ڈاکٹر رضیہ حامد : اردو کی بے لوث خادم

معصوم مرادآبادی

اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ اس وقت ملک میں اردو زبان وتہذیب کی سب سے نمائندہ خاتون کون ہیں تومیں بلا تردد ڈاکٹر رضیہ حامد کا نام لوں گا۔ انھوں نے وسائل کی شدید قلت کے باوجود جو علمی وادبی کارنامے انجام دئیے ہیں، وہ کسی ادارے کی خدمات سے بھی بڑھ کر ہیں۔نہ صرف یہ کہ انھوں نے مختلف اور متنوع موضوعات پر دودرجن سے زیادہ کتابیں تصنیف کیں بلکہ اپنے سہ ماہی جریدے ”فکر وآگہی“ کے ایسے وقیع اور ضخیم نمبر شائع کئے کہ کوئی ان کی ہمسری نہیں کرسکا۔آج ان کا یوم پیدائش ہے اور اسی حوالے سے میں ان کا تذکرہ کرنے بیٹھا ہوں۔ کئی بار سوچا کہ اپنی انتہائی مشفق ومہربان ڈاکٹر رضیہ حامد کے علمی، ادبی اور اشاعتی کارناموں سے آپ کو متعارف کراؤں مگر ہر بار کوئی عذر درپیش ہوا اور میں اس کو ٹالتا رہا، لیکن آج میں نے ان کے یوم ولادت (یکم ستمبر)کے حوالے سے تہیہ کیا کہ ضرور ان کی علمی، ادبی اور اشاعتی خدمات پر کچھ لکھوں گا۔

ڈاکٹر رضیہ حامد : اردو کی بے لوث خادم
ڈاکٹر رضیہ حامد : اردو کی بے لوث خادم

ڈاکٹر رضیہ حامد بھوپال میں پیدا ہوئیں۔ ان کی شخصیت میں بھی وہی قدرتی حسن اور آرائش ہے جو بھوپال شہر کا خاصہ ہے۔ بھوپال قدرتی حسن کے ساتھ مسجدوں کا بھی شہر ہے۔ یہاں 365 مسجدیں ہیں اور کہا جاتا ہے کہ تمام مسجدوں کو دیکھنے کے لیے سال کے 365 دن درکار ہیں۔بھوپال کے لوگوں کی زبان میں جو لوچ اور اپنائیت ہے وہ مجھے کم شہروں میں نظر آئی۔یہاں کے تالاب اپنی شفافیت اور روانی کے لیے مشہور ہیں۔ وہی شفافیت اور روانی مجھے ڈاکٹررضیہ حامد کی شخصیت میں بھی نظر آتی ہے۔ وہ شرافت ومروت اورتہذیب و شائستگی کا مرکب ہیں۔ ان کی گفتار میں وہ جادو ہے کہ جو کوئی ان سے ملتا ہے، ان کا گرویدہ ہوجاتا ہے۔

گزشتہ دنوں ڈاکٹر رضیہ حامد کا بھوپال سے فون آیا کہ ”تم دو دن کے لیے بھوپال چلے آؤ۔ ’فکر آگہی‘ کا خطاطی نمبر شائع کررہی ہوں اور اس میں خطاطی کے فن پاروں کو شامل اشاعت کرنے سے پہلے تمہیں دکھانا چاہتی ہوں۔“میں آپ کو بتاتا چلوں کہ وہ فن خطاطی کی دلدادہ ہیں اور ان سے میری پہلی ملاقات اب سے کوئی 45 برس پہلے اسی فن کے حوالے سے ہوئی تھی۔ یہ1980 کا سنہ تھا جب میں نئی دہلی کی غالب اکیڈمی میں مایہ ناز خطاط خلیق ٹونکی کی کلاس میں آرائشی خطاطی سیکھ رہا تھا۔ ایک دن ہماری کلاس میں ایک بڑی نستعلیق شخصیت کی آمد ہوئی۔یہ تھیں ڈاکٹر رضیہ حامد تھیں جو اپنے کسی کام کے سلسلہ میں استاذی خلیق ٹونکی کے پاس آئی تھیں۔اس زمانے میں ڈاکٹر رضیہ حامد اپنے شوہر ڈاکٹر ایس ایم حامد کے ساتھ دہلی سے متصل نوئڈا میں مقیم تھیں۔ ان کے شوہر بی ایچ ای ایل میں برسرکار تھے اور اسی کی رہائشی کالونی میں رہتے تھے، لیکن دہلی کی کوئی ادبی تقریب ایسی نہیں تھی جس میں شام کو ڈاکٹر رضیہ حامد او ران کے شوہر شریک نہ ہوتے ہوں۔ اس لیے دہلی کے علمی وادبی حلقوں سے ان کی اچھی شناسائی تھی۔مجھے یاد ہے کہ میں نے1987میں مشہور شاعر ڈاکٹر بشیر بدر کا انٹرویوان ہی کے گھر پرلیا تھا۔ اسی زمانے میں ڈاکٹر رضیہ حامد کی چھوٹی بہن ڈاکٹر راحت بدر کی شادی بشیر بدر سے ہوئی تھی۔ بشیر بدر میرٹھ میں رہتے تھے اور وہاں 1987کے فساد میں ان کا گھر نذرآتش کردیا گیا تھا۔ ڈاکٹر راحت بدر سے شادی کے بعد وہ بھوپال منتقل ہوگئے اورکافی عرصے سے ڈیمنشیا کا شکار ہوکر صاحب فراش ہیں اور ڈاکٹر راحت بدر ان کی خدمت کرتی ہیں۔

ڈاکٹر رضیہ حامد کی پیدائش یکم ستمبر 1946 کو بھوپال میں ہوئی۔وہ اس وقت عمر کی 79بہاریں دیکھ چکی ہیں، لیکن اس پیرانہ سالی میں بھی علم وادب کی خدمت میں مشغول ہیں۔ ہاں ان کی سماعت ضرور کمزور ہوگئی ہے اور اب ان سے واٹس ایپ کے ذریعہ لکھ کر گفتگو کرنی پڑتی ہے۔میں نے گزشتہ 45 برس کے دوران انھیں بہت قریب سے دیکھا ہے۔ میں ان کی محبتوں اور شفقتوں کا مقروض ہوں۔ اسی قرض کو اتارنے اگلے ہفتہ بھوپال جانے کا پروگرام ہے، جہاں ’فکروآگہی‘ کے خطاطی نمبر کے لیے مجھے نمونوں کا انتخاب کرنا ہے۔ وہ نہ جانے کیوں میری خطاطی شناسی سے اتنی متاثر ہیں، جبکہ برسوں پہلے میں اسے چھوڑ چکا ہوں۔ مگر یہ بھی تو حقیقت ہے کہ میں نے اس فن کو بڑی محنت اور جانفشانی سے سیکھا تھا، لیکن درمیان میں ہی صحافت نے مجھے اچک لیا اور میں اسی کا ہوگیا۔

ڈاکٹر رضیہ حامد کا تعلیمی کیریر بڑاروشن ہے۔ وہ چاہتیں تو پی ایچ ڈی کرنے کے بعد کسی کالج یا یونیورسٹی میں درس وتدریس سے وابستہ ہوکر آرام کی زندگی گزارتیں اور لاکھوں روپے کماتیں، لیکن انھوں نے اپنے لیے ایک مشکل راستے کا انتخاب کیا اور وہ راستہ تھا اردو زبان کی بے لوث خدمت کا ، جس پر وہ آج تک گامزن ہیں۔ انھوں نے 1969میں اجین کی وکرم یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد 1972میں بھوپال یونیورسٹی سے پہلے عربی میں اور پھر 1983میں جامعہ ملیہ اسلامیہ سے اردو میں ایم اے کیا۔ پھر انھوں نے دوبارہ بھوپال یونیورسٹی کا رخ کیا اور وہاں سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔خاص بات یہ ہے کہ انھوں نے اپنے علم کو کسب معاش کا ذریعہ کبھی نہیں بنایا۔ ان کی مطبوعہ کتابوں میں ’نواب صدیق حسن خاں‘’لمحوں کا سفر‘’بشیربدر:فن وشخصیت‘’رفعت سروش:شخصیت اور فن، اوپیرا نگاری،نقوش بھوپال، علی گڑھ میرا چمن، بھوپالی اردو، یادوں کی مہک، نواب سلطان جہاں بیگم، غالب کی حس مزاح، اردو مثنویوں میں مشترکہ ہندوستانی تہذیب کے اثرات، شبلی ایک ہمہ گیر شخصیت اور ’مجھے یاد ہے ذراذرا‘ شامل ہیں۔انھوں نے اپنی بیشتر کتابیں خوداپنے ادارے ’باب العلم پبلی کیشنز، بھوپال‘سے شائع کی ہیں۔

وہ خودعلی گڑھ کی فیض یافتہ نہیں ہیں، لیکن بھوپال کے بعد جو شہران کی رگ رگ میں بسا ہوا ہے وہ علی گڑھ ہی ہے۔ انھوں نے اس موضوع پر جتنا کام کیا ہے، اتنا شاید ہی کسی فردواحد نے کیا ہو۔ مذکورہ کتاب کے علاوہ انھوں نے اپنے جریدے ’فکروآگہی‘ کے جوضخیم نمبر علی گڑھ پر شائع کئے، ان کی تعداد نصف درجن ہے۔ ان میں علی گڑھ نمبر، علی گڑھ میرا چمن، روداد چمن، علی گڑھ تحریک، سرسید احمد خاں نمبرکے علاوہ انھوں نے مسلم یونیورسٹی کی صدسالہ تقریب کے موقع پر تقریباً ایک ہزار صفحات پرمشتمل ’یونیورسٹی نمبر‘ شائع کیا۔ انھوں نے 2017میں سرسید کی دوسوسالہ تقریبات پر سرسید کی شخصیت اور کارناموں پر ایک نمبر شائع کیا تھا۔ان کی کتاب ’مجھے یاد ہے ذرا ذرا‘ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تعلیمی اور اقامتی زندگی کا خوبصورت بیانیہ ہے۔ اگر کوئی علی گڑھ کو سمجھنا چاہتا ہے تو وہ ڈاکٹر رضیہ حامد کی کتابوں سے استفادہ کئے بغیر ایسا نہیں کرسکتا۔انھوں نے اب تک سہ ماہی ’فکر وآگہی‘ کے جو خصوصی نمبر شائع کئے ہیں، ان میں بشیربدر، رفعت سروش، بیکل اتساہی، محمداحمدسبزواری اور اخترسعید خاں کے فن وشخصیت پر خصوصی شماروں کے علاوہ اوپیرا نمبر، بھوپال نمبر شامل ہیں۔ ادبی رسائل میں لاتعدادتحقیقی وتنقیدی مضامین اور افسانے لکھنے کے علاوہ انھوں نے متعدد سیمیناروں اور ادبی سمپوزیموں میں شرکت کی ہے۔ انھیں مغربی بنگال، اترپردیش، مدھیہ پردیش اوربہار کی اردو اکادمیاں انعام واکرام سے نوازچکی ہیں۔اللہ تعالیٰ ان کا سایہ دیر تک قائم رکھیں اور وہ یونہی علم وادب کی بے لوث خدمت انجام دیتی رہیں۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare