ڈاکٹر مختار احمد انصاری

معصوم مرادآبادی

ڈاکٹر مختار احمد انصاری (متوفی 10 مئی 1936) کی شخصیت کئی اعتبار سے ممتاز اور متاثر کن ہے۔ وہ ایک مخلص قوم پرست، سچے محب وطن اور اصولوں پر کاربند رہنے والے رہنما تھے۔ وہ جس راستے پر چلے، وہاں اپنے نقوش چھوڑتے چلے گئے۔ وقتی مشکلات اور رکاوٹیں ان کے حوصلوں کے آگے کوئی معنی نہیں رکھتی تھیں۔

ڈاکٹر مختار احمد انصاری
ڈاکٹر مختار احمد انصاری

ڈاکٹرمختار احمد انصاری کی شخصیت گوناگوں اوصاف کی حامل تھی۔ سادگی، انکساری اور رواداری ان کی شخصیت کے جوہر تھے۔ انہوں نے پوری زندگی آزادی کی جدوجہد میں صرف کی اور ہر اس جگہ ڈٹے رہے، جہاں بہتوں کے پاؤں لڑکھڑانے لگتے تھے۔ انہوں نے اپنی محنت، اخلاص اور لگن سے آزادی کی تاریخ پر جو نقوش چھوڑے ہیں، انہیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

تحریک عدم تعاو، تحریک خلافت، رولٹ ایکٹ کی مخالفت، ترکی جانے والے طبی مشن کی قیادت نے انہیں مقبولیت اور اعتبار بخشا۔ وہ انڈین نیشنل کانگریس کے صدر بھی رہے۔ انہوں نے جہاں بھی کام کیا وہاں اپنی کارکردگی اور اخلاص کے گہرے نقوش چھوڑے۔ وہ دوقومی نظریہ کے سخت مخالف تھے۔ ان کی آنکھوں میں ایک سیکولر، متحد اور جمہوری ہندوستان کا خواب تھا، جسے وہ اپنی زندگی میں ہی شرمندہ تعبیر ہوتا دیکھنا چاہتے تھے۔ اس راہ میں وہ مہاتماگاندھی اورجواہر لال نہرو کے ذہنی ہم سفر تھے۔ ان کا قول تھا۔ ”میں صرف انسانی اخوت کو ہی واحد رشتہ تصور کرتا ہوں اور نسل یا مذہب کی بنیاد پر انسانوں کی تقسیم میری نگاہ میں مصنوعی اور من مانی ہے۔“

ڈاکٹر مختار احمد انصاری کی پیدائش، اترپردیش کے مردم خیز خطہ غازی پور کی تحصیل یوسف پور میں 5دسمبر 1880 کو ہوئی تھی۔ ان کے والد جناب عبدالرحمن ضلع بلیا کی تحصیل رسٹرا میں امین کے عہدے پر فائز تھے اور خوشحال زندگی بسر کرتے تھے۔ ان کے والد نے انہیں الٰہ آباد کے میرسینٹرل کالج میں تعلیم کے لئے بھیجا، جہاں انہوں نے انگریزی، ریاضی ٹرگنو میٹری وجیومیٹر، منطق، طبعیات اور کیمیات جیسے مضامین کی تعلیم حاصل کی۔ اپنے بچپن اور نوجوانی میں انہیں اپنے گھر والوں سے بہت محبت اور توجہ ملی۔

1896میں میر کالج سے انٹرمیڈیٹ پاس کرنے کے بعد انہوں نے نظام کالج، حیدرآباد میں داخلہ لیا۔ اسی دوران شمس النساء نامی خاتون سے ان کی شادی ہوئی، جو ایک دیندار اور سماجی کاموں میں دلچسپی رکھنے والی خاتون تھیں۔ 1900 میں ڈاکٹر انصاری نے نظام کالج سے گریجویشن مکمل کیا۔ یہاں کے اساتذہ ان کی محنت اور لگن سے اس درجہ متاثر ہوئے کہ انہیں 1899 میں لندن جاکر طب کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے مقصد سے اسکالر شپ دی گئی۔ 21 برس کی عمر میں وہ لندن روانہ ہوئے۔ وہ سمندرپار کا سفر کرنے والے اپنے خاندان کے پہلے شخص تھے۔ اپنی محنت، لگن اور توجہ سے انہوں نے 1908 میں ڈاکٹر آف میڈیسن اور ماسٹر آف سرجری کی ڈگریاں حاصل کیں۔ یہ ڈگریاں انہیں میڈیکل کالج، ایڈن برگ سے ملیں۔ اس کے فوراًبعد چیرنگ کراس ہاسپٹل میں ریزیڈنٹ میڈیکل آفیسر کی حیثیت سے کام کرنے کے لئے ایڈن برگ سے لندن گئے۔ وہیں لاک اسپتال میں انہوں نے کلینیکل اسسٹنٹ کی حیثیت سے خدمات انجام دیں ـ وہ اس ممتاز عہدے پر پہنچنے والے اولین ہندوستانی تھے۔ اسی دوران لندن میں ان کی ملاقات علامہ اقبال سے ہوئی۔

1910 میں ڈاکٹر انصاری ہندوستان واپس آئے اور کئی برسوں تک پرانی دہلی میں اپنا مطب کیا۔ ان کی تصویر کشی پروفیسر محمد مجیب نے ان کی نامکمل سوانح میں اس طرح کی ہے۔”وہ چوڑے چکلے، متوسط قامت شخص تھے۔ نقوش میں کشش تھی۔ آواز میں جوش اور آہنگ، لیکن پہلی نظر میں جو چیز دیکھنے والوں کو سب سے زیادہ اپنی جانب متوجہ کرتی تھی، وہ تھیں ان کی آنکھیں، اس کے علاوہ شاندار مونچھیں اور گھنے ابرو۔“

