ڈاکٹر سید احمد قادری : افسانے سے صحافت تک
ڈاکٹر منصور خوشتر
زندگی کا ہر پل تخلیقی عمل کا محرک ہوتا ہے اور یہ کوئی ضروری نہیں کہ زندگی، جب کسی واقعہ سے روبرو ہوتبھی تخلیق عمل میں آئے۔ اگر کسی کی سوچ ، فکر اور احساس عام آدمی سے ذرا سابھی مختلف ہے تو وہ تخلیقی عمل کے سمندر میں اترتا چلا جاتا ہے۔ ایسی ہی ایک شخصیت آج ہمارے سامنے سید احمد قادری کی ہے۔ انہوں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا اور دھیرے دھیرے صحافت کی حقیقی اور خار دار دنیا میں بستے چلے گئے۔ افسانہ نگاری اور صحافت کو اپناکر اپنی ناموری اور تخلیقی ذہن کو عروج پر پہنچایا۔ انہوں نے بدلتے وقت اور حالات کو اپنی افسانہ نگاری کے اثرات سے مرتب کیا اوراپنی تخلیقی صلاحیتوں سے کام لے کر اپنے مطالعے، مشاہدے اور تجربے سے اپنے افسانوں کو آفاقیت بخشنے میں کامیاب ہوئے ۔صحافت کے طویل سفر میں ان کے سامنے کئی موڑ آئے۔ حالات کی چیرہ دستی اور بڑھتے اندھیرے میں بھی وہ بے خوف ہو کر بھی صحافت کے خاردار راستوںکے مسافر بنے رہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قومی اور بین الا قوامی حالات اور عصری مسائل پرملک اور بیرون ملک کے مختلف اخبار ات میں اپنے کالمو ں اور مضامین میں بے باک ، بے لاگ اور بے خوف انداز بیان سے اپنی خاص پہچان بنانے میں کامیاب ہیں ۔ ساتھ ساتھ ہی وہ بقول کلام حیدری شہر افسانہ نگاری کے معزز شہری بھی بنے ہوئے ہیں۔ تنقیدی مضامین لکھنے کا بھی سلسلہ جاری ہے۔ مشاہیر ادب سے لئے گئے انٹرویوز پر مبنی ایک کتاب ©” مکالمہ” بھی منظر عام پر آ چکی ہے۔ اردو صحافت خاص طور پر بہار کی اردو صحافت پر انھوں نے جو تحقیقی وتنقیدی کارنامہ انجام دیا ہے ،وہ بہار کی اردو صحافت کی شاندار تاریخ کا حصّہ بن چکا ہے۔ بہار کے اردوصحافیوں پر اب تک کوئی باضابطہ کوئی کتاب شائع نہیں ہوئی تھی، انھوں نے یہ اہم کام بھی سر انجام دے کر بہار کے اردو صحافیوں کی ایک تاریخ مرتب کر بڑا کارنامہ انجام دیا ہے، جو ان کے شاندار اور تاریخی کارناموںمیں شمار کئے جانے کے لائق ہے۔ اس طرح ان کی تحریری صلاحیت نمایاں ہوتی رہی ہے اور وقت اور حالات کی تبدیلیوں کے ساتھ تیز رفتار زندگی کا ساتھ دیتی ہے۔

سید احمد قادری اپنے افسانوں ، تنقید اور صحافت کے حوالے سے پوری اردو دنیا میں عزّت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ ان کی ولادت 11ستمبر1954ءکو ریاست بہار کے شہر اورنگ آباد میں ہوئی۔ جہاں سے بی ایس سی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد مگدھ یونیورسیٹی ، بودھ گیا سے بوٹنی میں ایمایس سی اور ڈاکٹریٹ کی اعلیٰ ڈگری لینے کے بعد درس وتدریس میں مشغول ہو گئے ، ساتھ ہی ساتھ ان کا افسانوی، صحافتی، تنقیدی اور تحقیقی سفرکبھی تیز اور کبھی مدھم رفتار سے جاری رہا ۔ ڈاکٹر سید احمد قادری کے اب تک چار افسانوی مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں : (1) ریزہ ریزہ خواب(1985) ، (2) دھوپ کی چادر(1995) ،(3)پانی پرنشان (2006) اور (4) ‘ملبہ’ (2015) ۔
