یادِ الہی میرٹھیؒ کی یادیں

بقلم: مفتی اشتیاق احمد قاسمی

موت اس کی ہے جس پر کرے زمانہ افسوس

ورنہ آئے ہیں سبھی مرنے کے لیے

زندگی اپنی راہ پر رواں دواں ہے، مگر کبھی کبھار کچھ ایسے رفیقِ علم و محبت رخصت ہو جاتے ہیں کہ دل کے کسی گوشے میں ایک خلا سا پیدا ہو جاتا ہے۔ جناب مولانا یاد الہی میرٹھی قاسمیؒ انہی شخصیات میں سے تھے جن کی یاد دیر تک دلوں میں مچلتی رہے گی۔

یادِ الہی میرٹھیؒ کی یادیں
یادِ الہی میرٹھیؒ کی یادیں

مولانا یاد الہی میرٹھیؒ، دارالعلوم دیوبند کے فاضل اور حضرت مولانا عاشق الہی میرٹھیؒ کے چشم و چراغ تھے۔ یہ نسبت ہی ان کے علمی و روحانی حسب و نسب کی بلندی کا آئینہ دار ہے۔ حضرت مولانا عاشق الہیؒ علمائے دیوبند کی صفِ اوّل کی ممتاز ہستیوں میں سے تھے۔ انہوں نے محض انیس برس کی عمر میں قرآنِ کریم کا نہایت حسین و بلیغ ترجمہ فرمایا۔ تذکرۃ الرشید (حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کی سوانح) اور تذکرۃ الخلیل (حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ کی سوانح) جیسی نایاب و جلیل القدر تصنیفات انہی کی قلمی یادگار ہیں۔

دارالعلوم دیوبند کے کتب خانے میں ان کی تالیفات و تراجم کی ایک طویل فہرست آج بھی ان کی علمی و تحقیقی عظمت پر گواہ ہے۔ جمع الفوائد جیسی معروف حدیثی کتاب کا ترجمہ بھی انہوں نے شروع کیا، مگر افسوس کہ وہ ادھورا رہ گیا۔ حضرت مولانا عاشق الہیؒ نے دارالعلوم ندوۃ العلماء میں بھی تدریسی خدمات انجام دیں اور اپنی عمرِ عزیز کے شب و روز دین کی خدمت کے نام وقف کر دیے۔

جناب یاد الہی میرٹھیؒ انہی کے خانوادے کے فردِ فرید اور سادہ مگر بامقصد زندگی کے حامل انسان تھے۔ دیوبند ان کی محبتوں کا مرکز تھا، اور وہ اس شہرِ علم کے ہو کر رہ گئے تھے۔ ان کا حلقۂ احباب وسیع مگر خالص تھا۔ مولانا مسعود مدنی ان کے نہایت قریبی دوستوں میں شمار ہوتے تھے اور حضرت مولانا اسعد مدنیؒ کے خاندان سے ان کی بے پناہ عقیدت تھی۔

میری ان سے پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب میں نے پی۔ایچ۔ڈی کے مقالے کے لیے مواد جمع کرنا شروع کیا۔ موضوع حضرت مولانا عاشق الہی میرٹھیؒ کی علمی و ادبی خدمات تھا، مگر ان کی سوانح سے متعلق تفصیلی مواد میسر نہ آ رہا تھا۔ میں نے جب یاد الہی صاحبؒ سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے نہایت محبت سے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا چھ صفحات پر مشتمل ایک مفصل خاکہ پیش کیا۔ وہ تحریر میرے لیے قیمتی خزانہ ثابت ہوئی۔ انہی چند صفحات نے تحقیق کے کئی در وا کیے اور اللہ کے فضل سے میرا مقالہ پایۂ تکمیل کو پہنچا۔

بعد ازاں جب ماہنامہ دارالعلوم دیوبند میں "تذکرۃ الرشید” پر میرا تفصیلی تجزیہ شائع ہوا تو یاد الہی بھائی نے نہ صرف مبارکباد دی بلکہ نہایت محبت سے حوصلہ افزائی بھی فرمائی۔ ایک موقع پر انہوں نے اپنی بھانجی کا ایم۔فل مقالہ میرے سامنے پیش کیا، جو حضرت مولانا عاشق الہیؒ کی شخصیت پر چوہدری چرن سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ میں منظور ہوا تھا۔ انہوں نے مجھ سے اس پر مقدمہ لکھنے کی خواہش ظاہر کی، اور میں نے ان کی محبت کے احترام میں چند صفحات تحریر کیے جو الحمدللہ اس مقالے کے ساتھ شائع ہوئے۔

یاد الہی صاحبؒ کی علمی محبت کا ایک اور مظہر یہ تھا کہ وہ ہمیشہ حضرت مولانا عاشق الہیؒ کے ترجمۂ قرآن کا نسخہ فراہم کرنے کی کوشش میں رہے۔ وہ نسخہ برصغیر میں نایاب ہے اور صرف پڑوسی ملک میں دستیاب بتایا جاتا ہے۔ کئی بار وعدے کیے، کوششیں بھی کیں، مگر وہ ترجمہ بالآخر نایاب ہی رہا۔

ان کی عبادت گزاری بھی قابلِ رشک تھی۔ وہ نماز میں سکون و اطمینان کے پیکر تھے۔ عشاء کے بعد طویل نوافل پڑھنا ان کا معمول تھا۔ میں جب دارالعلوم دیوبند کے چند طلبہ کو مضمون نگاری کی مشق کراتا تھا تو اکثر دیکھتا کہ وہ مسجد میں نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ عبادت میں مشغول رہتے۔

ان کی خوش اخلاقی اور وضع داری ضرب المثل تھی۔ جاڑے کی سرد راتوں میں اکثر "سعیدیہ ہوٹل” سے گاجر کا لذیذ حلوہ منگواتے اور محبت بھرے اصرار کے ساتھ اپنے احباب کو کھلاتے۔ ملاقات ہمیشہ مسکراہٹ سے شروع ہوتی اور دعا و تحسین کے کلمات پر ختم۔ اکثر کہتے، "مفتی صاحب! آپ کو دیکھ کر مجھے خوشی ہوتی ہے، اس لیے کہ آپ ہمیشہ علم و مطالعے میں مصروف رہتے ہیں۔”

۲۵ اکتوبر ۲۰۲۵ کی صبح یہ خبر ملی کہ یاد الہی بھائیؒ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ دل نے بے اختیار کہا: انا للہ و انا الیہ راجعون۔

یقین کرنا دشوار تھا، کیونکہ چند گھنٹے قبل ہی ملاقات ہوئی تھی۔ روایت کے مطابق فجر کی نماز انہوں نے مسجدِ قدیم میں جماعت سے ادا کی، اس کے بعد حسبِ معمول یامین ہوٹل میں چائے کے لیے بیٹھے تھے کہ سینے میں تکلیف محسوس ہوئی۔ احباب نے فی الفور انہیں فیضان اسپتال پہنچایا، مگر وہاں پہنچنے سے قبل ہی وہ روحِ رحمت کے سپرد ہو چکے تھے۔یاد الہی بھائیؒ کی سادہ مگر روشن زندگی، ان کی دیانت، محبت، اور علم و دین سے وابستگی ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔

ابھی دو سال قبل ہی ان کی شادی ہوئی تھی، ان کی اہلیہ اور اہلِ خانہ یقیناً سخت صدمے میں ہوں گے۔ ہم سب ان کے لیے دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اجرِ عظیم اور سکونِ قلب عطا فرمائے۔اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، درجات بلند کرے، اور ان کے پسماندگان کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare