ہائے کیا لوگ تھے
معصوم مرادآبادی
ہرشہر اور قریہ میں ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کا شمار خواص میں تو نہیں ہوتا لیکن وہ اپنی شخصی خوبیوں اورہنرمندی کی وجہ سے علاحدہ شناخت رکھتے ہیں۔ عام طور پر یہ لوگ کسی تحریر کا عنوان نہیں بن پاتے اور جب بھی کسی شہر کی تاریخ رقم ہوتی ہے تو ان ہی لوگوں کا تذکرہ ہوتا ہے جن کا شمار خواص میں ہوتاہے۔ مرزا احمدعلی شوق نے اپنی کتاب ”تذکرہ کاملان رامپور“ میں ایسے کئی معمولی لوگوں کو شامل کیا ہے جو اپنی غربت اور محرومی کے باوجود ایسی خوبیوں کے مالک تھے جو انھیں معاشرے میں ممتاز مقام عطا کرتی تھیں۔انھوں نے ایک ایسے عام آدمی کاذکر کیا ہے جو قلعہ میں ملازم تھا، لیکن اسے خدمت خلق کا شوق تھا۔ وسائل تھے نہیں۔اس نے عوام الناس کی خدمت کا ایک انوکھا طریقہ ایجاد کیا۔ اپنی ہفتہ واری چھٹی کے دن وہ لوگوں کے گھروں پر دستک دے کر ایسی جوتیاں اور چپل طلب کرتا تھا جو ہر گھر میں بے کار پڑی رہتی ہیں۔اس نے اپنے گھر پر موچی کا سارا سامان جمع کر رکھا تھا۔ اس کی مدد سے ان جوتیوں اور چپلوں کو جمع کرکے وہ انھیں پہننے کے قابل بناتا اور اگلی ہفتہ واری چھٹی کے دن انھیں لے کر سڑک پر نکلتا اور جہاں اسے کوئی غریب آدمی ننگے پاؤں نظر آتا تو وہ اپنے تھیلے میں سے نکال کر اس کے ناپ کی جوتی یا چپل اسے پہننے کے لئے دیتاتھا۔ اس نے تمام زندگی یہ خدمت انجام دی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اکثر غریب لوگوں کے پاس جوتی اور چپل خریدنے کے پیسے نہیں ہوتے تھے اور وہ ننگے پاؤں گھروں سے نکلتے تھے۔ مجھے زیر نظر مضمون لکھنے کی تحریک مرزا احمدعلی شوق کی کتاب ”تذکرہ کاملان رامپور“ سے ملی۔

میں نے اپنے بچپن اور لڑکپن میں مرادآباد میں ایسے کئی غیرمعمولی انسانوں کو دیکھاجو اپنی عادات واطوار اورہنرمندی کی وجہ سے اپنی علاحدہ شناخت رکھتے تھے اور وہ جس محلہ سے بھی گزرتے تو انھیں دیکھنے اور سننے کے لئے بھیڑ جمع ہوجاتی تھی۔آج کی مصروف زندگی میں ایسے لوگوں کا کوئی تصور ہی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ آج نہ لوگوں کے پاس وقت ہے اور نہ وہ ذوق سلیم جس کے سہارے وہ زندگی کو گلزار بنایا کرتے تھے۔ ایسے چند کرداروں کا تذکرہ دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا جنھوں نے گزشتہ صدی کی چھٹی اور ساتویں دہائی میں مرادآباد کے لوگوں کی تفریح طبع کے سامان مہیا کئے تھے۔ میں ایسے چند کرداروں کے تذکرے کے ساتھ اس مضمون کو تمام کروں گا،جنھیں میں نے بچپن میں دیکھا اور ان کی یادیں آج نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود میرا قیمتی سرمایہ ہیں۔
لڈن ڈھنڈورچی
سب سے پہلے ایک ایسے محنت کش انسان کا قصہ جو ہمارے بچپن میں شہر کا سب سے محبوب شخص تھا۔ نام اس کا لڈن (ولد چڑے خاں)تھالیکن کام کی وجہ سے لوگ اسے ڈھنڈورچی کے نام سے یاد کرتے تھے۔یہ محلہ پیرغیب کے رہنے والے تھے۔ محنت کش مزدور تھے۔ صبح کے اوقات میں گزر بسر کے لئے پانوں کے دریبہ سے پچاس ساٹھ کلو کا پانوں کا ٹوکرا سر پہ رکھ کر دیوان کے بازار، امروہہ گیٹ اور بازار گنج میں پانوں کی دکانوں تک پہنچاتے تھے۔ شایدہی کوئی شخص شہر میں ایسا ہو جو پچاس کلوسے زیادہ کا وزن اپنے سر پر ڈھونے کی ہمت رکھتا ہو۔ وزن ڈھونے کی وجہ سے ان کے سر کی کھال اتنی ملائم ہوگئی تھی کہ وہ اسے تین انچ اوپر تک اٹھالیا کرتے تھے۔ اسی طرح اپنے گال بھی وہ دوتین انچ تک کھینچ لینے پر قادرتھے۔ اپنی ان منفرد خصوصیات کی وجہ سے شہر میں ان کی بڑی مقبولیت تھی۔
لڈن ڈھنڈورچی دوپہر کے بعد اپنی مخصوص اداؤں کے ساتھ لوگوں کے کاروبارکو فروغ دینے کے لئے ڈھنڈورا پیٹا کرتے تھے۔ گلے میں گول نگڑیا ڈال کر اسے دوچھوٹی ڈنڈیوں سے پیٹا کرتے تو طبلے کی آواز نکلتی اور آس پاس کے لوگ ان کے گرد جمع ہونا شروع ہوجاتے۔ پہلی فرمائش ان سے سر کی کھال اٹھانے کی ہوتی اور پھر رخساروں کو کھینچنے کی۔ وہ خندہ پیشانی کے ساتھ اس فرمائش کو پورا کرتے اور جب کافی لوگ آس پاس جمع ہوجاتے تو وہ ڈھنڈورہ پیٹتے۔ان کے کچھ جملے جو میری یادداشت میں محفوظ رہ گئے ہیں،آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔
”فلاں محلہ میں آٹے کی نئی چکی لگی ہے، جو بہت باریک اور عمدہ آٹا پیس رہی ہے۔ آپ لوگوں سے درخواست ہے کہ کل سے سب لوگ اپنے اپنے گیہوں اسی چکی پر لے جائیں اوربڑھیا آٹا پسوائیں۔“
”فلاں دن ہاتھی والے مندر پر فلاں فلاں پہلوانوں کے درمیان زوردار دنگل ہوگا۔آپ سبھی لوگ دنگل دیکھنے کیلئے تشریف لائیں۔“
”فلاں میدان میں کوئی صاحب اتنے دنوں سے سائیکل چلارہے ہیں۔ آپ سبھی لوگ وہاں پہنچ کر ان کی ہمت بڑھائیں۔“دانتوں کے کسی نئے منجن یا سرمے کی بھی بپلسٹی کیا کرتے تھے اور اگر کسی کا بچہ کھوجاتا تو اس کا بھی اعلان کرتے۔وغیرہ وغیرہ
لڈن ڈھنڈوچی پیدائشی مسلمان تھے اوروقت ضرورت روزہ نماز بھی کرتے تھے، لیکن انھیں کلمہ پڑھنے سے گریز تھا۔ان کا خیال تھا کہ کلمہ صرف موت کے وقت ہی پڑھا جاتا ہے۔ان کی اس کمزوری کے سبب اکثر لوگ ان سے کلمہ پڑھنے کی فرمائش کرتے تو وہ کہہ کر کنّی کاٹ جاتے تھے کہ ابھی مجھے مرنا نہیں ہے۔ موت کے بعد لوگ قبر میں اتارآتے ہیں اور وہاں کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ قبر میں نہ روشنی ہوتی ہے اور نہ بجلی پانی، میں وہاں کیا کروں گا۔لڈن تقریباً70 برس کی عمر تک یہی کام کرتے رہے۔ اب سے کوئی 25 برس پہلے وفات پائی۔یہ شخص شہر میں اپنی قسم کا اکلوتا انسان تھا۔آج لڈن ڈھنڈورچی منوں مٹی کے نیچے سورہے ہیں اور ان کی صرف یادیں باقی ہیں۔خوش مزاج اور تمیزدار انسان تھے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے
۔
سائیکل چلانے کے شوقین
شہر مرادآباد میں ایک زمانے میں سائیکل سب سے محبوب سواری تھی جو ہم نے اپنے بچپن میں چلانا سیکھی تھی۔ہر کوئی اپنی سائیکل کو اہمیت دیتا تھا۔ بعض لوگ اپنے بیوی بچوں کو بھی سائیکل پر بٹھالیا کرتے تھے۔شہر میں فی گھنٹہ کے حساب سے سائیکل کرائے پر دینے والوں کی سینکڑوں دکانیں تھیں۔ جن کے اندر سائیکل خریدنے کی سکت نہیں ہوتی وہ اپنے کام کرایہ کی سائیکل پر انجام دیتے تھے۔کرایہ بہت معمولی ہوتا تھا۔ان ہی دکانوں پر سائیکلوں کی مرمت کا انتظام بھی ہوتا تھا۔اس شہر میں سائیکل کا ایک اور ہنر بھی میں نے دیکھا جو مجھے کسی دوسرے شہر میں دیکھنے کو نہیں ملا۔سائیکل کے بعض شوقین کسی پارک یا کھلے میدان میں کئی کئی دن مسلسل سائیکل چلاتے رہتے تھے اور یہ سلسلہ چوبیس گھنٹوں جاری رہتا۔ وہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے بھی سائیکل سے نہیں اترتے تھے۔ نہانا دھونا، کپڑے بدلنا اور کھانا پینا بھی سائیکل پر ہی ہوتا تھا۔سائیکل چلانے کے اس منظر کو دیکھنے کے لئے دور دور سے لوگ یہاں آتے تھے۔ اکثر ٹاؤن ہال کے میدان میں سائیکل چلتی تھی۔کہا جاتا ہے کہ 1958 میں میرٹھ کے باشندے افسر خاں نے بے تکان ایک ہفتہ ٹاؤن ہال میں سائیکل چلائی تھی۔شام کو چار بجے سے سات بجے تک سائیکل چلانے کے دوران ہی ان کا نہانا دھونا بھی ہوتا تھا۔ لوگ ان سے اس درجہ متاثر ہوئے کہ شہر کے بڑے بڑے رئیس ان کی خدمت کے لئے وہاں آتے تھے۔ سائیکل مسلسل چلتی رہتی تھی۔ایک روایت یہ بھی ہے کہ انھوں نے سائیکل کی کسی ریس میں ایک لڑکی جیتی تھی۔ٹاؤن ہال کے بعد گلشہید پر واقع تکونہ پارک میں بھی سائیکل چلتی تھی۔ اس پارک کو اب جگر پارک کے نام سے جانا جاتا ہے۔
شہر میں لوگوں کی تفریح طبع کے لئے ہرقسم طریقے اختیار کئے جاتے تھے۔کہا جاتا ہے کہ اسی زمانے میں پرنس روڈ پر واقع کٹارشہید پاورہاؤس کے میدان میں ایک بار بنّے خاں پہلوان اور ایک عورت کے درمیان کُشتی ہوئی تھی اور اس کُشتی کو دیکھنے کے لئے باقاعدہ ٹکٹ تقسیم ہوئے تھے۔ اس مقابلہ میں بنّے خاں پہلوان کو شکست ہوئی، جس سے لوگ بہت لطف اندوز ہوئے۔ لیکن یہ بنیادی طور پر نورا کُشتی تھی جس میں بنّے خاں کا ہارنا پہلے سے طے تھا۔
عوام الناس کی واہ واہی لوٹنے کے لئے لوگ عجیب عجیب قسم کے تجربے کرتے تھے۔شہر کے مشہور تمباکو تاجر محمدہاشم محمدقاسم (امروہہ گیٹ)کے بیٹے نے جامع مسجد کے قریب دریائے گنگا کے کنارے ”تاج محل“ بنایا تھا،جسے تعمیر کے دوران لوگ دیکھنے آتے تھے۔ہم نے بھی اپنے بچپن میں اس کے دیدار کئے تھے۔لیکن اس کی تعمیر مکمل نہیں ہوسکی اور بعد کو ایک کھنڈر کی شکل میں نابود ہوگیا۔
عبداللہ کبابی
مرادآباد اپنی جن خوش ذائقہ غذاؤں کے لئے مشہور ہے ان میں سیخ کباب کو آج بھی بڑی اہمیت حاصل ہے۔انتہائی باریک قیمے کے ان کبابوں کی خوبی یہ ہے کہ انھیں کھانے کے لئے دانتوں کو زحمت نہیں دینا پڑتی۔ نہایت لذیذ قسم کے یہ کباب شہر میں اب نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہیں۔اس قسم کے کبابوں کی ایک مشہور ومعروف دکان طباقیان کے چوراہے پر واقع تھی۔ چھوٹی سی اس دکان کے مالک عبداللہ کبابی تھے جنھیں عرف عام میں لوگ حافظ جی کے نام سے پکارتے تھے۔ شہر میں ان سے زیادہ نفیس کبابی کوئی دوسرا نہیں ہوا۔سابق وزیراعظم لال بہادر شاستری بھی ان کبابوں کے شوقین تھے۔یہ دکان غالباً 1958 میں قائم ہوئی تھی۔شام کے وقت دکان پر کباب کھانے والوں کی بھیڑ لگی رہتی تھی۔اتنی بھیڑ میں حافظ جی اس بات پر نگاہ رکھتے تھے کہ کون پہلے آیا اور کون بعد میں۔ اسی ترتیب سے وہ لوگوں کو کباب پیش کرتے تھے۔ حافظ جی ایک نیک اور باشرع انسان تھے۔ قریش برادری سے ان کا تعلق تھا۔ان کے معیار کا کوئی دوسراکبابی شہر میں پیدا نہیں ہوا۔اپنی نیکی اور شرافت کی وجہ سے بھی لوگ انھیں یاد کرتے ہیں۔بعدکومحلہ کھوکھران میں گوشت کے تاجر راحت جان نے ضرور کبابوں میں نام کمایا اور دہلی و بمبئی تک بڑی دعوتوں میں بلائے جاتے تھے۔ ایک دن راحت جان کو کسی نے عبداللہ کبابی کی یاد دلائی تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور کہا کہ ہم تو ان کے قدموں کی دھول بھی نہیں ہیں۔
شہر میں ذائقے کے شوقینوں کے لئے اور بھی کئی مقامات ہیں۔ ان میں اصالت پورہ کا حلیم خاص طور پر مشہور ہے۔حالانکہ اب اس حلیم میں وہ بات نہیں، لیکن آج بھی بہت سے لوگ ناشتے میں حلیم ہی کھاناپسند کرتے ہیں جو ہرمحلہ اور گلی کوچے میں مل جاتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ 1965 میں صرف محلہ نیاریان کے اندر حلیم کی ایک دکان تھی، لیکن اب سینکڑوں ہیں۔اس حلیم کی خوبی یہ ہے کہ اس میں پیاز کا بھنگار ڈالا جاتا ہے جو اس کے ذائقہ کو دوآتشہ بنادیتا ہے۔صبح کے اوقات میں جہاں مسلم علاقوں میں حلیم کی دکانوں پر بھیڑجمع رہتی ہے تو ہندو علاقوں میں موم کی دال پر لوگ ٹوٹتے ہیں۔ پسی ہوئی موم کی دال کو دونے میں مسالے ڈال کر پیش کیا جاتا ہے۔ اوپر سے مکھن کی بھی آمیزش ہوتی ہے۔
شہر میں یوں تو مٹھائیوں کی کئی اچھی دکانیں ہیں، لیکن امروہہ گیٹ پر بابورام حلوائی کا کوئی ثانی نہیں۔ دیسی گھی سے تیار کی ہوئی انتہائی لذیذ مٹھائی صرف بابورام حلوائی کےہاں ہی ملتی ہے۔80 سال گزرنے کے باوجود اس مٹھائی کا معیار برقرارہے۔ہمارے بچپن میں اندراچوک پر جبار مٹھائی والے بھی کافی مشہور تھے۔ یہاں سستی اور اچھی مٹھائی ملتی تھی۔ دکان اب بھی باقی ہے۔ جبار اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں
لالہ کیلاش چند (تانگے والے)
جلال محلہ کے رہنے والے کیلاش چند ایک تانگے پر یوں تو شام کے وقت کاجل اور سرمہ بیچتے تھے، لیکن انھوں نے بھی خدمت خلق کا ایک طریقہ ایجاد کیا تھا۔ان کے پاس ایک چھوٹا تانگہ تھا۔ اگر کوئی بچہ اپنے ماں باپ سے بچھڑ جاتا تو لوگ اسے لالہ جی کے پاس چھوڑ جاتے تھے اور وہ اس بچہ کو پورے دن شہر میں لے کر گھومتے اور اعلان کرتے کہ کسی کا بچہ کھو گیا ہو تو اسے پہچان لیں۔ اس طرح گم شدہ بچہ اپنے ماں باپ کے پاس پہنچ جاتا تھا۔ اگر کسی کا بچہ کھوجاتا تو اس کا اعلان کرانے کے لیے بھی لالہ کیلاش چند کی خدمات حاصل کرتے تھے۔ وہ اس خدمت کا کسی سے کوئی معاوضہ نہیں لیتے تھے اور گمشدہ بچہ جتنی دیر ان کے پاس رہتا تو اس کی خاطر مدارات بھی اپنی جیب سے کرتے تھے۔لالہ جی اب سے کوئی تیس برس پہلے 70 سال کی عمر میں فوت ہوئے
۔
فداحسین نائی
پرانے لوگوں کو یہ بات معلوم ہے کہ اس وقت کٹ گھر پہ جو ریلوے کا پل ہے وہ کسی زمانے میں گنگا ندی کو پار کرنے کا ایک واحد ذریعہ تھا۔ اسی پل میں سے ٹرینیں آتی اور جاتی تھیں اور اسی سے ٹریفک بھی پاس ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ لوگ اسی سے پیدل گنگا پار کرتے تھے۔ جب ٹرین آنے والی ہوتی تو ٹریفک روک دیا جاتا۔ اس دوران کافی کافی وقت ٹریفک وہاں رکا رہتاتھا۔ اسی کراسنگ پر فداحسین نائی کی دکان تھی۔ٹریفک میں پھنسے ہوئے ڈرائیور وغیرہ اپنا شیو بنوانے کے لیے نائی کی دکان پر چلے جاتے تھے۔ فدا حسین بیک وقت کئی کئی لوگوں کے شیو ایک ساتھ بناتا۔ ایک شیو آدھا چھوڑکر دوسرے کا بنانے لگتا۔ اس زمانے میں شیونگ کا ریٹ ایک آنہ تھا۔جب پھاٹک کھلنے کا وقت قریب آتا اور کوئی کہتا کہ بھائی پہلے میرا ادھورا شیو پورا کردو تو وہ کہتا کہ چونی ّ لوں گا۔اس طرح لوگ مجبوری میں ایک آنے کا شیو چونی ّ میں بنوانے پر مجبور ہوتے۔فدا حسین ایک پرمزاح انسان تھا۔ لوگ اس سے کہتے تھے کہ ہاتھ دھلوادو۔یعنی دعوت کردو۔ وہ وعدہ کرلیتا اور لوگوں کو اپنے گھر بلا لیتا۔گھر میں برتن کھڑکتے تو لوگ سمجھتے کہ کھانا بن رہا ہے۔ وہ سب مہمانوں کے ہاتھ دھلواتا اور کہتا کہ لو دھلوادئیے ہاتھ۔ اس طرح لوگ بغیر کھائے پئے ہاتھ ملتے ہوئے واپس آجاتے۔