ان افسانوی مجموعوں کے علاوہ ان کی سات تنقیدی کتابیں (1) فن اور فنکار(1986ئ)، (2) افکار نو(1996ئ)،(3) اردو صحافت بہار میں (2003,2016ئ)، (4) شاعر اور شاعری(2007ئ)، (5) افسانہ نگار اور افسانے(2008ئ) (6),اقدار و امکان (2014ئ) اور (7) © ©’ اردو صحافی بہار کے’ ( 2015ئ) منظر عام پرآکر ادبی حلقوں میں پذیرائی حاصل کر چکی ہے۔ ان تمام کتابوںپر بہار اردو اکادمی، اتّر پردیش اردو اکادمی اور مغربی بنگال اردواکادمی اور دیگر کئی اداروں نے قومی سطح پر شائع ہونے والی کتابوں میں انعامات سے نوازا ہے۔
"اردو صحافت بہار میں "ایک ایسی تنقیدی وتحقیقی کتاب ہے ،جسے ڈاکٹر سید احمد قادری نے کےکےبرلا فاو ¿نڈیشن، نئی دہلی کے ذریعہ حاصل ہونے والے فیلو شپ کے تحت لکھی ہے، اس کتاب کو نہ صرف مغربی بنگال اردو اکادمی اور بہار اردو اکادمی نے اوّل انعام دیا بلکہ اسے ریاست بہار کی تمام یونیورسیٹیوں کے ایم اے (اردو)کے نصاب میں بھی شامل کیا گیا ہے۔ڈاکٹر سید احمد قادری نے قومی ،بین الاقوامی سیمیناروں, ریڈیو، ٹیلی ویژنوں کے مباحثوں میں شریک ہوکر اپنے منفرد اظہار و بیان سے اپنی ایک خاص پہچان بنائی ہے۔ انھیں مگدھ یونیورسیٹی کے سینیٹ کا ممبربھی نامزد کیا جا چکا ہے، ساتھ ہی ساتھ یہ بہار اردو اکادمی اور اردو مشاورتی کمیٹی بہار کے ممبر بھی رہ چکے ہیں ۔ انھوں نے انجمن ترقی اردو، بہار کے سکریٹری کی حیثیت سے بھی بہار میں اردو زبان و ادب کے فروغ میں کافی نمایاں رول ادا کیا ہے۔
امریکہ کے دورہ کے دوران ،ان کے اعزاز میں کئی ادبی نشستوں کا اہتمام کیا گیا اور وہاں کے کئی اخبارات میں ان کے انٹرویو بھی شائع ہوئے۔ 29 جون2014ءکو وائس آف امریکہ نے اپنے ایک خصوصی پروگرام "صدا رنگ”میں ڈاکٹر سید احمد قادری کا آدھے گھنٹے کا انٹرویو نشر کیا تھا ۔فرور ی ۶۱۰۲ءکے امریکہ دورہ کے دوران امریکہ کے’ اے ون چینل ‘نے بھی ان سے لیا گیا ایک طویل انٹرویو نشر کیا تھا۔ ڈاکٹر سید احمد قادری کی تخلیقی، تحقیقی، تنقیدی اور صحافتی خدمات کے اعتراف میں ۸۹۹۱ءمیں شیریں اختر کی مرتب کی گئی کتاب”سید احمد قادری:شخصیت اور فن” اور انظراللہ کی مرتب کردہ کتاب "سید احمد قادری بحیثیت افسانہ نگار” ۷۱۰۲ءمیں شائع ہو چکی ہے۔ ان کتابوں سے سید احمد قادری کی خدمات کے اعتراف میں ہیش کئے گئے چند مشاہیر ادب کی آرا ¿ ملاحظہ کریں۔
پروفیسر مناظر ہرگانوی لکھتے ہیں:”متاثر کرنے کی صلاحیت سید احمد قادری میں ضرور ہے کیونکہ ان کی شخصی اور موسمی وجود پر کوئی اثر دیکھنے کو نہیں ملتا ہے ۔ افسانہ نگار ، صحافی اور استاد کی حیثیت سے انہوں نے اپنی شخصیت کو شہرت کی طرف لے جانے میں کامیابی حاصل کی ہے کیونکہ ان کا تفصیلی مطالعہ مختلف ادوار کی الگ الگ تہذیبوں سے روشناس کراتا ہے اور الفاظ کی معنویت کو اخلاقی سطح پر لاکر انہیں ادبی رشتے کے حوالے سے مستحکم بناتا ہے۔ ”
ممتاز ناقد حقانی القاسمی "سید احمد قادری بحیثیت افسانہ نگار ” میں رقمطراز ہیں: ©”سید احمد قادری کے چاروں مجموعوں میں حیات و کائنات کے بیشتر مسائل و موضوعات کا احاطہ کیا ہے۔ آج کی زندگی سے جڑے ہوئے مسائل پر ان کے افسانوں میں قاری کے ذہنوں کو مہمیز اور مرتعش کرتے ہیں ۔ خاص طور پر 9/11کے حوالے سے ان کا افسانہ ملبہ ایک شاہکار افسانہ ہے۔ افسانوں کی قرا ¿ت سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ موضوع اور اسلوب دونوں ہی سطح پر انہوں نے ہم عصر افسانہ نگاروں سے الگ راہ اختیار کرنے کی کوشش کی ہے۔ ”