سیاست میں ان کی آمد کسی ذاتی مفاد کی خاطر نہیں تھی، بلکہ وہ ملک وقوم کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کو شدت سے محسوس کررہے تھے۔ ابتداء میں ڈاکٹر انصاری مولانا محمد علی جوہر سے بہت متاثر تھے۔ جنگ بلقان نے، جو سلطنت عثمانیہ کے زوال کا سبب بنی، ڈاکٹر انصاری پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ طرابلس پر اٹلی کے حملوں کی خبروں نے انہیں بے چین کردیا۔ جنگ بلقان کے متاثرین کو طبی امداد پہنچانے کے لئے ڈاکٹر انصاری کی قیادت میں ایک طبی مشن 10دسمبر 1912 کو بمبئی سے ترکی روانہ ہوا۔ اس دوران ترکی کے تجربات نے ہی انہیں ہندوستان میں برطانوی تسلط کی شدید مخالفت کی راہ پر ڈال دیا، جو ان کی زندگی کی نمایاں پہچان بنا۔

رولٹ ایکٹ کے خلاف ڈاکٹر انصاری بھی میدان میں اترے۔ یہ ایکٹ انگریز حکومت نے رائے عامہ کو نظرانداز کرتے ہوئے ملک پر جبراً تھوپ دیا تھا۔ 1919 تک انہوں نے رولٹ ایکٹ کے خلاف تحریک میں نمایاں حیثیت حاصل کرلی اور وہ دہلی میں گاندھی جی کے خاص نائب کی حیثیت سے اس تحریک میں شریک رہے۔ انہوں نے دہلی میں ہونے والی ہڑتالوں، احتجاجی جلسوں اور مظاہروں میں نمایاں حصہ لیا۔ وہ 24فروری 1919 کو قائم پہلی ستیہ گرہ سبھا کے اولین صدر تھے اور 7مارچ کو گاندھی جی دہلی آئے تو ستیہ گرہ کا عہد کرنے والوں میں بھی وہ شامل تھے۔ فروری سے اپریل 1919 کے دوران ان کی زبردست کوششوں کے سبب دہلی میں گاندھیائی تحریک کے حق میں زبردست عوامی جوش وخروش پیدا ہوگیا۔ اس موقع پر انگریز حکومت نے انہیں گرفتار کرنے کی بھی کوشش کی۔

بعدازاں ڈاکٹر انصاری نے تحریک خلافت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ انہوں نے خلافت اور کانگریس کی تحریکوں کے لئے عوامی حمایت حاصل کرنے کی غرض سے ضلعی، صوبائی اور کل ہند سطحوں کے جلسوں کی صدارت کی۔ انہوں نے21ستمبر 1921 کو لکھنؤ میں آل انڈیا مسلم کانفرنس منعقد کرنے میں پہل کی۔ 17 اکتوبر 1921کو دہلی میں ”یوم خلافت“ کو کامیاب بنانے میں ڈاکٹر انصاری نے نمایاں رول ادا کیا۔ وہ دہلی میں بے شمار خلافت رضا کاروں کی مالی اعانت کرنے والے اہم ترین شخص اور مقامی خلافت کمیٹی کے بنیادی ستون تھے۔

عدم تعاون کے پروگرام کے تحت حکومت کے امداد یافتہ تعلیمی اداروں کے بائیکاٹ کی اپیل نے ڈاکٹر انصاری کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ جواہر لال نہرو کے ساتھ بنارس گئے، جہاں انہوں نے طلباء کی ایک عدم تعاون کمیٹی تشکیل دینے میں مدد کی۔ یہ کام انہوں نے الٰہ آباد، علی گڑھ اور آگرہ میں انجام دیا۔ انہوں نے دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا اور اسے پروان چڑھانے میں اپنی بہترین صلاحیتیں صرف کیں۔ ڈاکٹر انصاری جامعہ کی شدید ابتری کے زمانے میں اس کے مسیحا ثابت ہوئے۔ امیر جامعہ کی حیثیت سے انہوں نے برسوں اس ادارے کی آبیاری کی۔

ستمبر 1932میں دہلی میں منعقد ہ خصوصی کانگریس اجلاس کی میزبانی کے فرائض ڈاکٹر انصاری نے انجام دیئے۔ اس کی صدارت مولانا آزاد نے کی تھی۔ اس اجلاس میں ایک اہم کمیٹی تشکیل دی گئی، جس میں ڈاکٹر انصاری اور لالہ لاجپت رائے کو بطور رکن شامل کیا گیا۔

16جولائی 1926 کو انہوں نے مسلم لیگ اور خلافت کمیٹی کی محدود سیاست سے علاحدگی اختیار کرکے کانگریس سے وابستگی کا اعلان کیا۔کانگریس استقبالیہ کمیٹی نے 4مارچ 1927 کو ڈاکٹر انصاری کو اپنا 42واں صدر منتخب کرلیا۔ صدر منتخب ہونے کے بعد انہوں نے برسوں پرانی روایت پر عمل کرتے ہوئے ممتاز ہندو اور مسلم لیڈروں کو مدراس میں ہونے والے کانگریس اجلاس میں شرکت کی دعوت دی اور تمام قوم پرست طاقتوں سے، جوکہ عدم تعاون پر یقین رکھنے اور نہ رکھنے والوں میں تقسیم ہوگئی تھیں ازسرنو متحد ہونے کی اپیل کی۔ 10مئی 1936 کو دل کا دورہ پڑنے سے ان کا انتقال ہوا اور جامعہ ملیہ دہلی کے قبرستان (بٹلہ ہاؤس) میں تدفین عمل میں آئی۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare