کے پیروکارتھے۔ مقصدی ادب اور تعمیری شاعری کے ذریعہ انھوں نے اپنا علمی وادبی سفر پورا کیا۔یہ کیسا المیہ ہے کہ ہم ایسے لوگوں کی ان کی زندگی میں قدر نہیں کرتے جو صراط مستقیم پر چلتے ہیں اور اپنی راہیں تبدیل نہیں کرتے۔ عقیدہ صنفی کے ساتھ زندہ رہنا واقعی اس دور میں بڑے جگرے کا کام ہے اور یہ کام وہی لوگ انجام دے سکتے ہیں، جن کی فکر سلامت ہو اور جو دنیا سے زیادہ دین سے رغبت رکھتے ہوں۔ان کی عقیدہ صنفی کے حوالے سے چند اشعار پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ آپ کو ان کی قلندرانہ صفات کا اندازہ ہوسکے۔
بلا سے مرتبے اونچے نہ رکھنا
کسی دربار سے رشتہ نہ رکھنا
اگر پھولوں کی خواہش ہے تو سن لو
کسی کی راہ میں کانٹے نہ رکھنا
میرے عیبوں کو گنوایا تو سب نے
کسی نے میری غمخواری نہیں کی
میرے شعروں میں کیا تاثیر ہوتی
کبھی میں نے اداکاری نہیں کی
ڈاکٹرتابش مہدی نے اسلامی فکر اور اسلامی اقدار کو اپنی تخلیقی قوتوں کا محور بنایا اور اپنی شعری صلاحیتوں کو فروغ دیا۔ ان کی وضع قطع اور بودوباش پوری طرح اسلامی تعلیمات کے سانچوں میں ڈھلی ہوئی تھی۔شعر وادب کے بارے میں ان کا نقطہ نظر بڑا تعمیری تھا۔انھوں نے اپنی کتاب ”مشک غزالاں“ کے دیباچے میں اپنا پورا ادبی منشور خوبصورت پیرائے میں بیان کردیا ہے۔ یہ کتاب2014 میں منظرعام پر آئی تھی۔وہ اعلیٰ ادبی قدروں کے علمبردار تھے اور شعروادب میں کسی ’ازم‘ کے طرف دار نہیں تھے بلکہ فن کی بالاتری اور اخلاقی وروحانی احساسات پر پر اصرار کرتے تھے۔وہ لکھتے ہیں:
”میں نے ہمیشہ شاعری میں فن کی بالاتری پر اصرار کیا ہے۔ میں ادب میں یاشاعری میں کسی تعصب، تحزب یا گروہ بندی کا قائل نہیں ہوں۔ میں شاعری یاادب میں اخلاقی وروحانی احساسات کا احترام کرتا ہوں، لیکن اسے کسی تحریک اور مکتب فکر یاکسی مذہب،تاریخ، فلسفے یا سیاست کے لیے مختص کرنا یا اس کا دم چھلا بنانا میرے نزدیک شعر وادب کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے۔ میں شاعری میں خیال وفکر کی اہمیت وعظمت کا معترف ہوں، لیکن اس کے ہیئتی حسن کو معنی وخیال کے حسن پر فوقیت دیتا ہوں۔“
سبھی جانتے ہیں کہ ڈاکٹر تابش مہدی کا ذہنی میلان جماعت اسلامی کی طرف تھا، لیکن شعر وادب کے معاملے میں وہ قطعی طورپر فن کی بالا تری پر مصر تھے اور یہی ان کے ایک بلند آہنگ فن کار ہونے کی دلیل ہے۔ اس معاملے میں ان کا نقطہ نظر بڑا واضح اور دوٹوک تھا۔وہ آگے لکھتے ہیں:
”ادب سے جو نظریہ خیروشر ابھرتا ہے، وہ اس کا اپنا مخصوص نظریہ ہوتا ہے۔ اس کا یہ نظریہ خواہ کسی بھی مذہب یا مکتب فکر سے ہم آہنگ ہو اور ہوبھی سکتا ہے، لیکن اسے کسی کا ترجمان نہیں کہا جاسکتا۔ جب ادب کا رشتہ فطرت کی صداقتوں اور کائنات کے حقائق سے ہے تو ہر دور کے ذہن وفکر پر اس کی حکمرانی رہے گی۔“
موجودہ دور میں ادب کی ناقدری اور زبان وبیان کی سطح پر ہونے والی بے اعتدالیوں اور ناہمواریوں سے بھی وہ خاصے خائف نظر آتے ہیں۔ ”مشک غزالاں“ کے دیباچے میں وہ آگے چل کرلکھتے ہیں کہ:
”اچھا ادب یا اچھی اور بڑی شاعری وہی ہے، جس میں زبان وبیان کا رکھ رکھاؤ، شعری وادبی قدروں کی پاسداری اور فنی عروض والتزام موجود ہو۔ ادھر گزشتہ کچھ دہائیوں سے شاعری کے نام سے جو چیز پیش کی جارہی ہے، اس میں اس طرف شدید بے توجہی مل رہی ہے۔ فنی اور فکری دونوں سطحوں پر شاعری کے نام پر غیر شاعری ہورہی ہے۔ ہماری موجودہ تنقید کا بڑا المیہ یہ ہے کہ ان میں بڑی تعداد ایسے ناقدوں کی ہے جو نہ شاعر یا تخلیق کار ہیں اور نہ انھیں شاعری کے فنی ولسانی آداب معلوم ہیں۔“
ڈاکٹر تابش مہدی نے شعروادب کے بارے میں اپنا جو نقطہ نظر پیش کیا ہے، وہ انھیں ایک بے مثال فن کار کے طورپر پیش کرتا ہے۔ ان کے بلندوبالا ادبی اور شعری نظریات انھیں عظیم فن کاروں کی صف میں شامل کرتے ہیں۔انھوں نے دل کو جلاکر اندھیروں کو دور کرنے کا ہنرخود ایجاد کیا تھا۔ بقول خود
تمام عمر اندھیروں سے میری جنگ رہی
بجھا چراغ تو دل کو جلالیا میں نے