ڈاکٹر احسان عالم اپنے ایک اہم مضمون میں لکھتے ہیں کہ”ڈاکٹر سید احمد قادری نے بوٹنی میں ایم ایس سی کیا۔ اردو کی دلچسپی نے انہیں اردو دنیا کا ایک معتبر ناقد اور محقق بنادیا۔ تقریباً ایک درجن سے زیادہ ان کی کتابیں شائع ہوکر قارئین کے درمیان داد و تحسین وصول کر چکی ہیں۔”مورچہ”، "آہنگ”، "سہیل”، "عظیم آباد اکسپریس”، "بلٹز”، "جن ستا”، "دینک جاگرن” وغیرہ میں بحیثیت نمائندہ اور مدیر معاون وابستہ رہے ہیں۔ اپنی بہتر کارکردگی کے سبب مختلف اعزازات اور انعامات سے نوازے جاچکا ہیں۔ ان کی پہلی کتاب "ریزہ ریزہ خواب” ۵۸۹۱ءمیں منظر عام پر آئی، جو ان کا پہلا افسانوی تھا ۔ "اردو صحافت بہار میں "۳۰۰۲ء میں منظر عام پر آکر مقبولیت حاصل کر چکی ہے۔ یہ کتاب اپنے موضوع اور مواد کے لحاظ سے ایک حوالہ جاتی کتاب ہے۔ اس میں کئی رسائل، جرائد اور اخبارات پر ناقدانہ نگاہ ڈالی گئی ہے جو حقیقت پر مبنی ہے۔ ”
ڈاکٹر سید احمد قادری کی ایک اہم کتاب ” اردو صحافی بہار کے ” ہے۔ جس میں شامل سو صحافیوں کے تعارف سے بہار کے اردو صحافیوں کی مکمل تفصیل بڑی عرق ریزی کے بعد سامنے آ پائی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ تحقیقی کاموں میںبہت ساری دشواریاں درپیش ہوا کرتی ہیں، جن سے دوران تحقیق گزرنا پڑتا ہے۔ اس کا اعتراف ڈاکٹر سید احمد قادری نے ان الفاظ میں کیا ہے:
"اردو صحافی بہار کے” بظاہر بڑا آسان سا موضوع لگتا ہے ، کم از کم میں نے یہی سمجھا تھا، لیکن جب لکھنے کے لئے مواد کی فراہمی کے لئے تگ و دو شروع ہوئی تو یہ دیکھ کر پسینہ چھوٹ گیا کہ خام مواد باالکل آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اب آٹے میں نمک کی تلاش ، کس قدر دشوار گزار مرحلہ ہے ، اس کا اندازہ ان لوگوں کو زیادہ ہوگا ، جو جان جوکھم میں ڈال کر تحقیق کے سنگلاخ راستوں پر چلتے ہیں، بہر حال ، اس تگ و دو اور تلاش و جستجو میں ، میں کئی بار ہمت ہار بیٹھا، لیکن مجھے کچھ الگ کر گزرنے کا جذبہ اور جنون کام آیا اور نتیجہ سامنے ہے۔” (ص:۷)
اکیسویں صدی کے تناظر میں دیکھا جائے تو سید احمد قادری ذات کی جستجو میں اور ننگی حقیقت کے اظہار میں بلا خوف و ہراس جابجا نظر آتے ہیں جس میں جذبات کی گرمی ہے ، زندگی کی رمق ہے اور باشعور طبیعت کی جولانی ہے۔سید احمد قادری کی صلاحیتوں کا اعتراف عالمی شہرت یافتہ شاعر پروفیسر عبدالمنان طرزی نے بھی اپنے منفرد ،منظوم پیرائے میں کیا ہے۔سید احمد قادری کے چوتھے افسانوی مجموعہ پر اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے پروفیسر طرزی کہتے ہیں:
کیسے کیسے گل کھلاتے سید احمد قادری
لائے "ملبہ” چوتھا اب مجموعہ افسانوی
عام ملبوں سے ہے لیکن حیثیت اس کی جدا
علم و دانش آگہی کا اس میں ہے گوہر دبا
حسب ظرفِ قاری ٹھہرا گوہروں سے اکتساب
دشتِ فن کا ان کے ہر ذرہ ہے مثلِ ماہتاب
لائے پہلے ‘ریزہ ریزہ خواب’ ، ‘چادر دھوپ کی’
اور ‘پانی پر نشاں’ مجموعہ لائے بھی وہی